جدید مغربی تہذیب کاانسانیت کش کردار

انسان کی زندگی میں خدا کی وہی اہمیت ہے جو ہماری زندگی میں سورج کی اہمیت ہے۔ سورج کے بغیر زندگی تاریک اور معدوم ہے۔ اسی طرح خدا کے بغیر ہماری زندگی موت سے بدتر ہے

دنیا میں کروڑوں انسان ہیں جو جدید مغربی تہذیب کو حیرت اور ہیبت سے دیکھتے ہیں لیکن اس حیرت اور ہیبت میں وہی لوگ مبتلا ہوتے ہیں جو روحانی، علمی، فکری اور تہذیبی عسرت کا شکار ہوتے ہیں، ورنہ حقیقت یہ ہے کہ جدید مغربی تہذیب عہد حاضر کا سب سے بڑا شیطان ہے۔ اس شیطان کی شیطنت اصل شیطان کی شیطنت سے بڑھی ہوئی ہے اور ایک انسان کو اگر حقیقی شیطان اور جدید مغربی تہذیب میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑے تو اسے حقیقی شیطان کا انتخاب کرنا چاہئے۔ یہ کوئی ’’جذباتی بات‘‘ نہیں ہے۔ اس کی پشت پر ایک بہت بڑی دلیل موجود ہے۔ اصل شیطان کی شیطنت سے سب آگاہ ہیں۔ قرآن نے صاف کہا ہے کہ شیطان تمہارا دشمن ہے، مگر جدید مغربی تہذیب کا معاملہ یہ ہے کہ اسے انسانوں بالخصوص مسلمانوں کی عظیم اکثریت اپنا دشمن نہیںسمجھتی اور نہ ہی مسلمانوں کی عظیم اکثریت جدید مغربی تہذیب کی شیطنت سے آگاہ ہے۔ ایسے لوگ ہر قدم پر مغرب سے دھوکہ کھا سکتے ہیں؟ جدید مغربی تہذیب ہمارے ساتھ کیا کررہی ہے اردو ادب میں اس کا سب سے اچھا اظہار سلیم احمد کی معرکہ آرا نظم ’’مشرق ہار گیا‘‘ میں ہوا ہے۔ یہ ایک ایسی نظم ہے جسے ہمیں پانچ چھے ماہ میں ایک بار ضرور پڑھنا چاہئے۔ نظم یہ ہے۔

کپلنگ نے کہا تھا
مشرق، مشرق ہے
اور مغرب ،مغرب ہے
اور دونوں کا ملنا ناممکن ہے
لیکن مغرب، مشرق کے گھر آنگن میں آپہنچا ہے
میرے بچوں کے کپڑے لندن سے آتے ہیں
میرا نوکر بی بی سی سے خبریں سنتا ہے
میں بیدل اور حافظ کے بجائے
شیکسپیئر اور رلکے کی باتیں کرتا ہوں
اخباروںمیں
مغرب کے چکلوں کی خبریں اور تصویریں چھپتی ہیں
مجھ کو چگی داڑھی والے اکبر کی کھسیانی ہنسی پر
رحم آتا ہے
اقبال کی باتیں (گستاخی ہوتی ہے)
مجذوب کی بڑ ہیں
وارث شاہ اور بلّھے شاہ اور بابا فرید؟
چلیے جانے دیجیے ان باتوں میں کیا رکھا ہے
مشرق ہار گیا ہے!
یہ بکسر اور پلاسی کی ہار نہیں ہے
ٹیپو اور جھانسی کی رانی کی ہار نہیں ہے
سن ستاون کی جنگ آزادی کی ہار نہیں ہے
ایسی ہار تو جیتی جاسکتی ہے (شاید ہم نے جیت بھی لی ہے)
لیکن مشرق اپنی روح کے اندر ہار گیا ہے
قبلہ خاں تم ہار گئے ہو!
اور تمہارے ٹکڑوں پہ پلنے والا لالچی مارکوپولو
جیت گیا ہے
اکبر اعظم! تم کو مغرب کی جس عیارہ نے تحفے بھیجے تھے
اور بڑا بھائی لکھا تھا
اس کے کتے بھی ان لوگوں سے افضل ہیں
جو تمہیں مہا بلی اور ظل اللہ کہا کرتے تھے
مشرق کیا تھا؟
جسم سے اوپر اٹھنے کی اک خواہش تھی
شہوت اور جبلت کی تاریکی میں
اک دیا جلانے کی کوشش تھی!
میں سوچ رہا ہوں، سورج مشرق سے نکلا تھا
(مشرق سے جانے کتنے سورج نکلے تھے)
لیکن مغرب ہر سورج کو نگل گیا ہے
’’میں ہار گیا ہوں‘‘
میں نے اپنے گھر کی دیواروں پر لکھا ہے
’’میں ہار گیا ہوں‘‘
اور تصویروں پر تھوکا ہے
ہارنے والے چہرے ایسے ہوتے ہیں
میری روح کے اندر اک ایسا گہرا زخم لگا ہے
جس کے بھرنے کے لئے صدیاں بھی ناکافی ہیں
میں اپنے بچے اور کتے دونوں کو ٹیپو کہتا ہوں
مجھ سے میرا سب کچھ لے لو
اور مجھے اک نفرت دے دو
مجھ سے میرا سب کچھ لے لو
اور مجھ اک غصّہ دے دو
ایسی نفرت، ایسا غصّہ
جس کی آگ میں سب جل جائیں

میں بھی!!
سلیم احمد کی یہ نظم اپنی شدت احساس میں غیر معمولی ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ نہ اکبر الٰہ آبادی کی ہنسی ’’کھسیانی‘‘ تھی اور نہ اقبال کی باتیں مجذوب کی بڑ ہیں۔ اکبر کی شاعری کا کمال یہ ہے کہ مسلمانوں نے جو جنگ میدان جنگ میں ہار دی تھی، اکبر نے وہ جنگ اپنی شاعری میں جیت کر دکھا دی ہے۔ اقبال کی شاعری کا کمال اکبر سے بھی بڑھ کر ہے۔ انہوں نے مغرب کے عروج کے زمانے میں مغربی تہذیب کو خودکشی کرتے دکھایا ہے ، اقبال کی شاعری میں اسلام کی نشاۃ ثانیہ ایک سامنے کی بات اور یقینی امر ہے لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ اکبر اور اقبال کے مزاحمتی پیغام کو لوگوں نے دل سے قبول ہی نہیں کیا اور اس کی بنیاد پر کوئی لائحہ عمل مرتب ہی نہیں ہوسکا، ورنہ اکبر اور اقبال کی شاعری برصغیر کی محدود فضا میں انقلاب برپا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ اکبر اور اقبال کے بعد برصغیر میں مولانا مودودیؒ آئے۔انہوں نے جدید مغربی تہذیب کی بے مثال تنقید لکھی لیکن مولانا کی تنقید کا کسی اور پر کیا مولانا کی برپا کی ہوئی جماعت اسلامی اور اسلامی جمعیت طلبہ پر اب رتی برابر بھی اثر نظر نہیں آتا۔ یہ صورت حال ایک گہرے مسئلے کی نشاندہی کرتی ہے۔ ایک ایسی قوم، ایک ایسی ملت اور ایک ایسی امت جو قرآن و حدیث اور سیرت طیبہ کا اثر قبول کرنے پر آمادہ نہیں اسے اکبر اور اقبال کی شاعری اور مولانا مودودیؒ کا علم کلام کیا تبدیل کرے گا۔ دیکھا جائے تو سلیم احمد کی نظم مشرق ہار گیا انفرادی اور اجتماعی خودکشی پر منتج ہوتی ہے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ جدید مغربی تہذیب کے اثرات نے ہم سے یہ خیال ہی چھین لیا ہے کہ ہم کبھی مغرب کو شکست دے سکتے ہیں۔ لیکن یہاں اصل سوال یہ ہے کہ جدید مغربی تہذیب نے پوری انسانیت سے کیا کچھ چھینا ہے۔

اردو ادب کے سب سے بڑے نقاد اور سلیم احمد کے استاد محمد حسن عسکری نے اپنے ایک مضمون میں انسانی تہذیب اور انسانی معاشرے پر مغربی تہذیب کے پڑنے والے اثرات کو اس طرح بیان کیا ہے:

نٹشے نے کہا خدا مر گیا
مارلو نے کہا انسان مر گیا

لارنس نے کہا انسانی تعلقات کا ادب مر گیا۔
اور اب یہ بات ہم اس منظر نامے میں اضافے کے طور پر عرض کر رہے ہیں کہ ژاک دریدا کہہ رہا ہے کہ انسانی زندگی میں مشکل معنی کا کوئی وجود نہیں لیکن یہاں ہم سب سے پہلی بات سے گفتگو کو آگے بڑھاتے ہیں۔

انسانی تاریخ میں ہر تہذیب ’’خدا مرکز‘‘ تھی۔ ہندو ازم کی تاریخ چھ ہزار سال پرانی ہے اور ہندو تہذیب ایک خدا مرکز تہذیب ہے۔ یہودی تہذیب بھی خدا مرکز تھی اور ہے۔ اسلامی تہذیب بھی خدا مرکز ہے اس تناظر میں دیکھا جائے تو جدید مغربی تہذیب وہ پہلی تہذیب ہے جس نے خد کا انکار کیا۔ تایخ میں خدا کا انکار نئی بات نہیں۔ دنیا میں ایک لاکھ 24 ہزار انبیاء آئے اور ہر نبی کی بعثت کی ضرورت اس لیے پڑی کہ توحید کا پیغام دھندلا گیا۔ چنانچہ توحید کے پیغام کو جلا دینے کے لیے پیغمبر آتے رہے۔ لیکن قدیم زمانے میں خدا کے انکار کے صرف دو دلائل تھے۔ رسول اکرمؐ کے زمانے میں ملحدین کہا کرتے تھے ہم نے اپنے آبا و جداد کو کفر یا شرک پر کھڑے پایا چنانچہ ہم اپنے آبا و اجداد کی سنت کی خلاف ورزی نہیں کرسکتے۔ دوسری مشکل قدیم زمانے کے ملحدین کو یہ لاحق ہوئی تھی کہ کیا انسان جب مرکر مٹی ہو جائے تو وہ دوبارہ زندہ کیسے ہوگا۔ چنانچہ حیات بعد الموت کا انکار کرکے خدا کے انکار کی ایک صورت نکالتے تھے مگر جدید مغربی تہذیب کا مسئلہ یہ ہے کہ اس نے پہلے فلسفے کی بنیاد پر خدا کا انکار کیا اور اب وہ جدید سائنس کے علم کی بنیاد پر خدا کا انکار کرتی ہے اور اس کے پاس خدا کے انکار کی ایک دو دلیلیں نہیں ہیں اس کے پاس خدا کے انکار کی درجنوں دلیلیں ہیں۔ اس صورت حال نے کروڑوں انسانوں سے ان کا خدا، ان کا سب سے بڑا سہارا چھین لیا ہے۔ انسان کی زندگی میں خدا کی وہی اہمیت ہے جو ہماری زندگی میں سورج کی اہمیت ہے۔ سورج کے بغیر زندگی تاریک اور معدوم ہے۔ اسی طرح خدا کے بغیر ہماری زندگی موت سے بدتر ہے۔ ایسا انسان جو خدا کو نہیں مانتا‘ زندگی کے حقیقی مقصد‘ زندگی کی حقیقی معنویت اور زندگی کے حقیقی حسن سے آگاہ ہی نہیں ہوسکتا۔

جدید مغربی تہذیب نے صرف خدا ہی کا انکار نہیں کیا۔ اس نے رسالت کے ادارے کا بھی انکار کیا ہے۔ دنیا کی ہر مذہبی تہذیب خدا کے بعد رسول کے تصور کے گرد طواف کرتی تھی۔ انسانوں کی زندگی میں پیغمبر کی اہمیت یہ ہے کہ پیغمبر ’’مثالی انسان‘‘ کا کامل ترین نمونہ ہوتا ہے۔ ہندو تہذیب اگر ’’رام مرکز‘‘ ہے یا ’’کرشن مرکز‘‘ ہے تو بات سمجھ میں آتی ہے۔ عیسائی تہذیب آج بھی ’’عیسیٰؑ مرکز‘‘ ہے۔ اسلامی تہذیب خدا کے بعد رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا طواف کر رہی ہے۔ قرآن مسلمانوں سے کہتا ہے کہ رسول اکرمؐ کی سیرت تمہارے لیے بہترین نمونۂ عمل ہے۔ اندازہ کیجیے کہ جس تہذیب کا مرکز و محور سیرت طیبہ ہو‘ اس کے جلال و جمال کا کیا عالم ہوگا۔ مگر بدقسمتی سے جدید مغربی تہذیب نے رسالت کے ادارے کا انکار کرکے اپنی پوری تہذیب کو عوام مرکز بنا دیا ہے۔ حالانکہ عوام کسی کے لیے بہترین نمونہ عمل ہو ہی نہیں سکتے۔

جدید مغربی تہذیب کے ظہور سے پہلے تمام تہذیبیں ’’وحی مرکز‘‘ تھیں اس لیے کہ وحی کا علم خدائی علم ہے اور اس سے زیادہ برتر‘ کامل اور صحیح علم کا تصور ممکن ہی نہیں۔ یہ علم ازل سے ابد تک پھیلا دکھائی دیتا ہے لیکن جدید مغربی تہذیب نے پہلے فلسفے کے دائرے میں وحی کا انکار کیا اور اب وہ سائنس کے دائرے میں وحی کا انکار کر رہی ہے۔ جدید مغربی تہذیب کا دعویٰ ہے کہ وحی کا علم ’’قابل تصدیق‘‘ نہیں ہے۔ کسی نبی پر وحی آئی تھی یا نہیں آئی تھی ہم نہیں جان سکتے۔ چنانچہ ہم وحی سے حاصل ہونے والے علم کے درست ہونے کی تصدیق بھی نہیں کرسکتے۔ مغربی تہذیب کے نزدیک اس کے برعکس جدید سائنس کا علم قابل تصدیق ہے چنانچہ جدید مغربی تہذیب سائنسی علم ہی کو ’’کامل علم‘‘ مانتی ہے۔ اقبال نے جدید مغربی تہذیب کی فکر کا مذاق اڑاتے ہوئے کتنی درست بات کہی ہے۔ اقبال نے کہا ہے:

دانش حاضر حجاب اکبر است
بت پرست و بت فروش و بت گراست

اقبال کہہ رہے ہیں کہ جدید مغربی تہذیب کا علم‘ علم نہیں۔ یہ انسان کو حقیقت تک رسائی نہیں دیتا۔ بلکہ یہ حقیقت پر پردہ ڈالتا ہے۔ یہ علم بت تراشتا ہے‘ بت فروخت کرتا ہے اور بتوں کو پوجتا ہے۔

دنیا کے تمام ادیان آخرت کی زندگی کو ’’اصل زندگی‘‘ باور کراتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ دنیا کی زندگی تو محض ایک امتحان گاہ ہے۔ انسان اگر اس امتحان گاہ میں خدا کے احکامات کے مطابق زندگی بسر کرے گا تو اس کی آخرت سنور جائے گی ورنہ خراب ہو جائے گی۔ جدید مغربی تہذیب کہتی ہے کہ آخرت تو وہم وگمان کا معاملہ ہے اصل زندگی دنیا ہی کی زندگی ہے جس نے دنیا کمائی وہی ’’کامیاب‘‘ ہے اور جس نے دنیا گنوائی وہی ’’ناکام‘‘ ہے۔

اسلامی تہذیب ہی میں نہیں تمام مذہبی تہذیبوں میں انسان ایک ’’کثیر الجہات‘‘ وجود ہے۔ وہ بیک وقت روح‘ نفس اور جسم کا مجموعہ ہے۔ انسان میں روح کی اہمیت یہ ہے کہ جب انسان کی روح اس کے جسم میں موجود رہتی ہے انسان ’’زندہ‘‘ کہلاتا ہے۔ روح کے جسم سے نکلتے ہی انسان کی تعریف بدل جاتی ہے۔ پھر وہ انسان سے ’’مردہ‘‘ بن جاتا ہے۔ وہ لاش کہلاتا ہے۔ ہماری تہذیب میں نفس کے مدارج ہیں۔ نفس کا پست ترین درجہ نفس امارہ کہلاتا ہے۔ نفس کا دوسرا درجہ نفس لوامہ یا ملامت کرنے والا نفس کہلاتا ہے۔ نفس کا تیسرا درجہ نفس مطمئنہ کہلاتا ہے۔ نفس مطمئنہ ترقی کرکے نفس ملہمہ بن جاتا ہے۔ نفس ملہمہ سے اوپر نفس راضیہ کا درجہ ہے‘ اس کے بعد نفس مرضیہ کا درجہ ہے سب سے اوپر نفس مطلقہ کا درجہ ہے۔ چنانچہ اسلامی تہذیب میں انسان واقعتاً کثیر الجہات یا Multi dimensional وجود ہے۔ اس کے برعکس جدید مغربی تہذہب روح کو تسلیم ہی نہیں کرتی۔ اس کے پاس نفس کے مدارج کا بھی تصور نہیں ہے۔ جدید مغربی تہذیب انسان کو صرف جسم مانتی ہے۔ چنانچہ اس کا تصور انسان یک جہتی یا One Dimensional ہے۔ اسی مواد سے اسلامی یا مذہبی تہذیبوں کی ’’امارت‘‘ اور جدید مغربی تہذیب کی ’’غربت‘‘ صاف ظاہر ہے۔

یہ ایک سامنے کی بات ہے ہر اسلامی معاشرے میں انسان کی فضیلت دو چیزوں پر منحصر ہے۔ ایک تقویٰ اور دوسرا علم۔ لیکن جدید مغربی تہذیب نے پوری دنیا میں صرف دو چیزوںکو اہم بنا کر کھڑا کر دیا ہے ایک طاقت اور دوسری دولت۔ مغربی تہذیب کے دائرے میں فضیلت یا تو طاقت ور آدمی کو حاصل ہے یا دولت مند شخص کو۔ یہی وجہ ہے کہ جدید مغربی تہذیب کے زیر اثر پوری دنیا طاقت اور دولت کی پوجا سے بھر گئی ہے۔ خود مسلم معاشرے بھی طاقت اور دولت کا طواف کر رہے ہیں۔ اس صورت حال نے اربوں انسانوں کو شرف انسانیت سے محروم کر دیا ہے۔ یہ حقیقت راز نہیں کہ جس معاشرے میں طاقت اور دولت کی پوجا ہو رہی ہو وہ اسلامی کیا انسا نی معاشرہ بھی نہیں کہلا سکتا۔

Leave a Reply