تو اسلام مکمل ضابطۂ حیات نہیں ہے؟

مغرب ایک ہزار سال سے اسلام اور مسلمانوں کے تعاقب میں ہے۔ یہ مغرب تھا جس نے ایک ہزار سال پہلے مسلمانوں پر صلیبی جنگیں مسلط کیں۔ یہ پوپ اربن تھا جس نے کہا تھا کہ اسلام ایک شیطانی مذہب ہے، یہ مغرب تھا جس کے کلیسا اور دانش وروں نے اعلان کیا کہ رسول اکرمؐ نبی نہیں ہیں۔ یہ مغرب تھا جس نے مسلمانوں پر نوآبادیاتی دور مسلط کیا۔ یہ بیسویں صدی میں مغرب کے دانش ور تھے جنہوں نے کہا کہ اسلام انسانیت کو جو کچھ دے سکتا تھا دے چکا اب اس کے پاس انسانیت کو دینے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ یہ مغرب تھا جس کے زیر اثر پوری مسلم دنیا میں یہ خیال عام ہوا کہ اسلام کا تعلق اب صرف عقائد، عبادات اور اخلاقیات سے ہوگا۔ ریاست، سیاست، معیشت، آرٹ یا کلچر اور ادب سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہوگا۔ یہ مغرب ہے جو مسلم دنیا میں اس خیال کو عام کرنے میں لگا ہوا ہے کہ اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات نہیں ہے۔ بدقسمتی سے مسلم دنیا میں غامدی اور ان کے شاگردوں جیسے مغرب کے ایجنٹ اس خیال کو اپنی تحریروں اور تقریروں کے ذریعے مسلسل عام کرنے میں لگے ہوئے ہیں کہ اسلام ایک مکمل ضابطۂحیات نہیں ہے۔ خورشید ندیم غامدی صاحب کے شاگرد رشید ہیں اور انہوں نے اپنے ایک حالیہ کالم میں کھل کر کہا کہ اسلام کے مکمل ضابطۂحیات ہونے کی بات ٹھیک نہیں۔ انہوں نے اس سلسلے میں کیا فرمایا ہے انہی کے الفاظ میں ملاحظہ فرمائیے۔ لکھتے ہیں۔
’’دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ ہم اپنے ہر مسئلے کا حل مذہب میں تلاش کرتے ہیں۔ اسلام مکمل ضابطۂحیات ہے، کا مطلب ہم نے یہ سمجھا ہے کہ وہ ہمیں زندگی کی جزئیات تک طے کرکے دیتا ہے۔ جو فیصلے عقل نے کرنے ہیں، ہم ان کی ذمے داری بھی مذہب کو سونپ دیتے ہیں۔ اسے سادہ اسلوب میں اس طرح بیان کیا جاتا ہے کہ ہمارے تمام مسائل کا حل اسلام کے نفاذ میں ہے۔ یہ مذہب اور سماج دونوں کی ناقص تفہیم کا نتیجہ ہے۔ ہم مذہب سے ایک ایسی بات منسوب کرتے ہیں جس کا خود اس نے کبھی دعویٰ نہیں کیا۔ وجہ وہی سادہ حل کی تلاش ہے‘‘۔ (روزنامہ دنیا، 30 مارچ 2023ء)
اپنے کالم کے اس اقتباس میں خورشید ندیم نے نہ صرف یہ کہ اسلام کے مکمل ضابطۂحیات ہونے کی تردید کی ہے بلکہ انہوں نے یہ بھی فرمایا ہے کہ کچھ کام تو ہم یقینا مذہب کے حکم کے مطابق بجا لائیں گے البتہ کچھ کام جہاں مذہب ہمیں رہنمائی نہیں فراہم کرتا ہم عقل کے تحت انجام دیں گے۔ اس طرح خورشید ندیم نے انسانی وجود میں ہدایت کے دو سرچشمے ایجاد کرلیے ہیں۔ ایک مذہب اور دوسرا خالص عقل۔ خورشید ندیم کا یہ دعویٰ کہ اسلام ایک مکمل ضابطۂحیات نہیں ہے خدا کے اس اعلان کی ضد اور اس کی تردید ہے کہ ہم نے آج تمہارے لیے دین کو مکمل کردیا ہے۔ خورشید ندیم کا یہ دعویٰ قرآن کے اس حکم کی بھی تردید ہے جس میں قرآن مجید نے رسول اکرمؐ کو تمام مومنین بلکہ پوری انسانیت کے لیے ایک نمونہ عمل قرار دیا ہے۔ ظاہر ہے کہ نمونہ عمل وہی ہوسکتا ہے جو زندگی کے ہر دائرے میں انسانوں کی رہنمائی کرسکتا ہو۔ ایسی سیرت انسانوں کے لیے نمونہ عمل نہیں ہوسکتی جو کچھ دائروں میں انسانوں کی رہنمائی کرتی ہو اور کچھ دائروں میں انسانوں کی رہنمائی کرنے سے قاصر ہو۔
اسلام کے ایک مکمل ضابطۂحیات ہونے کی بات مذاق نہیں۔ مسلمانوں نے تاریخ کے طویل سفر میں جامع ترین تہذیب پیدا کی ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ مسلمانوں کا دین مکمل ضابطۂحیات تھا، تبھی مسلمان ایک جامع ترین تہذیب پیدا کرسکے۔ اسلام کی جامعیت بھی کوئی راز نہیں۔ وہ ایک جانب ہمیں ریاست اور سیاست کے سلسلے میں رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ دوسری جانب معیشت اور معاشرت کے سلسلے میں ہمیں رہنما اصول فراہم کرتا ہے۔ ایک طرف وہ ہمیں شادی کرنے کا طریقہ بتاتا ہے دوسری جانب اگر شادی میں خرابی پیدا ہوجائے تو طلاق اور خلع کے ضوابط مرتب کرکے دیتا ہے۔ ایک جانب وہ مسلمانوں کو جنگ کا طریقہ سکھاتا ہے، دوسری جانب وہ امن کے اصولوں کو واضح کرتا ہے۔ ایک جانب وہ طیب رزق کے حصول کا حکم دیتا ہے اور دوسری جانب حرام رزق کے مضمرات پر روشنی ڈالتا ہے۔ اسلام کی جزیات پسندی کا یہ عالم ہے کہ وہ ہمیں بتاتا ہے کہ کھانا کھانے سے پہلے یہ دعا پڑھو، کھانا کھانے کے بعد یہ دعا پڑھو، چھینک آئے تو یہ کہو جماہی آئے تو یہ کہو۔ حد تو یہ ہے کہ بیت الخلا جانے سے پہلے یہ دعا پڑھو، بیت الخلا سے نکلتے ہوئے یہ دعا پڑھو۔ اس کے باوجود خورشید ندیم فرما رہے ہیں کہ دنیا کے کچھ کام اسلام کے تحت کرنے ہیں اور کچھ کام عقل کی روشنی میں انجام دینے ہیں۔ ایک زمانے میں ہمیں اس بات کی فکر لاحق رہتی تھی کہ اسلام نے شعر و ادب کے سلسلے میں ہماری کیا رہنمائی کی ہے۔ ایک دن ہماری نظر سے اردو کے سب سے بڑے نقاد محمد حسن عسکری کا ایک مضمون گزرا۔ اس مضمون کا عنوان تھا رسول اکرمؐ کا نظریۂ ادب۔ اس مضمون میں عسکری صاحب نے بتایا تھا کہ رسول اکرمؐ نے عہد جاہلیت کے شاعر امرائو القیس کی شاعری کی تعریف کرتے ہوئے ایک جانب یہ کہا کہ وہ نابینا مضامین کو بینا بنادیتا ہے۔ دوسری جانب اس کی شاعری کی مذمت کرتے ہوئے یہ فرمایا کہ وہ جہنم کے سرداروں میں سے ایک ہے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ اسلام میں شاعری حرام نہیں ہے مگر شاعری کو اخلاقی اصولوں کا پابند ہونا چاہیے۔ اس مثال سے بھی اسلام کی جامعیت عیاں ہوتی ہے۔ لیکن خورشید ندیم اسلام کی اتنی جامعیت سے بھی مطمئن نہیں۔ ان کا خیال ہے کہ زندگی کا ایک دائرہ ایسا ہے جہاں صرف عقل انسان کی رہنمائی کرسکتی ہے۔
اسلام عقل کا مخالف نہیں مگر اسلام عقل کو وحی کے تابع رکھتا ہے جو عقل وحی کے تابع نہیں وہ عقل ضلالت ہے، گمراہی ہے۔ اس سلسلے میں ہمارے مذہبی ادب میں عقل کے لیے دو اصطلاحیں موجود ہیں۔ ایک عقل جزوی اور ایک عقل کلی۔ انگریزی میں عقل جزوی کو Reason کہا جاتا ہے اور عقل کلی کو Intellect۔ عقل جزوی تصورات اور چیزوں کو ٹکڑے کرکے سمجھتی ہے چناں چہ وہ کبھی تصورات اور چیزوں کی اصل اور کلیت تک رسائی حاصل نہیں کرسکتی۔ اس کے برعکس عقل کلی وحی اور الہام کی بنیاد پر کام کرتی ہے۔ جدید مغرب کا المیہ یہ ہے کہ اس نے عقل جزوی کو اپنا رہنما بنالیا ہے اور اس نے عقل پر وحی کی بالادستی کا انکار کردیا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ مغرب نے خدا اور مذہب کا انکار کردیا ہے۔ اس لیے عقل کی بنیاد پر نہ خدا کا وجود ثابت کیا جاسکتا ہے اور نہ مذہب کی بالادستی ثابت کی جاسکتی ہے۔ فی زمانہ مغرب میں عقل کی سب سے بڑی علامت سائنس ہے اور سائنس کہتی ہے کہ حقیقت صرف وہی ہے جو سائنسی تجربے اور سائنسی مشاہدے سے ثابت ہوجائے۔ اس کے سوا جو کچھ ہے افسانہ و افسوں ہے۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ سائنسی تجربے اور سائنسی مشاہدے نہ خدا کا وجود ثابت ہوتا ہے۔ نہ رسول اکرمؐ یا کسی اور نبی کا نبی ہونا ثابت ہوتا ہے۔ نہ قرآن کا حکم الٰہی ہونا ثابت ہوتا ہے۔ سائنسی تجربے اور مشاہدے سے آخرت ثابت ہوتی ہے نہ فرشتوں اور جنات کا وجود ثابت ہوتا ہے۔ نہ قبر کا حساب ثابت ہوتا ہے، اس طرح مغرب کی عقل کی سب سے بڑی علامت پورے مذہب کا انکار کردیتی ہے۔ تو کیا خورشید ندیم چاہتے ہیں کہ مسلمان ایسی عقل کی بالادستی کو تسلیم کرلیں اور اس کی رہنمائی میں اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی بسر کریں؟
اقبال 20 ویں صدی کی مسلم دنیا کے عبقریوں میں سے ایک ہیں۔ وہ عقل کی معذوریوں اور نارسائیوں سے نہ صرف یہ کہ آگاہ ہیں بلکہ انہوں نے اپنی شاعری میں کھل کر اس عقل کی مذمت کی ہے جو جدید مغرب کا طرئہ امتیاز ہے۔ اقبال نے اس عقل کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا ہے۔
عقل گو آستاں سے دور نہیں
اس کی تقدیر میں حضور نہیں
٭٭
عقل عیارّ ہے سو بھیس بنا لیتی ہے
عشق بیچارہ نہ ملا ہے نہ زاہد نہ حکیم
٭٭
آہ یہ عقلِ زیاں اندیش کیا چالاک ہے
اور تاثر آدمی کا کس قدر بیباک ہے
٭٭
بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق
عقل ہے محوِ تماشائے لبِ بام ابھی
٭٭
عقل کو تنقید سے فرصت نہیں
عشق پر اعمال کی بنیاد رکھ
٭٭
زمانہ عقل کو سمجھا ہوا ہے مشعل راہ
کسے خبر کے جنوں بھی صاحبِ ادراک
٭٭
گزر جا عقل سے آگے کہ یہ نور
چراغِ راہ ہے منزل نہیں ہے
٭٭
عقل بے مایہ امامت کی سزا وار نہیں
راہبر ہو ظن و تخمیں توزبوں کارِ حیات
٭٭
وہ پرانے چاک جن کو عقل سی سکتی نہیں
عشق سیتا ہے انہیں بے سوزنِ تارِ رفو
٭٭
تازہ مرے ضمیر میں پھر معرکہِ کہن ہوا
عشق تمام مصطفی عقل تمام بولہب
٭٭
بدقسمتی سے غامدی اور ان کے شاگرد خورشید ندیم چاہتے ہیں کہ مسلمان عشق کا راستہ چھوڑ دیں اور جو عقل بولہب ہے اس کی رہنمائی قبول کرلیں۔ اقبال کی ایک نظم عقل و دل بھی اس حوالے سے اہمیت کی حامل ہے۔ اس نظم میں اقبال نے عقل پر دل کی فوقیت ثابت کی ہے۔ ذرا اقبال کی یہ نظم تو ملاحظہ کیجیے۔
عقل نے ایک دن یہ دل سے کہا
بھولے بھٹکے کی رہنما ہوں میں
ہوں زمیں پر، گزر فلک پہ مرا
دیکھ تو کس قدر رسا ہوں میں
کام دنیا میں رہبری ہے مرا
مثلِ خضرِ خجستہ پا ہوں میں
ہوں مفسر کتاب ہستی کی
مطہرِ شانِ کبریا ہوں میں
بوند اک خون کی ہے تو لیکن
غیرتِ لعلِ بے بہا ہوں میں
دل نے سن کر کہا یہ سب سچ ہے
پر مجھے بھی تو دیکھ، کیا ہوں میں
رازِ ہستی کو تو سمجھتی ہے
اور آنکھوں سے دیکھتا ہوں میں
ہے تجھے واسطہ مظاہر سے
اور باطن سے آشنا ہوں میں
علم تجھ سے تو معرفت مجھ سے
تو خدا جو، خدا نما ہوں میں
علم کی انتہا ہے بے تابی
اس مرض کی مگر دواہوں میں
شمع تو محفلِ صداقت کی
حسن کی بزم کا دیا ہوں میں
تو زمان و مکاں سے رشتہ بپا
طائرِ سدرہ آشنا ہوں میں
کس بلندی پہ ہے مقام مرا
عرش ربّ ِجلیل کا ہوں میں!
اقبال کی اس نظم میں دل ربّ جلیل کا عرش اور وحی و الہام کی علامت ہے اور اس کے آگے عقل کی کوئی اہمیت نہیں مگر خورشید ندیم اور ان کے استاد عشق و دل پر اصرار نہیں کرتے عقل پر اصرار کرتے ہیں۔ ہم یہاں تک کالم لکھ چکے تھے کہ ہماری نظر سے خورشید ندیم کا ایک کالم گزرا۔ اس کالم میں خود خورشید ندیم نے عقل کی مذمت فرمائی ہے۔ انہوں نے کیا لکھا ہے انہی کے الفاظ میں ملاحظہ فرمائیے۔
’’دونوں میں البتہ ایک مسئلہ ہے۔ یہ عقل کی عیاری ہے۔ یہ مناظرہ ہو یا مکالمہ، ان کی اساس عقلی ہے۔ ہر وہ مقدمہ جسے دلیل سے ثابت کیا جائے عقلی ہوتا ہے۔ تجربہ یہ ہے کہ عقل جو بھیس چاہے، بدل لیتی ہے۔ الحاد بھی بظاہر عقلی مقدمہ ہے اور اہل مذہب کا دعویٰ بھی یہی ہے کہ ان کا مقدمہ عقلی ہے۔ عدالتوں میں ہم آئے دن عقل کی عیاریوں کے مظاہر دیکھتے ہیں۔ ان کا ظہور وکیلوں کے دلائل میں ہوتا ہے اور عدالتی فیصلوں میں بھی۔ ایک واقعے کی صحت پر اتفاق کے باوجود عقل اس کی مختلف بلکہ متضاد تعبیریں پیش کرتی ہے۔ عقل کی اس عیاری سے بچنے کی بھی کیا کوئی سبیل ہے؟
اس کا جواب ہے: عقل کے عوارض کا ادراک۔ عارضے کی تشخیص ہوجائے تو علاج ممکن ہوجاتا ہے۔ عقل کا ایک بڑا مرض تعصب ہے۔ گروہی وابستگی اس کا سبب ہوسکتا ہے اور شخصی مفاد بھی۔ یہ عصبیت سوچ کے دائرے کی تحدید کردیتی ہے۔ یہ انسان کی فکری پرواز کو مفاد کی حد تک محدود رکھتی اور وہ اسی فضا میں اپنی جولانیاں دکھاتی ہے۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے ایک وکیل کی سوچ اس دائرے میں مقید ہوجاتی ہے کہ اس نے اپنے موکل کے مفاد میں سوچنا اور اس کے حق میں دلائل تراشنا ہیں۔
عقل کا ایک مرضی یہ بھی ہے کہ وہ جذبات کے سامنے بے بس ہوجاتی ہے۔ اپنی لگام ان کے ہاتھ میں دے دیتی ہے۔ یوں وہ جذبات کو دلیل میں ڈھالنے لگتی ہے۔ کوئی رشتہ کوئی خاندانی وابستگی کسی سیاسی یا مذہبی جماعت سے تعلق جذبات کی بنیاد کچھ بھی ہوسکتی ہے۔ بعض اوقات تو جذبات ہی کو دلیل مان لیا جاتا ہے۔ یہ زیادہ تر مذہب میں ہوتا ہے۔ قتل جیسے جرم کے لیے بھی مذہبی جذبات کو بطور دلیل پیش کیا جاتا ہے۔ غیرت جیسے جذبات میں انسان حد سے گزر جائے تو اسے جائز کہا جاتا ہے اور یہاں بھی عقل جذبات کی وکیل بن جاتی ہے۔
مناظرے میں عقل کی یہ کمزوریاں نسبتاً زیادہ نمایاں ہوتی ہیں۔ کسی مذہبی یا سیاسی عصبیت کا دفاع فی نفسہ ایک عقلی مقدمہ بن جاتا ہے۔ اس کے بعد اخلاقی حدود کی پامالی بھی جائز ہوجاتی ہے‘‘۔
(روزنامہ دنیا، 16 اپریل 2023ء)
خورشید ندیم نے عقل کی حمایت میں کالم 30 مارچ کو لکھا اور عقل کی مذمت میں انہوں نے 6 اپریل کو کالم سپرد قلم کیا۔ صرف چھے دن میں یہ کیا ماجرا ہوگیا؟ صرف چھے دن میں اتنے بڑے تضادات کا مظاہرہ کسی مسلمان کیا کسی انسان کے لیے زیبا نہیں۔

Leave a Reply