اماموں کی جگہ روبوٹس؟ خطیبوں کی جگہ توتے؟

اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین قبلہ ایاز نے اسلام کی شاندار روایات کو پامال کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ آئندہ سے مساجد میں جمعے کے خطبے حکومتی ہدایات کے مطابق ہوا کریں گے۔ قبلہ ایاز نے فرمایا کہ اسلامی نظریاتی کونسل معاشرے کی بہتر تشکیل کے لیے خطبہ جمعہ کے لیے موضوعات اور ان کے لیے متعلقہ اسلامی ریفرنس بھی تیار کرے گی۔ انہوں نے بتایا کہ صدرِ مملکت کی ہدایت پر کونسل نے خطیبوں کے لیے سو موضوعات کا تعین کرلیا ہے۔
یہ جنرل پرویز مشرف کا عہد ’’روشن خیالی‘‘ تھا کہ ایک دن اعلان ہوا کہ اب حکومت اماموں کو جمعے کے خطبات مہیا کیا کرے گی۔ جنرل پرویز مشرف امریکا اور یورپ کے آلہ کار بنے ہوئے تھے اور وہ آئے دن پاکستان کے اسلامی تشخص پر حملے کررہے تھے۔ چناں چہ ان سے کچھ بھی بعید نہیں تھا۔ مسجد کے خطیبوں کو سرکاری خطبوں کا پابند کرنے کی خبر اشتعال انگیز تھی۔ ہم سارا دن اس خبر پر کھولتے رہے۔ رات آئی تو اس موضوع پر ایک نظم تخلیق ہوگئی۔ نظم کا عنوان تھا ’’نئی دنیا‘‘ نظم یہ تھی۔
غلامی فلسفہ ہے
بزدلی پر حکمتیں سایہ فگن ہیں
خوف کی انگڑائیوں کا حُسن
خیرہ کررہا ہے جیسے آنکھوں کو
صدائے بے ضمیری
دانش ِ سقراط و افلاطوں سے بڑھ کر ہے
اُدھر دیکھو!
شہیدوں نے حماقت کی حدوں کو پارکر ڈالا
سنا ہے!
مسجدوں میں اب اماموں کی جگہ
روبوٹس ہوں گے
اور خطیبوں کی جگہ توتے
امیرِ شہر کی باتیں
تلاوت کے لیے ہوں گی
نئی دنیا کا ہر منظر نیا ہوگا
پرانا پن
بجائے خود سزا ہوگا
کہنے کو جنرل پرویز مشرف اور عمران خان کی حکومتوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ جنرل پرویز سیکولر اور لبرل تھے۔ عمران خان پاکستان کو ریاست مدینہ سے ہم آہنگ کرنا چاہتے ہیں مگر مساجد کے خطیبوں کے بارے میں جنرل پرویز اور عمران خان کی حکومت کا ایجنڈا ایک ہے۔ جنرل پرویز بھی مساجد کے خطیبوں کو گونگا بنا کر ان کے منہ میں اپنی زبان ڈالنا چاہتے تھے اور عمران خان بھی مساجد کے خطیبوں کو گونگا بنا کر ان کے منہ میں اپنی زبان فٹ کرنا چاہ رہے ہیں۔ یہ ہر اعتبار سے ایک شرمناک صورت حال ہے۔
مسجد خانہ ٔ خدا ہے۔ اللہ کا گھر ہے اور مسجد کا خطیب اللہ کے گھر کا ترجمان ہے۔ وہ مسجد کے منبر پر کھڑا ہو کر صرف وہ کہنے کا پابند ہے جو اس کے خدا اور رسول کا حکم ہے۔ جو اس کی تہذیب اور اس کی تاریخ کے مرکزی دھارے کا تقاضا ہے۔ مسجد کا منبر وہ مقام ہے جہاں کھڑے ہو کر کبھی اللہ کے رسول خطبہ دیا کرتے تھے۔ جہاں کھڑے ہو کر کبھی سیدنا ابوبکرؓ تقریر کیا کرتے تھے۔ جہاں کھڑے ہو کر سیدنا عمر فاروقؓ کلام کیا کرتے تھے۔ جہاں کھڑے ہو کر سیدنا عثمان غنیؓ لب کشائی کرتے تھے۔ جہاں کھڑے ہو کر سیدنا علی مرتضیٰؓ محو کلام ہوا کرتے تھے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو منبر کی آواز کو دبانا رسول اکرمؐ کی آواز کو دبانا ہے۔ سیدنا ابوبکرؓ، سیدنا عمرؓ، سیدنا عثمانؓ اور سیدنا علیؓ کی گویائی پر قدغن لگانا ہے۔ اللہ کے گھر کو حکمرانوں کے گھر میں تبدیل کرنا ہے۔ بلاشبہ مساجد کے امام روبوٹس اور مساجد کے خطیب توتے نہیں ہیں۔ وہ حکمرانوں کے تھوکے ہوئے نوالے چبانے کے پابند نہیں ہیں۔ انہیں حکمرانوں کے تھوکے ہوئے نوالے چبانے پر مجبور کرنا مسجد کے تقدس کو پامال کرنا ہے۔ امامت اور خطابت کے مرتبے پر حملہ کرنا ہے۔ جس اسلامی معاشرے میں مسجد آزاد نہیں ہوگی وہاں اور کون آزاد ہوگا؟ ہماری تاریخ یہ ہے کہ ہماری مساجد اور مدارس عہد غلامی میں بھی آزاد تھے۔ انگریزوں نے مدارس کو مالی امداد فراہم کرنے کی بہت کوشش کی مگر ہمارے علما نے انگریزوں کی مالی امداد کی طرف آنکھ اُٹھا کر بھی نہیں دیکھا۔ وہ انگریزوں کی امداد لے لیتے تو مدارس پھر مدارس نہ رہتے، غلاموں کے ادارے بن جاتے، مگر اب جب کہ ہم آزاد ہیں، ہمارے حکمران مدارس کیا مساجد کو بھی کنٹرول کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ مساجد کے امام قوم کا ضمیر ہیں۔ یہ ضمیر بھی آلودہ ہو گیا تو پھر ہمارے پاس کیا باقی رہ جائے گا۔ بلاشبہ مساجد کے اکثر امام اور خطیب خود اپنے مرتبے کے تقاضوں کو نہیں نبھا پاتے۔ ایسے امام اور خطیب خال خال ہی دستیاب ہیں جو استعمار اور باطل پرستوں کو چیلنج کرتے ہیں مگر اب تک اس بات کا امکان تو تھا کہ ہمارے امام اور خطیب جب چاہیں استعمار اور باطل پرستوں کو چیلنج کرسکتے ہیں مگر اب حکمران ان سے یہ حق بھی چھین رہے ہیں۔
ہمارے حکمران پاکستان کو ’’اسلامی جمہوریہ‘‘ کہتے ہیں مگر ان کا آئیڈیل دراصل بادشاہت اور آمریت ہے۔ یہ عرب ممالک کی بادشاہتیں ہیں جہاں مساجد کے اماموں اور خطیبوں کو روبوٹس اور توتوں میں ڈھال دیا گیا ہے۔ یہ روبوٹس اور یہ توتے وہی کچھ کہتے ہیں جو حکمران ان سے کہلوانا چاہتے ہیں۔ اس صورت ِ حال میں کوئی عظمت، کوئی بزرگی اوار کوئی زندگی نہیں ہے۔ عرب ریاستوں کے حکمرانوں نے عرب معاشروں کو زمین کا بوجھ بنایا ہوا ہے۔ ان معاشروں کی عظیم اکثریت کے سامنے کوئی بڑا ہدف نہیں ہے۔ وہ نہ علوم و فنون کے دائرے میں کوئی کمال پیدا کرنا چاہتی ہے نہ اخلاق و کردار کے دائروں میں کوئی کارنامہ انجام دینا چاہتی ہے۔ اس کا نعرہ صرف یہ یہ ہے۔ ’’کھائو پیو موج اُڑائو‘‘۔ اس صورت ِ حال کا نتیجہ یہ ہے کہ عربوں سے امریکا اور یورپ کیا چھوٹا سا اسرائیل ’’ہینڈل‘‘ نہیں ہوتا۔ عربوں نے 1967ء اور 1973ء میں اسرائیل کے خلاف مل کر جنگ لڑی مگر پھر بھی شکست عربوں ہی کا مقدر بنی۔ بدقسمتی سے پاکستان کا حکمران طبقہ ان عربوں کو اپنا نمونہ ٔ عمل بنارہا ہے۔ اس کی خواہش ہے کہ جس طرح عرب حکمرانوں نے اماموں اور خطیبوں کو قابو میں کرکے مسجد کے تقدس کو پامال کیا ہوا ہے اس طرح وہ بھی اپنے اماموں اور خطیبوں کو کنٹرول کرکے مساجد کی بے حرمتی کریں۔ مساجد کی بے حرمتی یہ نہیں ہے کہ مساجد کو شہید کردیا جائے۔ انہیں بند کردیا جائے بلکہ مساجد کی بے حرمتی یہ بھی ہے کہ ان کے اماموں اور خطیبوں کو حکمرانوں کے دربار کا درباری بنا کر کھڑا کردیا جائے۔
اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین قبلہ ایاز کے مطابق حکومت مساجد کے اماموں اور خطیبوں کو روبوٹس اور توتے بنا کر معاشرے کی خدمت کررہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ مساجد کے اماموں اور خطیبوں کو حکومت کا غلام بنا کر معاشرے کی کیا خدمت کی جاسکتی ہے؟ ٹیپو سلطان کا مشہور زمانہ قول ہے ’’شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے‘‘۔ بدقسمتی سے ریاست مدینہ کی علمبردار حکومت مساجد کے اماموں اور خطیبوں کو شیر بنانے کے بجائے انہیں گیدڑ بنانے کے لیے کوشاں ہے اور اس ترقی ٔ معکوس کو معاشرے کی خدمت قرار دے رہی ہے۔ قبلہ ایاز نے انکشاف کیا ہے کہ صدر مملکت عارف علوی کی رہنمائی میں مساجد کے خطیبوں کے لیے سو موضوعات کا تعین کرلیا گیا ہے۔ جہاں تک قوم جانتی ہے عارف علوی دانتوں کے ڈاکٹر ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ایک دانتوں کا ڈاکٹر قوم کی روحانی، فکری اور علمی رہنمائی کے لیے کتنا موزوں ہوسکتا ہے۔ بہتر ہوتا کہ ڈاکٹر عارف علوی سے قوم کے دانتوں کی بہتر نگہداشت کے سلسلے میں رہنمائی لی جاتی۔ ان سے پوچھا جاتا کہ قوم چوبیس گھنٹوں میں کتنی بار دانتوں کو برش کرے۔ مگر صدر مملکت سے ان کے شعبے کے بجائے اس دائرے میں رہنمائی حاصل کی گئی جس کا انہیں کچھ علم نہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا عارف علوی صاحب نے اسلامی علوم و فنون میں پی ایچ ڈی کیا ہوا ہے؟ یا ڈی لٹ کی ڈگری لی ہوئی ہے؟ حکومت کو خطیبوں کے لیے موضوعات کا تعین کرنا ہی تھا تو وہ ملک کے ممتاز علما اور دانش وروں ہی سے رہنمائی حاصل کرلیتی مگر اس نے صرف صدر مملکت کی بصیرت پر بھروسے کو کافی جانا۔ حالاں کہ اقبال اس سلسلے میں بہت پہلے فرما چکے ہیں۔
غلاموں کی بصیرت پر بھروسا کر نہیں سکتے
کہ دنیا میں فقط مردنِ حر کی آنکھ ہے بینا
بہرحال اماموں کو روبوٹس اور خطیبوں کو توتوں میں ڈھالنے کا عمرانی کارنامہ ہماری تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ دیکھنا یہ ہے کہ معاشرہ اس جبر کے سلسلے میں کس طرزِ عمل کا مظاہرہ کرتا ہے۔

Leave a Reply