دو اسلام؟

مغرب جب اسلام کے خلاف اپنے خبث باطن کا اظہار کرتا ہے تو وہ ایک اسلام کو دو میں اور اسلام کی دو تعبیرات کو چار تعبیرات میں منقسم کردیتا ہے۔ وہ کہتا ہے ایک ہے روایتی اسلام۔ دوسرا ہے صوفی اسلام۔ تیسرا ہے سیاسی اسلام اور چوتھا ہے جدید اسلام۔ حالاں کہ رسول اکرمؐ کے عہد مبارکہ سے اب تک اسلام تو صرف ایک ہی ہے۔ خدا کا اسلام اور رسول اکرمؐ کا اسلام۔ اس کے سوا جو کچھ ہے افسانہ وافسوں ہے۔ جاوید احمد غامدی اور ان کے شاگرد مغرب کی معنوی اولاد اور اس کے ایجنٹ ہیں۔ چناں چہ وہ مغرب کی پیروی کرتے ہوئے اسلام کی وحدت پر حملہ کرتے رہتے ہیں۔ خورشید ندیم ماشا اللہ غامدی صاحب کے شاگرد اور پیروکار ہیں۔ چناں چہ انہوں نے اپنے ایک حالیہ کالم میں دو اسلام یا اسلام کی دو تعبیرات ایجاد کر ڈالی ہیں۔ اس اجمال کی تفصیل کیا ہے آپ خورشید ندیم کے کالم میں ملاحظہ فرمالیجیے۔ وہ لکھتے ہیں۔
’’مذہب کی دو تعبیرات ہیں۔
دورِ زوال میں اہل ِ اسلام کا سماجی رویہ جس تعبیر کے زیر ِ اثر وجود میں آیا، اس کے مطابق اسلام فخر، قوت، اقتدار اور عصبیت کی علامت ہے۔ مذہبی پیشوا، سیاسی رہنما، قومی شاعر، سب مل کر یہی بتاتے رہے کہ اسلام کو اپنانے کا مقصد اور نتیجہ عظمت ِ رفتہ اور ماضی کی شان و شوکت کی بازیافت ہے۔ سید جمال الدین افغانی کو اس فکر کا سرخیل کہا جاسکتا ہے۔ اس تعبیر نے ایک قومی مزاج تشکیل دیا۔ اس کے زیرِ اثر جو شخصیت وجود میں آئی اس کے لیے اسلام اقتدار اور دنیاوی جاہ و جلال کی علامت تھا۔ اُس نے دنیا کی ان تمام اقوام کو ایک معاندانہ نظر سے دیکھا جنہوں نے اس سے یہ شکوہ چھینا۔ اسے بتایا گیا کہ ان اقوام سے اس نے اپنا کھویا ہوا اقتدار واپس لینا ہے اور یہ اس کے دشمن ہیں۔ اس نے دنیا کے عروج و زوال کو ایک فطری عمل کے بجائے اس تعبیر کے تحت دیکھا۔
اس تعبیر کے مطابق خدا، کتاب، پیغمبر، تمام مذہبی شعائر مسلمانوں کے لیے تفاخر، قومی حمیت اور عصبیت کی علامتیں قرار پائے۔ اگر کوئی ان کی توہین کا مرتکب ہوا، اس نے گویا ان قومی تفاخر کی توہین کی۔ اس نے اسے اپنے قومی وجود کی بقا کا تقاضا جانا کہ ہر اس ہاتھ کو توڑ دیا جائے جو ان کی طرف بڑھے۔ اس کے پیچھے یہ نفسیات کار فرما تھی کہ وہ اس طرح ان علامتوں کی حفاظت کا فریضہ سرانجام دے رہا ہے۔
اس تعبیر کو ہم دنیا پر نافذ نہیں کرسکے تو اپنے دائرہ عمل میں نافذ کرکے دکھا دیا۔ اس میں شبہ نہیں کہ ہر زندہ قوم اپنے شعائر کا دفاع کرتی ہے۔ یہ مگر اس وقت ہوتا ہے جب ایک قوم کے دنیاوی شکوہ کا اظہار مقصود ہو۔ جیسے ایک ملک اپنے جھنڈے کو تقدس دیتا ہے۔ مسلمان بھی یہ حق رکھتے ہیں کہ وہ اس نوعیت کا کوئی قانون بنائیں اگر کہیں زمامِ کار ان کے ہاتھ میں ہے۔ اس بات کا تعلق سیاسی اقتدار سے ہے، مذہب سے نہیں۔
مذہب کی دوسری تعبیر وہ ہے، جس کے مطابق اسلام، عالم کے پروردگار کی وہ ہدایت ہے جو اس نے اپنے پیغمبرؐ کے توسط سے انسانوں تک پہنچائی۔ اسے اپنی کتاب میں بیان کیا۔ رسولؐ اس لیے مبعوث ہوئے کہ وہ انسانوں کو پیغمبروں کی اس روایت سے جوڑ دیں اور اس قافلے کا حصہ بنادیں جو قیامت کے دن ہمیشہ کے لیے سرخرو ہوں گے۔ رسولؐ نے اپنا اسوئہ حسنہ انسانوں کے سامنے رکھا جس سے روشنی پا کر انسانوں کا ایک گروہ تیار ہوا۔ ایک امت وسط۔
اللہ کے پیغمبرؐ نے عمر بھر مشقت اٹھائی کہ خدا کی ہدایت اس کے بندوں تک پہنچے۔ اللہ نے آپ کے بعد شہادتِ حق کی یہ ذمہ داری اس گروہ کو سونپ دی جس پر پیغمبرؐ نے حق کی شہادت دی۔ یوں واضح کردیا کہ چونکہ آپؐ کے بعد کسی رسول اور نبی نے نہیں آنا، اس لیے تمام انسانوں تک اللہ کا دین پہنچانا امت مسلمہ کی ذمے داری ہے۔ یوں اہل اسلام اور غیر مسلموں کے درمیان خدا نے جو تعلق قائم کیا ہے وہ داعی اور مدعو کا تعلق ہے‘‘۔
(روزنامہ دنیا، 7 دسمبر2021ء)
خورشید ندیم نے دو اسلام اس طرح ایجاد کیے ہیں کہ جیسے جو اسلام فخر، قوت اور اقتدار کی علامت ہے اس اسلام میں تزکیہ نفس سرے سے موجود ہی نہیں اور جس اسلام میں تزکیہ نفس کا تصور موجود ہے اس اسلام میں فخر، قوت اور اقتدار کا کوئی گزر نہیں ہے۔ حالاں کہ ایسا نہیں۔ اسلام ایک جامع دین ہے اس میں ایک طرف عقائد، عبادات اور اخلاقیات ہے اور دوسری طرف جہاد، قوت، شکوہ اور غلبہ ہے۔ تیسری جانب اس میں تزکیہ نفس کا بندوبست ہے۔ قرآن مجید فرقان حمید رسول اکرمؐ کی بعثت کا مقصد بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ہم نے آپؐ کو کتاب اور حکمت دی اور آپ کو تزکیہ نفس کے کام پر مامور کیا۔ مگر خورشید ندیم اسلام کی اس کلیت سے اچانک کتاب اور حکمت کو منہا کردیتے ہیں اور صرف تزکیہ نفس کا ڈھول پیٹنے بیٹھ جاتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا کتاب اور حکمت کی تعلیم کے بغیر تزکیہ نفس کا کوئی مفہوم ہوسکتا ہے؟ ایک مسئلہ تو یہ ہوا۔
دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ مسلمان اسلام کے حوالے سے جس فخر کے علمبردار ہیں وہ ان کا شخصی، گروہی یا طبقاتی فخر نہیں ہے۔ یہ فخر مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ نے عطا کیا ہے۔ تجزیہ کیا جائے تو مسلمانوں کا فخر صرف فخر بھی نہیں ہے اس سکے کا دوسرا رُخ شکر پر مبنی ہے۔ لیکن مسلمانوں کا اسلام پر فخر کرنا غلط ہے؟۔
کیا یہ بات کوئی معمولی بات ہے کہ اس دنیا کی آبادی 7 ارب سے زیادہ ہے۔ ان سات ارب انسانوں میں دو ڈھائی ارب انسان ایسے ہیں جو کسی خدا، کسی رسول، کسی آسمانی کتاب اور کسی مذہب کو نہیں مانتے۔ یہ لوگ صریح کفر میں مبتلا ہیں۔ اس دُنیا میں دو ڈھائی ارب انسان ایسے ہیں جنہوں نے شرک ایجاد کرلیا ہے۔ عیسائیوں نے سیدنا عیسیٰؑ کو خدا کا بیٹا بنایا ہوا ہے، حالاں کہ ان کے پاس اس بات کی کوئی سند موجود نہیں ہے۔ یہودی سیدنا عزیز کو خدا کا بیٹا سمجھتے ہیں۔ ہندوئوں کی آبادی ایک ارب سے زیادہ ہے اور انہوں نے ایک سطح پر تین خدا اور دوسری سطح پر 33 کروڑ خدا ایجاد کیے ہوئے ہیں۔ اس منظرنامے میں امت مسلمہ واحد امت ہے جو تصورِ توحید کو سینے سے لگائے ہوئے ہے۔ کیا مسلمانوں کی یہ پوزیشن مسلمانوں کے لیے فخر اور شکر کا مقام نہیں ہے؟۔ یہ حقیقت بھی راز نہیں کہ رسول اکرمؐ کی شریعت نے تمام سابقہ رسولوں کی شریعتوں کو منسوخ کردیا ہے۔ عیسائیوں کے پاس شریعت ہے مگر منسوخ شریعت۔ یہودیوں کے پاس شریعت ہے مگر منسوخ شریعت۔ ہندوئوں کے پاس بھی ایک مذہب ہے مگر منسوخ مذہب۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو کیا مسلمانوں کے لیے یہ بات فخر اور شکر کا مقام نہیں کہ ان کے پاس ایک ایسی شریعت ہے جسے اللہ تعالیٰ نے ہر زمانے کے لیے منتخب کرلیا ہے۔ یہ بات بھی ایک سامنے کی بات ہے کہ مختلف اُمتوں کے پاس آسمانی کتب موجود ہیں مگر ان میں سے ایک کتاب بھی ایسی نہیں جس میں تحریفات نہ ہوئی ہوں۔ عیسائیوں کے پاس انجیل ہے مگر یہ انجیل اپنی اوریجنل زبان میں موجود نہیں۔ اس انجیل کا ایک پہلو یہ ہے کہ اب یہ انجیل خدا کا کلام نہیں بلکہ سیدنا عیسیٰؑ کے حواریوں کے بیانات کا مجموعہ ہے۔ یوحنا نے یہ کہا۔ مرقس نے یہ کہا۔ انجیل میں سیدنا عیسیٰؑ کے بھی چند اقوال ملتے ہیں۔ لیکن صرف چند۔ یہودیوں نے بھی قرآن کے دعوے کے مطابق اپنی آسمانی کتاب کو بدل ڈالا ہے اور وہ بھی اس لیے کہ یہودی علما کو اس سے فائدہ ہوسکے۔ ہندوئوں کی کتاب وید اور گیتا ہے مگر ہمیں ان کتابوں کا زمانہ ہی معلوم نہیں۔ نہ ہمیں یہ بات معلوم ہے کہ ان کتابوں کو کس طرح محفوظ بنایا گیا۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو کیا مسلمان کے لیے یہ فخر اور شکر کا مقام نہیں ہے کہ ان کے پاس ایک آسمانی کتاب ہے جس میں چودہ سو سال سے ایک لفظ کا بھی ردوبدل نہیں ہوا۔ بلاشبہ قرآن کو محفوظ بنانے کے سلسلے میں امت مسلمہ کا بھی اپنا کردار ہے۔ لیکن سب سے بڑی اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے خود قرآن کے تحفظ کی ذمے داری لی ہے۔ اس سے پہلے اللہ تعالیٰ نے کسی بھی آسمانی کتاب کے تحفظ کی ذمے داری نہیں لی۔ کیا یہ بات بھی مسلمانوں کے لیے فخر اور شکر کا باعث نہیں ہے۔
یہ ایک سامنے کی بات ہے کہ عیسائیوں کے پاس انجیل ہے، ایک مذہب ہے، ایک نبی ہے۔ عیسائیوں نے صاف اعلان کردیا ہے کہ ان کی دنیا میں دین اب افراد کا ذاتی معاملہ ہے، اس کا ریاست و سیاست، معیشت و معاشرت اور آرٹ اور کلچر سے کوئی تعلق نہیں۔ بھارت کا آئین بھی سیکولر ہے۔ اسرائیل کا آئین بھی سیکولر ہے۔ اس تناظر میں امت مسلمہ کے لیے یہ بات فخر اور شکر کی ہے کہ اپنی تمام تر کمزوریوں کے باوجود امت مسلمہ اپنے دین سے جڑی ہوئی ہے اور وہ سمجھتی ہے کہ تمام مسلم ریاستیں قرآن و سنت کے مطابق چلائی جانی چاہئیں۔ ریاست و سیاست، معاشرت اور معیشت اور آرٹ اور کلچر سب پر دین کا اطلاق ہونا چاہیے۔
خورشید ندیم نے اسلام کے حوالے سے قوت و اقتدار اور شکوہ کو ایک گالی بنا کر پیش کیا ہے۔ حالاں کہ اسلامی ریاست میں اقتدار کسی فرد، کسی گروہ، کسی طبقے یا کسی جماعت کا اقتدار نہیں بلکہ اقتدار اعلیٰ تو صرف اللہ کے لیے زیبا ہے۔
مسلمان اس اقتدار کو صرف اللہ کے نائب کی حیثیت سے بروئے کار لاتے ہیں۔ رسول اکرمؐ کا عہد اور خلافت راشدہ کا پورا زمانہ اس بات کا بین ثبوت ہے کہ مسلمانوں کے لیے اقتدار شخصی، ذاتی، انفرادی اور گروہی چیز نہیں ہے۔ چوں کہ اسلام میں اقتدار اعلیٰ صرف اللہ کے لیے اس لیے اسلامی ریاست اور اسلامی معاشرے میں اقتدار ایک مقدس چیز ہے اور اس اعتبار سے سیاست بھی۔ لیکن خلافت کے ملوکیت میں ڈھل جانے کے بعد اقتدار شخصی، گروہی اور طبقاتی چیز بن گیا۔ اسی لیے ملوکیت خلافت کی ہم پلّہ نہیں ہے۔ اس میں اسلام کی روح سے انحراف کی کئی صورتیں موجود ہیں۔ لیکن اپنی اوریجنل شکل میں اقتدار ایک مقدس شے ہے۔ چناں چہ خورشید ندیم نے اقتدار کے مرتبے کو گرا کر دراصل اسلام پر حملہ کیا ہے۔ جہاں تک قوت و شوکت کا معاملہ ہے تو اسلامی ریاست اور اسلامی معاشرے کی قوت و شوکت اور شکوہ بھی بڑی مقدس چیزیں ہیں۔ مولانا روم جاوید احمد غامدی اور ان کے شاگردوں کی طرح روحانی زنخے ہیں نہ مغرب کے ایجنٹ بلکہ اسلامی تہذیب میں ان کا مقام یہ ہے کہ خود اسلامی تہذیب جن لوگوں سے Define ہوتی ہے مولانا روم ان میں ایک ہیں۔ ان کی شاعری کا مقام و مرتبہ یہ ہے کہ اسے ’’فارسی کا قرآن‘‘ کہا جاتا ہے۔ انہی مولانا روم نے فرمایا ہے۔
مصلحت در دینِ ما جنگ و شکوہ
مصلحت در دینِ عیسیٰ غار و کوہ
مولانا فرما رہے ہیں کہ رسول اکرمؐ کے دین کی مصلحت جہاد اور شکوہ ہے اور سیدنا عیسیٰؑ کے دین کی مصلحت غار و کوہ یعنی ’’ترک دنیا‘‘ ہے۔ مگر اکیسویں صدی کے آتے آتے یہ صورت حال پیدا ہوگئی ہے کہ جاوید غامدی کی فکر کے حامل خورشید ندیم مسلمانوں کو قوت و شکوہ پر شرمندہ ہونا سکھا رہے ہیں۔ یہاں چلتے چلتے مولانا روم کے شاگرد اقبال کی بات بھی سن لیجیے۔ فرماتے ہیں۔
وہ نبوت ہے مسلماں کے لیے برگِ حشیش
جس نبوت میں نہیں قوت و شوکت کا پیام
لیجیے اقبال ریاست کیا اس نبوت تک کو نشہ قرار دے رہے ہیں جس میں قوت و شوکت کا پیام نہ ہو اب بتائیے قوم مولانا روم اور اقبال کی بات مانے یا روحانی زنخوں اور مغرب اور مغرب کے ایجنٹوں کی بات پر توجہ دے۔ قوت و شوکت کے حوالے سے یہ حقیقت بھی ہمارے سامنے رہنی چاہیے کہ اسلامی ریاست کا مثالیہ یا Ideal مردِ مومن ہے۔ وہی اسلامی ریاست کا نگہبان ہے اور پاسبان ہے اور مردِ مومن کے لیے اقبال نے صاف کہا ہے۔
ہاتھ ہے اللہ کا بندئہ مومن کا ہاتھ
غالب و کار آفریں کار کشا کار ساز
اقبال کا یہ شعر اقبال کی ایجاد نہیں۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے صاف کہا ہے کہ مسلمان کے روحانی ارتقا میں ایک مرحلہ ایسا آتا ہے جب خدا مومن کا ہاتھ بن جاتا ہے پائوں بن جاتا ہے جس سے وہ چلتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایسے آدمی کی قوت و شوکت نا محمود یا ناپسندیدہ کیسے ہوسکتی ہے۔ خورشید ندیم نے اپنے کالم میں اسلام کے احیا کے سلسلے میں مسلمانوں کے رویے پر بھی اعتراض کیا ہے حالاں کہ اسلام کا احیا قرآن و حدیث سے ثابت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں کہا ہے کہ ہم اپنے نور کا اتمام کرکے رہیں گے خواہ وہ کفار کو کتنا ہی ناگوار کیوں نہ محسوس ہو۔ اس طرح ایک حدیث شریف میں ہے کہ خلافت علیٰ منہاج النبوہ کا احیا ہو کر رہے گا۔ تو کیا خورشید ندیم اب معاذاللہ قرآن و حدیث کا بھی مذاق اڑائیں گے۔

Leave a Reply