کیا فوج غیر سیاسی ادارہ ہے؟

ہمارے جرنیلوں اور خفیہ اداروں کو سیاست اور صحافت میں کبھی ’’دوست‘‘ درکار نہیں ہوتے‘ انہیں ہمیشہ ان دونوں دائروں میں ’’ایجنٹوں‘‘ کی ضرورت ہوتی ہے

پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل احمد شریف چودھری نے کہا ہے کہ پاک فوج ایک غیر سیاسی ادارہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب بھی کسی ملک میں فوج کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا ہے انتشار پھیلا ہے۔ انہوں نے کہا کہ افواجِ پاکستان اور منتخب حکومت کا غیر سیاسی اور آئینی رشتہ ہے اسے سیاسی رنگ دینا مناسب نہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے لیے تمام سیاست دان اور سیاسی جماعتیں قابلِ احترام ہیں۔ پاک فوج کسی خاص جماعت‘ سوچ یا نظریے کی طرف راغب نہیں ہے۔ انہوں نے سیاست دانوں سے کہا کہ وہ فوج کے غیر سیاسی ہونے کی سوچ کو تقویت دیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ انتخابات کے لیے فوج کی طلبی حکومت کا اختیار ہے۔ (روزنامہ جنگ کراچی‘ روزنامہ خبریں کراچی۔ 26 اپریل 2023ء)

اسلامی تاریخ جرنیلوں اور فوج کے غلبے کی تاریخ نہیں ہے بلکہ سول بالادستی کی تاریخ ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال حضرت عمرؓ کا اقدام تھا۔ حضرت عمرؓ کے زمانے میں سب سے زیادہ فتوحات ہوئیں‘ اُس زمانے میں اسلامی فوج کی قیادت حضرت خالد بن ولیدؓ جیسے جلیل القدر صحابی کر رہے تھے۔ چنانچہ عوام میں یہ خیال عام ہونے لگا کہ اسلامی لشکر کی تمام فتوحات کا سبب خالد بن ولیدؓ ہیں۔ حضرت عمرؓ نے یہ صورتِ حال دیکھی تو خالد بن ولیدؓ کو معزول کر دیا۔ صحابہؓ نے حضرت عمرؓ سے اس کی وجہ معلوم کی تو حضرت عمرؓ نے کہا: اسلامی لشکر کی تمام فتوحات اسلام کی وجہ سے ہیں‘ خالد بن ولیدؓ کی وجہ سے نہیں۔ لیکن بدقسمتی سے اسلام کے نام پر وجود میں آنے والے پاکستان میں جرنیلوں نے نہ نظریے کو اہم رہنے دیا، نہ تہذیب اور تاریخ کو ہماری زندگی کا مرکزی حوالہ بننے دیا۔ انہوں نے معاشرے میں اس خیال کو عام کیا کہ جو کچھ ہے جرنیل ہیں‘ جو کچھ ہے فوج ہے۔ نظریہ بھی فوج ہے‘ قوم بھی فوج ہے‘ ریاست بھی فوج ہے۔ اس کی ایک کلاسیکل مثال جامعہ کراچی میں ہمارے استاد متین الرحمن مرتضیٰ تھے۔ متین الرحمن مرتضیٰ جسارت اور ہفت روزہ تکبیر کے اداریہ نویس رہے تھے مگر ان کے ذہن پر جرنیل اور فوج چھائی ہوئی تھی۔ ایک دن ہم نے اُن کے سامنے فوج پر تنقید کی تو برا سا منہ بنا کر کہنے لگے کہ ’’میاں! فوج ہے تو پاکستان ہے‘ فوج نہیں تو کچھ بھی نہیں۔‘‘ ہم نے عرض کیا کہ متین صاحب ہم کتنی غریب اور عسرت زدہ قوم ہیں‘ ہماری قوت نہ ہمارا نظریہ ہے‘ نہ ہماری تہذیب ہے‘ نہ ہماری تاریخ ہے‘ نہ ہمارا قومی اتحاد ہے۔ ہمارا جو کچھ بھی ہے بس فوج ہے۔ یہ تو دشمن کے لیے بڑی آسان بات ہے۔ اسے پاکستان کو تحلیل کرنا ہو تو بس وہ کسی طرح فوج پر قابو پا لے جیسے اس نے 1971ء میں فوج پر قابو پا لیا تھا اور ملک ٹوٹ گیا تھا۔ ہم نے کہا کہ آپ نے فوج پر اس کی قوت سے زیادہ بوجھ ڈال دیا ہے۔ قوموں کو ان کا نظریہ حیات‘ ان کی اقدار‘ ان کا عزم‘ ان کا اتحاد‘ ان کی قوتِ تخلیق و تسخیر زندہ رکھتی ہے۔ ہماری بات سن کر متین صاحب خاموش ہوگئے، لیکن متین صاحب نے جو بات کہی تھی ہمارے جرنیلوں اور ان کے زیر اثر ہمارے بہت سے سیاست دانوں‘ دانش وروں اور صحافیوں کا نظریہ آج بھی یہی ہے کہ ’’جو کچھ ہے بس فوج ہے‘‘۔ حالانکہ فوج پوری قوم نہیں‘ قوم کا محض ایک جزو ہے۔ قوم کی اہمیت یہ ہے کہ 1965ء میں پوری قوم فوج کی پشت پر کھڑی تھی چنانچہ فوج نے بھارت کے مقابلے پر بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ مگر 1971ء میںقوم کا 56 فیصد فوج کے خلاف کھڑا تھا چنانچہ ملک ٹوٹ گیا اور ہمارے 90 ہزار فوجیوں نے نہایت شرم ناک حالات میں بھارت کے سامنے ہتھیار ڈالے۔

جہاں تک پاک فوج کے ترجمان کے مذکورہ بیانات کا تعلق ہے تو اس میں ایک بات کے سوا ہر بات غلط ہے۔ میجر جنرل احمد شریف کا دعویٰ ہے کہ فوج سیاسی ادارہ نہیں ہے حالانکہ فوج 1954ء سے ایک سیاسی ادارہ بنی ہوئی ہے۔ چند سال پیشتر شائع ہونے والی امریکہ کی خفیہ دستاویزات سے یہ حقیقت آشکار ہوئی کہ جنرل ایوب نے مارشل لا تو 1958ء میں لگایا مگر وہ 1954 سے امریکیوں کے ساتھ ’’سیاسی رابطہ‘‘ استوار کیے ہوئے تھے۔ 1954ء میں پاکستان کو وجود میں آئے صرف 7 سال ہوئے تھے‘ اُس وقت مسلم لیگ کے سوا کوئی جماعت اہم اور ملک گیر نہیں تھی، مگر جنرل ایوب ایک سیاسی جماعت کے سربراہ کی طرح امریکیوں کے کان بھر رہے تھے۔ وہ امریکیوں کو بتا رہے تھے کہ پاکستان کے سیاست دان نااہل ہیں اور وہ ملک کو تباہ کر دیں گے۔ جنرل ایوب امریکیوں کو بتا رہے تھے کہ فوج سیاست دانوں کو ملک تباہ نہیں کرنے دے گی۔ جنرل ایوب کا جذبہ تو اچھا تھا مگر ان کے پاس امریکیوں سے ایسی گفتگو کرنے کا مینڈیٹ نہیں تھا۔ جنرل ایوب ایک جنرل تھے‘ وہ ملک کے صدر یا وزیراعظم نہیں تھے۔ انہیں سیاسی دائرے میں قوم کی ترجمانی کا حق حاصل نہیں تھا، مگر جنرل ایوب خود کو سیاست دان اور فوج کو ایک سیاسی جماعت بنائے ہوئے تھے۔ جنرل ایوب نے 1958ء میں کسی مینڈیٹ کے بغیر ملک پر مارشل لا مسلط کر دیا اور فوج کو انہوں نے ریاستی امور میں مداخلت کا حق دے کر ایک سیاسی جماعت میں ڈھال دیا۔ ساری مہذب دنیا میں ریاست اور حکومت چلانے کا کام سیاست دان اور سیاسی جماعتیں کرتی ہیں، چونکہ جنرل ایوب نے یہ دونوں کام خود سنبھال لیے تھے اس لیے وہ جنرل سے ایک سیاست دان بن گئے تھے اور فوج کو انہوں نے ایک سیاسی جماعت بنا دیا تھا۔ جنرل ایوب کا سیاسی سرکس دس سال سے زیادہ عرصے چلا مگر پھر جنرل یحییٰ نے ایک سیاست دان کی طرح ان کے خلاف سازش کی اور انہیں صدارت کے منصب سے ہٹنے پر مجبور کر دیا۔ اب جنرل ایوب کی جگہ جنرل یحییٰ نے لے لی، مگر وہکہنے ہی کو ایک جرنیل تھے ورنہ وہ بھی تین سال تک ایک سیاست دان کی طرح سامنے آتے رہے اور انہوں نے فوج کو ایک سیاسی جماعت بنائے رکھا۔

جنرل یحییٰ نے 1970ء میں بالغ حق رائے دہی کی بنیاد پر انتخابات کرائے۔ ان انتخابات میں عوامی لیگ نے اکثریت حاصل کرلی۔ جمہوریت کا اصول اکثریت کی حکومت ہے مگر جنرل یحییٰ نے ایک جرنیل کے بجائے ایک سیاست دان کی طرح عوامی لیگ کی اکثریت کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ چنانچہ مشرقی پاکستان میں عوامی جذبات کا لاوا ابل پڑا۔ لیکن جنرل یحییٰ نے اکثریت کے اصول کے آگے سرِ تسلیم خم کرنے کے بجائے بنگالیوں کو کچلنے کے لیے فوجی آپریشن شروع کر دیا۔ اس طرح جنرل یحییٰ سیاسی بحران میں ایک ’’سیاسی فریق‘‘ اور فوج ایک ’’سیاسی جماعت‘‘ بن کر سامنے آئی۔ یہ بات بھی تاریخ کے ریکارڈ پر ہے کہ 1960ء تک فوج میں ایک بھی بنگالی نہیں تھا حالانکہ بنگالی ملک کی آبادی کا 56 فیصد تھے۔ یہ زمانہ جنرل ایوب کا زمانہ تھا اور فوج میں بنگالیوں کی عدم موجودگی ایک ’’سیاسی زاویۂ نگاہ‘‘ کا نتیجہ تھی۔ جنرل ایوب کے زمانے میں ون یونٹ کا تجربہ بھی ہو چکا تھا۔ یہ تجربہ بھی بنگالیوں کی اکثریت سے بچنے کی ایک سازش تھی، اور یہ سازش بھی سیاسی رنگ کی حامل تھی۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد اس علیحدگی کے اسباب جاننے کے لیے ’’حمود الرحمن کمیشن‘‘ قائم کیا گیا تھا۔ اس کمیشن نے جنرل یحییٰ سمیت کئی جرنیلوں کو سقو ط ڈھاکہ کا ذمے دار قرار دیتے ہوئے ان کے کورٹ مارشل کی سفارش کی تھی۔ مگر جنرل یحییٰ کے خلاف کچھ بھی نہ ہوا۔ اس کی وجہ بھی سیاسی تھی۔ ممتاز صحافی آصف جیلانی سے گفتگو کرتے ہوئے بھٹو صاحب نے ایک بار انکشاف کیا تھا کہ امریکہ نے پاکستان کی سیاسی قیادت کو پیغام دیا تھا کہ سقوط ڈھاکہ کے بعد جنرل یحییٰ کو کچھ نہ کہا جائے کیوں کہ انہوں نے امریکہ اور چین کے درمیان تعلقات استوار کرانے کے لیے اہم خدمات انجام دی ہیں۔

جنرل ضیا الحق نے 1977ء میںمارشل لا لگا کر اور بھٹو کو برطرف کرکے ایک بار پھر خود کو سیاست دان اور فوج کو سیاسی جماعت بنا دیا۔ بھٹو صاحب نے انتخابات میں دھاندلی کی تھی تو یہ معاملہ بھٹو اور پی این اے کی قیادت کو طے کرنا تھا کہ اب کیا کرنا ہے۔ جماعت اسلامی کے رہنما پروفیسر غفور نے ہمیں خود بتایا کہ بھٹو صاحب اور پی این اے کے درمیان معاہدہ تقریباً طے پا گیا تھا مگر جنرل ضیا الحق نے مارشل لا لگا دیا۔ جنرل ضیا الحق اگر سیاست دان اور فوج ایک سیاسی جماعت نہ ہوتی تو جنرل ضیا الحق کو اپنے وعدے کے مطابق 90 دن میں انتخابات کرا کے بیرکوں میں واپس چلا جانا چاہیے تھا، مگر ایسا نہیں ہوا۔ چلیے انتخابات ٹلے تھے تو ٹل جاتے مگر جنرل ضیا الحق نے تو بھٹو ہی کو پھانسی پر ٹانگ دیا۔ یہ ایک جرنیل کا نہیں ایک سیاست دان کا فیصلہ تھا جسے معلوم تھا کہ بھٹو بچ گئے تو وہ جنرل ضیا الحق سے ضرور انتقام لیں گے۔

میاں نواز شریف کے دور میں جنرل جہانگیر کرامت نے قومی سلامتی کونسل قائم کرنے اور فوج کے سیاسی کردار کو آئینی تحفظ مہیا کرنے کا منصوبہ پیش کیا جس پر ملک میں بڑا ہنگامہ ہوا اور جنرل جہانگیر کرامت کو اپنے عہدے سے مستعفی ہونا پڑا۔ میاں نواز شریف کے دور میں جنرل پرویز نے ’’کارگل‘‘ ایجاد کیا اور میاں نواز شریف کو اصل منصوبے کی کانوں کان خبر نہ ہونے دی۔ اس طرح جنرل پرویز ایک ’’متوازی حکومت‘‘ اور فوج ’’ریاست کے اندر ریاست‘‘ بن کر سامنے آئی۔ میاں نواز شریف نے جنرل پرویز کو برطرف کر دیا اور ملک کے انتظامی سربراہ کی حیثیت سے انہیں جنرل پرویز کو برطرف کرنے کا اختیار حاصل تھا، مگر جنرل پرویز نے اپنی برطرفی کو قبول نہ کیا اور ایک بار پھر متوازی حکومت بن کر کھڑے ہوگئے اور انہوں نے نواز شریف کو برطرف کرکے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ یہ ایک غیر آئینی اقدام تھا اور اگر فوج ایک سیاسی جماعت نہ ہوتی تو وہ ہرگز بھی جنرل پرویز کے غیر آئینی اقدام کو تسلیم نہ کرتی۔

یہ بات بھی تاریخ کے ریکارڈ پر ہے کہ فوج نے خود کو سیاست دان سازی کا کارخانہ بنایا ہوا ہے۔ یہ جنرل ایوب تھے جنہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کو پیدا کیا‘ یہ جنرل ضیا الحق اور جنرل جیلانی تھے جنہوں نے نواز شریف کو نواز شریف بنایا‘ یہ جنرل ضیا الحق تھے جنہوں نے الطاف حسین کو الطاف حسین اور ایم کیو ایم کو ایم کیو ایم بنایا۔ یہ جرنیل تھے جنہوں نے پروجیکٹ عمران خان شروع کیا‘ یہ جنرل باجوہ تھے جو عمران خان کو اقتدار میں لائے‘ یہ جنرل باجوہ تھے جنہوں نے عمران خان کو اقتدار سے نکالا اور شریفوں کو اقتدار سونپا۔ میجر جنرل احمد شریف چودھری کا ارشاد ہے کہ فوج کے لیے تمام سیاست دان اور تمام سیاسی جماعتیں محترم ہیں۔ حالانکہ تاریخی حقیقت یہ ہے کہ جرنیلوں اور فوج کے لیے کوئی سیاسی رہنما اور کوئی سیاسی جماعت محترم نہیں ہے۔ جنرل ایوب نے مارشل لا لگایا تو تمام سیاسی جماعتوں کو کالعدم قرار دے دیا۔ یہی کام جنرل ضیا الحق نے کیا۔ جنرل پرویز نے سیاسی جماعتوںکو کالعدم تو قرار نہیں دیا مگر انہوں نے نواز شریف کو ملک سے بھاگنے پر مجبور کر دیا، الطاف حسین اور ایم کیو ایم کی کھل کر سرپرستی کی اور بے نظیر بھٹو کے ساتھ این آر او کیا۔ ہمارے جرنیلوں اور خفیہ اداروں کو سیاست اور صحافت میں کبھی ’’دوست‘‘ درکار نہیں ہوتے‘ انہیں ہمیشہ ان دونوں دائروں میں ’’ایجنٹوں‘‘ کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ ضرورت بجائے خود ایک سیاسی کام ہے۔ احمد شریف چودھری نے فرمایا ہے کہ افواج پاکستان اور منتخب حکومت کا غیر سیاسی اور آئینی رشتہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جرنیلوں نے آج تک آئین کی عزت نہیں کی۔ جنرل ایوب اقتدار میں آئے تو انہوں نے 1956ء کا آئین ختم کر دیا۔ جنرل ضیا اقتدار میں آئے تو انہوں نے 1973ء کے آئین کو طاق نسیاں پر رکھ دیا‘ وہ آئین کا مذاق اڑاتے تھے اور اسے چند صفحوں کی دستاویز کہا کرتے تھے۔ جنرل پرویز نے بھی کبھی آئین کی تکریم نہیں کی، اس کے برعکس وہ وردی کی ’’عزت‘‘ کرتے تھے اور اسے اپنی دوسری کھال کہتے تھے۔ احمد شریف صاحب کی یہ بات بھی سو فیصد غلط ہے کہ فوج کسی جماعت کی طرف راغب نہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ فوج عمران خان کی مقبولیت سے ہراساں ہے اور وہ پی ڈی ایم کی مکمل سرپرستی کر رہی ہے۔

Leave a Reply