ادب کی موت

اردو ادب کے دائرے میں ادب کی موت کا اعلان سب سے پہلے اردو ادب کے سب سے بڑے نقاد محمد حسن عسکری نے کیا۔ عسکری صاحب اردو ادب کا قطبی ستارہ تھے۔ چناں چہ ان کے اعلان کے ساتھ ہی ایک ہنگامہ برپا ہوگیا۔ عسکری صاحب نے ادبی انجماد کو ادب کی موت کی علامت قرار دیا اور کہا کہ ایک قوم کی حیثیت سے ہم ذہن کو استعمال کرنے سے اس حد تک قاصر ہوگئے ہیں کہ ترقی پسندوں تک نے بحیثیں کرنی چھوڑ دی ہیں۔ عسکری صاحب کے بعد سلیم احمد نے ادب کی موت پر شدت کے ساتھ گفتگو کی۔ انہوں نے ادب کی موت کو بہت بڑی خبر قرار دیتے ہوئے کہا کہ معاشرے سے ادب کا منہا ہوجانا ایسے ہی ہے جیسے ہوا اور پانی کا کال پڑ جائے۔ انہوں نے ایک انٹرویو میں کہا کہ اگر معاشرہ ادب تخلیق نہیں کرے گا تو وہ ایسے فساد کا شکار ہوجائے گا جو ہمارا سب کچھ نگل جائے گا۔ سلیم احمد نے ادب کی اہمیت پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ادب کی تخلیق شاعروں، ادیبوں، صوفیوں، انقلابیوں اور پاگلوں کا کام ہے اور ادیب کے لیے مخصوص معنوں میں تارک الدنیا ہونا ضروری ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے ادب کی موت کے مسئلے کو نہ عسکری صاحب کے دور میں سمجھا گیا، نہ سلیم احمد کے دور میں۔
اس کی تین بڑی وجوہ ہیں۔ شاعر اور ادیب جب ادب کی موت کا اعلان سنتے ہیں تو وہ اسے ذاتی سطح پر لیتے ہیں۔ یعنی اسے Personalize کرلیتے ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ ادب کی موت کا اعلان کرنے والا ادب کی نہیں خود ان کی موت کا اعلان کررہا ہے، جب کہ وہ زندہ ہیں اور مسلسل لکھ رہے ہیں۔ معاملے کا ’’ذاتی پن‘‘ بات کی تفہیم کو ناممکن بنادیتا ہے۔ اس لیے کہ ادب کی موت انفرادی نہیں اجتماعی مسئلہ ہے۔ ادب کی موت کے اعلان کو نہ سمجھنے کی دوسری وجہ یہ ہے کہ کتابیں شائع ہورہی ہیں، ادبی رسالے چھپ رہے ہیں، مشاعرے برپا ہورہے ہیں، ادبی حلقے چل رہے ہیں، اور یہ تمام چیزیں دیکھ کر خیال آتا ہے کہ ادب زندہ ہے لیکن زندہ ’’ہونا‘‘ اور زندہ ’’نظر‘‘ آنا میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ ادب کی موت کے اعلان کو نہ سمجھنے کی تیسری بڑی وجہ یہ ہے کہ یہ بات جس سطح پر کہی گئی، اس سطح کا ادراک نایاب نہیں تو کمیاب ضرور ہے۔ لیکن ادب کی موت کا مطلب کیا ہے؟۔
عظیم جرمن شاعر رِلکے کو ایک بار ایک نوجوان شاعر نے اپنی بیاض بھیجی اور اس سے پوچھا کہ مجھے شاعری جاری رکھنی چاہیے یا نہیں۔ رِلکے نے نوجوان سے کہا کہ تم مجھ سے کیوں پوچھتے ہو کہ تمہیں شاعری جاری رکھنی چاہیے یا نہیں؟ یہ بات تو تم اپنے آپ سے پوچھو۔ رِلکے نے کہا کہ تم اپنے آپ سے پوچھو کہ اگر میں شاعری نہیں کروں گا تو کیا مرجائوں گا؟ اگر تمہارا جواب یہ ہو کہ تم شاعری کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے تو پھر تمہیں شاعری جاری رکھنی چاہیے اور اگر تمہارا جواب یہ ہو کہ شاعری ترک کرنے سے تمہیں کوئی فرق نہیں پڑے گا تو تمہیں شاعری سے قطع تعلق کرلینا چاہیے۔ عسکری صاحب اور سلیم احمد نے جب ادب کی موت کا اعلان کیا تو ان کا مطلب یہ تھا کہ ادب کی تخلیق اب شاعروں اور ادیبوں کا ’’وجودی‘‘ یا Existential مسئلہ نہیں رہا۔ یہ ان کے لیے اب زندگی اور موت کا مسئلہ نہیں بلکہ یہ ان کی ادبی انا کی تسکین کا ایک معاملہ ہے۔ اس کا تعلق شہرت سے ہے۔ عسکری صاحب کے زمانے میں ترقی پسند ادیبوں کی پکڑ دھکڑ شروع ہوئی تو عسکری صاحب نے کہا کہ یہ ریاست کے وفادار نہیں ہیں تو انہیں پکڑنے دھکڑنے کی کیا ضرورت ہے۔ آپ ان لوگوں کو تین تین ہزار کی نوکریاں دے دیجیے مسئلہ خود بہ خود حل ہوجائے گا۔ عسکری صاحب کا مطلب یہ تھا کہ ترقی پسندوں کی ’’انقلابیت‘‘ بنیادی طور پر کسی نظریے کا نہیں ان کی معاشی حالت کا نتیجہ ہے۔ ان کی معاشی حالت بہتر ہوجائے گی تو ان کی ساری انقلابیت ہوا ہوجائے گی۔ لیکن یہ بات صرف ترقی پسندوں کے بارے ہی میں درست نہیں۔ غیر ترقی پسند ادیبوں اور شاعروں کی اکثریت کے لیے بھی ادب زندگی اور موت کا مسئلہ یا ایک ’’طرزِ حیات‘‘ نہیں تھا اور اب بھی نہیں ہے۔ لیکن حسن عسکری اور سلیم احمد نے جو بات کہی اس کی بنیاد کیا تھی؟۔
اس کی بنیاد عسکری اور سلیم احمد کا ذاتی تجربہ تھا۔ عسکری اور سلیم احمد کے ادبی مقام کے بارے میں ایک سے زیادہ آرا ممکن ہیں۔ لیکن جس بات کے بارے میں ایک سے زیادہ آرا ممکن نہیں وہ یہ ہے کہ عسکری اور سلیم احمد کے لیے ادب واقعتا زندگی اور موت کا مسئلہ تھا۔ عسکری صاحب ادب کو اپنی چھٹی حس کہا کرتے تھے اور انہوں نے لکھا ہے کہ میں مذہب تک ادب کے ذریعے پہنچا۔ سلیم احمد کا معاملہ بھی یہی تھا، ادب ان کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ تھا۔ ادب ان کے لیے طرزِ حیات تھا۔ لیکن ادب کے طرزِ حیات ہونے سے کیا ہوتا ہے۔ زندگی کی اصل ’’قربانی‘‘ ہے۔ آپ دولت مند بننا چاہتے ہیں تو دولت مندی آپ سے پوری زندگی طلب کرے گی اور بالآخر آپ دولت مند بن جائیں گے۔ آپ مشہور ہونا چاہتے ہیں، شہرت آپ سے پوری زندگی مانگے گی اور بالآخر آپ مشہور ہوجائیں گے۔ آپ سچے ادیب بننا چاہتے ہیں، ادب آپ سے پوری زندگی کا مطالبہ کرے گی اور آپ بالآخر سچے ادیب بن جائیں گے۔ ہمارے دین میں شہادت کا مرتبہ اتنا بلند ہے کہ رسول اکرمؐ نے عام مسلمانوں کو شہادت کی رغبت دلانے کے لیے شہادت کی آرزو کی ہے۔ لیکن شہادت بھی انسان سے اس کی پوری زندگی طلب کرتی ہے۔ سلیم احمد جب کہتے ہیں کہ ادیب کے لیے مخصوص معنوں میں تارک الدنیا ہونا ضروری ہے تو اس سے ان کی مراد یہی ہوتی ہے کہ ادیب ادب کی تخلیق کے لیے دنیا کو ترک کردے۔ ادب کا طرزِ احساس بننا اس لیے بھی ضروری ہے کہ جب تک ادیب زندگی کے تجربے میں ڈوب نہیں جاتا زندگی انسان پر اپنا آپ ظاہر نہیں کرتی۔ ہمارے شاعروں اور ادیبوں کا ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ ادب کو ’’لفظوں کا کھیل‘‘ سمجھتے ہیں۔ چناں چہ ان کی اکثریت کو مرتے دم تک یہ معلوم نہیں ہوپاتا کہ لفظ میں تاثیر کہاں سے آتی ہے؟ لفظ میں تاثیر لفظ میں موجود صداقت کو بسر کرنے سے آتی ہے اور جب کوئی ادیب لفظ کی صداقت کو بسر کرنے لگتا ہے تو ادب اس کے لیے ’’طرزِ حیات‘‘ بن جاتا ہے۔ لیکن ادب کی موت صرف اس وجہ سے واقع نہیں ہوتی کہ ادب تخلیق کاروں کا طرزِ حیات نہیں بن پاتا۔ اس کی کچھ اور وجوہ بھی ہیں۔
دس پندرہ سال پہلے اردو کے معروف شاعر اور نقاد جمال پانی پتی نے ہمیں معروف افسانہ نگار اور نقاد آصف فرخی کا ایک مضمون پڑھنے کو دیا اور اس کے بارے میں ہماری رائے جاننا چاہی۔ مضمون کا عنوان تھا ’’ادب کی موت‘‘۔ مضمون نہایت عالمانہ تھا۔ یعنی اس میں مغرب اور مشرق کے بہت سے اہم لکھنے والوں کے حوالے موجود تھے۔ اس سے مضمون نگار کی وسعت مطالعہ ظاہر ہورہی تھی۔ لیکن اس کے باوجود مضمون میں ایک بہت بڑا نقص موجود تھا۔ مضمون میں سب کی آرا موجود تھیں مگر خود مضمون نگار کی اپنی رائے موجود نہیں تھی۔ جمال پانی پتی نے پوچھا مضمون کیسا ہے؟ ہم نے کہا مضمون اچھا ہے مگر مضمون نگار کو معلوم نہیں کہ ادب کی موت کا ایک بڑا سبب خود ان کا رویہ ہے۔ بلاشبہ ادب بالخصوص ادبی تنقید میں حوالوں کی بڑی اہمیت ہے لیکن اگر کوئی شخص اپنے مضمون میں صرف حوالے دے کر رہ جائے اور حوالوں میں کوئی اضافہ نہ کرسکے یا ان کے حوالے سے کوئی نیا تناظر سامنے نہ لاسکے تو وہ ایک کھرا تخلیقی ادیب نہیں ہے۔ عسکری صاحب کی تنقید مشرق و مغرب کے ادیبوں، شاعروں اور نقادوں کے حوالوں سے بھری پڑی ہے مگر وہ ہر جگہ حوالے سے ایک نیا نکتہ پیدا کرنے میں کامیاب ہیں۔ اس لیے عسکری اردو ادب کے سب سے بڑے نقاد ہیں۔ ادب مکّھی پر مکّھی مارنے سے پیدا نہیں ہوتا۔ ادب کہتا ہے تم نے ساری دنیا کا ادب پڑھ لیا ہے لیکن تم اس علم کو جذب کرکے اس سے کوئی نئی چیز تخلیق کرکے دکھائو۔ ادب میں اکثر یہ ہوتا ہے کہ انسان بڑے شاعروں یا ادیبوں کے زیر اثر آجاتا ہے اور اپنی انفرادیت کھودیتا ہے۔ پھر وہ ساری زندگی دوسروں کے حوالے دیتا رہتا ہے۔ اس کے اندر تخلیق کا چشمہ کبھی نہیں پھوٹتا۔ کسی سے متاثر ہونا بری بات نہیں مگر اس کا سایہ بن کر رہ جانا بری بات ہے۔ اس سے ادب اور انسان دونوں کی موت واقع ہوجاتی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ انسان کی موت کا مفہوم کیا ہے؟
انسان کے بنیادی رشتے چار ہیں۔ انسان کا خدا سے تعلق، انسان کا دوسرے انسانوں سے تعلق، انسان کا کائنات سے تعلق اور انسان کا خود اپنی ذات سے تعلق۔ تعلق کی یہ تمام صورتیں ہی انسان کی زندگی ہیں۔ چناں چہ تعلق کی یہ تمام صورتیں یا ان میں سے کوئی ایک صورت ختم ہوجاتی ہے یا کمزور پڑ جاتی ہے تو انسان زندہ ہونے کے باوجود مرجاتا ہے۔ ہمارے عہد کا المیہ یہ ہے کہ انسانوں کی عظیم اکثریت ’’پارٹ ٹائم تعلق‘‘ کی عادی ہوگئی ہے۔ اور پارٹ ٹائم تعلق سے نہ آدمی آدمی بنتا ہے نہ اس سے زندہ اور بڑا ادب پیدا ہوتا ہے۔
لوگ کہتے ہیں کہ انسان ’’انا پرست‘‘ ہوگیا ہے اور وہ غلط نہیں کہتے مگر مسئلہ یہ ہے کہ انسانوں کی انائیں بھی اتنی چھوٹی چھوٹی ہوگئی ہیں کہ ان سے شیر کی دھاڑ کے بجائے بکری کی ’’میں میں‘‘ برآمد ہوتی ہے۔ سلیم احمد نے غالب کا سب سے بڑا مسئلہ انا پرستی بتایا ہے اور وہ ایک حد تک ٹھیک کہتے ہیں مگر غالب کی انا اتنی بڑی ہے کہ وہ پوری کائنات کیا خدا کے سامنے کھڑا ہوجاتا ہے۔ وہ کہتا ہے۔
ہنگامہ زبونیٔ ہمت ہے انفعال
حاصل نہ کیجے دہرے عبرت ہی کیوں نہ ہو
٭٭
بندگی میں بھی وہ آزادہ و خود بیں ہیں کہ ہم
الٹے پھر آئے درِ کعبہ اگر وا نہ ہوا
٭٭
زندگی اپنی جب اس شکل سے گزری غالب
ہم بھی کیا یاد کریں گے کہ خدا رکھتے تھے
٭٭
ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن
دل کے بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے
غالب کی یہ انا پرستی مذہبی اور اخلاقی اعتبار سے بری چیز ہوگی مگر غالب نے اس سے بڑی شاعری پیدا کرکے دکھائی ہے۔ مگر ہمارے شاعروں، ادیبوں کی انائیں اتنی چھوٹی ہیں کہ وہ دوسرے ادیبوں کی غیبت اور ان سے حسد کرنے کے سوا کسی کام نہیں آئیں۔ کسی کو معلوم ہو یا نہ ہو ادب اس طرح بھی مرتا ہے۔

Leave a Reply