پاکستان کا سیاسی نظام ایک مذاق

سیاست کا تعلق قوموں کی تقدیر سے ہے۔ جیسا جس ملک کا سیاسی نظام ہوتا ہے ویسی ہی اس کی تقدیر ہوتی ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو پاکستان کا سیاسی نظام ایک مذاق کے سوا کچھ نہیں۔ جمہوریت کی تعریف یہ ہے کہ جمہوریت ایک ایسا نظام ہے جو عوام سے ہے۔ عوام کے لیے ہے اور عوام کے ذریعے ہے۔ لیکن اسلامی جمہوریہ پاکستان کا سیاسی نظام جرنیلوں سے ہے، جرنیلوں کے لیے ہے اور جرنیلوں کے توسط سے ہے۔
جمہوریت کا ایک امتیازی وصف ایک آدمی ایک ووٹ کا تصور ہے۔ مگر پاکستان میں جرنیلوں نے 1970ء تک ون مین ون ووٹ کا نظام متعارف ہی نہیں ہونے دیا۔ اس سے پہلے یا تو مارشل لا تھا یا ’’کنٹرولڈ جمہوریت‘‘ اور کنٹرولڈ جمہوریت، جمہوریت کی ضد ہے۔ جنرل ایوب نے اپنے صدارتی انتخاب کے لیے بنیادی جمہوریت کا نظام متعارف کرایا جس میں پورے ملک سے صرف 80 ہزار افراد یا بی ڈی ممبرز کو ووٹ ڈالنے کا حق حاصل تھا۔
بدقسمتی سے جنرل ایوب نے اس سسٹم میں بھی گڑبڑ کی اور محترمہ فاطمہ جناح کو کامیاب نہ ہونے دیا۔ جنرل ایوب نے اس انتخاب کو جیتنے کے لیے فاطمہ جناح کی کردار کشی تک سے گریز نہ کیا۔ انہوں نے قومی اخبارات میں نصف صفحے کے ایسے اشتہارات شائع کرائے جن میں محترمہ فاطمہ جناح کو بھارتی ایجنٹ قرار دیا گیا تھا۔ جنرل ایوب کے فرزند ایوب گوہر نے کراچی میں مہاجر پٹھان عصبیت کو ہوا دی۔ اس کے نتیجے میں کراچی میں مہاجر پٹھان فسادات ہوئے جن میں درجنوں لوگ مارے گئے۔
جنرل یحییٰ نے 1970ء میں ایک آدمی ایک ووٹ کا نظام متعارف کرایا۔ جمہوریت کی تاریخ بتاتی ہے کہ جمہوریت قوموں اور ملکوں کو مضبوط اور توانا بناتی ہے مگر پاکستان میں جرنیلوں کے زیر سایہ جو جمہوریت متعارف کرائی گئی اس نے ملک کے دو ٹکڑے کردیے۔ عام خیال یہ ہے کہ 1970ء کے انتخابات منصفانہ تھے مگر ایسا نہیں تھا۔ ان انتخابات کے اپنے تماشے تھے۔ 1970ء کے انتخابات کے حوالے سے عام خیال یہ تھا کہ ان میں شیخ مجیب الرحمن کامیابی حاصل کریں گے۔ چناں چہ جنرل یحییٰ نے شیخ مجیب کو ہرانے کا منصوبہ ترتیب دیا۔ یہ بات 1970ء میں آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر بریگیڈیئر صدیقی نے کچھ سال پہلے جیو کو انٹرویو دیتے ہوئے بتائی۔ صدیقی صاحب کے بقول مولانا بھاشانی مشرقی پاکستان کے دیہی علاقوں میں بہت مقبول تھے اور اگر ان کی جماعت شیخ مجیب کے خلاف انتخابات میں حصہ لیتی تو شیخ مجیب اکثریت حاصل نہیں کرسکتے تھے۔ صدیقی صاحب کے بقول جنرل یحییٰ نے مولانا بھاشانی سے کہا کہ اگر انہوں نے دیہی علاقوں میں شیخ مجیب کا سیاسی مقابلہ کیا تو وہ انہیں دو کروڑ روپے کی خطیر رقم دیں گے۔ صدیقی صاحب سے انٹرویو لینے ولاے نے پوچھا کہ مگر اس منصوبے پر عمل نہ ہوسکا۔ آخر اس کی کیا وجہ تھی؟ آئی ایس پی آر کے اس وقت کے ڈائریکٹر جنرل نے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ جنرل یحییٰ پاکستان توڑنے کا فیصلہ کرچکے تھے۔ جیسا کہ تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے شیخ مجیب الرحمن کی پوری سیاست ان کے چھے نکات کے گرد گھوم رہی تھی اور ان چھے نکات کی بنیاد پر شیخ مجیب کو غدار قرار دیا جارہا تھا۔ لیکن یہ بات پاکستان کے 25 کروڑ لوگوں میں سے چند ہزار بھی نہیں جانتے کہ شیخ مجیب کے چھے نکات ان کے وضع کردہ نہیں تھے۔ یہ 1990ء کی دہائی کی بات ہے۔ جنرل ایوب کے وزیراطلاعات و نشریات الطاف گوہر روزنامہ نوائے وقت میں کالم لکھا کرتے تھے۔ اس زمانے میں ملک کے ممتاز وکیل ایس ایم ظفر نے لاہور میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ شیخ مجیب کے بدنام زمانہ چھے نکات الطاف گوہر نے ڈرافٹ کرکے شیخ مجیب کو دیے تھے۔ الطاف گوہر نے نوائے وقت کے اپنے کالم میں اس دعوے کی تردید کی۔ اس کے جواب میں ایس ایم ظفر نے الطاف گوہر سے کہا کہ وہ پاکی ِ داماں کی حکایت کو زیادہ نہ بڑھائیں کیونکہ ان کے پاس اس بات کے شواہد موجود ہیں کہ چھے نکات الطاف گوہر ہی نے ڈرافٹ کرکے شیخ مجیب کے حوالے کیے تھے۔ اس کے جواب میں الطاف گوہر نے کچھ نہ کہا اور وہ خاموش ہوگئے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ شیخ مجیب کے بدنام زمانہ چھے نکات شیخ مجیب کی اپنی اختراع نہیں تھے بلکہ یہ نکات کہیں اور سے آئے تھے۔ جمہوریت کا اصول اکثریت ہے چنانچہ 1970ء میں اقتدار شیخ مجیب کے حوالے کردیا جانا چاہیے تھا مگر جنرل یحییٰ نے ایسا کرنے کے بجائے مشرقی پاکستان میں بنگالیوں کے خلاف فوجی آپریشن شروع کردیا۔ جنرل یحییٰ نے بنگالیوں کے ووٹ کا جواب گولیوں سے دیا۔ چنانچہ پورے مشرقی پاکستان میں آگ لگ گئی اور پاکستان کا پورا سیاسی نظام ایک مذاق بن کر سامنے آیا۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو نے اس موقع پر ادھر ہم ادھر تم کا نعرہ لگایا مگر بھٹو صاحب کی اس وقت کوئی حیثیت نہیں تھی۔ ساری طاقت جنرل یحییٰ کے ہاتھ میں تھی، وہ اقتدار شیخ مجیب کے حوالے کرنے کا فیصلہ کرلیتے تو بھٹو ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے تھے۔
مشرقی پاکستان کی علٰیحدگی کے بعد بھٹو بچے کھچے پاکستان کے مقبول عوام رہنما بن کر ابھرے۔ انہوں نے بھارت کے ساتھ کامیاب مذاکرات کرکے بھارت کے آگے ہتھیار ڈالنے والے 90 ہزار فوجیوں کو رہائی دلائی۔ انہوں نے ملک کے ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھی۔ انہوں نے لاہور میں اسلامی ممالک کے سربراہوں کی کانفرنس منعقد کرائی۔ انہوں نے قوم کو 1973ء کا آئین دیا۔ شراب پر پابندی لگائی۔ جمعے کی تعطیل کا اعلان کیا۔ چنانچہ 1977ء کے انتخابات میں بھٹو صاحب ہی فتح یاب ہونے والے تھے۔ مگر بھٹو صاحب ایک فسطائی ذہن رکھتے تھے۔ وہ فل، ٹوٹل، کمپلیٹ اقتدار پر یقین رکھتے تھے۔ چنانچہ انہوں نے حزب اختلاف کے امیدواروں کو اغوا کرایا۔ ان پر بدترین تشدد کی راہ ہموار کی اور انتخابات میں دھاندلی کی۔ چنانچہ 1977ء کے انتخابات بھی ایک مذاق بن کر رہ گئے۔ بھٹو صاحب نے بعدازاں پی این اے کے ساتھ مذاکرات میں 30 سے زیادہ قومی اسمبلی کی نشستوں پر دوبارہ انتخابات کرانے پر آمادہ ظاہر کردی۔ مگر اس وقت تک بہت دیر ہوچکی تھی۔ چنانچہ جنرل ضیا الحق نے موقع ملتے ہی اقتدار پر قبضہ کرکے جمہوریت کے سر سے چادر چھین لی۔
جنرل ضیا الحق 90 روز میں انتخابات کے وعدے کے ساتھ اقتدار میں آئے تھے مگر انہوں نے 90 ماہ میں بھی انتخابات نہیں کرائے۔ انہوں نے انتخابات کرائے بھی تو غیر جماعتی بنیادوں پر۔ اس طرح ملک کا سیاسی نظام ایک بار پھر مذاق بن کر رہ گیا۔ جنرل ضیا الحق نے اپنے اقتدار کو جائز قرار دینے کے لیے ایک عدد ریفرنڈم بھی کرایا جس میں دس فی صد سے بھی کم افراد نے ووٹ ڈالے۔ اس کے باوجود جنرل ضیا الحق ریفرنڈم میں بھاری اکثریت سے کامیاب قرار پائے اور ملک کا سیاسی نظام ایک بار پھر مذاق بن کر رہ گیا۔ جنرل ضیا ویسے تو سیاسی جماعتوں کے سخت خلاف تھے مگر جیسے ہی انہیں ضرورت پڑی انہوں نے جونیجو لیگ ایجاد کرلی مگر وہ اپنی ایجاد کے ساتھ بھی گزارا نہ کرسکے۔ چنانچہ بہت جلد جونیجو لیگ کا کھیل ختم کردیا گیا۔
پاکستان میں انتخابات کی کیا اوقات ہے اس کا اندازہ اس بات سے کیجیے کہ متحدہ مجلس عمل کے دور میں جماعت اسلامی کے سابق امیر سید منور حسن نارتھ ناظم آباد کراچی سے متحدہ مجلس عمل کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کا انتخاب لڑ رہے تھے۔ رات ساڑھے آٹھ بجے ایک ’’باخبر ذریعے‘‘ نے ہمیں فون کرکے بتایا کہ سید منور حسن واضح اکثریت سے کامیاب ہوچکے ہیں۔ آپ کو مبارک ہو۔ ابھی ڈیڑھ گھنٹہ بھی نہیں گزرا تھا کہ ’’باخبر ذریعے‘‘ کا فون پھر آگیا۔ کہنے لگا معاف کیجیے۔ سید منور حسن کی کامیابی کو قبول نہیں کیا گیا اور مقتدر حلقوں نے انہیں ناکام قرار دے دیا۔ نواز لیگ کے رہنما خواجہ آصف یہ واقعہ جیو ٹی وی پر خود سنا چکے ہیں۔ واقعے کے مطابق گزشتہ انتخابات میں خواجہ آصف کو آدھی رات گئے معلوم ہوا کہ وہ اپنی نشست ہار رہے ہیں۔ خواجہ آصف کے بقول انہوں نے اس وقت آرمی چیف جنرل باجوہ کو فون کرکے صورت حال بتائی۔ جنرل باجوہ نے خواجہ آصف کو یقین دلایا کہ سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا۔ اور سب کچھ ٹھیک ہوگیا۔ خواجہ آصف اپنی قومی اسمبلی کی نشست جیتنے میں کامیاب ہوگئے۔
ہمارے سیاسی نظام کا ایک بہت ہی بڑا مذاق یہ ہے کہ ملک کی چار بڑی جماعتوں یعنی نواز لیگ، پیپلز پارٹی، پی ٹی آئی اور جے یو آئی پر چار خاندانوں کا قبضہ ہے۔ بلاشبہ اس قبضے کا ذمے دار شریف خاندان، بھٹو خاندان، فضل الرحمن خاندان اور عمران خان خود ہیں۔ مگر اصل بات یہ ہے کہ ہمارے جرنیلوں کو بھی جمہوری جماعتیں ’’سوٹ‘‘ نہیں کرتیں۔ بڑی جماعتوں میں جمہوریت ہوگی تو اسٹیبلشمنٹ انہیں آسانی کے ساتھ استعمال نہیں کرسکے گی۔ اس وقت ملک کے سیاسی نظام کے ساتھ ایک بڑا مذاق یہ ہورہا ہے کہ ملک کو سیاسی استحکام کے لیے فوری انتخابات کی ضرورت ہے مگر انتخابات چونکہ عمران خان جیت رہے ہیں اس لیے اسٹیبلشمنٹ، شریف اور بھٹو خاندان عمران خان کا مقابلہ کرنے کے بجائے انہیں سیاست سے باہر کرنے کی سازشیں کررہے ہیں۔

Leave a Reply