مرے دیس کا بسکٹ سیکس سمبل؟

چائے کی پیالی میں طوفان اُٹھانا کوئی پاکستان کے سیکولر اور لبرل افراد سے سیکھے۔ ملک کے معروف صحافی انصار عباسی نے ’’میرے دیس کا بسکٹ گالا‘‘ نامی اشتہار پر ایک ٹویٹ کر ڈالا۔ انہوں نے ٹویٹ میں کہا کہ کیا اب پاکستان میں بسکٹ بھی مجرے کے ذریعے فروخت ہوں گے۔ انہوں نے سوال اُٹھایا کہ کیا ملک میں پیمرا نامی کوئی ادارہ موجود ہے۔ انہوں نے عمران خان کو یاد دلایا کہ وہ پاکستان کو ریاست مدینہ جیسا بنانا چاہتے ہیں۔ انصار عباسی نے کہا کہ عمران خان نے اقوام متحدہ میں کھڑے ہو کر نبی اکرمؐ اور صحابہ کرامؓ کی عظمت پر بات کی۔ اس ٹویٹ پر سوشل میڈیا میں ہنگامہ ہوگیا اور ہزاروں لوگوں نے انصار عباسی کے ٹویٹ کی حمایت کر ڈالی۔ چناںچہ پیمرا اچانک بیدار ہوا اور اس نے ایک مراسلہ جاری کردیا جس میں تمام متعلقہ افراد اور اداروں پر زور دیا گیا ہے کہ وہ اشتہارات کے سلسلے میں معاشرتی اقدار کا خیال رکھیں۔ پیمرا نے کہا کہ بسکٹ کے اشتہار کا مواد Product سے مطابقت نہیں رکھتا۔ پیمرا نے کہا کہ اشتہار سے نہ صرف یہ کہ عوام میں بے چینی بڑھ رہی ہے بلکہ اشتہار معاشرے کی شائستگی کے قابل قبول معیارات اور سماجی و ثقافتی اقدار کی خلاف ورزی ہے۔ چناں چہ بسکٹ کے اشتہار کے مواد کا ازسرنو جائزہ لیا جائے۔ پیمرا کے مراسلے کے جاری ہوتے ہی سیکولر اور لبرل عناصر نے چائے کی پیالی میں طوفان اُٹھادیا۔ بی بی سی اچانک کہیں سے نمودار ہوا اور اس نے سیکولر اور لبرل عناصر کے ردعمل کو دنیا تک پہنچانے کا ٹھیکہ لے لیا۔ آمنہ مفتی نے کہا کہ ملک کے آرٹسٹ پہلے ہی تنگ ماحول میں کام کررہے تھے مگر اب تو ان کا دم ہی گھونٹ دیا گیا ہے۔ خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم عکس کی تسنیم احمد نے کہا کہ پاکستان میں فنکاروں کے لیے تخلیقی صلاحیتوں کا اظہار مشکل ہوتا جارہا ہے۔ معروف رقاصہ شیما کرمانی نے کہا کہ جب ٹی وی پر لوگ مجھے گالیاں دیتے ہیں تو انہیں کوئی نہیں روکتا۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کے وفاقی وزیر فواد چودھری نے کہا کہ انصار عباسی چوبیس گھنٹے فحاشی کیوں سرچ کرتے رہتے ہیں وہ کوئی تخلیقی کام کیوں نہیں کرتے؟ بی بی سی نے سوال اُٹھایا کہ کیا پاکستانی معاشرے کو ہنستی، مسکراتی، گاتی اور جھومتی ہوئی خواتین سے نفرت ہے؟ کیا اسے صرف خوف زدہ اور روتی ہوئی عورت پسند ہے؟
ایک اسلامی معاشرے میں عورت کے کئی بلند کردار ہیں۔ عورت ماں ہے، بیوی ہے، بہن ہے، شاعر ہے، ادیب ہے، صحافی ہے، ڈاکٹر ہے، انجینئر ہے، اسلامی معاشرے کو عورت ان تمام کرداروں میں پسند ہے۔ مگر پاکستان کے سیکولر اور لبرل لوگوں کا مسئلہ یہ ہے کہ انہیں صرف وہ عورت پسند آتی ہے جو صرف جنس کی علامت یا Sex Symbal ہو۔ چناں چہ یہ لوگ بسکٹ فروخت کرنے نکلتے ہیں تو عورت کو اشتہار میں Sex Symbal بنا کر کھڑا کردیتے ہیں۔ اس طرح عورت اور بسکٹ میں کوئی فرق نہیں رہتا۔ بسکٹ بھی کھایا جاتا ہے اور ہمارے سیکولر اور لبرل عناصر چاہتے ہیں کہ عورت کو بھی لوگ آنکھوں کے ذریعے کھائیں۔ سوال یہ ہے کہ یہ عورتوں کی ’’عزت افزائی‘‘ ہے یا عورتوں کی ’’تذلیل‘‘ ہے۔ آخر ہمارے سیکولر اور لبرل لوگ اپنے ڈراموں میں عورت کو ماں کی حیثیت سے مرکزی کردار کیوں نہیں بناتے؟ ایک بہن ایک بیٹی کی حیثیت سے اسے مرکزی مقام کیوں نہیں دیتے؟ اسے ایک شاعر، ادیب، دانش ور، صحافی کے طور پر کیوں پیش نہیں کرتے؟ وہ عورت کو ڈرامے میں لاتے ہیں تو Sex Symbol کے طور پر۔ وہ عورت کو گلوکار کے طور پر سامنے لاتے ہیں تو جنس کی علامت کی حیثیت سے۔ وہ عورت کو ماڈل گرل کے طور پر نمایاں کرتے ہیں تو اس کے ظاہری حسن کی وجہ سے۔ آخر ہمارے سیکولر اور لبرل لوگوں کو عورت کا باطنی حسن کیوں متاثر نہیں کرتا؟ انہیں عورت کے کردار میں جمال کیوں نظر نہیں آتا؟ ان تمام سوالات کا ایک ہی جواب ہے۔ ہمارے سیکولر اور لبرل لوگوں کا اپنے مذہب، اپنی تہذیب، اپنی تاریخ اور اپنی اخلاقی اقدار سے کوئی تعلق ہی نہیں۔ ان کی نظر میں ساکھ ہے تو مغرب کی اس عورت کی جو خود مغرب میں بھی Sex Symbal اور Sex Object کے سوا کچھ نہیں۔ مذہبی لوگ عورت کی اس پیشکش پر اعتراض کرتے ہیں تو انہیں تنگ نظر کہا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ وہ مذہبی کارڈ استعمال کررہے ہیں۔ مذہبی لوگوں کو اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اسلامی کارڈ استعمال کرنے کی رتی برابر بھی ضرورت نہیں۔ ایک مذہبی ریاست کی حیثیت سے ریاست پاکستان کا فرض ہے کہ وہ ملک میں کوئی ایسا کام نہ ہونے دے جو ہماری مذہبی، اخلاقی اور تہذیبی و ثقافتی اقدار کے خلاف ہو۔ یہ کوئی انہونی یا عجیب بات نہیں۔ فرانس ایک سیکولر ملک ہے اور اس کے صدر امانویل ماکروں نے چند روز پیش تر ہی کہا ہے کہ فرانس کی حکومت مسلمانوں کو فرانس میں ایک متوازی معاشرہ کھڑا کرنے کی ہرگز اجازت نہیں دے گی۔ سوال یہ ہے کہ اگر ایک سیکولر ملک میں مسلمان ایک متوازی معاشرہ خلق نہیں کرسکتے تو ایک اسلامی ریاست میں کچھ لوگوں کو ایک متوازی سیکولر یا لبرل معاشرہ تخلیق کرنے کی اجازت کیسے دی جاسکتی ہے؟
فواد چودھری نے انصار عباسی پر طنز کرتے ہوئے کہا ہے کہ آپ 24 گھنٹے فحاشی کیوں تلاش کرتے رہتے ہیں؟ فواد چودھری کا مسئلہ یہ ہے کہ انہوں نے کبھی قرآن و حدیث کا مطالعہ تو کیا نہیں۔ قرآن نے مسلمانوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ اب تم وہ بہترین گروہ ہو جسے انسانوں کو ہدایت واصلاح کے لیے میدان میں اُتارا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ برائی کے تمام کاموں پر نظر رکھنا مسلمانوں پر فرض ہے۔ یعنی برائی کے کاموں پر نظر رکھنا مسلمانوں کا ’’شوق‘‘ نہیں ان کی ’’ذمے داری‘‘ ہے۔ فواد چودھری نے وہ حدیث بھی نہیں پڑھی ہوگی جس میں رسول اکرمؐ نے فرمایا ہے کہ اگر مسلمان برائی کو دیکھے تو اسے طاقت سے روک دے۔ یہ بھی ممکن نہ ہو تو اسے زبان سے بُرا کہے۔ یہ بھی مکن نہ ہو تو اسے دل میں بُرا جانے۔ مگر یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے۔ مسلمان طاقت سے برائی کو روکتے ہیں تو انہیں انتہا پسند بلکہ دہشت گرد کہا جاتا ہے۔ وہ زبان سے جہاد کرتے ہیں تو فواد چودھری جیسے لوگ فرماتے ہیں تمہارے پاس کرنے کو اور کوئی کام نہیں۔ دراصل فواد چودھری اور ان جیسے لوگ چاہتے ہیں کہ مسلمان صرف برائی کو دل میں بُرا جانیں اور ایمان کے کمزور ترین درجے کو ’’Enjoy‘‘ کریں۔ ہمارے لوگ برائی کے خلاف طاقت استعمال کرتے ہیں تو کہا جاتا ہے کہ ریاست کا کام اپنے ہاتھ میں نہ لو۔ مذہبی لوگوں میں شاید ہی کوئی ہو جو ریاست کا کام اپنے ہاتھ میں لینا چاہتا ہو۔ مذہبی لوگ اس وقت متحرک ہوتے ہیں جب ریاست برائی کو روکنے میں دلچسپی نہیں لیتی تب مذہبی ذہن آگے بڑھتا ہے۔ یہ حقیقت ہمارے سامنے ہے کہ لوگ توہین رسالت کرتے ہیں اور ریاست انہیں کچھ نہیں کہتی بلکہ ریاست نے ملعونہ آسیہ کو تو ملک سے فرار کرادیا۔ حالاں کہ اسے لاہور ہائی کورٹ نے سزا دی ہوئی تھی۔ ملک میں عریانی و فحاشی کا سیلاب آیا ہوا ہے مگر ریاست اس سیلاب کے ذمے داروں کو کچھ نہیں کہتی۔ حد تو یہ ہے کہ عریانی و فحاشی پر کوئی اعتراض کرتا ہے تو ریاست کا نمائندہ فواد چودھری کہتا ہے تمہارے پاس کرنے کے لیے کوئی کام نہیں ہے کیا؟۔
بعض سیکولر لوگوں نے کہا ہے کہ بسکٹ کے اشتہار پر اعتراض اور پابندی سے آزادی اظہار متاثر ہوگی۔ دنیا کے کسی بھی معاشرے میں آزادیٔ اظہار مطلق نہیں ہے۔ ہر معاشرے کے کچھ عقاید، کچھ نظریات اور کچھ اقدار ہوتی ہیں۔ چناں چہ آزادی اظہار کی ہر صورت کو ان چیزوں کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ مغرب میں آزادی اور جمہوریت کو اقدار کا درجہ حاصل ہے۔ آپ وہاں ان پر اعتراض نہیں کرسکتے۔ آپ امریکا، برطانیہ یا فرانس کی ’’نیشنل سیکورٹی‘‘ کو بھی چیلنج نہیں کرسکتے۔ یہ کل ہی کی بات ہے میاں نواز شریف نے ایک سیاسی تقریر کی اور ان کے خلاف بغاوت کا مقدمہ درج کرلیا گیا۔ چناں چہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ایک اسلامی معاشرے میں عورت کو Sex Symbal بنا کر پیش کیا جائے اور معاشرہ اس کے خلاف صف آرا نہ ہو؟

Leave a Reply