سیکولر اور باغیانہ ادب؟۔

جدیدیت اور سیکولرازم خدا سے غفلت کی بہت ہی بڑی مثالیں ہیں، چناں چہ ان کے خلاف باغیانہ تحریریں عہدِ حاضر کا سب سے بڑا باغیانہ ادب ہیں

ناصر عباس نیّر ’’جدیدیت پسند‘‘ ادبی نقاد ہیں۔ وہ کئی کتب کے مصنف ہونے کے علاوہ افسانہ نگار بھی ہیں۔ ان کے مضامین انگریزی اخبارات میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔ ان کا ایک مضمون چند روز پیشتر ’’دی نیوز‘‘ میں شائع ہوا ہے۔ اس مضمون میں ناصر عباس نیّر نے کئی ایسی باتیں کہی ہیں جو صرف ’’جدیدیت زدہ‘‘ شخص ہی کہہ سکتا ہے۔ انہوں نے ایک ہولناک بات یہ کہی ہے کہ آرٹ اور ادب روایتی طور پر ’’سیکولر‘‘ ہوتا ہے۔ اس سے پہلے وہ اپنے ایک مضمون میں کہہ چکے ہیں کہ انسانی زبان اپنی نہاد میں سیکولر ہوتی ہے، مگر اِس بار انہوں نے پورے ادب کو سیکولر بناکر کھڑا کردیا ہے۔
ہمارے ایک دوست نے ہم سے ایک دن کہا کہ وہ خود کو دنیا کا سب سے بڑا شاعر سمجھتے ہیں۔ ہم نے کہا: آپ کچھ بھی سمجھنے میں پوری طرح آزاد ہیں، مگر دنیا صرف دعوے کو نہیں مانتی، وہ دعوے کا ثبوت بھی مانگتی ہے۔ یہی قصہ ناصر عباس نیّر کے دعوے کا ہے۔ انہوں نے کہہ تو دیا کہ ادب ’’سیکولر‘‘ ہوتا ہے، مگر اپنے دعوے کے سلسلے میں انہوں نے دلیل ایک بھی نہیں دی۔
انسانی ذہن کی ساخت ایسی ہے کہ وہ عقیدے کے بغیر زندہ رہ سکتا ہے نہ کام کرسکتا ہے۔ عقیدہ صرف خدا کو ماننا نہیں ہے۔ کفر بھی ایک عقیدہ ہے۔ شرک بھی ایک عقیدہ ہے۔ کمیونزم بھی ایک عقیدہ تھا۔ سیکولرازم بھی ایک عقیدہ ہے۔ لبرل ازم بھی ایک عقیدہ ہے۔ اس لیے ہر ادب کسی نہ کسی عقیدے کا اظہار ہوتا ہے۔ چناں چہ ہر ادب اپنی اصل میں ’’مذہبی‘‘ ہوتا ہے۔ آپ کہیں گے بھلا کمیونزم کو کیسے عقیدہ کہا جاسکتا ہے؟ آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ کارل مارکس کمیونزم کا ’’پیغمبر‘‘ تھا۔ اُس کی کتاب ’’داس کیپیتال‘‘ کمیونزم کی ’’آسمانی کتاب‘‘ تھی۔ ’’جدلیاتی مادیت‘‘ کا تصور کمیونزم کا اصولِ توحید تھا، کیوں کہ وہ اس تصور کے ذریعے پوری تاریخ کیا پوری زندگی کی تشریح و تعبیر کا کام لیتے تھے۔ کمیونسٹ معاشرہ یا کمیونسٹ ریاست کمیونزم کی ’’جنت‘‘ تھی۔ کمیونسٹ خدا، رسول اور قرآن پر شک کرسکتے تھے مگر وہ مارکس، داس کیپیتال اور جدلیاتی مادیت کے تصور پر شک نہیں کرتے تھے۔ ان کو اپنے تصورات سے ویسی ہی عقیدت تھی جیسے کہ ایک مذہبی انسان کو اپنے ’’عقاید‘‘ سے ہوتی ہے۔ اس لیے مارکسزم ’’خلافِ مذہب‘‘ ہوکر بھی خود ایک ’’مذہب‘‘ تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ باطل ہمیشہ ’’حق‘‘ کی ’’نقل‘‘ کرتا ہے۔ اس نقل کے ذریعے وہ خود کو قابلِ اعتبار بناتا ہے۔ یہاں ہمیں آلڈس ہکسلے (Aldous Huxley) کی ایک بات یاد آرہی ہے۔ ہکسلے نے کہا ہے کہ انسان مابعد الطبیعات یا غیر مابعدالطبیعات میں سے کسی ایک کا انتخاب نہیں کرتا، بلکہ وہ ہمیشہ اچھی مابعد الطبیعات یا بری مابعد الطبیعات میں سے کسی ایک کا انتخاب کرتا ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو انسان کا ہر خیال اور ہر تجربہ اپنی اصل میں روحانی یا مذہبی ہوتا ہے، یہ اور بات کہ ناصر عباس نیّرکیا، بڑے بڑوں کو اس بات کا شعور نہیں ہوتا۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو ہر ادب اپنی اصل میں مذہبی ہوتا ہے۔ فرق یہ ہے کہ کچھ ادب پارے یہ بتاتے ہیں کہ وہ مذہب سے کتنے قریب ہیں، اور کچھ ادب پارے یہ بتاتے ہیں کہ وہ مذہب سے کتنے دور ہیں۔ آلڈس ہکسلے کی بات سے ہمیں چین کے انقلابی رہنما مائوزے تنگ کا ایک فقرہ یاد آگیا۔ مائو نے کہا تھا: ہر ادب پروپیگنڈا ہوتا ہے البتہ ہر پروپیگنڈا ادب نہیں ہوتا۔ مائو کی بات پر غور کیا جائے تو مائو کہہ رہے ہیں کہ ہر ادب پارے کا ایک نظریہ ہوتا ہے، یہ الگ بات کہ نظریے کا بیان ادب نہ بن سکے۔ اب اگر ہر ادب پروپیگنڈا یا نظریہ ہوتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اسلامی ادب کہلانے والا ادب بھی ایک نظریے کا اظہار ہے اور سیکولر ادب بھی ایک نظریے کا اظہار ہے۔ ان میں ’’معنی کا فرق‘‘ تو ہے، ’’نوعیت‘‘ کا کوئی فرق نہیں۔ چناں چہ ناصر عباس نیّر نے سیکولر ادب کو ’’ادب‘‘ اور مذہبی یا نظریاتی ادب کو ’’غیر ادب‘‘ قرار دے کر انصاف کا ثبوت نہیں دیا۔

بعض لوگ اپنی کم علمی اور کم فہمی کی وجہ سے عشقیہ شاعری کو ’’غیر مذہبی شاعری‘‘ سمجھتے ہیں۔ حالاں کہ مسلمانوں کی شاعرانہ روایت میں ’’عشقِ حقیقی‘‘ اور ’’عشقِ مجازی‘‘ کی اصطلاحیں صدیوں سے مروج ہیں، اور ان اصطلاحوں کے معنی سے آگاہ لوگ جانتے ہیں کہ ’’مجاز‘‘ ہر صورت میں ’’حقیقت‘‘ کی وجہ سے مجاز ہے۔ کوئی حقیقت نہیں تو کوئی ’’مجاز‘‘ بھی نہیں۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو مجاز حقیقت کا عکس یا اُس کا سایہ ہے۔ قرآن مجید فرقانِ حمید نے مسلمانوں کو سکھایا ہے کہ تمام تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں۔ اگر ایسا ہے تو پھر مجاز کی تعریف بھی دراصل اللہ ہی کے لیے ہے اور مجاز کا بیان بھی ایک درجے میں روحانی جہت کا حامل ہے۔

جدید مغربی ادب کے بارے میں ایک بات یہ کہی گئی ہے کہ یہ ادب جہنم کے تجربے کا بیان ہے۔ مذہبی اعتبار سے دیکھا جائے تو جنت اور جہنم کی اصطلاحیں بھی اپنی اصل میں مذہبی ہیں۔ جنت اصل میں قربِ الٰہی کی علامت ہے اور جہنم خدا سے دوری کا استعارہ ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو تمام جدید مغربی ادب یہ بتارہا ہے کہ وہ خدا سے کتنا دور ہے۔ ہماری شاعری میں ’’وصال‘‘ اور ’’ہجر‘‘ کے تصورات موجود ہیں۔ وصال عاشق اور محبوب کے ایک ہوجانے کا بیان ہے، اور ہجر محبوب سے دوری کو ظاہر کرتا ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو وصال جنتِ ارضی کے ایک تجربے کا بیان ہے اور ہجر جہنمِ ارضی کے ایک تجربے کا بیان ہے۔ اس اعتبار سے جائزہ لیا جائے تو وصال اور ہجر کی اصطلاحیں بھی روحانی جہت کی حامل نظر آنے لگتی ہیں۔
ناصر عباس نیّرکو ’’باغیانہ ادب‘‘ اور ’’باغی‘‘ شاعر اور ادیب بھی بہت پسند ہیں۔ چناں چہ انہوں نے اپنے مضمون میں فیض، جالب، فہمیدہ ریاض، کشور ناہید اور منٹو کی تعریف کی ہے اور کہا ہے کہ اس کے برعکس اشفاق احمد، بانو قدسیہ ، عمیرہ احمد اور نمرہ احمد وغیرہ اپنے معاشرے کے غالب بیانیے کو پوجنے والے یا confirmist ہیں۔ ناصر عباس نیّر نے سوال اُٹھایا ہے کہ آخر ہم غالب (مذہبی اور اقداری) بیانیے کی مزاحمت کیوں نہیں کرتے، اور کیا ادب مزاحمت کے بغیر ادب کہلانے کا مستحق ہے؟ (دی نیوز، 9 فروری 2020ء)
ہمارے جدیدیت پسند اور سیکولر ادیب ’’بغاوت‘‘ کو بہت پسند کرتے ہیں، مگر صرف اُسی بغاوت کو جو اسلام، اسلامی تہذیب، اسلامی تاریخ، اسلامی اقدار، اسلامی روایات اور اسلامی تجربے کے خلاف ہو۔ لیکن انہیں کمیونزم، سوشلزم، سیکولرازم، لبرل ازم اور جدیدیت کے خلاف بغاوت پسند نہیں۔ حالاں کہ انصاف اور ایمانداری کا تقاضا یہ ہے کہ آپ اگر ’’بغاوت پسند‘‘ ہیں تو پھر ہر بغاوت کو پسند کریں۔ غور کیا جائے تو اسلام سے بڑا انقلابی یا ناصر عباس نیّرکی اصلاح میں باغیانہ فلسفہ کوئی ہے ہی نہیں۔ اسلام کفر کے خلاف بغاوت ہے۔ شرک کے خلاف بغاوت ہے۔ جہالت کے خلاف بغاوت ہے۔ گمراہی کے خلاف بغاوت ہے۔ ضلالت کے خلاف بغاوت ہے۔ شیطان کے خلاف بغاوت ہے۔ نفسِ امارہ کے خلاف بغاوت ہے۔ سرمائے کی خدائی کے خلاف بغاوت ہے۔ اَنا کی بادشاہت کے خلاف بغاوت ہے۔ ظلم کے خلاف بغاوت ہے۔ جبر کے خلاف بغاوت ہے۔ خدا کی غلامی کے سوا ہر غلامی کے خلاف بغاوت ہے۔ چناں چہ جتنا انقلابی یا باغیانہ ادب اسلام پیدا کرسکتا ہے کوئی اور فلسفہ اس کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ اس لیے ناصر عباس نیّر کو ادب کے حوالے سے صرف اسلام کی حمایت اور سرپرستی کرنی چاہیے۔ اسلام کے انقلابی یا باغیانہ مزاج کی بات مذاق کی بات مذاق نہیں۔ دنیا کے سب سے بڑے شاعر مولانا روم کے دو شعر ملاحظہ کیجیے: ۔

اہلِ دُنیا کافرانِ مطلق اند
روز و شب در زق زق و دربق بق اند
اہل دنیا چہ کہین وچہ مہین
لعنت اللہِ الیھم اجمعین

ترجمہ: اہلِ دنیا مطلق کافر ہیں۔ وہ روز و شب بکواس کرتے ہیں اور ایک دردِ سر ہیں۔ اہلِ دنیا بڑے ہوں یا چھوٹے، ان سب پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو۔
ناصر عباس نیّرسے عرض ہے کہ یہ ہوتی ہے اصل ’’انقلابی‘‘ یا ’’باغیانہ‘‘ شاعری۔ مولانا نے دوشعروں میں دنیا اور اہلِ دنیا کو زیر و زبر کرکے رکھ دیا۔ اس میں چھوٹے اور بڑے نمرودوں کا حساب بھی برابر ہوگیا اور چھوٹے اور بڑے فرعون بھی ٹھکانے لگ گئے۔ دنیا بیوی بچوں کی نگہداشت یا اُن کے لیے رزق کمانے کا نام نہیں۔ مولانا کے یہاں ہر وہ چیز دنیا ہے جو انسان کو خدا سے غافل کردے۔ جدیدیت اور سیکولرازم خدا سے غفلت کی بہت ہی بڑی مثالیں ہیں، چناں چہ ان کے خلاف باغیانہ تحریریں عہدِ حاضر کا سب سے بڑا باغیانہ ادب ہیں۔ مگر ہم نے آج تک ناصر عباس نیّر یا کسی جدیدیے کو ان باغیانہ تحریروں کی تعریف کرتے نہیں دیکھا۔ ٹھیریے، اقبال یاد آگئے، انہوں نے فرمایا ہے:و

تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی
جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہوگا

مزید فرمایا:۔

دانش حاضر حجاب اکبر است
بت پرست و بت فروش و بت گر است

اس کو کہتے ہیں اصل انقلابی یا اصل باغیانہ شاعری۔ یہ ہے ’’غالب بیانیے‘‘ کا ’’انکار‘‘۔ مگر ’’جدیدیے‘‘ اس بیانیے کو ’’قدامت پسندی‘‘ کہتے ہیں۔ ہمارے جدیدیوں، سیکرلسٹوں اور سابق کمیونسٹوں کا یہ عالم ہے کہ وہ پاکستان میں جنرل ضیا الحق کی آمریت کو تو گالیاں دیتے ہیں مگر جنرل ایوب اور جنرل پرویز کی آمریت کو سراہتے ہیں۔ اس لیے کہ جنرل ضیا اسلام پسند تھے اور جنرل ایوب اور جنرل پرویز سیکولر اور لبرل۔ واہ کیا ’’باغیانہ روش‘‘ ہے؟ ناصر عباس نیّر نے فیض کا ذکر بھی خوب کیا ہے۔ موصوف ویت نام پر امریکی مظالم کی تو مذمت فرماتے تھے مگر افغانستان میں سوویت یونین کے مظالم انہیں کبھی نظر ہی نہ آسکے۔ جب کمیونسٹوں کے پیغمبر کے ’’انصاف‘‘ کا یہ عالم ہے تو اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ’’چھٹ بھیّوں‘‘ کے انصاف کا کیا عالم ہوگا۔
ناصر عباس نیّرنے لکھا ہے کہ بانو قدسیہ اور عمیرہ احمد پہلے اپنے ناولوں کے ہیرو کو گناہوں میں لتھڑا ہوا اور دنیاوی زندگی کے مزے لوٹتے ہوئے دکھاتی ہیں، پھر ان میں ’’احساسِ جرم‘‘ پیدا کرکے انہیں آخر میں ’’اچھا مسلمان‘‘ بنتے ہوئے دکھا دیتی ہیں۔ ناصر عباس نیّرکو یہ طریقہ غیر ادبی بھی لگتا ہے اور غیر منطقی بھی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ناصر عباس نیّر اسلامی معاشرے کی روح ہی کو نہیں سمجھتے۔ جب مسلمان ’’بگڑتا‘‘ ہے تو وہ ایک مصنوعی شخصیت کو اوڑھ لیتا ہے، مگر اس کی داخلی کشمکش بالآخر اسے اپنی اصل شخصیت سے جوڑ دیتی ہے۔ اس میں غیر ادبی اور غیر منطقی کیا ہے؟ آخر ہمارے جدیدیوں کو اسلام سے انحراف ہی میں کیوں ’’ادبیت‘‘ اور ’’منطق‘‘ نظر آتی ہے؟

Leave a Reply