آزادیٔ افکار

نئی دنیا نئی فکر سے تعمیر ہوتی ہے اور نئی فکر کے لیے آزادیٔ افکار ناگزیر ہے۔ اسی لیے اقبال نے کہا ہے۔
جہانِ تازہ کی افکارِ تازہ سے ہے نمود
کہ سنگ و خشت سے ہوتے نہیں جہاں پیدا
امام غزالیؒ اسلامی تاریخ کی عظیم ترین شخصیات میں سے ہیں۔ انہوں نے اپنی خود نوشت المنقذ من الضلاح میں لکھا ہے کہ ’’جب میں نے اپنے ماحول میں موجود مذہبی فکر پر غور کرنا شروع کیا تو مجھے اپنے زمانے کی مذہبی تعبیرات میں نقائص نظر آنے لگے اور میرے اندر ان تعبیرات کے حوالے سے تذبذب پیدا ہوگیا۔ اس تذبذب نے رفتہ رفتہ گہرے ذہنی مسئلے کی صورت اختیار کرلی اور غزالی اعصاب شکنی یا Para lysis کا شکار ہوکر بستر سے لگ گئے۔ غزالی دوچار ماہ نہیں کئی سال اس کیفیت کا شکار رہے۔ لیکن اس صورتِ حال میں بھی وہ مسلسل غورو فکر کرتے رہے۔ بالآخر انہیں وہ صراطِ مستقیم نظر آگئی جس پر چل کر غزالی امام غزالی بنے۔ غزالی تقلید محض کا شکار ہوجاتے تو وہ اپنے زمانے کے علما کی طرح ہوتے، امام غزالی نہ ہوتے، بعض مغربی مفکرین نے غزالی کی اس کیفیت کو شک و ریب کی کیفیت سمجھا ہے۔ حالاں کہ غزالی نے اپنی خود نوشت میں صاف لکھا ہے کہ اسلام کے کسی بنیادی عقیدے پر انہیں کبھی شک نہیں گزرا۔ غزالی کا مسئلہ اپنے زمانے کی وہ تعبیرات تھیں جو ’’تقلید محض‘‘ کا حاصل تھیں اور جن سے مذہبی فکر کے دائرے میں انجماد کی کیفیت پیدا ہوگئی تھی ہمارے زمانے میں یہی معاملہ سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کا ہے۔ مولانا کا قصہ یہ ہے کہ جدید لوگ انہیں ’’قدیم‘‘ سمجھتے ہیں اور قدیم لوگ انہیں ’’جدید‘‘ کہتے ہیں۔ حالاں کہ مولانا کی اصل پوزیشن یہ ہے کہ انہوں نے قدیم کو جدید اسلوب میں بیان کیا ہے۔ اس عمل میں ایک جانب اسلامی فکر کی کلیّت سامنے آگئی اور دوسری جانب اسلامی فکر میں وہ نیا پن بھی پیدا ہوگیا جو نئے زمانے، نئے ذہن، نئی نفسیات اور نئے ذوق کا تقاضا تھا۔ اقبال کی شاعری کو دیکھا جائے تو وہ وہ خود جہان تازہ اور افکار تازہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ حالاں کہ اقبال کے اکثر موضوعات پرانے ہیں۔ مثلاً عشق، فقر، موت، مومن اور خودی میں کچھ بھی نیا نہیں۔ لیکن اس کے باوجود اقبال کی پوری شاعری نئی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے پرانے موضوعات کو نیا تناظر، نئی زبان، نیا بیان، نیا لہجہ، نئی تشبیہات اور نئے استعارے فراہم کیے ہیں۔ اس کے بغیر اقبال روایتی شاعر تو ہو سکتے تھے مگر اقبال نہیں ہوسکتے تھے۔ لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ کیا آزادیٔ اظہار کا مطلب مطلق آزادی ہے؟۔
اس سلسلے میں اقبال کے دو شعر اہمیت کے حامل ہیں۔ اقبال نے کہا ہے۔
گو فکرِ خداداد سے روشن ہے زمانہ
آزادیٔ افکار ہے ابلیس کی ایجاد
٭٭
ہو فکر اگر خام تو آزادیٔ افکار
انسان کو حیوان بنانے کا طریقہ
اقبال اپنے علم، مشاہدے اور تجربے سے جانتے تھے کہ دنیا کی ساری ترقی فکر کی جولانیوں کا حاصل ہے لیکن اسلامی فکر انہیں بتاتی ہے کہ جس چیز کو مطلق آزادیٔ فکر کہا جاتا ہے اس کا مظاہرہ سب سے پہلے ابلیس نے کیا۔ لیکن ابلیس کی آزادیٔ فکر کا مفہوم کیا ہے؟ اللہ تعالیٰ نے ابلیس سے سیدنا آدم کو سجدے کے لیے کہا تو اس نے انکار کیا۔ اس کی وجہ پوچھی گئی تو اس نے کہا میں آگ سے بنا ہوں اور آدم کی تخلیق مٹی سے ہوئی ہے اور آگ مٹی سے بہتر ہے۔ چناں چہ برتر کمتر کو سجدہ نہیں کرسکتا۔ یہ کہتے ہوئے ابلیس بھول گیا کہ اصل چیز مٹی اور آگ کا موازنہ نہیں بلکہ ’’حکم الٰہی‘‘ ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ ابلیس خدا کے حکم کے مقابلے پر اپنی رائے لے کر کھڑا ہوگیا۔ اسلام کے دائرے میں یہی مطلق آزادیٔ فکر ہے اور کسی مسلمان کے لیے یہ آزادی کبھی ’’مطلوب‘‘ نہیں ہوسکتی۔ ابلیس کے افکار کی دوسری آزادی یہ تھی کہ اس نے اپنے علم کو خدا کے علم پر فوقیت دی۔ مٹی اور آگ دونوں کا خالق اللہ ہے اور صرف اللہ کو حتمی طور پر معلوم تھا کہ مٹی اور آگ میں کیا برتر ہے؟ لیکن ابلیس نے آگ کی برتری کا اعلان اس طرح کیا جیسے وہ اس بارے میں خدا سے زیادہ جانتا ہے۔ ابلیس کی مطلق آزادی کا تیسرا پہلو یہ ہے کہ انسان اور جنات کا عمل اپنی اصل میں ’’حق مرکز‘‘ ہے۔ ’’انا مرکز‘‘ نہیں۔ لیکن ابلیس نے سجدے سے انکار کرکے اپنے عمل کو ’’حق مرکز‘‘ سے ’’انا مرکز‘‘ بنالیا۔ اسلامی فکر کے دائرے میں آزادیٔ فکر کی یہ تینوں صورتیں نا محمود اور نا مطلوب ہیں اور جو شخص ان تینوں صورتوں میں سے کسی صورت کو اختیار کرتا ہے وہ ابلیس کا پیروکار ہے۔ دنیا کی تاریخ ہمارے سامنے ہے اور یہ تاریخ بتاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتب میں کبھی کفر اور شرک کے لیے کوئی سند نازل نہیں کی۔ چناں چہ کفر اور شرک کی پوری تاریخ دراصل ابلیس اور نفس کی پیروی کی تاریخ ہے۔
مغربی دنیا کبھی عیسائی دنیا تھی۔ اگرچہ یہ دنیا بھی سیدنا عیسیٰؑ کو خدا کا بیٹا قرار دے کر شرک ایجاد کیے بیٹھی تھی لیکن بہرحال یہ دنیا خدا، اس کے پیغمبر اور خدا کی کتاب کو مانتی تھی۔ لیکن تاریخ کے ایک مرحلے پر مغرب نے کہا مذہب کی پوری روایت خلاف عقل ہے اور اب ہم اپنی زندگی گزارنے کے لیے کسی آسمانی ہدایت کے محتاج نہیں۔ اب ہماری عقل اور ہمارا انسان علم ہمیں جو کچھ بتائے گا ہم وہی کریں گے۔ مغرب کی اس آزادیٔ اظہار کا ایک دلچسپ تضاد یہ ہے کہ مغرب کے لوگوں کو خدا اور مذہب کا انکار کرنا ہو تو آزادی مطلق ہے۔ لیکن کل اگر کسی مغربی ملک کی اکثریت جمہوریت کو مسترد کرنے لگے تو پھر آزادی مطلق نہیں رہے گی۔ لیکن یہ تو اقبال کے ایک شعر کی تعبیر ہوئی۔ ان کے دوسرے شعر کا مفہوم کیا ہے؟
شیکسپیئر نے کہا تھا۔
Ripeness is all
یعنی پختگی ہی سب کچھ ہے۔ شیکسپیئر کی اس بات کا مفہوم یہ ہے کہ انسان کی فکر اسی وقت فکر بنتی ہے جب وہ پختہ ہوجائے۔ اقبال نے بھی اپنے دوسرے شعر میں یہی کہا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ اگر فکر خام ہو تو آزادی اظہار انسان کو حیوان بنانے کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ پختگی آتی کہاں سے ہے؟ ہر ملت کی ایک تہذیب اور تاریخ ہوتی ہے اور تہذیب و تاریخ کی کچھ مبادیات ہوتی ہیں۔ انسان کے لیے ضروری ہے کہ وہ ان مبادیات اور ان مبادیات کی تعبیر کے علم کو حاصل کرے، اسے سمجھے، اسے جذب کرے اور جہاں تک ممکن ہو اسے بسر کرے۔ انسان جب یہ کرتا ہے تو اس کی فکر اور شخصیت میں استحکام پیدا ہوتا ہے اور وہ زندگی کو مخصوص تناظر میں دیکھنے کا عادی ہوجاتا ہے۔ لیکن ہمارا زمانہ ادھ کچرے خیالات اور خام شخصیتوں کا زمانہ ہے۔ چناں چہ ہمارے زمانے میں لوگ تخریب کو بھی تعمیر کہتے ہیں۔ ہمارے زمانے میں زوال کا نیا نام عروج ہے۔ مسلم معاشروں میں سیکولر عناصر آئے دن آزادی فکر کے نام پر اجتہاد کا حق طلب کرتے رہتے ہیں۔ اسلام اجتہاد کا قائل ہے مگر اسلامی فکر کے دائرے میں اجتہاد ایک بہت بڑی ذمے داری ہے اور بڑی ذمے داری کے تقاضے بھی بڑے ہوتے ہیں۔ مگر سیکولر اور لبرل عناصر اجتہاد تو کرنا چاہتے ہیں لیکن وہ اجتہاد کے تقاضے پورے نہیں کرنا چاہتے۔ یہی ناپختگی ہے۔ یہی آزادی فکر کے ذریعے انسان کو حیوان بنانے کا طریقہ ہے۔ خلیوں کی نشوونما انسانی صحت کے لیے ناگزیر ہے لیکن جب کوئی خلیہ نشوونما کا اصول توڑ دیتا ہے اور ضرورت سے زیادہ خلیے پیدا کرنے سبب بن جاتا ہے تو یہ عمل سرطان کہلاتا ہے۔ اس تناظر میں سوال یہ ہے کہ آزادی افکار کا حقیقی تصور کیا ہے؟
اس سلسلے میں اقبال کے دوشعروں سے ہم بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ اقبال نے کہا ہے۔
صنوبر باغ میں آزاد بھی ہے پابہ گلِ بھی ہے
انہی پابندیوں میں حاصل آزادی کو تو کرے
صنوبر کا درخت بلند ہوتا ہے لیکن اقبال کہہ رہے ہیں کہ صنوبر کی بلندی بھی صنوبر کی جڑوں کے زمین میں پیوست ہونے کا حاصل ہے۔ صنوبر کی جڑیں اگر زمین میں پیوست نہ ہوں تو صنوبر نہ بلند قامت ہوسکتا ہے نہ زندہ رہ سکتا ہے۔ چناں چہ اقبال کا مشورہ ہے کہ اپنے دین، اپنی تہذیب، اور اپنی تاریخ میں اپنی جڑیں رکھو گے تو آزادی افکار تمہیں فیض پہنچائے گی ورنہ نہیں۔ اقبال کا دوسرا شعر یہ ہے۔
دہر میں عیشِ دوام آئیں کی پابندی سے ہے
موج کی آزادیاں سامانِ شیون ہوگئیں
اقبال نے اس شعر میں زندگی کا بنیادی اصول بیان کیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ دنیا میں مستقل عیش اصول دین کی پابندی سے ہی حاصل کیا جاسکتا ہے۔ اس دعوے کی دلیل مہیا کرتے ہوئے انہوں نے کہا ہے، موج جب تک دریا میں ہوتی ہے وہ بہتے ہوئے دریا کا حصہ ہوتی ہے۔ اس میں قوت ہوتی ہے، زندگی ہوتی ہے، لیکن جب وہ دریا کے کناروں سے نکل جاتی ہے تو اس کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہتی اور اس کا مقدرآہ و زاری کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ اقبال کے اس شعر کے دوسرے مصرعے کا ایک مفہوم یہ بھی ہے کہ دریا جب تک کناروں کی حد میں ہوتا ہے انسانوں کو اس سے فیض پہنچتا ہے۔ لیکن جب وہ کناروں سے نکلتا ہے تو سیلاب بن جاتا ہے اور تباہی و بربادی پھیلاتا ہے۔ یہی معاملہ انسانوں بالخصوص مسلمانوں کا ہے۔ وہ جب تک اپنے دین اور اپنی تہذیب کے دامن میں رہتے ہیں اپنے لیے عیش دوام حاصل کرتے ہیں لیکن جب وہ دین سے دور اور اپنی تہذیب سے بیگانہ ہوجاتے ہیں تو خوار ہوجاتے ہیں۔ لیکن جب مسلمان اپنے آئین کی پاسداری کرتا ہے تو کیا ہوتا ہے؟ اس کا جواب اقبال نے اپنے ایک شعر میں دیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے۔
کرمکِ ناداں طوافِ شمع آخر کب تلک
اپنی فطرت کے تجلّی زار میں آباد ہو
اقبال کے اس شعر کا مفہوم یہ ہے کہ مسلمان جب اپنے آئین کی پاسداری کرتا ہے تو اس پر انکشاف ہوتا ہے کہ اصل نور کسی اور چیز میں نہیں اس کے باطن میں ہے۔ چناں چہ پھر وہ پروانے کی طرح کسی شمع کا طواف نہیں کرتا بلکہ وہ اپنی فطرت اور خودی میں ڈوب جاتا ہے۔ جہاں ہر آن تجلیات کا نزول ہورہا ہوتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ آزادی اور پابندی کی اصل اور بلند ترین سطح کیا ہے؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے اقبال نے کہا ہے۔
وہ ملتفت ہوں تو کنج قفس بھی آزادی
نہ ہوں تو صحنِ چمن بھی مقامِ مجبوری
یعنی انسان کا اصل مسئلہ خدا کا انسان کی طرف ملتفت ہوتا ہے۔ خدا انسان کی طرف ملتفت ہو تو انسان قید خانے میں بھی آزاد ہے اور اگر خدا ملتفت نہ ہو تو آزاد ہو کر بھی غلام ہے۔

Leave a Reply