یہ دُنیا ایک بہت بڑے ہسپتال کا منظر پیش کررہی ہے جس میں ڈاکٹرز ہیں، نرسیں ہیں اور ’’توجہ کے طالب‘‘ مریض ہیں، ان میں سے کسی کی حیثیت مستقل نہیں۔ ڈاکٹرز اور نرسیں کہیں مریض بن جاتے ہیں اور کہیں مریض ڈاکٹرز اور نرسوں کا روپ دھا لیتے ہیں۔ اس منظرنامے میں دو چیزیں بنیادی اہمیت کی حامل ہیں۔ مریض اور ان کی توجہ کی طلب۔ ایسی توجہ کی طلب جس پر بیشتر صورتوں میں ’’محبت کا پانی‘‘ چڑھا ہوا ہے لیکن اس حقیقت کا اعتراف ناممکن ہو کر رہ گیا ہے۔ انسان بھلا یہ اعتراف کیسے کرسکتا ہے کہ اسے محبت کی نہیں صرف توجہ کی ضرورت ہے، لیکن حقیقت تو یہی ہے کہ انسانوں کی ایک بڑی تعداد محبت کی ضرورت سے محروم یا بے نیاز ہو گئی ہے اور نہایت خاموشی کے ساتھ محبت کی جگہ توجہ نے لے لی ہے۔ ایسی توجہ نے جو خود کو محبت کے روپ میں پیش کرتی رہتی ہے، مگر محبت اور توجہ میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ توجہ محبت کا ناگزیر حصہ یا جزوِ لاینفک ہے اور اس بات کا امکان موجود ہے کہ توجہ میں محبت کی آمیزش ہو، لیکن یہاں ہم توجہ کو جن معنوں میں استعمال کررہے ہیں ویسی توجہ میں محبت کے آمیز ہونے کا کوئی امکان نہیں۔ یہ توجہ کم و بیش ویسی ہی توجہ ہے جس کا مظاہرہ اچھے ہسپتالوں میں اچھے ڈاکٹرز اور اچھی نرسیں کیا کرتی ہیں۔ وقت پر چیک اپ، وقت پر دوا، وقت پر غذا۔ سب کچھ طے شدہ پروگرام کے تحت۔ یہ توجہ لائق تحسین ہے۔ لیکن یہ ہے ’’پیشہ ورانہ توجہ‘‘ اس توجہ میں انسان دوستی اور انسانی ہمدردی کے کئی رنگ دیکھے جاسکتے ہیں لیکن محبت کا کوئی رنگ مشکل ہی سے تلاش کیا جاسکتا ہے۔ اس لیے کہ محبت تعلق سے پیدا ہوتی ہے اور ’’تعلق کے معاملات انسان دوستی اور انسانی ہمدردی سے بہت آگے جاتے ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ توجہ کی ضرورت بیماروں کو زیادہ ہوا کرتی ہے اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ فی زمانہ انسانوں کی ایک بہت بڑی تعداد خود کو ’’بیمار‘‘ محسوس کرتی ہے۔ یہاں بیماری کا مفہوم جسمانی بیماری تک محدود نہیں، ممکن ہے کوئی خود کو جذباتی، نفسیاتی اور روحانی طور پر بیمار محسوس کرتا ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ بیماری کا تعین ممکن ہی نہ ہو، لیکن فرد محسوس کرتا ہو کہ وہ ’’ٹھیک‘‘ نہیں ہے۔ ایسی کیفیت میں توجہ ایک ’’دوا‘‘ کا کام کرتی ہے۔ گمشدگی کا احساس اور شناخت کی تلاش اور شناخت کے تعین کی ضرورت اس عہد کا ایک اہم مسئلہ ہے۔ کروڑوں انسان درختوں کی طرح اکھڑے پڑے ہیں، وہ پرانی اور مانوس مٹی سے جدا ہوچکے ہیں اور نئی مٹی انہیں اور وہ نئی مٹی کو قبول کرنے پر تیار نہیں۔ یہ المیہ محض بڑے پیمانے پر ہونے والی نقل مکانی کا نتیجہ نہیں کیونکہ اگر ایک نقل مکانی خارج میں وقوع پذیر ہورہی ہے تو دوسری نقل مکانی انسان کی داخلی زندگی کا ایک اہم منظر ہے اور یہ نقل مکانی خارج میں وقوع پذیر ہونے والی نقل مکانی سے کہیں زیادہ تباہ کن ہے۔ ان حالات میں توجہ انسان کو گمشدگی کے احساس سے عارضی طور پر سہی، نجات دلاتی ہے اور فرد کو شناخت کا سامان بہم پہنچاتی ہے اور یہ ایک ’’فطری‘‘ بات ہے۔ محبت ایسے ہی لوگ کرسکتے ہیں اور محبت ایسے ہی لوگوں کی ضرورت ہوسکتی ہے جو اپنے خارج اور داخل میں جڑیں رکھتے ہوں، جنہیں اپنی ذات کے حوالے سے ایک گونہ اطمینان حاصل ہو اور جنہیں عدم تحفظ کے احساس سے لاحق ہونے والے اندیشے لاحق نہ ہوں۔ عبید اللہ علیم کا ایک مشہور شعر ہے۔ عزیز اتنا ہی رکھو کہ جی سنبھل جائے اب اس قدر بھی نہ چاہو کہ دم نکل جائے یہ شعر اس حقیقت کا عکاس ہے کہ ’’محبت‘‘ فرد کی ضرورت نہیں، اس کی ضرورت صرف توجہ ہے۔ یہاں ’’عزیز اتنا ہی رکھو‘‘ کا مطلب یہی ہے۔ ’’جی سنبھل جائے‘‘ کے ٹکڑے میں کسی نہ کسی قسم کی بیماری کا تاثر بہت واضح ہے۔ ایسی بیماری کا تاثر جس کے لیے توجہ دوا کا کام کرتی ہے۔ مصرعہ ثانی کا مفہوم یہ ہے کہ محبت کا تجربہ شاعر کے لیے ناقابل برداشت ہے، کیوں ناقابل برداشت ہے؟ ایک تو اس لیے کہ شاعر کی ضرورت محبت نہیں توجہ ہے۔ دوسرے اس لیے کہ عدم تحفظ کا احساس بھی شاعر کی شخصیت کا حصہ ہے، اس لیے بہت زیادہ چاہے جانے سے اسے اپنا دم گھٹتا اور نکلتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ یہ ایک ایسی ہی بات ہے جیسے کوئی کسی سے محبت کے شدید جذبے کے تحت لپٹ جائے لیکن جس سے وہ لپٹے اسے محسوس ہو یا یہ اندیشہ لاحق ہو کہ یہ محبت کا اظہار ہے یا پسلیاں توڑنے کی سازش۔ یہاں پہنچ کر ہمیں فراق کا ایک بے مثال شعر یاد آتا ہے۔ کہاں ہر ایک سے بارِ نشاط اُٹھتا ہے بلائیں یہ بھی محبت کے سر گئی ہوں گی ’’بارنشاط‘‘ محبت ہی میں اُٹھا سکتی ہے۔ یہ بوجھ بے چاری توجہ سے ہرگز نہیں اُٹھ سکتا، توجہ ریڑھ کی ہڈی سے محروم ہوتی ہے۔ سماجی تعلقات انسان کے لیے ہمیشہ سے اہم رہے ہیں، لیکن فی زمانہ یہ انسان کے لیے اتنے اہم ہوگئے ہیں کہ ان کے بغیر زندگی بے معنی اور ناممکن نظر آتی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے ان تعلقات میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ یہ تعلقات ایسے مقناطیسوں کا کردار ادا کرتے ہیں جو توجہ کو اپنی جانب کھینچتے ہیں۔ خاندان، دولت، شہرت، عہدہ، منصب یہاں تک کہ لباس، اس کی تراش خراش اور انسان کی وضع قطع بھی سماجی تعلقات میں شامل ہے اور ان سب چیزوں سے صرف ایک کام لیا جاتا ہے، توجہ حاصل کرنے کا کام۔ ایسی فضا میں بے چاری محبت کے لیے کیا گنجائش باقی رہ جاتی ہے؟ ان سب چیزوں کا مرکز تلاش کیا جائے تو نگاہ جا کر ’’انا‘‘ پر ٹھہرتی ہے، جس کا اُصول حرکت ’’طاقت‘‘ ہے۔ ہر طرح کی طاقت۔ ایسی طاقت جو ہر چیز پر چھا جانے کی صلاحیت رکھتی ہو تا کہ ان کے سوا کسی چیز کا وجود باقی نہ رہے اور باقی رہے تو اس کے کوئی معنی ہی نہ ہوں۔ انا کی اس توسیع پسندی کی راہ میں جو چیز بھی آتی ہے انا اسے مسمار کردیتی ہے۔ انا کا صرف ایک ہی جواب ہے’’محبت‘‘جس کی انتہا عشق ہے۔ محبت انا کی لگام ہے، اور عشق وہ فریضہ جس سے انا کی قلب ماہیت ہوتی ہے۔ اور وہ کائناتی انا کے ساتھ ہم آہنگ ہوجاتی ہے، لیکن محبت اور عشق عصر حاضر کی ضرورت نہیں۔ یہ وہ چیزیں ہیں جن کا خریدار ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتا۔ ہم جس عہد میں سانس لے رہے ہیں وہ انا کی سلطنت ہے، اس پر انا کی حکمرانی ہے۔ فراق سے بھی گئے ہم وصال سے بھی گئے سبک ہوئے ہیں تو عیش ملال سے بھی گئے

مضامین ہماری دنیا سیاسی اعتبار سے ہی نہیں علمی اعتبار سے بھی بھیڑ چال کا منظر پیش کررہی ہے۔ یہ بھیڑ چال اُن معاشروں میں زیادہ سنگین ہے جہاں قیادت کا بحران اور منصوبہ بندی کا فقدان ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ علمی بھیڑچال کا مفہوم کیا ہے؟اس سوال کا جواب آسان ہے۔ آج سے تیس چالیس سال پہلے ہمارے تعلیم یافتہ نوجوانوں کی عظیم اکثریت ڈاکٹر یا انجینئر بننا چاہتی تھی۔ اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ معاشرے میں علم طب یا فنِ تعمیر سے عشق کا رجحان پیدا ہوگیا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ڈاکٹر اور انجینئر بن کر زیادہ بہتر روزگار حاصل کیا جاسکتا تھا، اور ڈاکٹر اور انجینئر کو معاشرے میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ چنانچہ کسی میں اہلیت ہو یا نہ ہو مگر وہ اُس زمانے میں ڈاکٹر یا انجینئر بننا چاہتا تھا۔ اُس زمانے میں والدین بڑے فخر سے کہا کرتے تھے کہ ہمارا خواب تو یہ ہے کہ ہم اپنے بچوں کو ڈاکٹر یا انجینئر بنائیں۔ لیکن پھر زمانے نے کروٹ لی اور کامرس میں زیادہ پیسہ اور نام نہاد عزت آگئی، چنانچہ تعلیم یافتہ نوجوانوں کی اکثریت نے دیکھتے ہی دیکھتے اپنی پٹری تبدیل کرلی اور وہ بی کام ‘ ایم کام‘ ایم بی اے اور سی اے کے خواب دیکھنے لگے۔ اہم بات یہ تھی کہ جس طرح ڈاکٹر اور انجینئر بننے کا رجحان علمی اور شعوری نہیں تھا اسی طرح ایم بی اے اور سی اے کرنے کا رجحان بھی علمی اور شعوری نہیں تھا۔ جس طرح پیسے اور سماجی تکریم کی ’’ہوس‘‘ نے ڈاکٹر اور انجینئر پیدا کیے اسی طرح پیسے اور سماجی عزت کا عشق ایم بی اے اور سی اے پیدا کرنے لگا۔ لیکن یہ رجحان بھی اپنی اصلی حالت پر باقی نہ رہا۔ دنیا میں اچانک انفارمیشن ٹیکنالوجی کا رجحان وبا بن کر پھوٹ پڑا، اور اس کا اثر پاکستان پر بھی مرتب ہوا۔ چنانچہ کافی طلبہ کامرس کے کھونٹے سے رسّی تڑاکر انفارمیشن ٹیکنالوجی کے پلیٹ فارم پر جاکھڑے ہوئے، اور اب یہ صورت حال ہے کہ ہمارے طلبہ و طالبات کی عظیم اکثریت یا تو کامرس کے مضامین میں مہارت پیدا کرنا چاہ رہی ہے یا وہ انفارمیشن ٹیکنالوجی میں ’’بل گیٹس‘‘ بننے کا خواب دیکھ رہی ہے۔ یہاں تک کہ اب طلبہ کی بڑی تعداد ڈاکٹر اور انجینئر بھی نہیں بننا چاہتی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان دونوں شعبوں میں محنت زیادہ ہے اور اس کا ’’معاشی صلہ‘‘ بہت کم ہے۔ ایک طالب علم پانچ سال تک ایم بی بی ایس کی ڈگری کے لیے جان مارتا ہے، اور ایم بی بی ایس کرنے کے بعد اسے کہیں آٹھ دس ہزار سے زیادہ کی نوکری نہیں ملتی۔ یہ ایک افسوسناک صورت حال ہے، مگر اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ڈاکٹر کی سماجی عزت بھی ہمارے لیے اسی وقت اہم ہے جب اس کے ساتھ پیسہ بھی ہو۔ پیسہ نہ ہو تو خالی خولی سماجی عزت ہمارے لیے اتنی اہم نہیں ہے کہ اسے حاصل کرنے کے لیے ایک طالب علم پانچ سال کی محنت شاقہ سے گزرے۔ اس صورت حال کو دیکھا جائے تو ہمارا معاشرہ تجارتی علم‘ انفارمیشن ٹیکنالوجی اور مادی علوم کا معاشرہ بن کر رہ گیا ہے۔
اس منظرنامے میں سماجی علوم کیا الہامی علوم کی بھی کوئی اہمیت نہیں۔ ہمارے معاشرے کے ذہین ترین طالب علم مذہبیات کے ماہر نہیں بننا چاہتے، انہیں شعر و ادب کے مطالعے سے کوئی دلچسپی نہیں، انہیں زبانوں کے علم میں کوئی رغبت محسوس نہیں ہوتی، وہ فلسفے کی طرف آنکھ اٹھاکر بھی نہیں دیکھتے، انہیں نفسیات میں کوئی کشش دکھائی نہیں دیتی، وہ عمرانیات کے مطالعے کو ضروری خیال نہیں کرتے۔یہ طالب علموں کا ہی مسئلہ نہیں ہے، ہمارے سیاسی رہنمائوں‘ دانشوروں‘ ہمارے ماہرین تعلیم‘ ہمارے ابلاغیات کے ماہرین اور ہمارے والدین کو بھی اس خطرناک علمی رجحان کا شعور نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بھیڑ چال ہمیں جہاں لیے جارہی ہے ہم چلے جارہے ہیں۔ پورے معاشرے کو اندازہ تک نہیں کہ وہ جن علوم وفنون کو ترک کرچکے ہیں اور مزید کررہے ہیں اس کا کیا مفہوم ہے اور اس کا کیا نقصان ہے؟مذہب کے پاس خدا کی ذات اور اس کی صفات کا علم ہے، اور اس سے بڑے علم کا تصور محال ہے۔ مذہب کے پاس دنیا اور آخرت کا علم ہے اور اس سے زیادہ مفید اور ضروری علم کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ مذہب کے پاس حلال و حرام کا علم ہے اور اس کے بغیر ہم مسلمان نہیں رہ سکتے۔ مذہب کے پاس اخلاق و کردار کی تعمیر کا علم ہے اور یہ علم اگر موجود نہ ہو تو ہم کھربوں ڈالر خرچ کرکے بھی یہ علم حاصل نہیں کرسکتے۔ مذہب کے پاس اللہ اور اس کے رسول کے احکامات کا علم ہے، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ کا خزانہ ہے، اور ان چیزوں کا کوئی نعم البدل نہیں۔ مذہب کے پاس علمِ کلام ہے، فقہ ہے، مگر ہمارے معاشرے کے ذہین ترین طالب علم ان میں سے کسی چیز کا علم حاصل نہیں کرنا چاہتے۔ نتیجہ یہ ہے کہ مذہبی علم معاشرے کے اُن طبقات کے حوالے ہوگیا ہے جو حالات کے جبر کے تحت مذہبیات کا مطالعہ کرتے ہیں۔ اور ہم سب جانتے ہیں کہ محبت اور رغبت کے تعلق اور جبر کے تعلق میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ چنانچہ ہماری مذہبی فکر پر اوسط درجے اور اس سے بھی کم سطح کے علم اور ذہانت کا غلبہ ہوگیا ہے۔شعر و ادب انسان‘ اس کی زندگی اور اس کے جمالیات کا مطالعہ ہے۔ شعر و ادب انسان کے جذبات و احساسات، اس کی محبت‘ اس کی انجمن آرائی، اس کی تنہائی، خدا‘ انسانوں اور کائنات سے اس کے تعلق کا فہم ہے۔ شعر و ادب انسان کے باطن کا اخبار ہیں۔ ان سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ چمکتے دمکتے ظاہر کے اندر کتنا اندھیرا ہے۔ مگر شعر و ادب کے حوالے سے معاشرے میں چار رویّے عام ہیں۔ پہلا رویہ یہ ہے کہ لوگوں کی عظیم اکثریت کو شعر و ادب سے کوئی دلچسپی ہی نہیں، وہ اسے وقت کا ضیاع اور بےکار کام سمجھتے ہیں۔ کچھ لوگ شعر و ادب سے متعلق نظر آتے ہیں مگر ان کے نزدیک شعر و ادب صرف تفریح کا ذریعہ یا ایک طرح کا Entertainment ہیں۔ مذہبی لوگوں کی بڑی تعداد شعر وادب کو مذہب و اخلاق سے گری ہوئی ایسی چیز سمجھتی ہے جس کے پاس بھی نہیں جانا چاہیے۔ ہمارے اکثر مذہبی لوگوں کی یتیم الفکری کا یہ عالم ہے کہ انہیں اپنی مذہبی روایت میں عشقِ حقیقی اور عشقِ مجازی کے ناگزیر اور ازلی و ابدی رشتے تک کا شعور نہیں۔ دیکھنے والے یہ تک نہیں دیکھتے کہ مسلمانوں نے دنیا میں شعر و ادب کی اتنی بڑی روایت کیوں پیدا کی، اور مذہب کے بعد سب سے زیادہ ذہانت شعر و شاعری اور داستان گوئی پر کیوں صرف ہوئی؟ معاشرے کا چوتھا رویہ یہ ہے کہ معاشرے کا بہت چھوٹا سا حصہ شعر و ادب کا مطالعہ کرتا ہے۔ مگر معاشرے کا یہ حصہ اتنا چھوٹا سا ہے کہ اس کا معاشرے پر کوئی اثر ہی نہیں ہے، اور وہ معاشرے کی رجحان سازی میں کوئی کردار ادا نہیں کرتا۔زبان کا علم انسان کے پورے وجود کی کلّیت‘ اس کی تہذیب اور اس کی تاریخ کا علم ہے۔ اس لیے کہ انسان کا سارا علم‘ سارا فہم‘ سارا شعور اور اس کا سارا ابلاغ زبان سے متعلق ہے۔ جدید نفسیات کے پاس انسان کا متوازن اور جامع تصور نہیں ہے، تاہم اس کے باوجود انسان کی جبلتوں‘ اس کے جذبات و احساسات اور اس کے عمل اور ردعمل کے سانچوں کو سمجھنے کے لیے نفسیات کا مطالعہ ناگزیر ہے۔ جس طرح نفسیات فرد کا علم ہے اسی طرح عمرانیات معاشرے کا علم ہے۔ جدید عمرانیات پر مغربی فکر اور تناظر کا غلبہ ہے، لیکن اس کے باوجود بہرحال عمرانیات کے مطالعے کا مرکز انسانی معاشرہ ہے۔ مغربی دنیا میں مذہب کے زوال میں فلسفے کا کردار بنیادی ہے، چنانچہ ہم فلسفے کے مطالعے کے ذریعے اور کچھ نہیں تو انسان کے انحرافی اور انہدامی فکری رجحانات کا علم ضرور حاصل کرسکتے ہیں، اور یہ چیز بھی انسان اور دنیا کی تفہیم میں ہماری بہت مدد کرسکتی ہے۔ لیکن ہم نہ مذہبیات کے ماہر بننا چاہتے ہیں، نہ شعر و ادب کی دنیا کی سیاحت کرنا چاہتے ہیں، نہ ہمیں زبانوں کے علم و فہم سے دلچسپی ہے، نہ ہم نفسیات‘ عمرانیات اور فلسفے میں کارہائے نمایاں انجام دینا چاہتے ہیں۔ ہم تو بس ایم بی اے اور سی اے کرنا چاہتے ہیں۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ماہر کہلانا چاہتے ہیں، اور اگر ان دونوں شعبوں کے ’’کمالات‘‘ ہمارے ہاتھ نہ آسکیں تو پھر ہم ڈاکٹر اور انجینئر بن کر معاشرے کی ’’خدمت‘‘ کرنا چاہتے ہیں۔اقبال نے مغرب کے مادی عروج کے زمانے میں مغرب کی علمی حقیقت پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھاڈھونڈنے والا ستاروں کی گزر گاہوں کازندگی کی شبِ تاریک سحر کر نہ سکااقبال کے اس شعر کا مفہوم یہ تھا کہ مغرب کا انسان مادی کائنات کی اس طرح چھان پھٹک کررہا ہے کہ وہ ستاروں پر کمندیں ڈالنے کی تیاری کررہا ہے، مگر اس کی زندگی تاریکی میں ڈوبی ہوئی ہے، او رمغرب کے انسان کے پاس ہدایت کی روشنی موجود نہیں۔ مگر مغرب کے انسان کا معاملہ یہ تھا کہ اس نے مذہب سے منہ موڑ لیا تھا اور مادے کو اپنا خدا بنا کر اس کی پرستش شروع کردی تھی، مگر ہم تو مذہب سے منہ موڑے بغیر ہی اپنی زندگی کو تباہ کرنے اور اسے ہولناک عدم توازن کا شکار کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ مغرب نے مادے کو خدا بنایا تو وہ مادی دنیا کے دائرے میں پوری دنیا کا امام بن کر کھڑا ہوگیا۔ ہم اس دائرے میں امام کیا ’’مقلد‘‘ بھی نہیں ہیں، مگر اپنا حال ہم اماموں سے بھی بدتر بنانے کے لیے کوشاں ہیں۔ یادش بخیر پروفیسر کرار حسین کہا کرتے تھے کہ جب میں اپنی جامعات میں اردو کے اساتذہ کا حال دیکھتا ہوں تو مجھے خیال آتا ہے کہ اردو کے خلاف کوئی بڑی سازش ہورہی ہے۔لیکن سماجی علوم و فنون سے ہماری بے تعلقی نے زندگی کے ہر شعبے میں یہ صورت حال پیدا کردی ہے۔ چنانچہ اب کہا جاسکتا ہے کہ ہم ارد وکے کالم نویسوں کو پڑھتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ صحافت کے خلاف کوئی سازش ہورہی ہے، اور ٹیلی وژن کے اینکر پرسنز کی گفتگوئوں کو دیکھ کر خیال آتا ہے کہ ٹیلی وژن کے میڈیم کے خلاف کوئی سازش سازش کھیل ر ہا ہے۔ کسی زمانے میں کہا جاتا تھا کہ جو شخص کچھ نہیں کرپاتا وہ استاد یا پولیس والا بن جاتا ہے۔ ایسی ہی صورت حال اب ہمارے یہاں تعلیمی اسناد کے حوالے سے بھی رونما ہوچکی ہے۔ چنانچہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ جو نوجوان کچھ نہیں کرپاتا وہ بے چارہ بی اے، ایم اے کرلیتا ہے۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ زندگی میں ترجیحات کا تصور بنیادی ہے۔ جیسی کسی فرد‘ گروہ یا قوم کی ترجیحات ہوتی ہیں اس کی زندگی ویسی ہی ہوجاتی ہے۔ ہماری زندگی پر اگر مذہب اور شعر و ادب کے بجائے کامرس اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کا غلبہ ہوگا تو اس میں ایسے انسان پیدا ہوں گے جن کی زندگی کی معنویت اکبر الہٰ آبادی کے الفاظ میں ’’الفت اللہ‘‘ کے بجائے ’’تنخواہ‘‘ سے متعین ہوگی۔

Leave a Reply