مسلمانوں کی بقا و سلامتی کی دو بنیادیں دین اور مزاحمت

یہ دور اپنے براہیم کی تلاش میں ہے
صنم کدہ ہے جہاں لا الٰہ الا اللہ

مسلمانوں کی ہزاروں سال پر محیط تاریخ ہمارے سامنے ہے۔ اس تاریخ میں مسلمانوں نے اپنی بقا اور سلامتی کو صرف دو چیزوں کے ذریعے یقینی بنایا ہے۔ مسلمانوں کی بقا و سلامتی کی ایک ضمانت ان کی حق پرستی یا دین سے محبت ہے۔ مسلمانوں کی بقا و سلامتی کی دوسری ضمانت باطل کی مزاحمت ہے۔ یہ مزاحمت مسلمانوں نے اپنے خارج میں بھی کی ہے اور باطن میں بھی۔
سیدنا ابراہیمؑ ایک فرد تھے۔ ان کے پاس نہ حکومت تھی، نہ ریاست تھی، نہ فوج تھی، نہ کوئی قوم تھی، نہ کوئی جماعت تھی۔ سیدنا ابراہیمؑ اور نمرود کے درمیان ظاہری اعتبار سے طاقت کا ایک ہولناک عدم توازن موجود تھا۔ نمرود بادشاہِ وقت تھا۔ اُس کے پاس ریاست تھی، فوج تھی، یہاں تک کہ اُس کی قوم اسے پوج رہی تھی۔ مگر سیدنا ابراہیمؑ نے طاقت کے اس ہولناک عدم توازن کی طرف دیکھا بھی نہیں۔ وہ نمرود کے سامنے پہنچے اور اُس کو چیلنج کیا۔ اس کا نتیجہ فوری طورپر سامنے آیا۔ نمرود نے حضرت ابراہیمؑ کو زندہ جلا ڈالنے کی سازش کی۔ یہ سیدنا ابراہیمؑ کے لیے ایک بڑا امتحان تھا۔ مگر حضرت ابراہیمؑ اس امتحان میں سرخرو ہوئے۔ اللہ نے آتشِ نمرود کو گلزار بنادیا۔ آگ، جو جلاتی ہے، وہ اللہ کے حکم سے ابراہیمؑ کے لیے سلامتی میں ڈھل گئی اور حق باطل پر غالب آگیا۔

حضرت موسیٰؑ کے سامنے فرعون کا چیلنج تھا۔ فرعون بادشاہِ وقت تھا۔ اس کے پاس حکومت تھی، ریاست تھی، فوج تھی، خزانے تھے۔ اُس کے پاس ایک قوم تھی جو پوری طرح اُس کے سامنے سرنگوں تھی۔ اس کے برعکس سیدنا موسیٰؑ صرف ایک فرد تھے۔ ان کے پاس نہ ریاست تھی، نہ فوج تھی، نہ خزانہ تھا، نہ کوئی بڑا مزاحمتی گروہ تھا۔ وہ تھے اور ان کے بھائی حضرت ہارونؑ تھے۔ مگر طاقت کے اس عدم توازن کے باوجود سیدنا موسیٰؑ کو بھی حکم ہوا کہ جائو اور فرعون کو چیلنج کرو۔ حضرت موسیٰؑ نے اس کے جواب میں خدا سے یہ نہیں کہا کہ پہلے مجھے ریاست عطا کی جائے، ایک فوج دی جائے، پھر میں فرعون کو چیلنج کروں گا۔ وہ اپنے بھائی کے ہمراہ فرعون کے پاس پہنچے اور اُسے حق کی دعوت دی اور اُس کے باطل کو چیلنج کیا۔ فرعون اس صورتِ حال میں حضرت موسیٰؑ اور ان کی قوم کا دشمن ہوگیا اور اُس نے حضرت موسیٰؑ اور ان کی قوم کوفنا کرنے کی سازش کی۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے جس طرح ایک معجزے کے ذریعے حضرت ابراہیمؑ کو بچایا تھا، اسی طرح ایک معجزے کے ذریعے حضرت موسیٰؑ اور ان کی قوم کو بچا لیا۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ اور آپؐ کی پوری مقدس جدوجہد بھی ہمارے سامنے ہے۔ آپؐ کے پاس بھی نہ کوئی ریاست تھی، نہ کوئی حکومت تھی، نہ کوئی فوج تھی۔ نہ آپؐ کے پاس مال تھا، نہ کوئی قوم تھی۔ اس کے برعکس کفار اور مشرکین قوی تھے۔ اُن کے پاس سیاسی طاقت تھی، معاشی طاقت تھی، عسکری طاقت تھی، مگر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم ہوا کہ آپؐ جس حال میں ہیں اسی حال میں کفار اور مشرکین کے عقاید کو چیلنج کریں، اور آپؐ نے ایسا ہی کیا۔ چنانچہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو صادق اور امین کہنے والے آپؐ کی جان کے درپے ہوگئے۔ کشمکش میں ایک ایسا مرحلہ بھی آیا جب کفار اور مشرکین نے آپؐ کو مفاہمت کی پیشکش کی۔ انہوں نے کہا کہ ہم آپ کے خدا کو برا نہیں کہیں گے، آپ ہمارے خدائوں کو برا نہ کہیں۔ مگر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے باطل کے ساتھ مفاہمت سے صاف انکار کردیا۔ چنانچہ اہلِ مکہ آپؐ کے جانی دشمن ہوگئے، اور اگر اللہ تعالیٰ ایک معجزے کے ذریعے آپؐ کو مکہ سے نکال کر مدینہ نہ لے جاتا توکفار اور مشرکین نے آپؐ کو مار ڈالنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی تھی۔ سیرتِ طیبہ کا ایک اور پہلو غزوۂ بدر ہے۔ غزوۂ بدر طاقت کے ہولناک عدم توازن کی ایک بہت ہی بڑی مثال ہے۔ ایک طرف 313 افراد تھے۔ ان کے پاس ایک گھوڑا، چار پانچ اونٹ، چند تلواریں اور چند زرہیں تھیں۔ دوسری طرف ایک ہزار کا لشکرِ جرار تھا۔ اس کے پاس سیکڑوں گھوڑے اور سیکڑوں اونٹ تھے۔ اس کے پاس سیکڑوں تلواریں، ڈھالیں اور نیزے تھے۔ اس معرکے میں بظاہر مسلمانوں کی فتح کا کوئی امکان نہ تھا۔ سارے مادی اسباب مسلمانوں کے خلاف تھے، مگر مسلمانوں کا لشکر راضی بہ رضا تھا۔ صورتِ حال اتنی سنگین تھی کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پوری رات عبادت میں مشغول رہے اور مسلمانوں کی کامیابی کے لیے دعائیں کرتے رہے۔ یہاں تک کہ صبح ہوگئی اور حضرت ابوبکرؓ کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہنا پڑا کہ اب بس کیجیے۔ دراصل اس صورتِ حال میں مسلمانوں کے لیے آزمائش تھی۔ اللہ تعالیٰ دیکھنا چاہتا تھا کہ کون مادی اسباب پر انحصارکرتا ہے اور کون اللہ کو اپنے لیے کافی سمجھتا ہے۔ اور بدری صحابہ نے ثابت کردیا کہ وہ صرف اللہ پر انحصار کرتے ہیں اور باطل کی مزاحمت کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔ مسلمان اس آزمائش میں پورے اترے۔ تب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خوش خبری سنائی گئی کہ اللہ تعالیٰ فرشتوں کے ذریعے مدد فرمائیں گے۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ سے ثابت ہے کہ آپؐ کی دس سال کی مدنی زندگی میں 60 سے زیادہ معرکے برپا ہوئے، یہاں تک کہ جزیرہ نما عرب سے باطل فنا ہوگیا۔ حضرت ابراہیمؑ، حضرت موسیٰؑ اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتوں سے ثابت ہے کہ تینوں انبیاء کی معجزات کے ذریعے مدد کی گئی، مگریہ مدد اُس وقت آئی جب انبیاء اور مرسلین نے حق پرستی اور باطل کی مزاحمت کے تمام تقاضے پورے کیے۔ حضرت عمرؓ کے زمانے میں مسلمانوں نے وقت کی دو سپرپاورز کو شکست دی اور انہیں منہ کے بل گرا دیا۔ اگرچہ حضرت عمرؓ کے زمانے تک آتے آتے مسلمان قوی ہوگئے تھے، مگر قیصر وکسریٰ کی طاقت بہت زیادہ تھی۔ مگر مسلمانوں نے وقت کی دو سپرپاورز کے مقابلے میں بھی دین سے وابستگی و محبت اور باطل کی مزاحمت کے تقاضے نبھا کر دکھا دیے۔
عہدِ رسالت اور عہدِ خلافت جیسا زمانہ تو مسلمانوں کو پھر دوبارہ نصیب نہ ہوا، مگر عہدِ رسالت اور عہدِ خلافت کی روشنی اور برکت ہمیشہ مسلمانوں کے ساتھ رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں نے بہت کم قوت کے ساتھ بڑے بڑے کارنامے انجام دیے ہیں۔ طارق بن زیاد نے اسپین کا وسیع علاقہ فتح کیا تو اُس کے پاس صرف 17 ہزار فوجی تھے، جبکہ سامنے ایک لاکھ نفوس کا لشکرِ جرار کھڑا تھا۔ طاقت کا عدم توازن اتنا زیادہ تھا کہ طارق بن زیاد کا لشکر جن کشتیوں پر سوار ہوکر اسپین آیا تھا، طارق بن زیاد نے وہ کشتیاں جلوا دیں، تاکہ کسی مسلمان سپاہی کے ذہن میں میدانِ جنگ سے بھاگ کر جان بچانے کا خیال ہی نہ آئے۔ مسلمانوں کی فوج اگرچہ 17 ہزار افراد پر مشتمل تھی، مگر وہ دین کی محبت اور باطل کی مزاحمت کے جذبے سے سرشار تھی۔ چنانچہ 17 ہزار کا لشکر بالآخر ایک لاکھ کے لشکر پر غالب آیا اور مسلمانوں نے یورپ میں ایک ایسی مسلم ریاست کی بنیاد رکھی جو 600 سال تک موجود رہی۔ محمد بن قاسم سندھ فتح کرنے پہنچے تو اُن کے پاس ایک روایت کے مطابق 11 ہزار، اور دوسری روایت کے مطابق 18 ہزار فوجی تھے۔ دوسری جانب راجا داہر ایک لاکھ افراد کی فوج لیے کھڑا تھا، لیکن محمد بن قاسم کا لشکر بالآخر ایک لاکھ کے لشکر کو شکست دینے میں کامیاب ہوگیا۔ بابر نے صرف 8 ہزار فوجیوں کے ساتھ ہندوستان فتح کیا۔ اس کا مقابلہ بھی ایک لاکھ کے لشکر سے ہوا۔ ابتدا میں بابر کی کئی کوششیں ناکام ثابت ہوئیں۔ تب بابر کو اپنی شراب نوشی کا خیال آیا اور اس نے خود سے عہد کیا کہ اب وہ کبھی شراب کو ہاتھ نہیں لگائے گا۔ اس کے بعد بابر کی 8 ہزار فوجیوں پر مشتمل فوج ایک لاکھ کے لشکر پر غالب آگئی اور برصغیر میں مغلیہ سلطنت کا آغاز ہوا۔

بیسویں اور اکیسویں صدی میں افغانستان میں مٹھی بھر مجاہدین نے وقت کی دو سپرپاورز یعنی سوویت یونین اور امریکہ کو شکست دی ہے۔ سوویت یونین کی تاریخ یہ تھی کہ وہ جہاں جاتا تھا وہاں سے کبھی واپس نہیں آتا تھا، مگر مٹھی بھر مجاہدین نے سوویت یونین کو افغانستان میں اتنی بری طرح شکست دی کہ وہ نہ اپنا جغرافیہ بچا سکا، نہ اپنے نظریے کو باقی رکھ سکا۔ لیکن سوویت یونین کی شکست کے بعد اسلام اور مسلمان دشمن قوتوں نے اس خیال کو آگے بڑھایا کہ افغانستان میں مسلمانوں نے جو کامیابیاں حاصل کی ہیں وہ مسلمانوں اور اسلام کی کامیابیاں نہیں ہیں، بلکہ یہ تو امریکہ اور یورپ کی کامیابیاں ہیں۔ مجاہدین نے امریکی اسلحے اور امریکی سرمائے سے سوویت یونین کو ہرایا ہے۔ چنانچہ جب امریکہ افغانستان میں داخل ہوا تو کروڑوں لوگوں کا خیال تھا کہ اب افغانستان میں وہی ہوگا جو امریکہ اور اُس کے 48 اتحادی چاہیں گے۔ مگر مجاہدین کے شوقِ شہادت اور مزاحمت نے 20 سال میں امریکہ اور اُس کے اتحادیوں کو بدترین شکست سے دوچار کیا۔ امریکہ نے افغانستان کی جارحیت پر دو ہزار ارب ڈالر سے زیادہ صرف کیے، دو ہزار فوجی گنوائے، 12 ہزار فوجیوں کو زخمی کرایا، اور اُسے بالآخر افغانستان اُنھی طالبان کے حوالے کرنا پڑا جن کو وہ وحشی اور درندے کہا کرتا تھا۔ یہ منظر بھی ہمارے سامنے ہے کہ کشمیر اور فلسطین کے مسلمان 70 سال سے بھارت اور اسرائیل کی مزاحمت کررہے ہیں۔ اگر ان دو خطوں کے مسلمانوں میں دینی حمیت اور مزاحمت کا رجحان نہ ہوتا تو بھارت کشمیر کو، اور اسرائیل فلسطین کو کب کا ہڑپ کرچکا ہوتا۔

مسلمانوں کی تاریخ کو دیکھا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ مسلمانوں نے فکری محاذ پر بھی حق پرستی اور مزاحمت کے جذبے سے تاریخ کے دھارے کا رخ موڑا ہے۔ امام غزالیؒ کے زمانے میں یونانی فلسفہ مسلم اشرافیہ کے ایک بڑے حصے کو اپنی گرفت میں لے چکا تھا۔ ابن سینا اور فارابی جیسے مسلم مفکرین میں بے عقیدگی پھیل گئی تھی۔ ان کا ایک عقیدہ یہ تھا کہ خدا کلیات کا علم تو رکھتا ہے مگر جزیات کا علم نہیں رکھتا۔ ان کا ایک اور خلافِ اسلام عقیدہ یہ تھا کہ عالم قدیم ہے، حالانکہ مسلمانوں کا اجماع اس بات پر ہے کہ قدیم صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے، عالم تو صرف خدا کی ایک تخلیق ہے۔ ایک وقت تھا کہ عالم کا کوئی وجود نہ تھا، اور ایک وقت آئے گا کہ عالم پھر غیر موجود ہوگا، البتہ خدا ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ موجود رہے گا۔ اس صورتِ حال میں امام غزالیؒ نے تن تنہا یونانی فلسفے کا رد لکھا اور اسے اتنا بے توقیر کردیا کہ یہ فلسفہ پھر کبھی مسلم دنیا میں سر نہ اٹھا سکا۔ غزالی یونانی فلسفے کا رد لکھ کر اس کا زور نہ توڑتے تو اسلام کا بھی وہی حشر ہوتا جو فلسفے کے ہاتھوں یورپ میں عیسائیت کا ہوا۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو غزالی نے تن تنہا وہ کام کیا جو پوری امت ہی انجام دے سکتی تھی۔ ابن رشد نے غزالی کے 70 سال بعد غزالی کی کتاب ’’تہافت الفلاسفہ‘‘ کا جواب لکھا، مگر یہ جواب مقبول نہ ہوسکا اور ابنِ رشد، امام غزالی کی فتح کو شکست میں نہ بدل سکے۔
برصغیر کی تاریخ ہمارے سامنے ہے۔ مغل بادشاہ اکبر نے ہندوئوں کو خوش کرنے کے لیے بعض ایسے اقدامات کیے جو خلافِ اسلام تھے۔ سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ دربار میں سجدۂ تعظیمی رائج تھا۔ دربار میں آنے والے ہر شخص کو بادشاہ کے سامنے سر جھکانا پڑتا تھا۔ اکبر نے ہندوئوں کو خوش کرنے کے لیے گائے کے ذبیحے پر پابندی لگائی ہوئی تھی۔ یہ انحرافات جہانگیر کے زمانے میں بھی موجود تھے۔ یہ عہد مجدد الف ثانیؒ کا عہد تھا۔ جیسا کہ خود مجدد صاحب نے فرمایا ہے کہ میں فاروقی ہوں اور میری رگِ فاروقیت خلافِ اسلام کام دیکھ کر بھڑک اٹھتی ہے۔ چنانچہ مغل دربار کے انحرافات پر مجدد الف ثانی برہم ہوگئے اور انہوں نے ایک فرد ہونے کے باوجود بادشاہِ وقت کو چیلنج کردیا۔ بادشاہِ وقت نے پہلے تو مجدد الف ثانی کو قید کیا، مگر پھر ان کی بعض کرامات دیکھ کر خوف زدہ ہوگیا اور اس نے مجدد الف ثانی کے مطالبات کو تسلیم کرلیا۔ اس طرح ایک صوفی اور ایک درویش نے ریاست کو شکست دے ڈالی۔

برصغیر پر انگریزوں کا تسلط ایسا تھا کہ اس نے سرسید اور اُن جیسے مسلمانوں کے ہوش و حواس ہی چھین لیے۔ سرسید انگریزوں کے غلام ہونے سے پہلے آپ اور میری طرح کے عام مسلمان تھے۔ اُن کے عقاید بھی وہی تھے جو میرے اور آپ کے عقاید ہیں۔ لیکن سرسید نے نہ صرف یہ کہ غلامی کو قبول کرلیا بلکہ اسے اللہ کی رحمت قرار دے ڈالا۔ انہوں نے غلامی کی نفسیات کے تحت قرآن کا انکار کردیا، حدیث کا انکار کردیا۔ انہوں نے تفسیر کی پوری روایت پر خطِ تنسیخ پھیر دیا۔ انہوں نے اجماع کے اصول کو ماننے سے انکار کردیا۔ انہوں نے مسلمانوں سے کہا کہ اردو، فارسی اور عربی میں کیا رکھا ہے! سیکھنی ہے تو انگریزی اور فرانسیسی سیکھو۔ غلامی کی اس فضا میں اکبر الٰہ آبادی کی دینی حمیت اور مزاحمتی جذبے نے ایسی شاعری کروائی جو کسی بھی طرح ادبی معجزے سے کم نہیں ہے۔ اکبر کی اس شاعری کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے کیجیے کہ مسلمان جو جنگ میدانِ جنگ میں ہار گئے تھے اکبر نے اپنی شاعری میں جیت کر دکھا دی۔ اکبر کی مزاحمتی شاعری کے کچھ نمونے ملاحظہ کیجیے:
مذہب کبھی سائنس کو سجدہ نہ کرے گا
انسان اُڑیں بھی تو خدا ہو نہیں سکتے
…٭٭٭…
خدا کی ہستی پہ شبہ کرنا اور اپنی ہستی کو مان لینا
پھر اس پہ طرّہ اس ادعا کا کہ ہم ہیں اہلِ شعور ایسے
…٭٭٭…
تُو دل میں تو آتا ہے سمجھ میں نہیں آتا
بس جان گیا میں تری پہچان یہی ہے
…٭٭٭…
کفر نے سائنس کے پردے میں پھیلائے ہیں پائوں
بے زباں ہے بزمِ دل میں شمعِ ایماں ان دنوں
…٭٭٭…
علومِ دنیوی کی بحر میں غوطے لگانے سے
زباں گو صاف ہو جاتی ہے دل طاہر نہیں ہوتا
…٭٭٭…
نئی تعلیم سے کیا واسطہ ہے آدمیت کو
جنابِ ڈارون کو حضرت آدم سے کیا مطلب
…٭٭٭…
نہ کتابوں سے، نہ واعظوں سے، نہ زر سے پیدا
دین ہوتا ہے بزرگوں کی نظر سے پیدا
اکبر کی عظمت یہ ہے کہ اقبال نے اکبر کے انتقال پر اُن کے بیٹے کے نام تار میں لکھا کہ پورے ایشیا میں آپ کے والد کے جیسا کوئی شاعر موجود نہیں۔
اقبال کا زمانہ خود انگریزوں کے غلبے کا زمانہ ہے، مگر اقبال کی مذہبیت اور جذبۂ مزاحمت نے اقبال سے وہ شاعری کروائی جس نے لاکھوں لوگوں کے دلوں کو گرما دیا، اور لاکھوں لوگوں کو مغرب کی مزاحمت کی طرف متوجہ کیا۔ اقبال نے اپنی ایک نظم میں فرمایا:
زمانہ آیا ہے بے حجابی کا، عام دیدارِ یار ہو گا
سکوت تھا پردہ دار جس کا، وہ راز اب آشکار ہو گا
کبھی جو آوارۂ جنوں تھے وہ بستیوں میں پھر آبسیںگے
برہنہ پائی وہی رہے گی مگر نیا خارِ زار ہو گا
دیارِ مغرب کے رہنے والو، خدا کی بستی دکاں نہیں ہے
کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو وہ اب زر کم عیار ہو گا
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی
جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہو گا
اقبال کی ایک اور نظم ہے:
خودی کا سر نہاں لا الٰہ الا اللہ
خودی ہے تیغ فساں لا الٰہ الا اللہ
یہ دور اپنے براہیم کی تلاش میں ہے
صنم کدہ ہے جہاں لا الٰہ الا اللہ
کیا ہے تُو نے متاعِ غرور کا سودا
فریبِ سود و زیاں لا الٰہ الا اللہ
یہ مال و دولتِ دنیا یہ رشتہ و پیوند
بتانِ وہم و گماں لا الٰہ الا اللہ
خرد ہوئی ہے زمان و مکاں کی زنّاری
نہ ہے زماں نہ مکاں لا الٰہ الا اللہ
یہ نغمہ فصلِ گل و لالہ کا نہیں پابند
بہار ہو کہ خزاں لا الٰہ الا اللہ
اگرچہ بت ہیں جماعت کی آستینوں میں
مجھے ہے حکمِ اذاں لا الٰہ الا اللہ
سید مودودیؒ نے بھی عہدِ غلامی میں آنکھ کھولی، مگر ان کا اسلامی تصور اور ان کی قوتِ مزاحمت اتنی قوی تھی کہ انہوں نے غلامی میں آزادی کا خواب دیکھا۔ جس زمانے میں مولانا نے اپنے فکری کام کی ابتدا کی اُس زمانے میں مغرب کے دانش ور کہا کرتے تھے کہ اسلام دنیا کو جو کچھ دے سکتا تھا دے چکا، اب اس کے پاس دنیا کو دینے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ مگر سید مودودیؒ نے اسی زمانے میں اسلام کے مکمل ضابطۂ حیات ہونے کا تصور خلق کیا۔ جس زمانے میں پوری مسلم دنیا مغربی طاقتوں کی غلام تھی، سید مودودیؒ نے مسلمانوں سے کہا کہ قرآن و سنت کی دعوت لے کر اٹھو اور پوری دنیا پر چھا جائو۔ جس زمانے میں یہ خیال عام تھا کہ جہاد کا زمانہ گزر چکا ہے اُس زمانے میں سید مودودیؒ نے جہاد پر معرکہ آرا کتاب لکھی۔ جس زمانے میں کمیونزم غالب تھا اور لبرل ازم فاتح تھا اُس زمانے میں سید مودودیؒ نے مسلمانوں سے کہا کہ ایک وقت آئے گا جب کمیونزم روس کے دارالحکومت ماسکو میں سمٹ جائے گا، اور ایک وقت آئے گا کہ سیکولرازم اور لبرل ازم کو لندن اور پیرس میں پناہ نہیں ملے گی۔ سید مودودیؒ کی اس فکری معرکہ آرائی نے مسلم دنیا میں کروڑوں انسانوں کی زندگی میں انقلاب برپا کردیا۔
یہ ایک سامنے کی بات ہے کہ بھارت میں 20 کروڑ سے زیادہ مسلمانوں کو دیوار سے لگا دیا گیا ہے۔ انتہا پسند ہندوئوں نے بھارت کے مسلمانوں کو سیاسی طور پر بے وزن کردیا ہے۔ ہندو حکمرانوں نے مسلمانوں کو معاشی طور پر بھارت کا نیا شودر بناکر کھڑا کردیا ہے۔ بھارت کے مسلمانوں
کی تعلیمی حالت اچھی نہیں۔ بھارت کے مسلمانوں کی نئی نسلوں سے ان کی زبان اردو چھین لی گئی ہے۔ عام خیال یہ ہے کہ بھارت کے مسلمان اب اپنی کوئی نئی تقدیر خلق نہیں کرسکتے، لیکن کرناٹک میں ایک مسلم طالبہ مسکان نے جس طرح اللہ اکبر کا نعرہ لگاکر ہندو انتہا پسندوں کا مقابلہ کیا اُس سے ظاہر ہوگیا کہ بھارت کے مسلمانوں کی دینی حمیت اور مزاحمتی جذبہ کمزور پڑا ہے، فنا نہیں ہوا۔ بھارت کے مسلمان اگر اپنی تاریخ کو دیکھیں تو انہیں معلوم ہوگا کہ دین سے وابستگی اور مزاحمت کے جذبے نے ہمیشہ مسلمانوں کے ناممکن کو ممکن بنایا ہے۔ پاکستان بھی کبھی ناممکن تھا، مگر مسلمانوں کے دینی شعور اور مزاحمتی جذبے نے ناممکن کو ممکن بناکر نئی تاریخ رقم کر ڈالی۔ بھارت کے مسلمان دو، چار، دس نہیں بلکہ وہ 20 کروڑ سے زیادہ ہیں۔ ہندو اکثریت انہیں ڈرا سکتی ہے، ہڑپ نہیں کرسکتی۔ بھارت کے مسلمانوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ اللہ انہی کی مدد کرتا ہے جو اپنی مدد آپ کرتے ہیں۔ مزاحمت وہ قوت ہے جو بند دروازے کو کھول دیتی ہے، اور دروازہ موجود نہ ہو تو دروازہ خلق کردیتی ہے۔

Leave a Reply