نواز شریف اور ایٹمی دھماکے

کہتے ہیں جھوٹ کے پائوں نہیں ہوتے مگر میاں نواز شریف کے نہ صرف یہ کہ دو پائوں ہیں بلکہ دو ہاتھ دو آنکھیں، دو کان اور ایک زبان بھی ہے۔ چناں چہ میاں نواز شریف 1998ء سے اب تک یہ جھوٹ تواتر کے ساتھ بول رہے ہیں کہ انہوں نے ایٹمی دھماکے کیے تھے۔ انہوں نے دھماکوں کے سلسلے میں امریکی دبائو کو مسترد کیا تھا۔ انہوں نے دھماکے نہ کرنے پر امریکا کی امداد کی پیشکش کو ٹھکرایا تھا۔ ویسے تو نواز لیگ ہر سال ہی 28 مئی کو یوم تکبیر کے طور پر مناتی ہے مگر اس بار تو اس نے باقاعدہ آٹھ روزہ جشن کا اعلان کیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ نواز لیگ کی حکومت نے آئی ایم ایف کے دبائو پر تیل کے نرخوں میں 30 روپے کا اضافہ کرکے قوم پر پٹرول بم گرایا تھا۔ چناں چہ نواز لیگ چاہتی تھی کہ یوم تکبیر کے دھوم دھڑکے میں قوم پٹرول بم کے ہولناک صدمے کو بھول جائے۔ میاں نواز شریف اینڈ کمپنی پاکستان کے ایٹمی دھماکوں کو خود منسوب کرتی ہے تو اکبر الٰہ آبادی کا ایک مثالی شعر یاد آجاتا ہے۔ اکبر نے کہا تھا۔
بدّھو میاں بھی حضرتِ گاندھی کے ساتھ ہیں
گو مشتِ خاک ہیں مگر آندھی کے ساتھ ہیں
کہاں میاں نواز شریف اور کہاں چھے ایٹمی دھماکے۔ یہ تو چھوٹا منہ بڑی بات سے بھی آگے کا قصہ ہے۔ ویسے بھی میاں نواز شریف ایسے بھارت پرست ہیں کہ وہ بھارت کو ڈرانے کے لیے ایٹمی دھماکے کیا پٹاخوں کے دھماکے کرنے سے بھی گریز کریں گے۔ تاریخی تناظر میں دیکھا جائے تو پاکستان کے ایٹم بم کے ساتھ صرف تین لوگوں کا ذکر اچھا لگتا ہے۔ یعنی ذوالفقار علی بھٹو، ڈاکٹر عبدالقدیر اور جنرل ضیا الحق۔ بھٹو صاحب نے طویل عرصے تک بھارت مخالف سیاست کی۔ وہ کہا کرتے تھے کہ اگر مادر وطن کے دفاع کے لیے ہمیں بھارت سے ایک ہزار سال تک جنگ کرنی پڑی تو کریں گے۔ وہ فرمایا کرتے تھے کہ ہم گھاس کھائیں گے مگر ایٹم بم بنائیں گے۔ یہ ذوالفقار علی بھٹو کی سیاست تھی کہ وہ بھارت کی قید سے پاکستان کے 90 ہزار فوجیوں کو نکال لائے۔ بھٹو صاحب کا خیال تھا کہ پاکستان کا ایٹم بم اور عربوں کا پٹرو ڈالر مل کر ایک بڑی طاقت کو جنم دے سکتے ہیں۔ ڈاکٹر عبدالقدیر اور ایٹم بم اس طرح لازم و ملزوم ہیں جس طرح قائداعظم اور پاکستان لازم و ملزوم ہیں۔ قائداعظم نہ ہوتے تو پاکستان نہ ہوتا۔ ڈاکٹر
قدیر نہ ہوتے تو پاکستان کا ایٹم بم ہوتا نہ اس کے دھماکے ہوتے۔ ڈاکٹر قدیر کے سامنے سقوط ڈھاکا کا سانحہ تھا، چناں چہ بھارت نے 1974ء میں پہلا ایٹمی دھماکا کیا تو ڈاکٹر قدیر کو خیال آیا کہ اگر پاکستان نے بھی ایٹم بم نہ بنایا تو کہیں پھر سقوط ڈھاکا کی تاریخ نئے عنوان سے خود کو نہ دہرا دے۔ چناں چہ انہوں نے اپنا شاندار کیریئر ترک کردیا اور وہ پاکستان کے ایٹم بم کو اپنا خون پلانے لگے۔ جنرل ضیا الحق اور ایٹم بم کا تعلق یہ ہے کہ جنرل ضیا الحق وہ پہلے پاکستانی حکمران ہیں جنہوں نے بھارت کو ایٹمی دھمکی دے کر اسے پاکستان پر حملے سے باز رکھا۔ یہ 1984ء کا قصہ ہے۔ بھارت نے پاکستان پر حملے کا منصوبہ بنایا۔ جنرل ضیا الحق کو اس کی اطلاع ہوگئی۔ جنرل ضیا بھارت کی کرکٹ ایسوسی ایشن کے دعوت نامے کی آڑ لے کر بھارت پہنچے۔ دورے سے واپسی پر جنرل ضیا ہوائی اڈے پر پہنچے تو بھارت کے اس وقت کے وزیراعظم راجیو گاندھی جنرل ضیا الحق کو الوداع کہنے کے لیے ہوائی اڈے آپہنچے۔ جنرل ضیا اپنے طیارے پر سوار ہونے سے پہلے راجیو گاندھی کو ایک طرف لے گئے۔ انہوں نے راجیو گاندھی سے کہا کہ ہمیں آپ کے حملے کی اطلاع ہوگئی ہے۔ اگر آپ نے میرے اسلام آباد پہنچنے سے پہلے حملے کی تیاریوں کو ختم نہ کیا تو آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ پاکستان نے ایٹم بم بنالیا ہے۔ جنرل ضیا الحق نے کہا کہ آپ کے پاس بھی ایٹم بم ہے اور میں نہیں چاہتا کہ تاریخ مجھے اور آپ کو ایٹمی جنگ کے حوالے سے یاد رکھے۔ جنرل ضیا الحق نے کہا کہ مجھے معلوم ہے ہم بھی فنا ہوجائیں گے لیکن ہم بھارت کو بھی تباہ کردیں گے۔ اس دھمکی کا نتیجہ یہ نکلا کہ بھارت نے پاکستان پر حملے کا ارادہ ترک کردیا۔ میاں نواز شریف کا معاملہ یہ ہے کہ وہ ایٹمی پروگرام ایٹم بم اور ایٹمی دھماکوں کے حوالے سے تین میں ہیں نہ تیرہ میں۔ اس سلسلے میں مندرجہ ذیل حقائق بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔
ہر رہنما کا ایک ’’تصورِ دشمن‘‘ ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے میاں نواز شریف بھارت کو دشمن ہی نہیں سمجھتے۔ امریکی جب پاکستان کے حکمرانوں سے ملتے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ بھارت دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے۔ اس کی آبادی ایک ارب 40 کروڑ ہے۔ وہ دنیا کی بڑی معیشتوں میں شامل ہوچکا ہے۔ چناں چہ پاکستان اور بھارت کا کیا مقابلہ؟ بہتر ہے پاکستان خود کو بھارت کا ’’چھوٹا‘‘ تسلیم کرلے۔ بدقسمتی سے میاں صاحب کا تصور بھارت بھی یہی ہے۔ وہ بھارت کو علاقے کی سپرپاور سمجھتے ہیں۔ آئی ایس آئی اور ایم آئی کے سابق سربراہ جنرل اسد درانی نے اپنی کتاب ’’اسپائی کرونیکلز‘‘ میں لکھا ہے کہ ایک وقت وہ تھا جب میاں شہباز شریف پاکستانی پنجاب اور بھارتی پنجاب کو ایک کرنے کے لیے بھارتی پنجاب کے اس وقت کے وزیراعلیٰ راجا امریندر سنگھ کے ساتھ مذاکرات کررہے تھے۔ ساری دنیا جانتی کہ میاں شہباز شریف جو کچھ کرتے ہیں میاں نواز شریف کے کہنے پر کرتے ہیں۔ چناں چہ میاں شہباز شریف ’’گریٹر پنجاب‘‘ کی سیاست بھی میاں نواز شریف کے کہنے ہی پر کررہے ہوں گے۔ سوال یہ ہے کہ جو شخص ’’گریٹر پنجاب‘‘ کی سیاست کرسکتا ہے وہ پاکستان کو ایٹمی قوت بنا کر ’’گریٹر پاکستان‘‘ کی سیاست کرسکتا ہے؟ ظاہر ہے کہ گریٹر پنجاب کا منصوبہ بھارت ہی کا منصوبہ ہے۔ اس منصوبے کے تحت بھارت پنجاب کو پاکستان سے نکال کر پاکستان کو ختم کرنے کا ارادہ رکھتا تھا بلکہ رکھتا ہے۔ میاں صاحب بھارت کی چاپلوسی میں اس حد تک بڑھے ہوئے تھے کہ بھارت کے سابق وزیراعظم اندر کمار گجرال نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ میاں نواز شرف رات گئے انہیں ان کی خواب گاہ میں فون کردیتے تھے۔ حالاں کہ فون کال کا کوئی ایجنڈا بھی نہیں ہوتا تھا۔ میاں نواز شریف کی بھارت پرستی کا یہ عالم ہے کہ انہوں نے واجپائی کو لاہور کے دورے پر بلایا تو جماعت اسلامی نے اپنا جمہوری اور سیاسی حق استعمال کرتے ہوئے واجپائی کے خلاف ایک چھوٹا سا مظاہرہ کردیا۔ میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کو یہ بات اتنی بری لگی کہ انہوں نے جماعت کی اعلیٰ قیادت پر پنجاب پولیس کو بھیڑیے کی طرح چھوڑ دیا۔ جماعت کی قیادت اس دن والٹن روڈ کے دفتر میں موجود تھی۔ ہمیں قاضی حسین احمد اور سید منور حسن نے خود بتایا کہ پنجاب پولیس نے جماعت کے دفتر پر اتنی آنسو گیس پھینکی تھی کہ اگر پنجاب پولیس کی شیلنگ پندرہ بیس منٹ اور جاری رہتی تو جماعت اسلامی کی پوری قیادت دم گھٹنے سے شہید ہوجاتی۔ یہی نہیں پنجاب پولیس نے جماعت کے بزرگ کارکنوں کو بھی ڈنڈوں سے اتنا مارا کہ اس درندگی کی ویڈیو بھی رونگٹے کھڑے کردینے والی تھی۔ اہم بات یہ تھی کہ یہ سب کچھ ’’بھارت پرستی‘‘ میں ہورہا تھا۔ میاں نواز شریف اور ان کی جماعت بتارہی تھی کہ بھارت کے وزیراعظم کی آمد کے خلاف ایک چھوٹا سا پُرامن مظاہرہ بھی شریفوں کے لیے ناقابل قبول اور ناقابل برداشت ہے۔ پھر پوری پاکستانی قوم نے یہ منظر بھی دیکھا کہ نریندر مودی بھارت کے وزیراعظم بن گئے۔ انہوں نے درباریوں کی طرح علاقے کے تمام ممالک کے وزرائے اعظم کو اپنی تقریب حلف برداری میں طلب کیا۔ میاں صاحب کو فوج تک نے سمجھایا کہ مودی کا درباری بن کر تقریب حلف برداری میں جانا پاکستان کے وزیراعظم کے شایان شان نہیں ہوگا مگر میاںنواز شریف نے اس بات پر کان نہ دھرا۔ وہ مودی کے ایک درباری کی طرح مودی کی تقریب حلف برداری میں شریک ہوئے۔ کیا ایسا شخص بھارت کو دھمکی دینے کے لیے ایٹمی دھماکے کرسکتا ہے؟
یہ بات تاریخ کے ریکارڈ پر موجود ہے کہ پاکستان نے چھے ایٹمی دھماکے بھارت کے دھماکوں کے 17 روز بعد کیے۔ اس سے ثابت ہے کہ میاں نواز شریف ایٹمی دھماکے نہیں کرنا چاہتے تھے۔ وہ چاہتے تو بھارت کے دھماکوں کے دوسرے تیسرے روز بھی دھماکے ہوسکتے تھے۔ لیکن میاں صاحب نے فوراً دھماکے نہیں کیے۔ وہ قوم کے ردعمل کو دیکھتے رہے۔ قوم دھماکوں میں تاخیر پر سخت برہم تھی۔ اردو اخبارات کیا انگریزی اخبارات تک چیخ رہے تھے کہ حکومت فوراً دھماکے کرے۔ ایک دن میاں صاحب نے روزنامہ نوائے وقت کے مالک مجید نظامی صاحب سے ملاقات کی اور پوچھا کہ انہیں کیا کرنا چاہیے۔ مجید نظامی نے فرمایا کہ میاں صاحب اگر آپ نے دھماکے نہ کیے تو قوم آپ کا دھماکا کردے گی۔ فوج میاں صاحب کی تاخیر سے عاجز آگئی تھی۔ چناں چہ میاں صاحب چاہتے یا نہ چاہتے فوج دھماکے کردیتی۔ یہ دیکھ کر میاں صاحب نے دھماکوں کو ’’گود‘‘ لے لیا۔ میاں صاحب نے دھماکوں کا کریڈٹ لیتے ہوئے جو تقریر کی اس میں انہوں نے دعویٰ کیا کہ دھماکوں کے لیے سرنگیں چند دن میں نواز شریف کے حکم پر کھودی گئیں۔ یہ دعویٰ سفید جھوٹ تھا اس لیے کہ یہ سرنگیں 1979-80 میں جنرل ضیا الحق کے حکم سے کھودی جاچکی تھیں۔ ممتاز کالم نگار منیر احمد بلوچ نے اپنے کالم میں یہ دعویٰ کیا ہے کہ میاں نواز شریف کو تو اس جگہ کا بھی علم نہ تھا جہاں پاکستان نے اپنا چھٹا دھماکا کیا تھا۔ ایٹمی دھماکوں کے بارے میں نواز شریف کا جھوٹ ڈاکٹر عبدالقدیر کے بیان نے بھی ثابت کیا ہے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر نے جاوید چودھری کے پروگرام تھنک ٹینک میں گفتگو کرتے ہوئے صاف کہا کہ نواز شریف دھماکے کرتے ہوئے ہچکچا رہے تھے۔ گوہر ایوب ایک زمانے میں میاں نواز شریف کی کابینہ کے وزیر تھے۔ ان کے بیان کے مطابق وہ ایک صبح پرائم منسٹر ہائوس پہنچے تو شہباز شریف آگئے۔ انہوں نے بتایا کہ میاں نواز شریف اس وقت امریکی صدر بل کلنٹن سے بات کررہے ہیں اور اگر بل کلنٹن نے اچھا پیکیج دیا تو ہم ایٹمی دھماکے نہیں کریں گے۔

Leave a Reply