تاریخ کا حساب بھی بے باق کیجیے

پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل احمد شریف نے نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بتایا ہے کہ 9 مئی کے سانحے پر لیفٹیننٹ جنرل سمیت 3 اعلیٰ فوجی افسران کو نوکری سے برطرف کیا گیا ہے جبکہ 3 میجر جنرل اور 7 بریگیڈیئرز کے خلاف تادیبی کارروائی مکمل کرلی گئی ہے۔ جنرل احمد شریف نے کہا کہ فوج میں خود احتسابی کے عمل کو مکمل کرلیا گیا ہے۔ گیریزنز، جی ایچ کیو اور ان کے تقدس کو برقرار رکھنے میں ناکامی پر فوج میں بلاتفریق خود احتسابی کا عمل کیا گیا۔ فوج میں جتنا بڑا عہدہ ہوتا ہے اتنی ہی بڑی ذمے داری نبھانی پڑتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ایک ریٹائرڈ فور اسٹار جنرل کی نواسی احتسابی عمل سے گزر رہی ہے۔ دوسرے فور اسٹار جنرل کا داماد بھی خود احتسابی عمل سے گزر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ فوج کے احتسابی عمل میں کسی عہدے یا معاشرتی حیثیت میں کوئی فرق نہیں رکھا جاتا۔ انہوں نے بتایا کہ ایک ریٹائرڈ تھری اسٹار جنرل کی اہلیہ ایک ریٹائرڈ فور اسٹار جنرل کی بیگم اور داماد خود احتسابی عمل کا ثبوت ہیں۔ (روزنامہ جسارت کراچی، 27جون 2023)
پاکستان میں معاشرے کا کوئی طبقہ ایسا نہیں جس کا احتساب نہ ہوا ہو۔ پاکستان میں جرنیلوں کے بعد سب سے زیادہ طاقتور سیاست دان ہیں ان کا احتساب ہوا ہے۔ انہیں سیاست سے بے دخل کیا گیا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی گئی ہے۔ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کو ملک بدر کیا گیا ہے۔ الطاف حسین کو ملک سے فرار ہونے کا موقع فراہم کیا گیا ہے۔ پاکستان میں اعلیٰ عدلیہ کا احتساب ہوا ہے۔ صحافیوں کو کوڑے مارے گئے ہیں۔ جیلوں میں ڈالا گیا ہے۔ انہیں قتل کیا گیا ہے۔ لیکن پاکستان میں آج تک جرنیلوں کا احتساب نہیں ہوا۔ لیکن پاک فوج کے موجودہ ترجمان احمد شریف نے ایک نیوز کانفرنس کے ذریعے قوم کو اطلاع دی ہے کہ اب جرنیلوں، فوج کے دیگر اعلیٰ اہلکاروں اور ان سے وابستہ افراد کا بھی احتساب ہورہا ہے۔ یہ ہر اعتبار سے ایک اچھی خبر ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ فوج اس کے ساتھ ہی ماضی کا حساب بھی بے باق کردے۔
چند سال پہلے سامنے آنے والی امریکا کی خفیہ دستاویزات کے مطابق جنرل ایوب نے مارشل لا تو 1958ء میں لگایا مگر وہ 1954ء سے امریکیوں کے ساتھ خفیہ خط و کتابت کررہے تھے۔ وہ امریکیوں کو بتارہے تھے کہ پاکستان کے سیاست دان نااہل ہیں اور وہ ملک کو تباہ کردیں گے۔ جنرل ایوب امریکیوں سے کہہ رہے تھے کہ فوج سیاست دانوں کو ایسا نہیں کرنے دے گی۔ جنرل ایوب کی یہ حرکت ملک و قوم سے صریح غداری تھی۔ آخر جنرل ایوب کو پاکستان کے سیاسی پوتڑے امریکا کے سامنے دھونے کی کیا ضرورت تھی۔ انہیں مارشل لا لگانا تھا تو لگا دیتے مگر وہ امریکیوں کو اعتماد میں لینے اور ان کی حمایت حاصل کرنے کے لیے کوشاں تھے۔ وہ دراصل امریکیوں کو باور کرارہے تھے کہ پاکستان کے اصل حکمران سیاستدان نہیں بلکہ جرنیل ہیں۔ یہ پاکستان اور پاکستانی قوم کے ساتھ ایک طرح کی غداری تھی۔ چنانچہ فوج کو ہمارا مشورہ ہے کہ وہ جنرل ایوب کے اس کردار کی بنیاد پر ان پر مقدمہ چلائے اور انہیں کم از کم اس کی علامتی سزا دے۔ جیسا کہ جرنیل اور تمام فوجی جانتے ہیں تحریک پاکستان اور قیام پاکستان میں جرنیلوں یا فوج کا کوئی کردار نہیں تھا۔ اس لیے کہ اس وقت نہ جرنیل موجود تھے، نہ فوج میسر تھی۔ مگر اس کے باوجود جنرل ایوب نے 1958ء میں ملک پر پہلا مارشل لا مسلط کردیا۔ ایسا کرتے ہوئے جنرل ایوب نے قائد اعظم کی جمہوری اور عوامی جدوجہد پر تھوک دیا۔ انہوں نے سول بالادستی کے تصور کی توہین کی۔ چناں چہ فوج کے لیے ہمارا مشورہ ہے کہ وہ اس سلسلے میں بھی جنرل ایوب کے خلاف مقدمہ چلائے اور انہیں کم از کم پندرہ سال کی علامتی سزا دے۔ جنرل ایوب پاکستان کے پہلے حکمران تھے جنہوں نے پاکستان کو امریکا کی کالونی بنایا۔ انہوں نے پاکستان کے دفاع کو امریکا مرکز بنادیا۔ انہوں نے پاکستان کی معیشت کو عالمی بینک کے حوالے کردیا۔ انہوں نے ملک و قوم کو بیرونی قرضوں کے اس نشے میں مبتلا کیا جو آج اتنے بڑھ چکے ہیں کہ ہمارا آدھا بجٹ قرضوں اور ان کی سود کی ادائیگی میں خرچ ہوجاتا ہے۔ چناں چہ فوج کے لیے ہمارا مشورہ ہے کہ اس بنیاد پر بھی جنرل ایوب کے خلاف ایک مقدمہ چلایا جائے اور انہیں کم از کم پانچ سال کی علامتی سزا دی جائے۔ جنرل ایوب نے سیٹو اور سینٹو کے معاہدوں پر دستخط کرکے پاکستان کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے امریکی کیمپ میں دھکیل دیا۔ انہوں نے بڈھ بیر میں امریکا کو ایک خفیہ ہوائی اڈا فراہم کیا جس پر سوویت یونین سخت ناراض ہوا۔ جنرل ایوب پر اس حوالے سے بھی ایک مقدمہ چلنا چاہیے اور انہیں کم از کم پانچ سال کی علامتی سزا دی جانی چاہیے۔ جنرل ایوب 1958ء سے 1968ء تک ملک کے مالک بنے رہے۔ اس عرصے میں انہوں نے کئی اور ملک دشمن اور قوم دشمن اقدامات کیے۔ ان میں سے ایک قدم یہ تھا کہ بنگالی ملک کی مجموعی آبادی کا 56 فی صد تھے مگر 1960ء تک فوج میں ایک بھی بنگالی موجود نہ تھا۔ 1971ء میں جب ملک دو ٹکڑے ہوا فوج میں بنگالیوں کی موجودگی 8 سے10 فی صد تھی۔ حالاں کہ وہ آبادی کا 56 فی صد تھے۔ یہی صورتِ حال سول سروس میں تھی۔ بنگالی ملک کی آبادی کا 56 فی صد تھے مگر سول سروس میں ان کی نمائندگی صرف 2 فی صد تھی۔ یہ قوم کے خلاف ایک کھلی سازش تھی۔ یہ پاکستان سے غداری تھی۔ اس صورت حال سے بنگالیوں میں مغربی پاکستان بالخصوص پنجاب کے خلاف شدید نفرت پیدا ہوئی۔ ان میں پاکستان سے علٰیحدگی کا خیال پیدا ہوا۔ انہیں شدید ذلت کا احساس ہوا۔ چناں چہ فوج کے لیے ہمارا مشورہ ہے کہ وہ خود احتسابی کے اصول کے تحت جنرل ایوب پر ایک اور مقدمہ قائم کرے اور انہیں اس مقدمے میں عمر قید کی علامتی سزا سنائے۔ جنرل ایوب نے مشرقی پاکستان کی اکثریت سے بچنے کے لیے ملک میں ون یونٹ قائم کیا۔ جس کا بنگالیوں پر گہرا منفی اثر ہوا۔ چناں چہ اس سلسلے میں بھی جنرل ایوب پر مقدمہ چلنا چاہیے اور انہیں کم از کم تین سال کی علامتی سزا سنائی جانی چاہیے۔
جنرل یحییٰ نے 1970ء میں ون یونٹ ختم کرکے ایک آدمی ایک ووٹ کے تصور کے تحت انتخابات کرائے۔ ان انتخابات میں شیخ مجیب کی عوامی لیگ اکثریتی پارٹی بن کر سامنے آئی۔ جمہوریت کا اصول اکثریت ہے چناں چہ جنرل یحییٰ کو اقتدار شیخ مجیب کے حوالے کردینا چاہیے تھا مگر انہوں نے ایسا کرنے کے بجائے اُلٹا بنگالیوں کے خلاف فوجی آپریشن شروع کردیا۔ جس نے مشرقی پاکستان میں جلتی پر تیل کا کام کیا۔ چناں چہ اس خود احتسابی کے اصول کے تحت اس حوالے سے جنرل یحییٰ کے خلاف مقدمہ چلنا چاہیے اور انہیں کم از کم دس سال کی علامتی سزا سنائی جانی چاہیے۔ مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن شروع ہوا تو جنرل نیازی نے بنگالیوں کے خلاف ایک انتہائی توہین آمیز بیان جاری کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم بنگالی عورتوں کو اس بڑے پیمانے پر ریپ کریں گے کہ بنگالیوں کی نسل بدل جائے گی۔ تاریخ کا حساب بے باق کرانے اور خود احتسابی کے اصول کی ساکھ کو چار چاند لگانے کے لیے فوج کو ہمارا مشورہ ہے کہ وہ جنرل نیازی پر مقدمہ چلائے اور انہیں کم از کم 20 سال کی سخت علامتی سزا دے۔ یہ جنرل یحییٰ تھے جنہوں نے 1971ء کی جنگ کی کمان کی اور ہمارے 90 ہزار فوجیوں کو بھارت کے آگے نہایت شرمناک طریقے سے ہتھیار ڈالنے پر مجبور کیا۔
چناں چہ جنرل یحییٰ پر ملک توڑنے کا مقدمہ چلنا چاہیے اور انہیں علامتی طور پر پھانسی کی سزا سنائی جانی چاہیے۔ حمودالرحمن کمیشن نے اپنی رپورٹ میں جنرل یحییٰ سمیت جن جرنیلوں کے کورٹ مارشل کی سفارش کی تھی خود احتسابی کے تصور کے تحت ان سب پر مقدمے چلنے چاہئیں اور ان سب کو بیس بیس سال کی سزا سنائی جانی چاہیے۔
جنرل ایوب اور جنرل یحییٰ کے مارشل لا پاکستان کی تباہی کا سبب بنے۔ چناں چہ ملک میں کسی تیسرے مارشل لا کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔ اس کے باوجود جنرل ضیا الحق نے 1977ء میں ملک کے سیاسی حالات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ملک پر ایک اور مارشل لا مسلط کردیا۔ ان کا اصرار تھا کہ وہ ایسا نہ کرتے تو ملک میں خانہ جنگی شروع ہوجاتی۔ حالاں کہ اس کا کوئی امکان نہ تھا۔ بھٹو اور اے این اے کے درمیان سمجھوتا ہوچکا تھا۔ بھٹو 30 سے زیادہ قومی اسمبلی کی نشستوں پر انتخابات کے لیے تیار ہوچکے تھے مگر جنرل ضیا الحق نے ملک کو فوجی آمریت کے شکنجے میں جکڑ دیا۔ چناں چہ خود احتسابی کے تصور کے تحت جنرل ضیا کے خلاف مقدمہ چلنا چاہیے اور انہیں کم از کم پندرہ سال کی علامتی سزا دی جانی چاہیے۔ جنرل ضیا الحق سے ایک جعلی مقدمے میں بھٹو کو پھانسی دی۔ چناں چہ اس سلسلے میں بھی جنرل ضیا الحق پر مقدمہ چلنا چاہیے اور انہیں کم از کم پانچ سال کی علامتی سزا دی جانی چاہیے۔ جنرل ضیا الحق نے شہری سندھ پر الطاف حسین جیسے فسطائی رہنما اور ایم کیو ایم جیسی دہشت گرد تنظیم کو مسلط کیا۔ خود احتسابی کا تقاضا ہے کہ فوج اس سلسلے میں بھی جنرل ضیا الحق پر مقدمہ چلائے اور انہیں عمر قید کی علامتی سزا دے۔
جنرل پرویز مشرف نے نائن الیون کے بعد ایک ٹیلی فون کال پر پورا ملک امریکا کے حوالے کردیا۔ خود احتسابی کا تقاضا ہے کہ جنرل پرویز کے خلاف فوج فوجی عدالت میں مقدمہ چلائے اور جنرل پرویز کو کم از کم عمر قید کی سزا سنائے۔ جنرل پرویز کا مارشل لا بھی بلا جواز تھا۔ اس سلسلے میں بھی ان پر مقدمہ چلنا چاہیے اور انہیں دس سال کی علامتی سزا دی جانی چاہیے۔ فوج اگر یہ سب کچھ کرلے گی تب قوم اس بات پر حقیقی معنوں میں اعتبار کرے گی کہ فوج میں واقعتا خود احتسابی کا نظام موجود ہے۔ ورنہ اب تک تو قوم کا تاثر یہ ہے کہ فوج، فوج میں جنرل عاصم منیر کے حریفوں کو پکڑ رہی ہے اور وہ 9 مئی کے حوالے سے سویلینز کو سخت سزائیں دینے کے لیے فوجیوں کے احتساب کا نعرہ لگارہی ہے۔

Leave a Reply