خاندان کے ادارے کا بحران

انسان کی پوری زندگی فرد اور اس کی انفرادیت پر کھڑی ہے مگر بہترین فرد وہی ہے جو بہترین اجتماعیت کو جنم دے جو بہترین خاندان تخلیق کرے۔ بہترین خاندان وہی ہے جو بہترین معاشرے کو جنم دے اور بہترین معاشرہ وہ ہے جو بہترین تہذیب کو خلق کرے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو پوری دنیا میں نہ انفرادیت کا حال اچھا ہے نہ اجتماعیت کا حال اچھا ہے۔ مغرب میں انفرادیت کی نمو اتنی غیر فطری ہوگئی ہے کہ وہاں انفرادیت تقریباً ایک سرطان بن گئی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ مغرب میں شادی کا ادارہ طلاق حاصل کرنے کا ایک بہانہ بن گیا ہے۔ شادی کے ادارے کے بحران نے مغرب میں خاندان کے ادارے کے بحران کو جنم دیا ہے۔ خاندان کا بحران معاشرے کا بحران بن گیا ہے اور معاشرے کے بحران نے پوری مغربی تہذیب کو بحران میں مبتلا کردیا ہے۔ لیکن مغرب کے اس حال پر خوش ہونے کا کوئی جواز نہیں اس لیے کہ خود مسلم دنیا میں خاندان کا ادراہ بحران کا شکار ہوچکا ہے۔ عرب دنیا میں طلاقوں اور خلع کی تعداد ہولناک حد تک بڑھ گئی ہے۔ پاکستان میں بھی طلاقوں اور خلع کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔ روزنامہ دنیا کی ایک خبر کے مطابق کراچی میں رواں سال کے آٹھ ماہ میں خلع و علٰیحدگی کے 4 ہزار مقدمات دائر ہوئے ہیں۔ مقدمات میں دو ہزار سے زیادہ خواتین نے اپنے شوہروں سے علٰیحدگی اختیار کی اور چار ہزار سے زیادہ بچے اپنے والدین سے دور ہوئے۔ (روزنامہ دنیا۔ 8 اکتوبر 2020ء)
اس خبر سے اگر کوئی یہ سمجھا ہے کہ یہ صرف کراچی کی صورتِ حال ہے تو وہ غلطی پر ہے۔ ملک کے بیش تر شہروں میں صورتِ حال یہی ہے۔ شادیاں ہورہی ہیں اور تیزی کے ساتھ ختم ہورہی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں خاندان کے ادارے کے بحران کے اسباب کیا ہیں؟
اسلام کہتا ہے کہ شادی کے سلسلے میں دین داری کو سب سے زیادہ اہمیت دی جانی چاہیے مگر اب اکثر دین دار گھرانے بھی شادی کے سلسلے میں دین داری کو اہمیت نہیں دیتے۔ اس ضمن میں ایک مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں دین داری ظواہر تک محدود ہوگئی ہے اور اس کا ہمارے باطن پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ یہ حقیقت عیاں ہے کہ جو دین داری ہمارے اخلاق و کردار پر اثر انداز نہ ہو جس دین داری سے ہمارے انسانی تعلقات بہتر نہ ہوں وہ دین داری ایک فریب کے سوا کچھ نہیں۔ بلاشبہ طلاق دی جاسکتی ہے لیکن اللہ تعالیٰ کے نزدیک طلاق انتہائی ناپسندیدہ شے ہے۔ مگر کتنے مسلمان ہیں جنہیں اللہ کی اس ناپسندیدگی کا شعور و ادراک ہو۔ ہماری دین داری کا ایک پہلو یہ ہے کہ ہمارا تعلق بااللہ کمزور ہوگیا ہے۔ مومن کا مقام اللہ کی محبت اور اس کے خوف کے درمیان ہے۔ مگر اب ہمیں اللہ سے نہ انتہائی درجے کی محبت ہے نہ ہی ہمیں انتہائی درجے کا خوف خدا لاحق ہوتا ہے۔ چناں چہ شادی بیاہ اور طلاق و خلع کے سلسلے میں ہماری انفرادی خواہشیں ہی ہماری حاکم ہوتی ہیں اللہ تعالیٰ کی محبت اور خوف کا اس سلسلے میں کوئی کردار نہیں ہوتا۔ ہمیں ایک فرد کی حیثیت سے جو اہم لگتا ہے ہم کرتے ہیں۔ ہمیں اس سلسلے میں اس بات کی رتی برابر پروا نہیں ہوتی کہ کل جب آخرت میں ہمارا سامنا خدا سے ہوگا تو اپنے فعل کا ہم کیا جواب دیں گے۔ یا جب روز محشر ہم رسول اکرمؐ کے روبرو ہوں گے تو ایک اُمتی کی حیثیت سے ہم رسول اکرمؐ کا سامنا کیسے کریں گے۔ کہنے کو ہمیں رسول اللہؐ سے بڑی عقیدت ہے۔ ہم رسول اللہؐ کے لیے جان بھی دے سکتے ہیں مگر ہم رسول اکرمؐ کے اسوئہ حسنہ کو اختیار کرنے پر رتی برابر توجہ نہیں دیتے۔ ہم بھول جاتے ہیں کہ رسول اکرمؐ امہات المومنین کے لیے کیسے تھے؟ خواتین بھی یہ بھول جاتی ہیں کہ امہات المومین کا رسول اکرمؐ سے کیا تعلق تھا؟ رسول اکرمؐ نے فرمایا ہے کہ خدا کے بعد اگر کسی کو سجدہ روا ہوتا تو شوہر کو ہوتا لیکن اس بات کا اثر کتنی خواتین کے قلوب پر ہوگا؟
اللہ تعالیٰ نے شوہر اور بیوی کے تعلق کی معنویت اور جمال کو ظاہر کرنے کے لیے قرآن مجید میں فرمایا ہے کہ شوہر بیویوں کا لباس ہیں اور بیویاں شوہروں کا لباس ہیں۔ اللہ اکبر۔ کیا کسی کو اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کا شعور ہے؟ لباس انسانی وجود کا جمال ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ شوہر اور بیویاں ایک دوسرے کا جمال ہیں۔ لباس جسم کی حفاظت ہے۔ چناں چہ شوہر اور بیویاں ایک دوسرے کی ڈھال ہیں۔ لباس جسم کے سب سے زیادہ قریب ہے اس کے معنی یہ ہیں کہ شوہر اور بیوی کے درمیان جو قرب ہوسکتا ہے وہ کسی اور انسانی رشتے میں ممکن ہی نہیں۔ لیکن اسلامی معاشروں میں کتنے شوہر اور بیویاں ایسی ہوں گی جو شوہر اور بیوی کے تعلق کی معنویت سے آگاہ ہیں؟ بدقسمتی سے اب شوہر بیوی کے لیے اور بیوی شوہر کے لیے ٹشو پیپر بنتی جارہی ہیں جسے کسی بھی وقت استعمال کرکے پھینکا جاسکتا ہے۔
شادی اور خاندان کے ادارے کے سلسلے میں مذہبی شعور کے بعد سے اہم چیز محبت ہوتی ہے۔ میر تقی میر نے محبت کے بارے میں دو بنیادی باتیں کہہ رکھی ہیں۔ میر صاحب نے فرمایا ہے۔
محبت نے کاڑھا ہے ظلمت سے نور
نہ ہوتی محبت نہ ہوتا ظہور
میر صاحب فرما رہے ہیں کہ مخلوق سے خدا کی محبت مخلوقات کو عدم کی تاریکی سے وجود کی روشنی میں لانے کا سبب بنی۔ یعنی محبت اتنی بڑی قوت ہے کہ وہی عدم سے چیزوں کو وجود میں لاسکتی ہے، وہی ناممکن کو ممکن بناسکتی ہے۔ لیکن بدقسمتی سے دنیا میں محبت کا کال پڑ گیا ہے۔ اردو غزل میں محبت کی موت کا ماتم عام ہے۔
زیست اب کس طرح بسر ہوگی
دل نہیں لگ رہا محبت میں
٭٭
عزیز اتنا ہی رکھو کہ جی بہل جائے
اب اس قدر بھی نہ چاہو کہ دم نکل جائے
٭٭
وہ لوگ جن سے تری بزم میں تھے ہنگامے
گئے تو کیا تری بزمِ خیال سے بھی گئے
٭٭
کسی کا یوں تو ہوا کون عمر بھر پھر بھی
یہ حسن و عشق تو دھوکا ہے سب مگر پھر بھی
٭٭
اپنی تکمیل کررہا ہوں میں
ورنہ تجھ سے تو مجھ کو پیار نہیں
شعر و ادب کو لوگ اب معمولی چیز سمجھنے لگے ہیں لیکن شاعری انسان اور سماج کے باطن کا اخبار ہے۔ ظاہر میں کیا ہورہا ہے اس کی خبر اخبار دیتے ہیں۔ انسان، سماج اور تہذیب کے باطن میں کیا ہورہا ہے اس کی خبر شاعری، افسانے، ناول اور اعلیٰ درجے کی تنقید سے ملتی ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو مذکورہ بالا اشعار خبر دے رہے ہیں کہ محبت ہمارے دلوں میں مرچکی ہے یا مرنے ہی والی ہے۔ یا کم از کم اب وہ ایسی قوت نہیں جو چیزوں کو عدم سے وجود میں لاسکے۔ چناں چہ شادی اور خاندان کا ادارہ محبت کی قلت سے بحران کا شکار ہو کر رہے گا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ محبت کی پہچان کیا ہے؟ محبت کی ایک بہت ہی بڑی پہچان یہ ہے کہ محبت انسان کو ’’دینے والا‘‘ بناتی ہے۔ ہماری زندگی کا المیہ یہ ہے کہ ہمارے درمیان ’’دینے والوں‘‘ کی قلت ہوگئی ہے اور ’’لینے والوں‘‘ کی کثرت ہوگئی ہے۔ فرض کیجیے شادی کے تعلق میں شوہر بھی ’’دینے والا‘‘ ہے اور بیوی بھی ’’دینے والی‘‘ ہے تو شادی کبھی بھی ناکام نہیں ہوسکتی، لیکن اگر شادی میں صرف ایک دینے والا ہو یا دونوں ہی ’’لینے والے‘‘ ہوں تو شادی اور خاندان کے ادارے کا بحران میں مبتلا ہونا گویا تقدیر کا لکھا ہے۔
میر تقی میر نے محبت کے بارے میں دوسری بات یہ کہی ہے۔
دور بیٹھا غبارِ میر اس سے
عشق بِن یہ ادب نہیں آتا
میر تقی میر کہہ رہے ہیں کہ انسان ہر اعتبار سے دوسرے انسان سے مختلف ہوتا ہے۔ اس کی سماجیات الگ ہوتی ہے، اس کی معاشیات جدا ہوتی ہے، اس کی نفسیات میں فرق ہوتا ہے، اس سے انسانوں کے درمیان ’’اختلافات‘‘ اور ’’کشمکش‘‘ پیدا ہوتی ہے مگر محبت ایسی قوت ہے جو انسان کو مختلف ہونے کے باوجود دوسرے وجود سے ہم آہنگ بناتی ہے۔ انسان کو کسی دوسرے سے محبت ہو تو پھر وہ اپنے امتیازات اور اختلافات کو زیادہ اہمیت نہیں دیتا۔ پھر اس کے لیے اہم صرف محبت یا عشق ہوتا ہے۔ مگر ہمارے زمانے میں سب اپنے اپنے ’’غبار‘‘ اپنے اپنے ’’امتیازات‘‘ کے غلام بن گئے ہیں اور ہمارے لیے ہماری سماجیات، ہماری معاشیات، ہماری نفسیات ہی سب کچھ ہوتی ہے۔ اس کے سامنے محبت کی بھی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ خود پسند انسان کے لیے سب سے اہم بات یہ ہوتی ہے کہ اس کی خواہش کیا ہے۔ محبت انسان کو دوسرے کی خواہش کا احترام کرنا سکھاتی ہے۔ یہی غبار میر کے دور بیٹھنے کا عمل ہے۔ مگر شوہر اور بیوی کے تعلق میں اب کتنے لوگ ہیں جو اپنے غبار کو اپنے شریک حیات سے دور رکھتے ہیں؟
شادی کے بحران کا ایک سبب یہ ہے کہ اب اکثر شادیاں ظاہری خوبصورتی اور مال و منال کی بنیاد پر ہوتی ہیں۔ اب لڑکوں کو ’’شریک حیات‘‘ کی نہیں ایک ’’ہیروئن‘‘ کی ضرورت ہوتی ہے۔ اب اکثر لڑکیوں کو ’’شریک حیات‘‘ نہیں ایک ’’ہیرو‘‘ درکار ہوتا ہے۔ لیکن ظاہری چمک دمک کی کشش چار دن میں ختم ہوجاتی ہے۔ چناں چہ ایک دوسرے سے بیزار ہونے کا عمل جلد شروع ہوجاتا ہے۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ’’دولت کی اقدار‘‘ رشتوں کو خوبصورت نہیں بناتیں بلکہ ’’باطنی اوصاف‘‘ شوہر اور بیوی کے تعلق کو مضبوط بناتے ہیں، مگر اب کتنے لڑکے اور کتنی لڑکیاں ایسی ہیں جنہیں اپنے شریک حیات میں باطنی اوصاف درکار ہوتے ہیں۔ انسان جیسا خود ہوتا ہے اس کو ویسے ہی لوگ درکار ہوتے ہیں۔

Leave a Reply