سیاست اور اخلاقیات

ایک زمانہ تھا کہ سیاست کا تصور اخلاقیات کے بغیر کیا ہی نہیں جاسکتا تھا۔ یہ وہ عہد تھا جب سیاست مذہب کا حصہ تھی۔ امام غزالی نے احیاء العلوم میں صاف لکھا ہے کہ سیاست مذہب کا جزو لاینفک ہے یعنی سیاست کو مذہب سے جدا نہیں کیا جاسکتا۔ ابن خلدون نے اپنے مقدمے میں واضح کیا ہے کہ سیاست مذہب کے تابع اور اس کے مقاصد کے حصول کا ذریعہ ہے۔ الماوردی نے بھی اپنی تحریروں میں یہی لکھا ہے۔ عہد حاضر میں اقبال مذہب اور سیاست کی یکجائی کے پرجوش حامی تھے۔ ان کا مشہور زمانہ شعر ہے۔
جلال پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو
جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
مولانا مودودی کی پوری زندگی مذہب اور سیاست کی یکجائی پر کلام کرتے ہوئے اور اس کے لیے جدوجہد کرتے ہوئے گزر گئی مگر مغرب کے زیر اثر یہ خیال عام ہوچکا ہے کہ سیاست کا اخلاقیات سے کوئی تعلق نہیں۔ عصری سیاست میں جمہوریت ’’اکثریت کا کھیل‘‘ ہے۔ اس کھیل کا کوئی اخلاقی اصول نہیں بلکہ اصل بات تو یہ ہے کہ عہد حاضر کا مزاج سیاست کو اخلاقیات سے منسلک کرنے کے سخت خلاف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب سیاست دانوں اور حکمرانوں کی ’’اخلاقی ساکھ‘‘ کہیں زیر بحث ہی نہیں آتی لیکن مسئلہ یہ ہے کہ آپ اخلاقی ساکھ سے لاکھ بے نیاز ہوجائیں اخلاقی ساکھ سیاست میں اہمیت کی حامل ہے بلکہ کبھی کبھی اور کہیں کہیں تو یہ زندگی اور موت کا مسئلہ بن جاتی ہے۔
اس بات میں کوئی کلام ہی نہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو ایک بڑے سیاست دان تھے۔ انہوں نے مغرب کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کی تھی۔ وہ شعلہ بیان مقرر تھے۔ وہ کسی بھی مجمعے میں آگ لگا سکتے تھے۔ انہوں نے ’’اسلامی سوشلزم‘‘ ایجاد کیا تھا جس کی وجہ سے انہیں ’’نظریاتی سیاست دان‘‘ سمجھا جاتا تھا۔ وہ عالم عرب میں بھی مقبول تھے۔ انہوں نے ملک کو اسلامی آئین دیا۔ قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا۔ شراب پر پابندی لگائی۔ جمعے کی تعطیل متعارف کرائی۔ ان کا نعرہ روٹی، کپڑا اور مکان عوام میں مقبول تھا۔ اس نعرے کی مقبولیت ہندوستان تک پہنچی ہوئی تھی۔ چناں چہ منوج کمار نے ہندوستان میں روٹی، کپڑا اور مکان کے نام سے ایک فلم بنائی۔ بھٹو صاحب کہا کرتے تھے کہ میں عوام ہوں اور عوام بھٹو ہیں۔ جنرل ضیا الحق نے بھٹو کو گرفتار کرکے ان پر قتل کا مقدمہ چلایا تو بھٹو صاحب کہا کرتے تھے کہ مجھے کچھ ہوا تو ہمالہ روئے گا اور سندھ زیر و زبر ہوجائے گا۔ مگر جب جنرل ضیا الحق نے بھٹو کو پھانسی دی تو سندھ میں کچھ بھی نہ ہوا۔ چند مظاہرے ہوئے۔ ایک دو لوگوں نے خود سوزی کرلی اور ہمالے نے رونے سے صاف انکار کردیا۔ اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ بھٹو صاحب کی پھانسی المیہ نہیں تھی۔ بھٹو کی پھانسی المیہ تھی لیکن بھٹو صاحب کی کوئی اخلاقی ساکھ نہ تھی۔ لوگ انہیں ووٹ دے سکتے تھے، نوٹ دے سکتے تھے، ان کی تقریروں پر جھوم سکتے تھے، انہیں قائد عوام قرار دے سکتے تھے مگر لوگ ان کے لیے لاٹھیاں نہیں کھا سکتے تھے، جیل میں نہیں سڑ سکتے تھے، ان کے لیے جان نہیں دے سکتے تھے۔ بھٹو صاحب کی اخلاقی ساکھ ہوتی تو جنرل ضیا الحق انہیں پھانسی دینے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ البتہ بھٹو میں دو چیزیں تھیں، جرأت اور عزت نفس۔ چناں چہ انہوں نے جنرل ضیا الحق سے معافی بھی نہیں مانگی اور جیل سے فرار ہونے کے کسی منصوبے پر بھی عمل نہیں کیا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ پاکستان کی سیاست میں 1977ء سے اب تک زندہ ہیں۔ آصف علی زرداری پیپلز پارٹی کو کرپشن زدہ نہ کرتے تو بھٹو صاحب اور بھی زیادہ زندہ ہوتے۔ یعنی بھٹو زیادہ زندہ نہیں ہیں تو یہ بھی اخلاقی ساکھ کا مسئلہ ہے۔
میاں نواز شریف میں بھٹو کی خوبی کیا ان کا عیب بھی نہیں پایا جاتا۔ لیکن انہیں اسٹیبلشمنٹ نے بڑے چاو سے پال پوس کر بڑا کیا۔ انہیں پنجاب کا وزیر خزانہ بنایا، پنجاب کے وزیر اعلیٰ کے منصب پر فائز کیا، بالآخر انہیں وزیراعظم بنایا۔ میاں نواز شریف میں ہزار عیب ہیں مگر ایک خوبی بھی ہے۔ وہ پنجاب میں بے انتہا مقبول ہیں۔ پنجاب کے لوگ ہر قیمت پر میاں صاحب کا دفاع کرتے ہیں۔ کوئی انہیں بتائے کہ میاں صاحب کرپٹ ہیں تو اوّل تو وہ انہیں کرپٹ مانتے ہی نہیں، مان بھی لیں تو فرماتے ہیں وہ کھاتا ہے تو لگاتا بھی ہے۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اہل پنجاب میاں صاحب کو کتنا ’’چاہتے‘‘ ہیں۔ لیکن یہ ’’چاہت‘‘ کسی بھی بحران میں بھی میاں صاحب کے کام نہیں آئی۔ جنرل پرویز مشرف نے میاں نواز شریف کو برطرف کیا تو میاں صاحب کے پاس قومی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت تھی مگر میاں صاحب کی گرفتاری کے بعد کہیں پچاس لوگ بھی احتجاج کے لیے باہر نہ نکلے۔ لاہور میاں صاحب کا گڑھ تھا مگر لاہور میں سناٹے کا راج تھا۔ میاں صاحب کی گرفتاری کے دس بارہ روز بعد کراچی میں ایک ڈیڑھ درجن لوگ مشاہد اللہ کی قیادت میں ریگل چوک پر ضرور جمع ہوئے مگر انہیں پولیس کی دو وینوں میں بھر کر جیل پہنچادیا گیا۔ اللہ اللہ خیر صلا۔ کہاں میاں صاحب کی دو تہائی اکثریت اور کہاں ڈیڑھ درجن افراد کا مظاہرہ۔ میاں نواز شریف میں شرم ہوتی تو چلو بھر پانی میں ڈوب مرتے۔ یہی میاں صاحب کی وطن واپسی پر ہوا۔ ان کا خیال تھا کہ وہ لاہور میں لینڈ کریں گے تو لاکھوں لوگ ان کے استقبال کے لیے موجود ہوں گے مگر کوئی اور کیا میاں شہباز شریف اور نواز لیگ کے مرکزی رہنما بھی ہوائی اڈے نہ پہنچ سکے۔ اس لیے کہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ طے ہی یہ ہوا تھا۔ میاں صاحب نے ’’مجھے کیوں نکالا؟‘‘ کے عنوان کے مشہور زمانہ مہم بھی چلائی مگر کچھ بھی نہ ہوسکا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ میاں نواز شریف کی کوئی اخلاقی ساکھ ہی نہیں ہے۔ لوگ انہیں ووٹ دے سکتے ہیں۔ نوٹ دے سکتے ہیں۔ میاں صاحب زندہ باد کے نعرے لگا سکتے ہیں مگر ان کے لیے پولیس سے ڈنڈے نہیں کھا سکے۔ جیل نہیں جاسکتے اور مرنے کے لیے تو ہرگز ہرگز تیار نہیں ہوسکتے۔
الطاف حسین کو کراچی اور حیدر آباد میں پوجا گیا ہے۔ کراچی اور حیدر آباد کے لوگوں کی بڑی تعداد الطاف حسین اور ان کی ایم کیو ایم کو ووٹ دینا سیاسی فریضہ نہیں ’’مقدس کام‘‘ سمجھتی تھی۔ الطاف حسین کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ لوگ ان کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے بیتاب رہتے تھے۔ وہ لاکھوں کے مجمعے سے خطاب کرتے تھے۔ مجمعے میں ذرا سا شور برپا ہوتا تھا اور الطاف حسین ایک دو تین کہتے تھے اور مجمعے پر سناٹا طاری ہوجاتا تھا۔ الطاف حسین اپنے سیاسی حریفوں پر طنز کرتے ہوئے کہا کرتے تھے کہ یہ لوگ جلسہ کرتے ہیں اور بات کارنر میٹنگ سے آگے نہیں بڑھ پاتی ایم کیو ایم کارنر میٹنگ کرتی ہے اور وہ جلسہ بن جاتی ہے۔ الطاف حسین کی یہ بات غلط نہیں تھی۔ حقیقت یہی تھی۔ چناں چہ جب کراچی اور حیدر آباد میں ایم کیو ایم کے خلاف پہلا فوجی آپریشن شروع ہوا تو الطاف حسین کو توقع تھی کہ اس آپریشن کی عوامی مزاحمت ہوگی۔ وہ لندن سے ہر پانچ منٹ کے بعد فون کرکے کراچی کی صورتِ حال معلوم کررہے تھے۔ انہیں ہر بار بتایا جارہا تھا کہ شہر میں کہیں عوامی مزاحمت کے آثار نہیں ہیں۔ البتہ نائن زیرو پر چار پانچ ہزار لوگ جمع ہوگئے تھے جو فوج کے آتے ہی اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے۔ الطاف حسین کی سیاست پر پابندی لگی تو بھی اس پر کوئی عوامی احتجاج نہ ہوا۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ لوگ الطاف حسین کو ووٹ دے سکتے تھے، نوٹ دے سکتے تھے مگر ان کے لیے گلیوں اور شاہراہوں میں نکل کر مار نہیں کھا سکتے تھے۔ ان کے لیے جیل نہیں کاٹ سکتے تھے اور ان کے لیے جان تو ہرگز نہیں دے سکتے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ الطاف حسین کے پاس بھی اخلاقی ساکھ نہیں تھی۔
ان مثالوں کے برعکس ایک مثال مولانا مودودی کی ہے۔ مولانا مودودی 1952ء میں مولانا مودودی نہیں بنے تھے۔ ان کی ملکی اور بین الاقوامی ساکھ وہ نہیں تھی جو 1970ء کی دہائی میں تھی۔ جماعت اسلامی بھی 1952ء میں ایک چھوٹی سی جماعت تھی۔ اس کی کوئی عوامی ساکھ نہیں تھی۔ 1952ء میں مولانا نے مسئلہ قادیانی کے عنوان سے ایک پمفلٹ تحریر فرمایا۔ پمفلٹ کی بنیاد پر مولانا کو گرفتار کرلیا گیا اور فوجی عدالت نے مولانا کو پھانسی کی سزا سنادی۔ مولانا سے جیل میں کہا گیا کہ آپ معافی مانگ لیں تو آپ کی سزا معاف کی جاسکتی ہے مگر مولانا نے فرمایا جب میں نے کوئی جرم نہیں کیا تو معافی کس بات پر مانگوں۔ مولانا کے سامنے یقینی موت کھڑی تھی مگر مولانا نے جھکنے سے انکار کردیا اس لیے کہ مولانا کی روحانیت اور اخلاقیات دونوں قوی تھیں۔ چناں چہ بالآخر حکمران مولانا کو رہا کرنے پر مجبور ہوگئے اور یقینی موت کا خطرہ ٹل گیا۔
رجب طیب اردوان کے خلاف فوجی بغاوت کل کی بات ہے۔ ترکی میں آدھی رات ہوچکی تھی کہ امریکا کے اشارے پر فوج اردوان کے خلاف متحرک ہوگئی مگر اردوان کو عوام سے رابطے کا موقع مل گیا۔
انہوں نے لوگوں سے کہا کہ وہ گھروں سے نکلیں اور فوجی بغاوت کی مزاحمت کریں۔ چناں چہ ہزاروں لوگ گھروں سے نکل آئے۔ وہ فوجی گاڑیوں اور ٹینکوں کے سامنے لیٹ گئے۔ انہوں نے فوجیوں کو پکڑ پکڑ کر زدوکوب کرنا شروع کردیا اور دیکھتے ہی دیکھتے منظر تبدیل ہوگیا۔ اردوان میاں نواز شریف اور الطاف حسین کی طرح مقبول نہیں تھے مگر ان کی ایک اخلاقی ساکھ تھی۔ لوگ ان کے لیے فوج کے ڈنڈے ہی نہیں گولیاں بھی کھا سکتے تھے۔ چناں چہ دیکھتے ہی دیکھتے منظرنامہ تبدیل ہوگیا۔ ایران میں بادشاہت دو ہزار سال قدیم تھی۔ رضا شاہ پہلوی خطے میں سی آئی اے کا سب سے بڑا نمائندہ تھا۔ خمینی ملک میں موجود نہ تھا مگر اس کی ایک اخلاقی ساکھ تھی۔ چناں چہ خمینی کی اپیل پر لاکھوں لوگ شاہ اور اس کی ریاستی طاقت کی مزاحمت پر آمادہ ہوگئے۔ خمینی کی اخلاقی ساکھ نہ ہوتی تو اس کا انقلاب اپنی موت آپ مرجاتا۔

Leave a Reply