اسلام، پاکستان اور اعلیٰ اقدار سے شریف خاندان کی غداری

عمران خان کو امریکا کی دھمکی کے بعد پاکستان میں ایک بار پھر وفاداری اور غداری کی بحث شروع ہوگئی ہے۔ اس فضا میں نواز لیگ بالخصوص شریف خاندان چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے کہ وہ پاکستان سے غداری کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا۔ میاں شہباز شریف اس سلسلے میں اتنے جذباتی ہوگئے ہیں کہ انہوں نے جنرل باجوہ سے وفاداری کی سند طلب کرلی ہے۔ عین ممکن ہے کہ ان سطور کی اشاعت تک انہیں یہ سند فراہم بھی ہوجائے لیکن شریف خاندان کی پوری تاریخ بتاتی ہے کہ شریف خاندان اسلام، پاکستان اور اعلیٰ اقدار کا غدار ہے۔
چودھری شجاعت ملک کے ممتاز سیاست دان ہیں۔ وہ صلح کُل پر کامل یقین رکھتے ہیں۔ ان کا نعرہ ہے دوستی سب سے دشمنی کسی سے نہیں۔ مگر چودھری شجاعت نے اپنی خودنوشت سچ تو یہ ہے میں شہباز شریف کے حوالے سے ایک عجیب واقعہ لکھا ہے۔ چودھری صاحب نے لکھا ہے کہ نواز لیگ کے ساتھ ان کا معاہدہ ہوا تو میاں شہباز شریف گھر کے اندر سے قرآن شریف اٹھا لائے۔ انہوں نے چودھری صاحب کو قرآن مجید دکھاتے ہوئے کہا کہ یہ قرآن اس بات کا ضامن ہے کہ ہم آپ سے کیے گئے معاہدے کی ایک ایک شق پر عمل کریں گے۔ چودھری شجاعت نے لکھا ہے کہ بعدازاں شریف خاندان نے معاہدے کی ایک شق پر بھی عمل نہ کیا۔
پاکستانی معاشرے کو ’’اسلامی‘‘ کہا جاتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہمارا معاشرہ زیادہ سے زیادہ مسلم معاشرہ کہلانے کا مستحق ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ ہماری زبان پر تو اسلام ہے مگر ہمارے افعال اور اعمال میں اسلام کم کم ہی دکھائی دیتا ہے۔ عام مشاہدہ اور تجربہ ہے کہ لوگوں کی عظیم اکثریت جھوٹ بولتی ہے۔ وعدہ خلافی کرتی ہے۔ معاشرے میں ملاوٹ عام ہے۔ تولنے والوں میں کم تولنے والوں کی بڑی تعداد موجود ہے۔ اس کے باوجود بھی صورت حال یہ ہے کہ اگر کوئی شخص قرآن پر قسم کھالے تو وہ اپنی قسم کو پورا کرتا ہے۔ اس لیے کہ معاشرے میں قرآن کی تقدس کا خیال موجود ہے مگر میاں شہباز شریف کے ایمان کا یہ حال ہے کہ انہوں نے قرآن کو ضامن بنایا اور پھر وعدے کے خلاف کام کیا۔ ظاہر ہے کہ جب شہباز شریف قرآن اٹھا کر لائے ہوں گے تو وہ اکیلے نہیں ہوں گے۔ یقینا وہاں میاں نواز شریف بھی موجود ہوں گے۔ چناں چہ قرآن کو ضامن بنانے کے عمل میں وہ بھی شریک سمجھے جائیں گے۔ لیکن جب شریفوں نے چودھریوں سے کیے گئے معاہدے کی خلاف ورزی کی تو نہ میاں شہباز شریف کو اس بات کا خیال آیا کہ انہوں نے معاہدے پر عمل کے حوالے سے قرآن مجید کو ضامن بنایا تھا نہ میاں نواز شریف نے انہیں یاد دلایا کہ معاہدے کا ضامن قرآن ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو شریف خاندان نے پوری ڈھٹائی کے ساتھ قرآن کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کرلیا۔ یہ ہے شریف خاندان کی اسلام سے غداری۔
یہ چند سال پہلے کی بات ہے کراچی سے شائع ہونے والے انگریزی روزنامے ہیرالڈ ٹربیون نے ایک خبرشائع کی۔ خبر کے مطابق جس وقت آصف زرداری، ملک کے صدر تھے اور ملک پر پیپلز پارٹی کی حکومت تھی تو اقوام متحدہ نے حکومت کو تجویز دی کہ وہ ملک میں زنابالرضا کو جائز قرار دے دے مگر پیپلز پارٹی نے انکار کردیا۔ میاں نواز شریف کی حکومت آئی تو اقوام متحدہ کے متعلقہ ادارے نے ایک بار پھر حکومت پاکستان سے کہا کہ زنابالرضا کو قبول کرلے۔ حکومت نے اس تجویز کو قبول تو نہ کیا مگر اس پر ’’قابل غور‘‘ لکھ کر اسے واپس بھیج دیا۔ یہ بھی ایک بہت بڑی جرأت تھی اس لیے کہ اسلامی معاشرہ کسی صورت زنا بالرضا کو قبول نہیں کرسکتا بلکہ وہ اس کے بارے میں سوچ بچار کی طرف بھی مائل نہیں ہوسکتا، اس لیے کہ زنا گناہ کبیرہ ہے۔ مگر میاں نواز شریف کی حکومت نے اس سلسلے میں اسلامی احکامات کا رتی برابر خیال نہ کیا۔ بلاشبہ اسلام کا غدار ہی زنابالرضا کو ’’قابل غور‘‘ قرار دے سکتا ہے۔
انصار عباسی کا شمار پاکستان کے اسلام پسند صحافیوں میں ہوتا ہے۔ اسلام سے انصار عباسی کی وابستگی ہر طرح کے شک و شبہ سے بالاتر ہے۔ البتہ وہ میاں نواز شریف کے پرستار اور نواز لیگ کے حامی ہیں۔ چناں چہ ان کے بارے میں یہ سوچا بھی نہیں جاسکتا کہ وہ شریفوں کے سلسلے میں کسی غلط بیانی کے مرتکب ہوں گے۔ ذرا دیکھیے تو آج سے نو سال پہلے انصار عباسی نے شریفوں بالخصوص میاں شہباز شریف کے بارے میں کیا تحریر فرمایا۔ انصار عباسی نے لکھا۔
گزشتہ دنوں دو باتوں نے مجھے بہت دکھی کردیا۔ ہفتہ کی شام دفتر میں بیٹھا اپنا کام کررہا تھا کہ ایک انجانے شخص کا فون آیا۔ وہ صاحب لاہور کے ایک پروفیسر تھے اور انہوں نے مجھے اطلاع دی کہ حکومت پنجاب نے دسویں جماعت کی اردو لازمی کی نئی کتاب میں اسلام سے متعلق تقریباً تمام اہم مضامین اور نظموں کو نکال دیا۔ میں نے فوری طور پر بازار سے پرانی اور نئی اردو کی دسویں جماعت کی کتب منگوائیں تو مجھے یقین نہ آیا کہ کس کامیابی مگر دھوکے، دغا بازی اور عیاری کے ساتھ پاکستان کی اسلامی بنیادوں کو کھوکھلا کرنے کی سازش کی جارہی ہے اور ہمیں کوئی خبر ہی نہیں۔ ہماری آنے والی نسلوںکو اسلام سے دور کرکے سیکولر سوچ کی فروغ کے لیے کیا گھنائونا کھیل کھیلا جارہا ہے۔ مجھے یقین نہیں آرہا تھا کہ ’’رب کائنات‘‘، ’’محسنؐ انسانیت‘‘، ’’طلوع اسلام‘‘، ’’صدیقہؓ‘‘، جیسے موضوعات کی نظموں کو کتاب کے حصہ نظم سے نکال دیا جائے گا جب کہ حصہ نثر سے ’’حضرت عمر فاروقؓ‘‘، ’’عظیم منتظم‘‘، ’’نظریہ پاکستان‘‘، ’’فاطمہ بنت عبداللہ‘‘ اور دوسرے اسلامی مضامین کو نئی کتاب میں کوئی جگہ نہ ملے گی اور یہ بھی کہ علامہ اقبال جیسے قومی اور اسلامی شاعر کو مکمل طور پر غائب کردیا جائے گا۔ یہ سب کچھ پاکستان مسلم لیگ کی حکومت کے ماتحت ہوا۔ مجھے ایسا لگا جیسے کہ پنجاب میں انڈین کانگریس کی حکومت ہو۔ مگر کیا ہندوستان میں کانگریس نے وہاں کے مسلمانوں کے ساتھ وہ کچھ کیا ہوگا جو ہماری ’’مسلم لیگ‘‘ نے ہمارے ساتھ کیا۔ اسی غم، دکھ اور غصہ کے ملے جلے احساسات میں میں نے اپنے اخبار کے لیے خبر بنائی اور بوجھل دل کے ساتھ گھر لوٹا۔ رات کو سونے کے لیے بستر پر لیٹا تو نیند کوسوں دور تھی۔ صبح نماز کے لیے اُٹھا تو بے چینی ویسی ہی تھی۔ اپنی بے چینی کو دور کرنے کے لیے کچھ دستوں اور ہم خیال افراد کو صبح صبح فون کرکے جگادیا کہ اب کیا کریں۔ اتوار کو صبح کوئی ساڑھے نو بجے لاہور سے سیکرٹری اطلاعات کا فون آیا اور مجھے بتایا گیا کہ وزیراعلیٰ پنجاب نے خبر کا نوٹس لیتے ہوئے نکالے گئے مضامین اور نظموں کو دوبارہ کتاب میں شامل کرنے کا حکم دے دیا۔ اس کے ساتھ تحقیقات بھی شروع کرادیں کہ یہ سب کچھ کیسے ہوا۔ میں سیکرٹری اطلاعات کی باتیں سنتا رہا۔ اس بات پر خوش تھا کہ چلیں اللہ نے مجھ سے ایک نیک کام لیا مگر میرا دل یہ بات ماننے کے لیے تیار نہ تھا کہ وزیراعلیٰ شہباز شریف کی اجازت کے بغیر کوئی ایسی بنیادی تبدیلی ہمارے نصاب میں کرسکتا ہے۔ ہوسکتا ہے میں غلط ہوں مگر میرا اعتبار ایک ایسے سیاستدان سے اُٹھ گیا جس کو میں دوسروں سے بہتر جانتا تھا۔ شہباز شریف کی حکومت نے تو وہ کردیا تھا جو مشرف جیسا امریکی غلام اور زرداری جیسا متنازع حکمران نہ کرسکا۔
(روزنامہ جنگ۔ 25 مارچ 2013ء)
آپ ذرا انصار عباسی کے کالم کے مندرجات پر غور فرمائیے۔ شہباز شریف کی اسلام بیزاری اتنی بڑھی ہوئی ہے کہ انہوں نے خدا اور رسولؐ سے متعلق اسباق کو بھی نہ بخشا۔ انہوں نے ’’رب کائنات‘‘ اور ’’محسن انسانیت‘‘ جیسے اسباق بھی نصاب سے نکال باہر کیے۔ انہوں نے ’’طلوع اسلام‘‘ اور ’’صدیقہؓ‘‘ جیسی نظموں کو بھی نہ بخشا۔ انہوں نے مصور پاکستان علامہ اقبال سے متعلق مواد بھی نصاب سے خارج کرادیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وضاحت کے باوجود انصار عباسی کا اعتبار شہباز شریف سے اُٹھ گیا۔
شریف خاندان کا دعویٰ ہے کہ وہ ہمیشہ سے ’’اقتدار‘‘ کے بجائے ’’اقدار‘‘ کی سیاست کررہا ہے۔ لیکن یہ ایک صریح جھوٹ ہے۔ ایک زمانہ وہ تھا جب ملک میں دائیں بازو اور بائیں بازو کی کشمکش برپا تھی۔ ایک طرف اسلامی جمہوری اتحاد تھا جو دائیں بازو کی علامت تھا۔ دوسری جانب پیپلز پارٹی تھی جو بائیں بازو کی علامت تھی۔ میاں نواز شریف جمہوری اتحاد کے ’’ہیرو‘‘ تھے۔ لیکن اس ہیرو کی اخلاقیات کا یہ حال تھا کہ اس نے بے نظیر بھٹو کے امیج کو تباہ و برباد کرنے کے لیے پنجاب میں بے نظیر بھٹو کی خود ساختہ ننگی تصاویر ہیلی کاپٹر سے مختلف علاقوں میں پھنکوائیں۔
یہ اسلام کے اعتبار ہی سے نہیں عام اخلاقیات کی رو سے بھی ایک بھیانک جرم تھا۔ میاں نواز شریف نے اس سلسلے میں بیک وقت دو جرائم کا ارتکاب کیا۔ ایک تو انہوں نے ایک عورت کی حرمت کو پامال کیا۔ میاں صاحب کا دوسرا جرم یہ تھا کہ بے نظیر کی تصاویر جعلی تھیں۔ خدا کا شکر ہے کہ میاں صاحب کے سیاسی حریفوں میں کوئی میاں نواز شریف جیسا کم ظرف نہیں تھا ورنہ بیگم کلثوم نواز اور مریم نواز کی حرمت بھی ضرور پامال ہوتی۔
یہ بات تاریخ کے ریکارڈ پر ہے کہ میاں نواز شریف نے قومی اسمبلی کے فلور پر کھڑے ہو کر تقریر کی۔ انہوں نے فرمایا جناب عالی یہ ہیں وہ ذرائع جن سے برطانیہ میں جائداد خریدی گئی۔ مگر میاں صاحب بعدازاں ان وسائل اور ذرائع کی ’’منی ٹریل‘‘ پیش کرنے سے قاصر رہے۔ مریم نواز آخر کو میاں نواز شریف کی بیٹی ہیں۔ ثناء بچہ جیو پر ایک ٹاک شو کیا کرتی تھیں۔ ان کے پروگرام میں ایک روز شریف خاندان کا ذکر خیر ہورہا تھا اچانک مریم نواز جیو کی اسکرین پر طلوع ہوئیں۔ وہ فون پر کہہ رہی تھیں کہ ان کی لندن میں کیا پاکستان میں بھی کوئی جائداد نہیں ہے۔ بعدازاں ثابت ہوگیا کہ ان کی جائداد لندن میں بھی ہے اور پاکستان میں بھی۔ رسول اکرمؐ کا ارشاد ہے کہ مومن میں ہر خرابی ہوسکتی ہے مگر وہ کبھی جھوٹ نہیں بولتا۔ مگر شریف خاندان جھوٹ بولنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتا۔
شریف خاندان ساری دنیا میں ’’پاکستانی‘‘ بنا پھرتا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ شریف خاندان پاکستان کا بھی غدار ہے۔ اس کی تفصیل آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل اسد درانی نے اپنی تصنیف ’’اسپائی کرونیکلز‘‘ میں بیان کی ہے۔ جنرل اسد درانی کے بقول میاں شہباز شریف کسی زمانے میں بھارتی پنجاب کے اس وقت کے وزیر اعلیٰ راجا امریندر سنگھ کے ساتھ پاکستانی اور بھارتی پنجاب کو ایک کرنے کے منصوبے پر مذاکرات کررہے تھے۔ ظاہر ہے کہ جنرل اسد درانی نے یہ بات ’’قیاس‘‘ کی بنیاد پر نہیں ’’ٹھوس معلومات‘‘ کی بنیاد پر لکھی ہوگی۔ اس لیے کہ وہ آئی ایس آئی کے سربراہ تھے۔ ظاہر ہے کہ میاں شہباز شریف اتنا بڑا کام خود تو نہیں کررہے ہوں گے بلکہ میاں نواز شریف بھی منصوبے کا حصہ ہوں گے اس لیے کہ شہباز شریف ہر کام میاں نواز شریف کی اجازت سے کرتے رہے ہیں۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ ’’گریٹر پنجاب‘‘ کی سازش میں دونوں شریف ملوث تھے۔ بلاشبہ یہ پاکستان سے غداری کی ایک بہت بڑی واردات تھی۔ عجیب بات یہ ہے کہ جنرل اسد درانی کی کتاب کو شائع ہوئے عرصہ ہوگیا ہے مگر آج تک ریاست پاکستان کے کسی ادارے نے میاں صاحب سے نہیں پوچھا کہ تم گریٹر پنجاب کا کھیل کس کے اشارے پر کھیل رہے تھے؟ میاں صاحبان نے بھی آج تک جنرل اسد درانی کی کتاب کے مندرجات کی تردید نہیں کی۔ سوال یہ ہے کہ جو بھیانک جرم میاں شہباز شریف نے کیا وہی بھیانک جرم پیپلز پارٹی، تحریک انصاف، ایم کیو ایم یا کسی اور جماعت کے رہنما نے کیا ہوتا تو کیا ہوتا؟ بلاشبہ اب تک اس کا جن بچہ کولہو میں پلوادیا گیا ہوتا۔ ہمیں یاد ہے کہ الطاف حسین میں پاکستان دشمنی کے جراثیم دریافت ہوئے تو فوج کے ایک حاضر سروس بریگیڈیئر نے کراچی میں نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اعلان کیا کہ الطاف حسین جناح پور کے قیام کی سازش کررہے ہیں۔ جی ایم سید پر سندھو دیش کا الزام لگتا رہا۔ مگر شہباز شریف گریٹر پنجاب کا کھیل کھیل رہے تھے۔ اور اس کی گواہی آئی ایس آئی کے ایک سربراہ نے دی ہے مگر ریاست کا کوئی ادارہ میاں شہباز شریف اور میاں نواز شریف کو کچھ نہیں کہتا۔ کیا اس لیے کہ ان کا تعلق پنجاب سے ہے؟؟؟

Leave a Reply