عزت

ٹیپو سلطان نے کہا تھا ’’شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے‘‘ اسی ایک دن کی زندگی کے بہتر ہونے کی بنیادی وجہ یہ نہیں ہے کہ شیر شیر ہے بلکہ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ شیر کی زندگی عزت کی زندگی ہے اور گیدڑ کی زندگی ذلت کی زندگی ہے۔ چناں چہ عزت کا ایک دن ذلت کے سو سال سے بہتر ہے۔ لیکن عزت انسان کے لیے اہم کیوں ہے؟
ایک سطح پر عزت زندگی کی ہم معنی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تاریخ کے طویل سفر میں عزت ان چیزوں میں سے ایک چیز ہے جن کے لیے انسان نے موت کو گلے لگایا ہے۔ انسان کے لیے موت کے تجربے سے زیادہ ہولناک تجربے کا تصور محال ہے۔ اس لیے کے موت زندگی اور اس کی ساری لذتوں اور راحتوں کو قطع کرنے والی ہے۔ لیکن عزت انسان کے لیے اتنی اہم ہے کہ وہ اس کے تحفظ کے لیے ہنستے کھیلتے موت کو گلے لگا لیتا ہے۔ اس لیے کہ اسے محسوس ہوتا ہے کہ زندگی کے معنی ہی عزت کی زندگی ہیں۔ عزت نہیں تو زندگی بھی نہیں اور جب زندگی نہیں تو زندہ رہنے کا کوئی جواز بھی نہیں۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو عزت روحانی زندگی ہے، اخلاقی زندگی ہے، نفسیاتی زندگی ہے، جذباتی زندگی ہے، احساساتی زندگی ہے، سماجی زندگی ہے۔ اس کے برعکس ذلت روحانی موت ہے۔ اخلاقی موت ہے، نفسیاتی موت ہے، جذباتی موت ہے، احساساتی موت ہے، سماجی موت ہے۔
اسلام میں سزا کا تصور یہ ہے کہ انسان جرم کرتا ہے تو اپنے خدا، اپنے مذہب، اپنے اخلاقی تصورات اپنی ذات کے مراکز اور اپنے معاشرے سے انحراف کرتا ہے اور اس کی پاداش میں سزا کا مستحق قرر پاتا ہے۔ لیکن سزا محض سزا نہیں ہے بلکہ سزا اسے اس کے جرم اور اس کے گناہ سے پاک کرنے والی ہے۔ لیکن انسان کو پاک کرنے کا یہ عمل انسان کی عزت کو پامال کرنے سے برآمد ہوتا ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ انسانی لغت میں سزا کا اصل مفہوم انسان کو کچھ عرصے یا ہمیشہ کے لیے اس کی عزت سے محروم کردینا ہے۔ اس حقیقت کا مفہوم بھی یہی ہے کہ زندگی اپنی اصل میں محض حیاتیاتی تصور نہیں بلکہ وہ اپنی اصل میں روحانی، اخلاقی، نفسیاتی، جذباتی، ذہنی، احساساتی اور سماجی تصور ہے۔ اس لیے کہ عزت سے محرومی ان تمام دائروں میں انسان کو زندگی کی کیفیت سے دور لے جاتی ہے اور اسے مردنی کے تجربے سے دوچار کرتی ہے لیکن عزت کا معاملہ صرف زندگی کے احساس تک محدود نہیں۔
اس لیے بھی انسان کو عزیز ہے کہ وہ صرف انسان کو زندگی کا احساس نہیں دلاتی بلکہ اس کی ’’موجودگی‘‘ کا پتا بھی دیتی ہے۔ زندگی ایک تجریدی یا Abstract چیز ہے لیکن موجودگی کا تعلق انسان کے تشخص یعنی Identity سے ہے۔ میر تقی میر کا ایک شعر ہے۔
پھرتے ہیں میر خوار کوئی پوچھتا نہیں
اس عاشقی میں عزتِ سادات بھی گئی
یہاں میر کے شعر کی معنویت پر گفتگو مقصود نہیں، یہاں اس امر کی نشاندہی کافی ہے کہ ’’عزتِ سادات‘‘ کا مطلب ایک تشخص ہے۔ اس تشخص میں انسان کا حسب نسب آتا ہے، خاندانی روایات آتی ہیں، سماجی زندگی آتی ہے۔ معاشی حیثیت آتی ہے اور یہ تمام چیزیں مل کر انسان کو اس کی موجودگی یا Presence کا احساس دلاتی ہیں۔ یہ احساس اکثر اوقات زندگی کے مجّرد یا Abstract احساس سے زیادہ اہم ہوتا ہے۔ اس لیے کہ اس کا تعلق ظاہری مظاہر سے ہوتا ہے۔ موجودگی کا احساس صرف فرد کے لیے نہیں خاندان، گروہ، تنظیم یہاں تک کہ قوم کے لیے بھی اہم ہوتا ہے۔ اس لیے کہ موجودگی سے عزت ہے اور عزت کے ذریعے انسان اپنی موجودگی کے تجربے اور احساس سے ہمکنار ہوتا ہے لیکن عزت کی اہمیت کا ایک اور اہم پہلو ہے۔
عزت جہاں انسان کو یہ باور کراتی ہے کہ وہ زندہ اور موجود ہے وہیں عزت اسے یہ بھی بتاتی ہے کہ وہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد کے لیے ’’قابل قبول‘‘ ہے۔ یہاں تک کہ وہ اسے خود سے بھی زیادہ اہم خیال کرتے ہیں۔ قبولیت کے تصور اور احساس کے کئی اہم زاویے ہیں۔ زندگی اور موجودگی کا احساس انسان کے لیے صرف انفرادی معنوں میں اہم ہے۔ لیکن قبولیت کا تجربہ اسے دوسرے لوگوں کی زندگی میں شریک کردیتا ہے۔ چنانچہ انسان کو قبولیت کے ذریعے معلوم ہوتا ہے کہ اس کی شخصیت کی معنویت اور حسن و جمال مصنوعی یا بے بنیاد نہیں بلکہ حقیقی ہیں اور ان سے ’’دوسرے‘‘ بھی متاثر ہوسکتے ہیں۔ یہ احساس زندگی اور موجودگی کے مفہوم کو زیادہ گہرا، قوی اور شدید بنا دیتا ہے۔ دوسرے لوگوں کی قبولیت یا عدم قبولیت بہت بڑی شخصیات کو بھی مثبت یا منفی معنوں میں متاثر کرسکتی ہے۔ مثلاً میر کا ایک شعر ہے۔
سارے عالم پر ہوں میں چھایا ہوا
مستند ہے میرا فرمایا ہوا
لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ صرف شاعرانہ ’’تعلّی‘‘ ہے یا ایک شعرانہ ’’خود پسندی‘‘ ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ قبولیت کے احساس سے پیدا ہونے والا ردعمل ہے۔ میر کی زندگی میں بڑے غم تھے مگر ان کی شاعرانہ عظمت کو ان کی زندگی ہی میں قبول کرلیا گیا تھا۔ چنانچہ میر مذکورہ بالا شعر کہنے میں حق بجانب تھے۔ اس کے برعکس غالب کا معاملہ یہ تھا کہ وہ عظیم شاعر تھے مگر ان کی عظمت ان کے زمانے میں دریافت نہ ہوسکی۔ ان کا زمانہ ان کے مقابلے پر ذوق اور مومن کو بڑا شاعر سمجھتا رہا حالاں کہ یہ دونوں شاعر غالب کا پاسنگ بھی نہیں تھے۔ چنانچہ اپنی عظمت کے تمام تر احساس کے باوجود غالب نے کہا ہے۔
سو پشت سے ہے پیشۂ آبا سپہ گری
کچھ شاعری ذریعۂ عزت نہیں مجھے
غالب نے یہاں ایک صحیح بات کے لیے غلط دلیل دی ہے۔ غالب کے آبا سو پشتوں سپاہی کیا فوج کے سپہ سالار بھی ہوتے تو غالب کو وہ عزت حاصل نہیں ہوسکتی تھی جو انہیں شاعری نے فراہم کی۔ مگر غالب کا یہ ردعمل بھی ان کے عدم قبولیت کے احساس سے پیدا ہوا ہے۔ عزت کا ایک حاصل یہ ہے کہ وہ انسان اور اس کی زندگی کو اتنا وسیع یا اتنا maximize کردیتی ہے کہ ایک انسان، سو، ایک ہزار، ایک لاکھ بلکہ کروڑ کے برابر ہوجاتا ہے۔ اس کے برعکس ذلت کا تجربہ آدمی کو ایک انسان کے برابر بھی نہیں رہنے دیتا۔ وہ اسے ایک جیتا جاگتا صفر بنا کر رکھ دیتا ہے۔
انسانوں کی عظمت اکثریت کسی نہ کسی سطح پر اس بات کو سمجھتی ہے اس لیے وہ ذلت سے ڈرتی اور عزت کی آرزو کرتی ہے لیکن دوسروں کی قبولیت حق اور حقیقی عزت کا معیار نہیں۔ انبیا و مرسلین کی تو بات ہی اور ہے غالب تک کے سلسلے میں ان کا پورا عہد غلط تھا۔ اس عہد کو معلوم ہی نہیں تھا کہ غالب کتنا بڑا شاعر ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ عزت کی بنیاد کیا ہے اور کیا ہونی چاہیے؟
پوری انسانی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو عزت کے چار معیارات انسانی تاریخ پر غالب نظر آتے ہیں۔
(1) حسب نسب
(2) نسل
(3) طاقت
(4) دولت
لیکن حسب نسب اور نسل کا معاملہ یہ ہے کہ یہ دونوں چیزیں اتفاقی ہیں۔ کوئی انسان اپنی کوشش سے کسی خاص حسب نسب یا نسل میں پیدا نہیں ہوسکتا۔ چنانچہ مذہبی کیا عقلی معنوں میں بھی حسب و نسب اور نسل کو عزت کا پیمانہ بنانا درست نہیں۔ جہاں تک طاقت اور دولت کا تعلق ہے تو طاقت اور دولت مند افراد کیا قوموں اور ملکوں کے لیے بھی تباہ کن ہیں۔ لیکن اس کے باوجود بھی انسان ان کی کشمکش سے باہر نکلنے کے لیے تیار نہیں اور اس کا خیال ہے کہ طاقت اور دولت کی عزت سے بڑھ کر کوئی عزت نہیں۔ لیکن عزت کا معاملہ یہ ہے کہ وہ خود بخود ہوتی ہے ’’کرائی‘‘ نہیں جاتی۔ لیکن دنیا میں ہزاروں مثالیں ہیں جو عزت کرانے کی کوشش سے عبارت ہیں، مثال کے طور پر اسلامی جمہوریہ پاکستان میں فوج پر تنقید کا مفہوم فوج کی توہین ہے اور آئینی اعتبار سے فوج کی توہین جرم ہے۔ اس سلسلے میں فوج کیا عدلیہ تک کا حال خستہ ہے۔ ہمارے ملک میں آئے دن لوگوں کو توہین عدالت کے جرم میں عدالت کے روبرو طلب کیا جاتا ہے، ہمارے جرنیل یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ فوج کا کام صرف ملک کا دفاع کرنا ہے اور اگر فوج خود کو اس فریضے تک محدود رکھے اور اسے احسن طریقے سے انجام دے تو عوام کی عظیم اکثریت کسی آئینی اور قانونی تقاضے کے بغیر ہی فوج کی عزت کرے گی۔ ہمارے جج صاحبان کے شعور میں یہ بات راسخ نہیں کہ عدلیہ کا کام انصاف کرنا ہے اور اگر عدلیہ تواتر کے ساتھ یہ کام کرے تو معاشرہ خود بخود عدلیہ کی عزت کرے گا۔ ورنہ توہین عدالت کے جرم میں لوگوں کو سزا دے کر بھی ان سے عدلیہ کی حقیقی عزت نہیں کرائی جاسکتی۔ طاقت اور دولت کے ذریعے عزت کرانے کا مسئلہ اقوام تک کو اپنی گرفت میں لیے ہوئے ہے۔ امریکا اور دیگر مغربی ممالک کہتے ہیں کہ ہم تہذیب، علم، شعور اور دلیل و برہان کے امین ہیں لیکن جب وہ اپنی رائے اور نقطہ نظر دنیا پر مسلط کرتے ہیں تو تہذیب، علم، تصور اور دلیل کہیں موجود نہیں ہوتے اگر اس وقت کچھ موجود ہوتا ہے تو ان کی عسکری اور مالی طاقت، اسلام کا معاملہ اس کے برعکس یہ ہے کہ وہ عزت اور فضیلت کو تقوے اور علم پر منحصر قرار دیتا ہے۔ اسلام کہتا ہے کہ حقیقی عزت اگر ہے تو صرف تقوے اور علم میں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تقویٰ خدا کے قرب کی علامت ہے اور انسان کے لیے خدا کے قرب سے بڑھ کر کوئی عزت اور کوئی فضیلت نہیں ہوسکتی۔ اس لیے کہ خدا زندگی اور کائنات کی سب سے بڑی اور سب سے اہم حقیقت ہے۔ علم کا معاملہ یہ ہے کہ وہ ایک جانب شرف انسان کی علامت ہے، دوسری جانب وہ انسان میں شعور کو راسخ کرنے والا ہے اور تیسری جانب وہ تخلیق و ایجاد اور اختراع کی بنیاد ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی تاریخ کی ساری عظمت تقوے اور علم سے متعلق ہے۔ اسلامی معاشرے میں تقوے اور علم کی فضیلت کی اہمیت یہ ہے کہ مسلمانوں نے جب بھی ان دونوں صفات کو اہمیت دی ہے عزت کے جھوٹے پیمانے پاش پاش ہوئے ہیں اور اسلامی معاشرہ حقیقی معنوں میں خدا مرکز اور انسان مرکز معاشرہ بن کر ابھرا ہے۔

Leave a Reply