طاقت اور دولت مرکز دنیا

دنیا میں پانچ بڑے مذاہب موجود ہیں۔ اسلام، عیسائیت، ہندوازم، یہودیت اور بدھ ازم۔ اسلام کہتا ہے کہ انسان کی زندگی کو ’’خدا مرکز‘‘ ہونا چاہیے۔ ’’محمدؐ مرکز‘‘ ہونا چاہیے۔ ’’آخرت مرکز‘‘ ہونا چاہیے۔ عیسائیت کہتی ہے کہ زندگی وہی اچھی ہے جو God Centric ہو۔ جو ’’عیسیٰؑ مرکز‘‘ ہو۔ جو ’’آخرت مرکز‘‘ ہو۔ ہندو ازم کہتا ہے وہی انسان انسان کہلانے کا مستحق ہے جو ایشور مرکز زندگی بسر کرتا ہو۔ جو رام اور کرشن کی سیرتوں کو اپنے لیے نمونہ بنائے ہوئے ہو۔ جسے مکتی یا نجات کی فکر لاحق ہو۔ یہودیت اور بدھ ازم بھی اسی طرح کے تصورات پر اصرار کرتے ہیں۔ اسلام کہتا ہے کہ دنیا تو دھوکے کی ٹٹی یا Smoke Screen ہے۔ عیسائیت کہتی ہے کہ ترک دنیا ہی سب سے بڑا روحانی عمل ہے۔ ہندوازم کہتا ہے یہ دنیا تو مایہ یا دھوکا ہے۔ لیکن مذاہب کی ان تعلیمات کے باوجود 8 ارب انسانوں میں سے ایک لاکھ انسان بھی ایسے نظر نہیں آتے جو ’’خدا مرکز‘‘ یا ’’رسول مرکز‘‘ زندگی بسر کررہے ہوں۔ جن کا ہر عمل دنیا کے بجائے آخرت کے لیے ہو۔ رسول اکرمؐ نے فرمایا ہے کہ دنیا بکری کے مرے ہوئے بچے سے زیادہ حقیر ہے۔ آپؐ کا ارشاد گرامی ہے کہ اگر دنیا مچھر کے پَر کے برابر بھی اہم ہوتی تو کافروں اور مشرکوں کا اس میں کوئی حصہ نہ ہوتا لیکن ایک ارب 80 کروڑ مسلمانوں میں کتنے ہیں جو دنیا کو بکری کے مرے ہوئے بچے سے زیادہ حقیر سمجھتے ہوں۔ مسلمانوں میں کون ہے جو دنیا کو مچھر کے پَر سے بھی کمتر جانتا اور مانتا ہے۔ دعوئوں کی بات نہیں زندگی سے اس بات کی شہادت ملنی چاہیے۔ رسول اکرمؐ سے اللہ تعالیٰ نے کہا کہ اگر آپ کہیں تو احد پہاڑ کو سونے کا بنادیا جائے۔ رسول اکرمؐ نے منع فرمایا اور کہا کہ میں تو یہ چاہتا ہوں کہ ایک دن پیٹ بھر کر کھانا
کھائوں تا کہ شکر کروں اور دوسرے دن بھوکا رہوں تا کہ صبر کروں۔ سیدنا عمرؓ خلیفہ وقت تھے اور ایک صحابی کے قول کے مطابق انہوں نے دیکھا کہ سیدنا عمرؓ کے لباس میں 17 پیوند لگے ہوئے ہیں۔ سیدنا عمرؓ کے زمانے میں مصر فتح ہوا تو اس کے گورنر نے سیدنا عمرؓ کو خط لکھا کہ اہل مصر شہر کی چابی آپ کو دینا چاہتے ہیں۔ چناں چہ آپ تشریف لائیں۔ سیدنا عمرؓ مصر پہنچے تو گورنر نے شہر کے مضافات میں ان کا استقبال کیا اور دیکھا کہ سیدنا عمرؓ کا لباس بوسیدہ اور گرد آلود ہے۔ گورنر نے کہا اہل مصر نفاست پسند ہیں اگر آپ لباس تبدیل کرسکیں تو اچھا ہے۔ تو سیدنا عمرؓ نے فرمایا ہماری عزت اسلام کی وجہ سے ہے لباس کی وجہ سے نہیں۔ اس واقعے کے کچھ عرصے بعد ایک روز سیدہ عائشہؓ نے بھی سیدنا عمرؓ سے ان کے لباس کی شکایت کی۔ انہوں نے کہا اب مسلمانوں کے پاس وسائل کی فراوانی ہے، آپ سے دوسری مملکتوں کے نمائندے ملنے آتے ہیں چناں چہ آپ بہتر لباس پہن لیں تو اچھا ہو۔ سیدنا عمرؓ نے کہا میں اپنے دو رفیقوں یعنی رسول اکرمؐ اور سیدنا ابوبکرؓ کے طریقے کو نہیں چھوڑ سکتا۔ لیکن اب امت مسلمہ میں دنیا پرستی وبا کی طرح پھیلی ہوئی ہے۔ برصغیر میں اکبر الٰہ آبادی کا زمانہ دین داری اور خدا پرستی کا زمانہ تھا مگر اس وقت مغربی فکر کے زیر اثر پڑھے لکھے طبقات میں خدا کے بارے میں شکوک پیدا ہونا شروع ہوگئے تھے۔ چناں چہ اکبر نے لکھا۔
خدا کی ہستی میں شبہ کرنا اور اپنی ہستی کو مان لینا
پھر اس پہ طرہّ اس ادعا کا کہ ہم ہیں اہلِ شعور ایسے
٭٭
دنیا میں بے خبر ہے جو پروردگار سے
شاید ہے زندہ اپنے ہی وہ اختیار سے
اے صانعِ ازل تری قدرت کے میں نثار
کیا صورتیں بناتی ہیں مشتِ غبار سے
٭٭
تمہاری بحثوں سے میرے شبہے خدا کی ہستی میں کم نہ ہوتے
مگر یہ بات آگئی سمجھ میں خدا نہ ہوتا تو ہم نہ ہوتے
٭٭
تُو دل میں تو آتا ہے سمجھ میں نہیں آتا
بس جان گیا میں تری پہچان یہی ہے
٭٭
ذہن میں جو گھر گیا لا انتہا کیوں کر ہوا
جو سمجھ میں آگیا پھر وہ خدا کیونکر ہوا
٭٭
منزلوں اور ان کی دانش سے خدا کی ذات ہے
خرد بیں اور دور بیں تک ان کی بس اوقات ہے
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ مغربی دنیا نے مسلمانوں پر طاقت پرستی کا الزام لگایا مگر حقیقت یہ ہے کہ خود مغرب نے جس طاقت پرستی کا مظاہرہ کیا اس کی مثال پوری انسانی تاریک میں نہیں ملتی۔ ایرک فرام مغربی دنیا کے ممتاز ماہر نفسیات میں سے ہیں، انہیں فرائیڈ کا باغی شاگرد ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ ایرک فرام نے اپنی معرکہ آرا تصنیف The Anatomy of Human Destructiveness میں یورپ کی پانچ سو سال میں لڑی جانے والی جنگوں کی تفصیل ٹھوس شواہد کے ساتھ پیش کی ہے۔ ایرک فرام کے بقول مغرب نے گزشتہ پانچ سو سال میں جو جنگیں لڑیں ان کی تفصیل یہ ہے۔
اس طرح یورپی طاقتوں نے 1480ء سے 1940ء تک 2652 جنگیں لڑیں۔ ان جنگوں کی پہلی اہم بات یہ ہے کہ یہ تمام جنگیں یورپی طاقتوں کے درمیان لڑی گئیں۔ ان جنگوں کو کسی مشرقی طاقت نے یورپ پر مسلط نہیں کیا۔ ان جنگوں کے حوالے سے ایرک فرام نے دوسری اہم بات یہ لکھی ہے کہ قدیم انسان جسے جدید مغرب ’’وحشی‘‘ کہتا ہے صرف اپنے دفاع میں دوسرے انسان کو قتل کرتا تھا مگر ایرک فرام کے بقول جدید انسان یعنی مغربی انسان کے لیے دوسرے انسان کو قتل کرنا محض ایک کھیل ہے۔ یہ مغرب کی طاقت پرستی کی انتہا ہے۔ مغرب کے ایک اور ممتاز دانش ور مائیکل مان نے اپنی کتاب ’’ڈارک سائیڈ آف دی ڈیموکریسی‘‘ میں لکھا ہے کہ ’’سفید فاموں نے ’’Americas پر قبضہ کرنے کے بعد وہاں 8 سے 10 کروڑ لوگوں کو قتل کردیا۔ امریکا نے ویت نام پر جنگ مسلط کی اور دس سال میں دس لاکھ سے زیادہ انسانوں کو مار ڈالا۔ امریکا نے کوریا کی جنگ میں 30 لاکھ باشندوں کو قتل کردیا۔ امریکا نے دوسری عالمی جنگ میں جاپان کے دو شہروں ہیرو شیما اور ناگا ساکی پر ایٹم بم گرا کر ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ لوگوں کو ہلاک اور لاکھوں کو معذور کردیا۔ مغرب نے پہلی اور دوسری عالمی جنگ ایجاد کرکے 10 کروڑ لوگوں کو ہلاک اور 30 کروڑ لوگوں کو زخمی کردیا۔ فرانس نے الجزائر پر خانہ جنگی مسلط کی اور دس لاکھ لوگ مار ڈالے۔ انگریزوں نے 1857ء کی جنگ آزادی میں اور اس کے بعد لاکھوں لوگوں کو تہہ تیغ کیا۔ ہزاروں علما کو توپوں سے اڑانا ضروری سمجھا گیا۔ امریکا نے افغانستان پر قبضہ کرکے دو لاکھ افغانوں کو مار ڈالا۔ امریکا اور یورپ نے صدام حسین کے عراق پر معاشی پابندیاں لگائیں اور پانچ لاکھ بچوں سمیت 10 لاکھ لوگ داوئوں اور غذا کی قلت سے ہلاک ہوگئے۔
امریکا نے عراق پر حملے کے بعد پانچ سال میں 6 لاکھ افراد مار ڈالے۔ اسی طرح مغرب نے پوری دنیا میں جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے اصول کو سب سے بڑی حقیقت بنادیا۔ چناں چہ ہم دیکھتے ہیں کہ پاکستان، ترک، انڈونیشیا، مصر اور الجزائر میں جرنیل قوموں کی تقدیر کے مالک بنے ہوئے ہیں۔ ان جرنیلوں کی زندگی نہ خدا مرکز ہے، نہ رسول مرکز، نہ آخرت مرکز ہے، نہ ان جرنیلوں کے پاس تقوے اور علم کی فضیلت ہے۔ نہ ان کے پاس شرافت اور نجابت کی سند ہے۔ ان کے پاس اگر کچھ ہے تو ڈنڈے کی طاقت مسلم دنیا کے جرنیلوں کی تاریخ یہ ہے کہ یہ دشمن کے سامنے ہتھیار ڈالتے ہیں اور اپنی قوم پر ہتھیار تانتے ہیں۔ پاکستانی جرنیلوں نے 1971ء میں بھارت کے آگے ہتھیار ڈالے۔ نائن الیون کے بعد ایک ٹیلی فون کال پر پورا پاکستان امریکا کے حوالے کیا۔ مصر کے جرنیلوں نے اسرائیل سے دو جنگیں لڑیں۔ دونوں جنگوں میں مصر کو بدترین شکست ہوئی۔
مغرب نے دولت پرستی کو بھی دنیا میں وبا بنادیا ہے۔ دولت نے پوری انسانیت کو درجوں میں تقسیم کردیا ہے۔ ایک ترقی یافتہ دنیا ہے۔ جو امیر دنیا ہے۔ دوسری ترقی پزیر پر دنیا ہے جو رفتہ رفتہ امیر ہو رہی ہے۔ تیسری پسماندہ دنیا ہے جس کے پاس دولت کا کال پڑا ہوا ہے۔ اس دنیا کی کہیں کوئی عزت نہیں۔ کہیں کوئی تکریم نہیں۔ کہیں کوئی آواز نہیں۔ دولت نے معاشروں کو بھی تقسیم کیا ہوا ہے ایک بالائی طبقہ ہے ایک متوسط طبقہ ہے ایک زیریں متوسط طبقہ ہے ایک غریب طبقہ ہے ہر طبقے کا خدا پیسہ ہے دولت ہے اسلام کہتا ہے انسانوں کی انسانوں پر فضیلت یا تو تقوے کی وجہ سے یا علم کی وجہ سے ہے۔ مگر مسلم معاشروں میں تقوے اور علم کو کوئی گھاس نہیں ڈالتا۔ اکبر نے مسلمانوں کے دنیا سے تعلق کو Define کرتے ہوئے کہا تھا۔
دنیا میں ہوں دنیا کا طلب گار نہیں ہوں
بازار سے گزرا ہوں خریدار نہیں ہوں
لیکن اب بیویاں قناعت پسند شوہروں سے کہتی ہیں کہ اگر ہمیں معلوم ہوتا کہ آپ کو پیسہ کمانے میں کوئی دلچسپی نہیں تو ہم آپ سے ہرگز شادی نہ کرتے۔ یہ مسئلہ نیا نہیں یہ مسئلہ آج سے ڈیڑھ دو سو سال پہلے اکبر الٰہ آبادی کے زمانے میں پیدا ہوچکا تھا۔ اور اس کی نشاندہی کرتے ہوئے اکبر نے کہا تھا۔
نہیں پرسش کچھ اس کی الفت اللہ کتنی ہے
سبھی یہ پوچھتے ہیں آپ کی تنخواہ کتنی ہے
ایک زمانہ تھا کہ تنخواہ صرف تنخواہ تھی مگر اب تنخواہ پورا آدمی ہے۔ آدمی کی پوری زندگی ہے لوگ اپنی بیٹیوں اور بہنوں کی شادی کرتے ہیں تو لڑکے میں شرافت اور نجابت نہیں ڈھونڈتے، تقویٰ اور علم تلاش نہیں کرتے، ہر ایک کو صرف یہی فکر ہوتی ہے لڑکا کماتا کتنا ہے؟ رہتا کس علاقے میں ہے؟ اس کے پاس گاڑی ہے یا نہیں اردو کی سب سے بڑی ناول نگار قرۃ العین حیدر نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ ہندوستان اور پاکستان میں دولت کی ریل پیل نے سماجی مرتبوں کو بدل ڈالا ہے۔ ان کے بقول آج بالائی اور متوسط طبقات جس طرح کی زندگی بسر کررہے ہیں ویسی زندگی تو ہمارے نوابین بھی بسر نہیں کرتے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ دولت ہماری زندگی میں ہر چیز کا معیار بن گئی ہے۔ عزت ہے تو دولت کی وجہ سے، شرافت ہے تو دولت میں، نجابت ہے تو دولت کے زیر سایہ، ذہانت ہے تو دولت کی برکت سے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ بالائی طبقات کی خواتین کیا متوسط اور زیریں متوسط طبقے کی خواتین تک اداکارائوں اور ماڈل گرلز کے طور طریقے اختیار کررہی ہیں۔ لاکھوں لوگ اعلیٰ سے اعلیٰ لباس پہن رہے ہیں تو وہ لباس نہیں امیج پہن رہے ہیں۔ لاکھوں کروڑوں لوگ کینٹکی فرائیڈ چکن مکڈو نلڈ کا برگر کھا رہے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ ہم نے ایسے والدین دیکھے ہیں جو اپنی اس اولاد کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں جو زیادہ کمانے والی ہوتی ہے۔

Leave a Reply