کیا پاک بھارت تعلقات کی خرابی کا ذمے دار پاکستان ہے؟

پاکستان کے سیکولر، لبرل اور سوشلسٹ دانش وروں اور صحافیوں نے گزشتہ پچاس سال یہ کہتے ہوئے گزارے ہیں کہ پاک بھارت تعلقات خرابی کے ذمے دار پاکستان کے حکمران اور ملک کے مذہبی طبقات ہیں۔ ان عناصر کے نزدیک یہ پاکستان کے حکمران تھے جنہوں نے 1965ء اور 1971ء کی جنگیں شروع کیں۔ یہ پاکستان کے حکمران تھے جنہوں نے کشمیر میں جہاد شروع کرکے پاک بھارت کشیدگی کو ہوا دی۔ ملک کے معروف کالم نویس جاوید چودھری نہ سیکولر ہیں، نہ لبرل ہیں، نہ سوشلسٹ ہیں مگر پاک بھارت تعلقات کے حوالے سے وہ بھی اکثر سیکولر، لبرل اور سوشلسٹ عناصر کی زبان بولتے نظر آتے ہیں۔ ذرا ان کے ایک حالیہ کالم کا یہ اقتباس تو ملاحظہ کیجیے۔ لکھتے ہیں۔
’’ہمیں یہاں رُک کر چیزوں کا ایک بار پھر جائزہ لیناہوگا، ہمیں دیکھنا ہوگا آخر ایشو کیا ہے اور ہم یہ ایشو حل کیسے کرسکتے ہیں؟ ہمارے اس وقت تین بڑے ایشوز ہیں، پہلا ایشو بھارت ہے، ہم انڈیا سے 75 برسوں سے لڑ رہے ہیں، ہزاروں لوگ اب تک اس لڑائی میں جان دے چکے ہیں، ہم تین یا چار جنگیں بھی لڑ چکے ہیں لیکن کشمیر کا ایشو آج بھی وہیں کھڑا ہے جہاں یہ 1947ء میں تھا اور یہ حقیقت ہے پاکستان اور بھارت میں اگر اب جنگ ہوئی تو وہ ایٹمی ہوگی اور اس میں ہم بچیں گے اور نہ بھارت، یہ پورا خطہ تیزاب کا جوہڑ بن جائے گا لہٰذا ہمیں ایک ہی بار دل بڑا کرکے یہ مسئلہ ختم کرنا ہوگا، ہماری بقا اب اسی میں ہے ہم جلد سے جلد یہ مسئلہ حل کرلیں، بھارت کے اندر بھی ٹھنڈے دل و دماغ کے بااثر ہزاروں لوگ موجود ہیں، ہم انہیں انگیج کریں اور مسئلہ کشمیر بیس یا تیس برسوں کے لیے فریز کردیں ہم اپنی سرحدیں کھولیں تا کہ لوگ آ اور جا سکیں اور یوں کلچرل میل ملاقاتیں ہوسکیں، ہمیں ماننا ہوگا ہم قید تنہائی کا شکار ہیں، ہم دنیا اور دنیا ہم سے دور ہے، ہم جب دوسرے لوگوں سے انٹریکٹ کریں گے تو ملک کی فضا بدل جائے گی جس سے ہمارے مزاج کی شدت اور نفرت دونوں کم ہوجائیں گی‘‘۔ (روزنامہ ایکسپریس، 2 فروری 2023ء)
برصغیر میں مسلمانوں کی تاریخ یہ ہے کہ انہوں نے برصغیر پر ایک ہزار سال حکومت کی مگر اتنے طویل عرصے میں انہوں نے ہندوئوںکے مذہب کو چھیڑا، نہ ان کی تہذیب پر حملہ کیا، نہ ان کی تاریخ کو چھوا، نہ ان کے پرسنل لا میں مداخلت کی، نہ انہوں نے ہندوئوں کو جبراً مسلمان کیا۔ مغل بادشاہ اکبر نے تو ایک ہندو عورت جودھا بائی کو مسلمان کیے بغیر اس سے شادی بھی کرلی تھی۔ اکبر کے زمانے میں محل میں ہندوئوں کے تہوار ہولی اور دیوالی تزک و احتشام کے ساتھ منائے جاتے تھے۔ جہانگیر کا بیٹا شہزادہ داراشکوہ ہندوازم سے اتنا متاثر تھا کہ وہ قرآن پر گیتا کو فوقیت دیتا تھا۔ اس کے زیر اثر ہندو اتنے جری ہوگئے تھے کہ دن دہاڑے مساجد شہید کردیتے تھے اور ریاست انہیں کچھ نہیں کہتی تھی۔ اورنگ زیب کو ہندو دشمن باور کرایا جاتا تھا مگر ایسا نہیں تھا۔ اورنگ زیب ایک مسلمان کی طرح کشادہ دل تھا۔ اس کے دربار میں ہندو اعلیٰ عہدوں پر موجود تھے۔ اس کے دربار میں سنسکرت کو درباری زبان کا درجہ حاصل تھا۔ اورنگ زیب کی فوج میں ہندو موجود تھے۔ بلاشبہ اورنگ زیب نے ریاست کے خلاف باغیانہ جذبات کو فروغ دینے والے بعض مندر منہدم کرائے مگر اس نے اپنی جیب خاص سے کئی مندر تعمیر بھی کرائے۔ ایک ہزار سالہ مدت اتنی طویل ہے کہ مسلمان اگر اپنی ریاستی طاقت اور سرمائے کا صرف دس فی صد بھی استعمال کرتے تو آج پورے برصغیر میں ایک بھی ہندو نہ ہوتا۔ مسلمان طاقت اور سرمائے کو استعمال کرتے تو دنیا کی کوئی طاقت ان کا ہاتھ نہیں پکڑ سکتی تھی۔ اس وقت نہ کوئی امریکا تھا، نہ کوئی یورپی استعمار، نہ کوئی اقوام متحدہ تھی، نہ انسانی حقوق کے لیے بھونکنے والے مغربی کتے تھے، نہ مغرب کے عالمگیر رسائی رکھنے والے ذرائع ابلاغ تھے۔ چناں چہ مسلمان ہندوئوں کے ساتھ جو چاہتے کرتے، مگر مسلمان اپنے مذہب کی تعلیمات کے اسیر تھے، ان کا مذہب انہیں بتاتا تھا کہ دین میں کوئی جبر نہیں ہے۔ چناں چہ مسلمانوں نے صرف صوفیوں اور علما کی تبلیغ اور کرداری نمونے پر انحصار کیا۔
ہم جدید برصغیر پر نظر ڈالتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ مسلمانوں کی تین بڑی شخصیتیں ایک زمانے میں ہندو مسلم اتحاد کی علمبردار تھیں مگر ہندوئوں کی اسلام اور مسلمان دشمنی نے تینوں شخصیتوں کی قلب ماہیت کردی۔ سرسید مسلمانوں کی پہلی بڑی شخصیت تھے جنہوں نے ہندو مسلم اتحاد کا نعرہ بلند کیا۔ سرسید اس نعرے کے زیر اثر کہا کرتے تھے کہ ہندو اور مسلمان ایک خوبصورت دلہن کی دو آنکھیں ہیں۔ مگر انہوں نے دیکھا کہ کانگریس کی قیادت مسلمانوں کے مفادات کے خلاف کام کررہی ہے تو انہوں نے مسلمانوں سے کہا کہ وہ کانگریس میں نہ جائیں بلکہ اپنا الگ پلیٹ فارم بنائیں اور اس پلیٹ فارم سے اپنے مفادات کے تحفظ کی جنگ لڑیں۔ اقبال مسلمانوں کی دوسری بڑی شخصیت تھے جو ہندو مسلم اتحاد کی بات کرتے تھے۔ اقبال کی وسیع المشربی کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے اپنی شاعری میں گوتم بدھ کو سراہا ہے۔ بابا گرونانک کی تعریف کی ہے۔ کرشن کو سر آنکھوں پر بٹھایا ہے اور رام کو ’’امامِ ہند‘‘ کہا ہے۔ اپنی شاعری کے ابتدائی زمانے میں اقبال
سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا
ہم بلبلیں ہیں اس کی یہ گلستاں ہمارا
پربت وہ سب سے اونچا ہمسایہ آسماں کا
وہ سنتری ہمارا وہ پاسباں ہمارا
کا راگ الاپ رہے تھے۔ اقبال کی قوم پرستی اتنی بڑھی ہوئی تھی کہ ایک شعر تو انہوں نے ایسا لکھا جو کوئی مسلمان لکھ ہی نہیں سکتا تھا۔ انہوں نے فرمایا ہے۔
پتھر کی مورتوں میں سمجھا ہے تو خدا ہے
خاکِ وطن کا مجھ کو ہر ذرہ دیوتا ہے
مگر اقبال پر اللہ تعالیٰ نے رحم کیا اور ان کی قلب ماہیت کردی۔ چناں چہ اقبال بہت جلد سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا کے بجائے یہ گیت گاتے نظر آئے
چین و عرب ہمارا ہندوستاں ہمارا
مسلم ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا
اب قوم پرستی کے بجائے اقبال پر مذہبی فکر کا غلبہ ہو چکا تھا چناں چہ وہ کہہ رہے تھے۔
بازو ترا اسلام کی قوت سے قوی ہے
اسلام ترا دیس ہے تو مصطفوی ہے
٭٭
جلالِ پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو
جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
محمد علی جناح، سرسید اور اقبال دونوں سے زیادہ جدید وسیع المشرب تھے۔ وہ کانگریس کے رہنما تھے اور سروجنی نائیڈو انہیں ہندو مسلم اتحاد کا سفیر کہا کرتی تھیں۔ مگر تاریخ کے ایک مرحلے پر سرسید اور اقبال کی طرح محمد علی جناح کی بھی قلب ماہیت ہوگئی اور وہ برصغیر کے دائرے میں دو قومی نظریے کے سب سے بڑے علمبردار بن کر ابھرے۔ اسی دو قومی نظریے نے بالآخر پاکستان تخلیق کیا۔ جاوید چودھری بتائیں اس پورے منظرنامے میں مسلم قیادت یا پاکستان کہاں ہندو مسلم تعلقات کی خرابی کا ذمے دار ہے؟
قیام پاکستان کے بعد سے اب تک جو کچھ ہوچکا ہے وہ بھی ہمارے سامنے ہے۔ بھارت کی ہندو قیادت نے پاکستان کو دل سے تسلیم نہیں کیا، چناں چہ ہندو قیادت نے کشمیر، حیدر آباد دکن اور جونا گڑھ پر فوج کشی کرکے انہیں اپنے قبضے میں لے لیا۔ ہندو قیادت نے پاکستان کے حصے کے 72 لاکھ روپے روک لیے اور انہیں پاکستان کے حوالے کرنے سے انکار کردیا۔ چناں چہ گاندھی کو اس سلسلے میں بھوک ہڑتال کرنی پڑی۔ پاکستان پرامن جدوجہد کا حاصل تھا مگر ہندو قیادت نے مسلم کش فسادات کا بازار گرم کردیا۔ اس نے اس سلسلے میں سکھوں کو آلہ قتل کے طور پر استعمال کیا اور چندماہ میں دس لاکھ سے زیادہ مسلمان مار ڈالے۔ 80 ہزار سے زیادہ خواتین اغوا کرلی گئیں۔ پاکستان مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ میں نہیں لے کر گیا تھا یہ بھارت کے وزیراعظم جواہر لعل نہرو تھے جو مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ میں لے گئے تھے مگر اس وقت سے آج تک بھارت نے کشمیر کے مسئلے کے حل کے سلسلے میں اقوام متحدہ کی قراردادوں کو قبول نہیں کیا۔ پاکستان نے 1947ء سے 1971ء تک بھارت میں ایک بار بھی مداخلت نہیں کی۔ مگر بھارت نے 1971ء میں مشرقی پاکستان کی صورت حال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مشرقی پاکستان میں فوجی مداخلت کی اور سقوط ڈھاکا کا سبب بنا۔ اس سانحے کو بھارت کی وزیراعظم اندرا گاندھی نے اپنا ’’کارنامہ‘‘ قرار دیا۔ انہوں نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج ہم نے ایک ہزار سال کی تاریخ کا حساب برابر کردیا ہے اور ہم نے دو قومی نظریے کو خلیج بنگال میں غرق کردیا ہے۔
یہ بات تاریخ کے ریکارڈ پر ہے کہ پاکستان کے حکمرانوں نے ہمیشہ بھارت کے ساتھ پرامن مذاکرات کے ذریعے مسئلہ کشمیر حل کرنے کی کوشش کی۔ جنرل ضیا الحق کے دور میں پاکستان اور بھارت کے درمیان خارجہ سیکرٹریوں کی سطح پر مذاکرات کے نو ادوار ہوئے۔
جنرل پرویز مشرف مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے آگرہ پہنچے اور واجپائی کو کشمیر تھالی میں رکھ کر پیش کردیا۔ مگر بھارت کے انتہا پسند اس پر بھی خوش نہ ہوئے اور مذاکرات ایک بار پھر ناکام ہوگئے۔ تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان اور بھارت کے پہلے وزیراعظم نہرو کے درمیان اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے لیاقت نہرو معاہدہ ہوا تھا۔ اس معاہدے کے تحت بھارت اپنی مسلم اقلیت اور پاکستان اپنی ہندو اقلیت کے تحفظ کا پابند تھا مگر بھارت نے اس دائرے میں شرانگیزی کی تاریخ رقم کی۔ بھارت میں 1947ء سے اب تک پانچ ہزار سے زیادہ مسلم کش فسادات ہوچکے ہیں۔ جاوید چودھری بتائیں پاکستان میں اب تک کتنے ہندو کش فسادات ہوئے ہیں؟ مگر اس کے باوجود جاوید چودھری کو شدت پسندی اور نفرت پاکستان میں نظر آتی ہے ہندوستان میں نہیں۔ یہ بات تاریخ کے ریکارڈ پر موجود ہے کہ بھارت کی سیاسی قیادت ہر صورت میں پاکستان کو ختم کرنا چاہتی ہے۔ 1971ء میں اس نے مشرقی پاکستان کو بنگلادیش بنوایا۔ 1990ء کی دہائی میں اس نے کراچی میں الطاف حسین اور ایم کیو ایم کی پشت پناہی کی اور اب بھارت بلوچستان میں اپنا گھنائونا کھیل کھیل رہا ہے۔ بدقسمتی سے بھارت کی قیادت ’’اکھنڈ بھارت‘‘ یا غیر منقسم بھارت کے تصور پر ایمان رکھتی ہے۔ بھارت کے کئی صوبوں یا ریاستوں کے اسکولوں میں ایسا نصاب پڑھایا جارہا ہے جس میں پاکستان، بنگلادیش، سری لنکا، بھوٹان، نیپال اور مالدیپ کو اکھنڈ بھارت کا حصہ بتایا گیا ہے۔ بھارت کی یہ توسیع پسندانہ ذہنیت صرف پاکستان کے لیے نہیں خطے کے تمام ممالک کے لیے تباہ کن ثابت ہوئی ہے۔ پاکستان تو اسلامی ملک ہے مگر نیپال تو ہندو ریاست ہے مگر اس کے باوجود بھارت کبھی اس کو پٹرول کی سپلائی روک دیتا ہے، کبھی نیپال میں اشیائے خورو نوش کی قلت پیدا کردیتا ہے۔ نیپال میں آئین بنتا ہے تو بھارت کہتا ہے کہ آئین بھارت کی مرضی سے بنے گا۔ یہ بھارت تھا جس نے سری لنکا کی خانہ جنگی میں فریق کا کردار ادا کیا اور بھارت کے وزیراعظم راجیو گاندھی اس وجہ سے قتل ہوئے۔ بھارت مالدیپ میں فوجیں اتارنے کی تاریخ رکھتا ہے۔ بنگلادیش بھارت نے بنایا مگر بھارت نے بنگلادیش کو بھی آزاد نہ رہنے دیا اور اسے اپنی کالونی بنالیا۔ چناں چہ شیخ مجیب الرحمن کے خلاف بنگلادیش کی فوج نے بغاوت کرکے شیخ مجیب اور ان کے خاندان کے تمام دستیاب لوگوں کو مار ڈالا۔
جاوید چودھری کا مشورہ یہ ہے کہ ہمیں بیس تیس سال کے لیے مسئلہ کشمیر کو ’’فریز‘‘ کردینا چاہیے۔ یہ اصل میں پاکستان کی فوجی اسٹیبلشمنٹ کا آئیڈیا ہے جسے صحافت میں جاوید چودھری نے زبان دی ہے مگر کیا جاوید چودھری کو علم نہیں کہ وہ کشمیر کے حوالے سے کتنے بڑے بڑے حقائق کو نظر انداز کررہے ہیں؟ پاکستان ویلفیئر اسٹیٹ کے بجائے 75 سال سے ’’سیکورٹی اسٹیٹ‘‘ ہے۔ اس کی وجہ کشمیر ہے۔ پاکستان دفاع پر اپنے بجٹ کا پچیس سے تیس فی صد خرچ کرتا ہے اس کا سبب کشمیر ہے۔ بھارت اب تک کشمیر میں ایک لاکھ مسلمانوں کو شہید کرچکا ہے۔ بھارت اب تک کشمیر میں بارہ ہزار کشمیری خواتین کی عصمت دری کرچکا ہے۔ کشمیر میں ہزاروں لوگ لاپتا ہیں۔ ہزاروں جیلوں میں سڑ رہے ہیں۔ کس لیے؟ پاکستان سے کشمیر کے الحاق کے لیے۔ سوال یہ ہے کہ اتنی بڑی جانی اور مالی قربانیوں کو کیسے نظر انداز کیا جائے؟ اقبال نے کہا ہے۔
غیرت ہے بڑی چیز جہانِ تک و دو میں
پہناتی ہے درویش کو تاجِ سرِ دارا

Leave a Reply