طالبان کا اچھا آغاز

طالبان نے کابل کا کنٹرول حاصل کرنے کے بعد عمدگی کے ساتھ اپنے سفر کا آغاز کیا ہے۔ طالبان نے سب سے بڑی بات یہ کی ہے کہ انہوں نے اپنے تمام حریفوں اور دشمنوں کے لیے معافی کا اعلان کردیا ہے انہوں نے ایسے تمام حریفوں اور دشمنوں سے کہا ہے کہ وہ کسی قسم کا خوف محسوس نہ کریں۔ انہیں کچھ نہیں کہا جائے گا۔ انہوں نے ملک سے فرار ہونے والے افغان باشندوں سے اپیل کی کہ وہ ملک واپس آجائیں۔ امریکا اور اس کے اتحادیوں نے گزشتہ 20 برسوں میں 2 لاکھ سے زیادہ افغان باشندوں اور 50 ہزار سے زیادہ طالبان کو شہید کیا ہے۔ انہوں نے ہزاروں طالبان کو جیلوں میں ٹھونسا ہے۔ کابل فتح کرنے کے بعد طالبان چاہتے تو اپنے تمام حریفوں اور دشمنوں سے حساب برابر کرسکتے تھے مگر طالبان نے عام معافی کا اعلان کرکے فتح مکہ کی یاد تازہ کردی۔ حضور اکرمؐ فتح مکہ کے وقت دس ہزار کے لشکر کے ساتھ مکے کے دروازے پر موجود تھے۔ یہ اتنا بڑا لشکر تھا کہ مکے کی اینٹ سے اینٹ بجا سکتا تھا مگر حضور اکرمؐ نے اہل مکہ کے ہر ظلم کو فراموش کرکے اپنے تمام حریفوں اور دشمنوں کو معاف کردیا۔ طالبان بھی فتح کابل کے بعد اپنے حریفوں اور دشمنوں کے سروں پر قہر بن کر ٹوٹ سکتے تھے مگر وہ بدلے اور انتقام کے جذبات سے بلند ہوگئے۔ یہ معمولی بات نہیں ہے۔ یہ جدید تاریخ کا ایک بہت بڑا واقعہ ہے۔ امریکا اور اس کے اتحادیوں نے نائن الیون کے بعد افغانستان کو فتح کیا تھا تو انہوں نے افغانستان ہی میں نہیں پاکستان میں بھی طالبان پر زمین تنگ کردی تھی۔ امریکا اور اس کے اتحادیوں نے چن چن کر طالبان کو مارا۔ امریکا نے پاکستان میں افغانستان کے سفیر ملا ضعیف تک کو نہ بخشا۔ جنرل پرویز مشرف نے ملا ضعیف کو امریکا کے حوالے کردیا۔ امریکا نے ملا ضعیف کو ننگا کرکے ان پر تشدد کیا، حالاں کہ ملا ضعیف کو سفارتی قوانین کے تحت گرفتاری اور تشدد سے استثنا حاصل تھا۔ لیکن امریکا اور اس کے اتحادی تشدد سے کیسے باز رہتے۔ تشدد ان کی رگوں میں خون بن کر دوڑ رہا تھا۔ خون آشامی امریکیوں کی فطرت ہے۔ امریکا کے سفید فاموں نے امریکا فتح کیا تو انہوں نے 8 سے 10 کروڑ ریڈ انڈینز کو مار ڈالا۔ امریکیوں نے کوریا کی جنگ میں 30 لاکھ انسانوں کو ہلاک کیا۔ امریکا نے ویت نام میں 10 لاکھ لوگوں کو مارا۔ دوسری جنگ عظیم میں امریکا نے جاپان کو عسکری شکست سے دوچار کردیا تھا اور جاپانی فوجیں امریکا کے آگے ہتھیار ڈالنے ہی والی تھیں۔ امریکیوں نے اس سلسلے میں جاپانیوں کے خفیہ پیغامات کو پڑھ لیا تھا مگر اس کے باوجود امریکا نے جاپان کے خلاف دو ایٹم بم استعمال کیے اور ایک لاکھ سے زیادہ لوگوں کو زندہ جلادیا۔ لاکھوں کو زندہ درگور کردیا۔ امریکا چاہتا تو مفتوحہ جاپانیوں کے لیے عام معافی کا اعلان کرسکتا تھا مگر معافی کا لفظ امریکا کی لغت میں موجود ہی نہیں۔ لیکن طالبان نے اسلام کی روح کے عین مطابق کابل پر کنٹرول حاصل کرتے ہی امریکا اور اس کے ایجنٹوں کے لیے عام معافی کا اعلان کردیا۔ بلاشبہ اسلام معافی اور درگزر کا مذہب ہے۔ سلطان صلاح الدین ایوبی نے جب بیت المقدس کو فتح کیا اس وقت ایک لاکھ صلیبی بیت المقدس میں موجود تھے۔ یہ وہ صلیبی تھے جو ڈیڑھ صدی قبل بیت المقدس کو فتح کرنے کے بعد ایک لاکھ سے زیادہ مسلمانوں کا قتل عام کرچکے تھے۔ مسلمانوں کے لیے یہ حساب برابر کرنے کا اچھا موقع تھا مگر سلطان صلاح الدین ایوبی پر بھی فتح مکہ کی بے مثال اور لازوال روایت کا سایہ تھا۔ چناں چہ سلطان صلاح الدین نے عیسائیوں کو معاف کردیا۔ اب مسلم دنیا نے طالبان کے ذریعے اس روایت کو زندہ ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔
طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کابل میں نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ایک اور بڑا اعلان کیا۔ انہوں نے کہا کہ طالبان کی حکومت میں تمام جماعتوں یا گروہوں کی نمائندگی ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں مشاورت کا عمل جاری ہے۔ عصری دنیا کی سیاسی تاریخ یہ ہے کہ حکومت ہمیشہ صرف غالب فرد، جماعت یا طبقے کی ہوتی ہے۔ امریکا میں ابھی کچھ عرصے پہلے تک ری پبلکن پارٹی کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت تھی۔ اب امریکا میں ڈیموکریٹک پارٹی کے صدر جو بائیڈن کی حکومت ہے۔ بھارت میں بی جے پی اور مودی کی حکومت ہے۔ پاکستان میں پی ٹی آئی اور عمران خان کی حکومت ہے۔ اس سے پہلے پاکستان میں مسلم لیگ (ن) اور میاں نواز شریف کی حکومت تھی۔ ایک زمانہ تھا کہ پاکستان پر جنرل مشرف یا فوج کی حکومت تھی مگر ساری دنیا طالبان سے کہہ رہی ہے کہ وسیع البنیاد حکومت قائم کرو حالاں کہ افغانستان کی غالب قوت صرف طالبان ہیں اور افغانستان میں صرف طالبان کی حکومت ہونی چاہیے۔ تاہم طالبان بین الاقوامی برادری کو مطمئن کرنے کے لیے وسیع البنیاد حکومت کے قیام پر آمادہ ہوگئے ہیں۔ تجزیہ کیا جائے تو یہ کشادہ دلی کی ایک بہت ہی بڑی مثال ہے اور اس مثال سے ثابت ہو رہا ہے کہ طالبان ہر قیمت پر عصری دنیا کا حصہ بن کر رہنا چاہتے ہیں اور اس سلسلے میں وہ کوئی بھی قیمت ادا کرنے پر آمادہ ہیں۔ افسوس کہ اس کے باوجود دنیا بالخصوص مغربی دنیا طالبان کو تنقیدی نظروں سے دیکھ رہی ہے۔ وہ طالبان کے بارے میں طرح طرح کے اندیشوں کا اظہار کررہی ہے۔ ان کے بارے میں طرح طرح کے وسوسوں کو آگے بڑھا رہی ہے اور ان کے امیج کو تباہ کرنے کے لیے کوشاں ہے۔
طالبان یہ سب سے زیادہ شدید تنقید خواتین کے حوالے سے ہوتی رہی ہے۔ طالبان پر الزام ہے کہ وہ خواتین کو گھروں میں بند رکھنا چاہتے ہیں۔ انہیں دوسرے بلکہ تیسرے درجے کا شہری بنانے پر تلے رہتے ہیں۔ وہ خواتین کو تعلیم حاصل کرنے کا حق دینے پر بھی آمادہ نہیں ہیں۔ تاہم طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہدین نے کابل میں نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ خواتین شریعت اور افغان اقدار کے مطابق ہر شعبے میں کام کرسکیں گی۔ مغربی ذرائع ابلاغ میں پروپیگنڈا ہورہا ہے کہ طالبان خواتین کو برقع اڑھائیں گے مگر طالبان نے واضح کیا ہے کہ حجاب کی کوئی ایک صورت نہیں ہے۔ حجاب کی کئی صورتیں ہیں اور خواتین حجاب کی جو صورت اختیار کریں گی وہ طالبان کے لیے قابل قبول ہوگی۔ خواتین کی تعلیم کے بارے میں طالبان نے واضح کیا ہے کہ وہ خواتین کو یونیورسٹی کی سطح تک تعلیم حاصل کرتے دیکھنا چاہتے ہیں۔ طالبان کے ان اعلانات نے خواتین کے سلسلے میں مغربی پروپیگنڈے کی حقیقت کو عیاں کردیا ہے۔ طالبان کے اعلانات سے ثابت ہے کہ طالبان خواتین کی تعلیم اور ان کے روزگار کے ہرگز خلاف نہیں ہیں۔ وہ خواتین کو صرف اسکول، مدرسے یا کالج کی سطح تک تعلیم حاصل کرتے نہیں دیکھنا چاہتے بلکہ وہ خواتین کو اعلیٰ تعلیم کے مراکز میں دیکھنے کے خواہش مند ہیں۔ ظاہر ہے کہ خواتین اعلیٰ تعلیم حاصل کریں گی تو وہ ملازمتیں بھی کریں گی۔ طالبان کو خواتین کی ملازمتوں پر بھی کوئی اعتراض نہیں البتہ وہ خواتین کی تعلیم اور ملازمت کے سلسلے میں شریعت پر عمل ہوتے دیکھنا چاہتے ہیں۔ یہ ایسی بات ہے کہ جس پر دنیا کے کسی صاحب ایمان فرد کو اعتراض نہیں ہوسکتا۔ طالبان نے پردے کے سلسلے میں بھی اپنے موقف کو کھول کر بیان کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ صرف برقعے کو پردہ نہیں سمجھتے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ طالبان اسکارف کو بھی قبول کرسکتے ہیں۔ اور شاید بڑی چادر بھی ان کے لیے قابل قبول ہوگی۔ طالبان کے خیالات اس امر کا اظہار ہیں کہ طالبان کے تناظر میں بڑی وسعت پیدا ہوئی ہے اور انہوں نے پردے کی ’’صورت‘‘ پر اصرار کرنے کے بجائے اس کی ’’روح‘‘ پر اصرار شروع کردیا ہے۔ یہ ایسی بات ہے جس کا پوری امت مسلمہ کی جانب سے خیر مقدم کیا جانا چاہیے۔
یہ زیادہ پرانی بات نہیں ہے۔ ابھی تین ہفتے قبل کہا جارہا تھا کہ اگر طالبان نے کابل فتح کرلیا تو افغانستان کا پورا میڈیا اپنی موت آپ مر جائے گا۔ طالبان نہ ٹی وی اسکرین پر خواتین کو آنے دیں گے نہ وہ اپنے اوپر کوئی تنقید برداشت کریں گے۔ مگر طالبان نے ان اندیشوں کو بھی غلط ثابت کردیا ہے۔ خواتین اینکرز نہ صرف یہ کہ مناسب لباس کے ساتھ ٹی وی اسکرین پر نظر آرہی ہیں بلکہ وہ طالبان کے رہنمائوں سے انٹرویوز بھی کر رہی ہیں اور طالبان نے صاف کہہ دیا ہے کہ اگر میڈیا ان پر تنقید کرے گا تو وہ اس تنقید کو قبول کریں گے۔
تاہم یہاں بھی انہوں نے واضح کیا ہے کہ میڈیا کو بھی شریعت کے اصولوں اور اسلام کی اخلاقی اقدار کا خیال رکھنا پڑے گا۔ طالبان کا یہ موقف بھی بہترین اور اسلامی معاشرے میں ذرائع ابلاغ کی آزادی کے تصور سے پوری طرح ہم آہنگ ہے۔ اسلام میں مادر پدر آزادی کا کوئی تصور نہیں اسلام میإ آزادی ’’ذمے داری‘‘ کے ساتھ مشروط ہے۔ آزاد اخبار اور آزاد ٹی وی وہی ہے جو ذمے دار بھی ہو۔ طالبان بھی ذرائع ابلاغ سے یہی مطالبہ کررہے ہیں کہ انہیں اسلامی معاشرے کے سلسلے میں اپنی ذمے داری کا احساس ہونا چاہیے۔ یہ بات اس لیے اہم ہے کہ اکثر اسلامی معاشروں میں ذرائع ابلاغ ذمے دار نہیں ہیں۔ پاکستان ایک اسلامی جمہوریہ ہے مگر ہمارے ذرائع ابلاغ اسلامی اقدار کی دھجیاں اڑاتے نظر آتے ہیں۔ ہمارے ذرائع ابلاغ بالخصوص ٹی وی چینلز میں عورت کو جنس کی علامت کے طور پر پیش کرنے کا رجحان عام ہے۔ بدقسمتی سے پاکستانی معاشرہ اس صورت حال پر احتجاج کرتا نظر نہیں آرہا۔ چناں چہ معاشرے میں خواتین کی بے حرمتی اور تذلیل کے واقعات بڑھتے جارہے ہیں۔
طالبان نے بین الاقوامی برادری سے یہ وعدہ بھی کیا ہے کہ وہ افغانستان کو منشیات سے پاک کردیں گے۔ طالبان نے 2001ء میں بھی افغانستان کو منشیات سے پاک کردیا تھا مگر امریکا کی آمد کے بعد افغانستان ایک بار پھر منشیات پیدا کرنے والا ملک بن کر سامنے آیا۔ خدا کا شکر ہے کہ طالبان نے ایک بار پھر افغانستان کو منشیات سے پاک کرنے کا عزم کیا ہے۔ یہ حقائق بتارہے ہیں کہ طالبان نے بہترین انداز میں اپنے سیاسی سفر کا آغاز کیا ہے۔

Leave a Reply