اسٹیبلشمنٹ پرستی کی انتہا

پاکستان میں سیاست دانوں اور صحافیوں کی دو اقسام ہیں۔ ایک وہ جو اسٹیبلشمنٹ پرستی کے مرض میں حد سے زیادہ مبتلا ہیں اور ایک وہ جو اسٹیبلشمنٹ پرستی میں کم مبتلا ہیں۔ پاکستان کے کتنے ہی سیاست دان اور صحافی اپنی سیاسی اور صحافتی نماز کی نیت اس طرح کرتے ہیں۔ نیت کرتا ہوں میں دو رکعت سیاسی یا صحافتی کی۔ واسطے ذاتی خاندانی مفاد کے۔ منہ میرا جی ایچ کیو شریف کی طرف۔ اللہ اکبر۔ پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ پر تنقید کرنے والے سیاست دان اور صحافی بھی موجود ہیں مگر انہیں ایک ہاتھ کی انگلیوں پر گنا جاسکتا ہے۔ ورنہ جسے دیکھو اسٹیبلشمنٹ کے آگے سجدہ ریز ہے۔ جاوید چودھری ملک کے معروف کالم نگار ہیں۔ وہ میاں نواز شریف کے عاشق ہیں مگر پرستش بہرحال اسٹیبلشمنٹ ہی کی کرتے ہیں۔ بلاشبہ جاوید چودھری کی پرستش میں ایک والہانہ پن ہے۔ جاوید چودھری جرنیلوں کی شان میں لکھتے ہیں تو ان کی تحریر میں ایک وارفتگی درآتی ہے۔ لیکن جاوید چودھری نے اپنے ایک حالیہ کالم میں اسٹیبلشمنٹ پرستی کی انتہا کردی ہے۔ جاوید چودھری نے اس سلسلے میں کیا گُل کھلائے ہیں۔ انہی کے الفاظ میں ملاحظہ کیجیے۔ لکھتے ہیں۔
’’افواج اور آئی ایس آئی دونوں سمجھدار اور منظم ادارے ہیں، ان کا سسٹم بھی مضبوط ہے، یہ کسی اجنبی سے ملاقات سے پہلے اس کا پورا ڈیٹا جمع کرتے ہیں اس کا تعلیمی، نفسیاتی اور طبی تجزیہ کرتے ہیں، ان کی ادارہ جاتی یادداشت بھی بڑی تگڑی ہے، آپ کو ماضی کی کسی شخصیت کے بارے میں کسی ادارے میں تحقیق یا رپورٹ نہیں ملے گی لیکن فوج اور آئی ایس آئی کے آرکائیو میں برٹش آرمی کی تشکیل سے لے کر جنرل قمر جاوید باجوہ کی ریٹائرمنٹ تک خطے کے ہر اہم واقعے اور شخص کی مکمل رپورٹ مل جائے گی، آپ نے اگر 1949ء، 1965، 1971ء اور کارگل کی جنگ کے بارے میں بھی کوئی چیز معلوم کرنی ہو، آپ اسٹاف کالج چلے جائیں، آپ کو وہاں ہر چیز مل جائے گی، میرٹ اور ٹریننگ میں بھی یہ ادارے
پرفیکٹ ہیں، یہ پورے ملک سے بیسٹ نوجوان تلاش کرتے ہیں اور انہیں تراش کر ہیرا بنادیتے ہیں، فوج میں کتابیں پڑھنے کی شرح بھی باقی تمام اداروں سے زیادہ ہے، ہمارے پروفیسر پوری زندگی اتنی کتابیں نہیں پڑھتے جتنی کتابیں ایک عام فوجی افسر میجر بننے تک پڑھ جاتا ہے اور ہمارے اداروں کی میز پر کامیابی کے ڈھیر بھی لگے ہوئے ہیں، دنیا میں اس وقت چار بڑی طاقتیں ہیں۔ امریکا، روس، چین اور بھارت، ہماری فوج اور آئی ایس آئی ان چاروں کی دائی ہے، ہم نے امریکا کو 65 سال سے اپنے ساتھ لٹکا رکھا ہے اور یہ ایڑی چوٹی کا زور لگانے کے باوجود ہم سے جان نہیں چھڑا سکا، ہم نے سوویت یونین کو توڑ کر روس بنادیا اور اب اس کے ساتھ تعلقات بھی استوار کررہے ہیں، یہ ہمیں سستا تیل اور گیس دینے کے لیے تیار ہوچکا ہے، چین سے پوری دنیا خائف ہے لیکن اس سے ہماری دوستی شہد سے میٹھی، سمندروں سے گہری اور ہمالیہ سے بلند ہے، بھارت ہم سے سات بنا بڑا ملک ہے لیکن ہم نے آج تک اسے بھی ہلنے نہیں دیا، بھارت کے ایک ارب چالیس کروڑ لوگ آج بھی پاکستانی سرحدوں کی طرف خوف سے دیکھتے ہیں اور ہم اگر اس فہرست میں گلف کی ریاستوں کو بھی شامل کرلیں تو ہماری اچیومنٹس کی تعداد میں اضافہ ہوجائے گا، ہم آج گئے گزرے حالات میں بھی سعودی عرب، یو اے ای اور قطر کے شاہی خاندان کے محافظ ہیں، دوحا میں فیفا ورلڈ کپ کی سیکورٹی بھی ہمارے پاس تھی اور یو این کے پیس مشنز میں بھی ہم نے ہمیشہ لیڈ کیا، ہماری آئی ایس آئی دنیا کی چھے بڑی سیکرٹ ایجنسیز میں شامل ہے، سی آئی اے بھی مشرق وسطیٰ اور سائوتھ ایسٹ ایشیا کے معاملے میں اس کی محتاج ہے، امریکا نے افغانستان میں آنا ہو یا پھر واپس جانا ہو۔ راستہ بہرحال آئی ایس آئی سے ہو کر گزرتا ہے‘‘۔ (روزنامہ ایکسپریس۔ 22 دسمبر)
جاوید چودھری نے دعویٰ کیا ہے کہ ہماری اسٹیبلشمنٹ کی ادارہ جاتی یادداشت بڑی تگڑی ہے۔ لیکن پاکستان کی طویل تاریخ کا تجربہ یہ بتاتا ہے کہ ہماری اسٹیبلشمنٹ کو نہ خدا یاد ہے، نہ رسول یاد ہے، نہ ملک کا نظریہ یاد ہے، نہ قوم کی تہذیب یاد ہے، نہ تاریخ یاد ہے۔ پاکستان اسلام کے نام پر وجود میں آیا تھا مگر ہمارے جرنیلوں نے ملک میں آج تک اسلام کو غالب نہیں ہونے دیا۔ جنرل ایوب اسلامی جمہوریہ پاکستان کے حکمران تھے مگر انہوں نے ملک کو سیکولر بنانے کی سازش کی۔ انہوں نے ڈاکٹر فضل الرحمن کے ذریعے سود کو ’’اسلامائنز‘‘ کیا۔ انہوں نے ملک و قوم پر اسلام سے متصادم عائلی قوانین مسلط کیے۔ انہوں نے ملک میں سیکولر فکر کو عام کرنے کی کوشش کی۔ اسٹیبلشمنٹ کی یادداشت اسلام اور ملک کے نظریے کے سلسلے میں اچھی ہوتی تو وہ کبھی جنرل ایوب کو یہ سب کچھ نہ کرنے دیتی۔ جنرل ایوب کے بعد جنرل یحییٰ ملک پر مسلط ہوئے۔ انہیں اسلام اتنا بھی یاد نہ تھا جتنا جنرل ایوب کو تھا۔ وہ شراب اور شباب کے رسیا تھے۔ انہوں نے ملک کے ایوان صدر کو کوٹھے میں تبدیل کردیا تھا۔ جنرل رحیم نے 1971ء کے بحران میں جنرل یحییٰ سے اپنی ایک ملاقات کا احوال بیان کیا ہے۔ انہوں نے بیان کیا ہے کہ وہ جنرل یحییٰ سے ملنے پہنچے تو وہ ٹی وی دیکھ رہے تھے۔ جنرل رحیم نے جنرل یحییٰ سے کہا کہ مشرقی پاکستان کے حالات مخدوش ہوگئے ہیں۔ جنرل یحییٰ نے یہ سن کر کہا۔ جنرل رحیم ذرا کچھ دیر ٹھیر جائو۔ ٹی وی پر نور جہاں کا گیت آنے ہی
والا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کی یادداشت اسلام اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے حوالے سے قوی ہوتی تو وہ جنرل یحییٰ کو یہ سب نہ کرنے دیتے۔ 1971ء کے بحران میں جنرل نیازی نے بنگالیوں کو دھمکی دیتے ہوئے کہا تھا کہ ہم تمہاری عورتوں کا اتنے بڑے پیمانے پر ریپ کریں گے کہ تمہاری نسل بدل کر رہ جائے گی۔ اچھی فوجیں اپنی مائوں، بہنوں اور بیٹیوں کو کیا دشمن کی مائوں، بہنوں اور بیٹیوں کا بھی ریپ نہیں کرتیں۔ مگر جنرل نیازی کو یہ روحانی اور اخلاقی اصول یاد ہی نہیں تھا۔ 1971ء میں ملک دو ٹکڑے ہوا تو ملک پر بھٹو حکومت کرنے لگے۔ انہوں نے اسلامی سوشلزم ایجاد کرلیا۔ انہوں نے ملک میں عریانی و فحاشی کو عام کردیا۔ ان کے دور میں شراب خوری عام ہوگئی تھی۔ اسٹیبلشمنٹ کی یادداشت تگڑی ہوتی تو وہ بھٹو کا ہاتھ پکڑتی مگر اس نے ایسا نہیں کیا۔ جنرل ضیا الحق نے مذہب کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا۔ یہ ایک افسوس ناک حرکت تھی مگر اسٹیبلشمنٹ نے جنرل ضیا الحق کا بھی ہاتھ پکڑ کر نہ دیا۔ جنرل پرویز مشرف لبرل تھے اور انہوں نے معاشرے کو لبرل بنانے کی سازش کی۔ اسٹیبلشمنٹ کی یادداشت تگڑی ہوتی تو وہ جنرل پرویز کو یاد دلاتے کہ پاکستان لبرل ازم کے نفاذ کے لیے قائم نہیں کیا گیا۔ 1973ء میں بھٹو نے قوم کو ایک اسلامی آئین دیا۔ مگر پاکستان کے سول اور فوجی حکمرانوں اور خود اسٹیبلشمنٹ نے آج تک اسلام کو آئین سے نکل کر معاشرے اور ریاست پر اثر انداز نہیں ہونے دیا۔ کیا یہ بات اسٹیبلشمنٹ کی یادداشت کے تگڑا ہونے کی شہادت ہے؟ یہ بات تاریخ کے ریکارڈ پر ہے کہ تحریک پاکستان اور قیام پاکستان کی جدوجہد میں جرنیلوں کا کوئی کردار ہی نہیں تھا مگر اس کے باوجود جرنیل ملک کے سیاہ و سفید کے مالک بن کر بیٹھ گئے ہیں۔ انہوں نے اپنی طاقت کے بل پر قوم کو دیوار سے لگا کر کھڑا کردیا ہے۔ دنیا کے ہر ملک میں فوج ملک کے لیے ہوتی ہے، پاکستان میں ملک فوج کے لیے ہے۔
ہم نے آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل حمید گل سے ایک انٹرویو میں پوچھا تھا کہ ملک فوج کے لیے ہے یا فوج ملک کے لیے ہے، انہوں نے کہا تمہارے سوال کا میرے پاس جواب نہیں۔ کیا یہ تمام حقائق اس بات کا ثبوت ہیں کہ ملک کی تاریخ کے حوالے سے اسٹیبلشمنٹ کی یادداشت قوی ہے؟
جاوید چودھری نے لکھا ہے کہ جرنیل بہت پڑھاکو ہوتے ہیں۔ وہ اتنی کتابیں پڑھتے ہیں کہ اتنی کتب تو یونیورسٹیوں کے پروفیسر بھی نہیں پڑھتے ہوں گے۔ علم انسان کو اہل بناتا ہے نااہل نہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے جرنیل اہلیت کی نہیں نااہلیت کی علامت ہیں۔ ملک کی 75 سال کی تاریخ میں جرنیل 34 سال براہِ راست حکومت کرتے رہے ہیں۔ باقی عرصے میں انہوں نے پردے کے پیچھے بیٹھ کر سیاست دانوں کی ڈوریاں ہلائی ہیں۔ مگر پاکستان کی تاریخ یہ ہے کہ 1971ء میں ملک آدھا رہ گیا۔ سقوط ڈھاکا جرنیلوں کی اہلیت کا نہیں نااہلیت کا ثبوت ہے۔ ان کے پڑھا لکھا ہونے کی شہادت نہیں ہے ان کی جہالت کی شہادت ہے۔ ملک کے نظریے نے مسلمانوں کی بھیڑ کو ایک قوم بنادیا تھا، ہمارے جرنیلوں نے قوم کو پھر بھیڑ میں تبدیل کردیا ہے۔ اب ہم مسلمان اور پاکستانی نہیں ہیں، اب ہم پنجابی، مہاجر، سندھی، بلوچی، پشتون اور سرائیکی ہیں۔ ہمیں آزاد ہوئے 75 سال ہوگئے مگر ہماری آدھی آبادی خط غربت سے نیچے کھڑی ہے، ہماری آدھی آبادی آج بھی ناخواندہ ہے، ہماری آدھی آبادی آج بھی بیمار پڑتی ہے تو اسے کوالیفائیڈ ڈاکٹر دستیاب نہیں ہوتا۔ ہماری آبادی کی اکثریت کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں۔ ہم عملاً آئی ایم ایف کے معاشی غلام بن چکے ہیں، ہماری حالت یہ ہے کہ ہمارا بجٹ آئی ایم ایف بناتا ہے، ہمارے پٹرول کے نرخ آئی ایم ایف متعین کرتا ہے۔ کیا یہ حقائق اسٹیبلشمنٹ کو پڑھا لکھا ثابت کررہے ہیں یا جاہل؟
جاوید چودھری نے اپنے کالم میں اسٹیبلشمنٹ اور امریکا کے تعلق کا ذکر اس طرح کیا ہے جیسے اسٹیبلشمنٹ دنیا کی واحد سپر پاور ہے اور امریکا اسٹیبلشمنٹ کا غلام۔ خدا کے بندے اتنا جھوٹ اور اتنا مبالغہ قارئین میں الٹا ردعمل پیدا کرتا ہے۔ اس لیے کہ اسٹیبلشمنٹ اور امریکا کے تعلق کی تاریخ یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ امریکا کی ادنیٰ غلام ہے اور امریکا اور اس کا طاقت ور آقا۔ جاوید چودھری کا خیال ہے کہ امریکا پاکستان کو چھوڑ کر بھاگنا چاہتا ہے مگر اسٹیبلشمنٹ نے آج تک اسے ایسا نہیں کرنے دیا۔ حالاں کہ صورتِ حال اس کے برعکس ہے۔ تاریخی طور پر دیکھا جائے تو یہ امریکا نہیں تھا جس نے پاکستان سے تعلقات استوار کرنے میں پہل کی ہو، یہ پاکستان کی فوجی اسٹیبلشمنٹ تھی جس نے امریکا کے جوتے چاٹنے کے کام کا آغاز کیا۔ امریکا کی خفیہ دستاویزات سے ثابت ہوچکا ہے کہ جنرل ایوب 1954ء سے امریکیوں کے ساتھ خفیہ رابطہ استوار کیے ہوئے تھے اور انہوں نے مارشل لا لگایا تو امریکا کی منظوری سے۔ 1960ء کی دہائی میں دنیا کے کتنے ہی ملک تھے جو نہ امریکا کے ساتھ تھے نہ سوویت یونین کے۔ انہی ملکوں نے غیر وابستہ تحریک قائم کی تھی۔ مگر جنرل ایوب نے پاکستان کی گردن میں سیٹو اور سینٹو کی غلامی کا طوق ڈال دیا۔ یہ جنرل ایوب تھے جنہوں نے امریکا کو بڈھ بیر میں فوجی ہوائی اڈہ فراہم کیا۔ یہ جنرل پرویز مشرف تھے جنہوں نے نائن الیون کے بعد ایک ٹیلی فون کال پر پورا پاکستان امریکا کے حوالے کردیا۔ یہ پاکستان کی فوجی اسٹیبلشمنٹ تھی جس نے 1980ء کی دہائی میں امریکا سے ایف 16 طیاروں کی خریداری کا معاہدہ کیا اور ایک ارب ڈالر سے زیادہ کی رقم امریکا کو پیشگی ادا کی مگر امریکا نے 12 سال تک نہ طیارے دیے نہ رقم لوٹائی اور اسٹیبلشمنٹ امریکا کا کچھ نہ بگاڑ سکی۔ جاوید چودھری نے اسٹیبلشمنٹ کو بھارت سے بھی زیادہ قوی ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ حالاں کہ بھارت آدھا پاکستان توڑ چکا ہے۔ کیا اسٹیبلشمنٹ نے بھی بھارت کا کوئی حصہ اس سے الگ کیا ہے۔ بھارت کراچی اور بلوچستان کی بدامنی میں ملوث ہے کیا ہم نے بھی یوپی اور ممبئی کو ’’ڈسٹرب‘‘ کیا ہوا ہے، ایک وقت تھا کہ ہم بھارتی پنجاب میں خالصتان کی تحریک پشت پر تھے مگر پھر اسٹیبلشمنٹ نے خود ہی تحریک کے کارکنوں کی فہرستیں بھارت کے حوالے کردیں اور الزام بے نظیر اور اعتزاز احسن کے سر تھوپ دیا۔ جاوید چودھری نے لکھا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے سوویت یونین توڑ کر اسے روس بنادیا، لیکن اصل بات یہ ہے کہ یہ جہاد کی برکت تھی جس نے سوویت یونین کو روس بنایا۔ ہماری اسٹیبلشمنٹ سوویت یونین کیا بھارت اور افغانستان تک سے نہیں نمٹ پارہی۔

Leave a Reply