پاکستانی سیاست کا بحران،اسباب کیا ہیں؟

پاکستان کی سیاست کو کولہو کا بیل بنا کر کھڑا کردیا۔ کولہو کا بیل صبح سے شام تک چلتا رہتا ہے مگر کہیں بھی نہیں پہنچ پاتا،

دنیا کا کون سا اہم ملک ہے جہاں سیاست بحران کا شکار نہیں ہے؟ امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ کی بحرانی سیاست کو ختم ہوئے تھوڑا ہی عرصہ ہوا ہے، اور اب بھی وہاں یہ خطرہ موجود ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ دوبارہ صدرِ امریکہ منتخب ہوسکتے ہیں۔ بھارت دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے مگر وہ بڑی تیزی کے ساتھ ایک فسطائی ریاست بنتا جارہا ہے۔ وہاں اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کی زندگی اجیرن ہوگئی ہے۔ برطانیہ میں بورس جانسن کا عہد ختم ہوتا نظر آرہا ہے۔ اسرائیل بار بار انتخابات کے عمل سے گزر رہا ہے، اس کے باوجود اُس کا سیاسی بحران حل نہیں ہو پارہا ہے۔ لیکن پاکستان کی تاریخ یہ ہے کہ جب ملک بنا تھا تب بھی پاکستان نازک دور سے گزر رہا تھا، 1965ء میں بھی اس کا سامنا نازک دور سے تھا، 1971ء میں بھی اس پر نازک دور کا سایہ تھا، اور آج بھی یہی کہا جا رہا ہے کہ پاکستان نازک دور سے گزر رہا ہے۔

’’نازک دور‘‘ کا دوسرا مطلب ’’بحران‘‘ ہے۔ بدقسمتی سے نازک دور کی گردان غلط بھی نہیں۔ پاکستان کی سیاست بحران زدہ ہے۔ عمران خان صرف پونے چار سال حکومت کرسکے۔ میاں شہبازشریف کو بڑے طمطراق سے لایا گیا تھا، کہا گیا تھا کہ وہ بڑے ’’اہل‘‘ ہیں۔ ان کی ’’پنجاب اسپیڈ‘‘ مشہورِ زمانہ ہے۔ مگر ان سے نہ معیشت سنبھل رہی ہے، نہ وہ ڈالر کی اونچی اڑان کو روک پا رہے ہیں۔ پنجاب میں ضمنی انتخابات ہوئے تو عام خیال تھا کہ اب پنجاب کی سیاست میں استحکام آجائے گا، مگر پنجاب کے نئے وزیراعلیٰ کے انتخاب سے دو روز قبل پی ٹی آئی نے آصف علی زرداری پر الزام لگایا کہ وہ ان کے ایم پی ایز کو 40 اور 50 کروڑ روپے میں خرید رہے ہیں۔ اس کے نتیجے میں ملک کے اندر ایک نئی سیاسی آویزش جنم لے رہی ہے اور محاذ آرائی کی سیاست کی آگ مزید بھڑک اٹھی ہے۔ سوال یہ ہے کہ آخر پاکستان کی سیاست مسلسل بحرانوں کا شکار کیوں ہے؟

عالمی فکر کی تاریخ بتاتی ہے کہ یہ صرف مذہب ہے جس نے سیاست کو عظمت، عزت اور وقار عطا کیا ہے۔ یہ صرف نظریہ ہے جس نے سیاست کو انسانوں کی خدمت کا ذریعہ بنایا ہے۔ افلاطون کا زمانہ ڈھائی سو سال قبلِ مسیح کا زمانہ ہے، مگر اس عہدِ قدیم میں بھی افلاطون نے صاف کہا تھا کہ سیاست کے مسئلے کا ایک ہی حل ہے اور وہ یہ کہ یا تو فلسفی کو حکمران بنادو یا حکمران کو فلسفی۔ افلاطون کے زمانے میں فلسفہ بجائے خود دانش نہیں تھا، اسے دانش کی محبت کا نام دیا جاتا تھا۔ اصل دانش مذہبی روایت سے حاصل ہوتی تھی۔ ہندوئوں کی تاریخ چھ ہزار سال پرانی ہے اور اس تاریخ میں رام کی حکمرانی کو مثالی سمجھا جاتا ہے، اس کی وجہ یہ تھی کہ رام آسمانی ہدایت کی روشنی میں حکمرانی کرنے والے حکمران تھے۔ وہ جو کچھ کرتے تھے ویدوں کے مطابق کرتے تھے۔ چنانچہ عہدِ جدید میں گاندھی جیسا رہنما بھی یہ کہتا تھا کہ رام کا دورِ حکمرانی بہترین تھا۔ ان سے ایک بار کسی صحافی نے پوچھا تھا کہ آپ آزادی کے بعد کیسی ریاست و سیاست چاہتے ہیں؟ اس کے جواب میں گاندھی نے کہا کہ ہم ’’رام راجیے‘‘ کو واپس لانا چاہتے ہیں۔ جیسے ہم عہدِ نبویؐ اور عہدِ خلافت کو بہترین سمجھتے ہیں اسی طرح ہندو رام کے دور کو بہترین خیال کرتے ہیں۔ جہاں تک مسلمانوں کی تاریخ کا تعلق ہے تو عہدِ نبویؐ اور عہدِ خلافت کے بعد بھی مسلمان کبھی اس خیال سے غافل نہیں ہوئے کہ سیاست دین کی پابند ہے۔

امام غزالیؒ نے اپنی معرکہ آرا تصنیف ’’احیاء العلوم‘‘ میں لکھا ہے کہ مسلم معاشرے میں ریاست الف سے ے تک دین کی پابند ہے۔ ابنِ خلدون نے اپنے مشہورِ زمانہ ’مقدمہ‘ میں سیاست کو دین کا تابع قرار دیا ہے۔ عہدِ حاضر میں اقبالؒ نے صاف کہا ہے:

جلالِ پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو
جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی

مولانا مودودیؒ عہدِ حاضر کے مجدد ہیں، اور ان کی پوری فکر سیاست کیا، پوری زندگی دین کے غلبے کے تصور سے عبارت ہے۔ مولانا مودودیؒ سیاست کیا معیشت اور ادب کو بھی دین کے تابع رکھنا چاہتے تھے۔ اقبالؒ اور مولانا مودودیؒ کا زمانہ بیسویں صدی کا زمانہ ہے، اور بیسویں صدی میں مغرب کے دانشور اس خیال کی جگالی کررہے تھے کہ اسلام عالمِ انسانیت کو جو کچھ دے سکتا تھا، دے چکا، اور اب اس کے پاس انسانیت کو دینے کے لیے کچھ نہیں۔ لیکن ساری دنیا نے دیکھا کہ اسلام بیسویں صدی میں ایک انقلابی قوت بن کر ابھرا۔ اس نے ایک نظریے کا روپ اختیار کیا، اور اس نے ایک نظریے کی بنیاد پر پاکستان کے نام سے عہدِ جدید کی سب سے بڑی اسلامی ریاست قائم کرکے دکھا دی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب قومیں اپنا تشخص نسل، زبان اور جغرافیے کی بنیاد پر متعین کررہی تھیں، مگر برصغیر کی ملّتِ اسلامیہ نے کہا کہ ہمارا تشخص نہ نسل ہے، نہ زبان ہے، نہ جغرافیہ ہے… بلکہ ہمارا تشخص ہمارا نظریہ ہے، ہمارا دین ہے۔

اہم بات یہ ہے کہ برصغیر کے مسلمانوں کے اس نظریے نے دیکھتے ہی دیکھتے ایک بھیڑ کو قوم بناکر کھڑا کردیا۔ اس نظریے نے محمد علی جناح کو ’’قائداعظم‘‘ میں ڈھال دیا۔ اس نظریے نے جغرافیے کو پاکستان میں تبدیل کرکے دکھا دیا۔ نظریے کی قوت اتنے بڑے بڑے کام کرسکتی تھی تو وہ پاکستان کو ایک مثالی ریاست اور پاکستانی قوم کو ایک مثالی قوم بھی بنا سکتی تھی، مگر پاکستان کے فوجی اور سول حکمرانوں نے ملک کے نظریے سے غداری کی۔

پاکستان اسلام کے نام پر بنا تھا مگر جنرل ایوب سیکولرازم کا پرچم لے کر کھڑے ہوگئے اور انہوں نے پاکستان کے آئین سے ’’اسلام‘‘ کو حذف کردیا۔ انہوں نے خلافِ اسلام عائلی قوانین ملک و قوم پر مسلط کیے۔ انہوں نے سود کو ’’حلال‘‘ قرار دینے کی ہر ممکن کوشش کی۔ ذوالفقار علی بھٹو نے ملک کے نظریے سے غداری کرتے ہوئے ’’اسلامی سوشلزم‘‘ ایجاد کیا، حالانکہ اسلام سوشلزم کی، اور سوشلزم اسلام کی ضد تھا۔ میاں نوازشریف اور بے نظیر بھٹو کو کبھی اسلام سے وابستگی کا مظاہرہ کرتے نہیں دیکھا گیا۔

میاں نوازشریف کے دور میں شرعی عدالت نے سود کو حرام قرار دے دیا تھا مگر میاں نوازشریف اپیل لے کر سپریم کورٹ پہنچ گئے۔ اب اُن کے بھائی میاں شہبازشریف سود کے تحفظ کے لیے کوشاں ہیں۔ جنرل پرویزمشرف نے کھل کر کہا کہ وہ سیکولر بھی ہیں اور لبرل بھی۔ 75 سال میں صرف ایک جنرل ضیا الحق تھے جن کا تشخص مذہبی تھا، مگر انہوں نے اسلام کو اپنے اقتدار کے استحکام کے لیے استعمال کیا، اور وہ ملکی نظام میں کہیں بھی اسلام کو غالب نہ کرسکے۔

پاکستان کی سیاست میں نظریے کی عدم کارفرمائی نے پاکستان کی سیاست کو کولہو کا بیل بنا کر کھڑا کردیا۔ کولہو کا بیل صبح سے شام تک چلتا رہتا ہے مگر کہیں بھی نہیں پہنچ پاتا، کیوں کہ وہ ایک دائرے میں گردش کرتا رہتا ہے۔ پاکستان کی سیاست بھی 1958ء سے اب تک کولہو کے بیل کی طرح دائرے میں گردش کررہی ہے۔ اس میں وہی عدم استحکام ہے جو پچاس سال پہلے بھی تھا، اس کی وہی بے چہرگی ہے جو چالیس سال پہلے بھی موجود تھی۔ نظریے نے بھیڑ کو قوم اور محمد علی جناح کو قائداعظم بنایا تھا۔

اس کے معنی یہ ہیں کہ نظریہ ہر چیز کو عظیم بنادیتا ہے۔ مگر چونکہ ہمارے حکمرانوں میں کوئی بھی نظریاتی نہیں تھا چنانچہ ہمارے تمام حکمران چھوٹے رہ گئے۔ جنرل ایوب، ذوالفقار علی بھٹو اور جنرل ضیا الحق بونے تھے مگر میاں نوازشریف، بے نظیر بھٹو، میاں شہبازشریف، عمران خان، مریم نواز اور مولانا فضل الرحمٰن تو بالشتیے ہیں۔ نظریے کی عدم موجودگی نے ان لوگوں کے قد و قامت کو کبھی بڑھنے ہی نہیں دیا۔

جس طرح غذائی قلّت بچوں کے ذہن کو بڑا نہیں ہونے دیتی اسی طرح نظریاتی غذا کی قلّت رہنمائوں کی روح، قلب، ذہن اور ظرف کو بڑا نہیں ہونے دیتی۔ نظریے نے صرف برصغیر ہی میں کمال نہیں کیا بلکہ نظریے نے روس اور چین میں انقلاب برپا کیا، نظریے ہی نے 1979ء میں ایران کے انقلاب کو جنم دیا۔

پاکستان کی سیاست کے بحران کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ پاکستان کی سیاست 1958ء سے ’’فوج مرکز‘‘ یا ’’جرنیل مرکز‘‘ ہے۔ جنرل ایوب نے اگرچہ 1958ء میں مارشل لا لگایا مگر وہ 1954ء سے امریکیوں کے ساتھ رابطے میں تھے۔ وہ امریکیوں کو باور کرا رہے تھے کہ پاکستان کے سیاست دان نااہل ہیں اور وہ ملک کو تباہ کررہے ہیں۔ جنرل ایوب امریکیوں کو آگاہ کررہے تھے کہ جرنیل سیاست دانوں کو ملک تباہ کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔

پاکستان کی تحریک اور پاکستان کے قیام میں جرنیلوں یا فوج کا کوئی کردار نہیں تھا، مگر جرنیل اپنی طاقت اور تنظیم کی بنیاد پر ملک کے مالک بن کر بیٹھ گئے۔ انہوں نے ملک کے نظریے کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھا، انہوں نے ملک کی تاریخ پر تھوک دیا، انہوں نے ملک کے آئین کو کاغذ کے ایک ٹکڑے سے زیادہ اہمیت نہ دی۔ مطلب یہ کہ جرنیلوں نے اُن تمام چیزوں کو نظرانداز کیا جو ملک کو سیاسی استحکام مہیا کرسکتی تھیں، جو قوم کو قوم بنا سکتی تھیں، جو حال اور مستقبل کی صورت گری کرسکتی تھیں۔

اس کے برعکس جرنیلوں نے سیاست دانوں کو جرنیلوں کے بوٹ چاٹنے والا بنایا۔ انہوں نے قوم پر اپنی طاقت کی دھونس مسلط کی۔ انہوں نے قوم کی تخلیقی اور مزاحمتی قوت کو کچل دیا۔ بھٹو صاحب ملک کے اہم سیاست دان تھے مگر وہ جنرل ایوب کو ’’ڈیڈی‘‘ کہا کرتے تھے۔ حضرت عیسیٰؑ نے فرمایا ہے ’’جو تلوار کے سہارے زندہ رہے گا وہ تلوار سے ہی مارا جائے گا۔‘‘ بھٹو صاحب ایک جنرل کی پیداوار تھے اور ایک جنرل ہی نے انہیں پھانسی پر لٹکایا۔

میاں نوازشریف بھی جرنیلوں کی پیداوار تھے، انہیں بھی جرنیلوں ہی نے زوال سے دوچار کیا۔ عمران خان بھی اسٹیبلشمنٹ ہی کے سہارے اقتدار میں آئے تھے، چنانچہ اسٹیبلشمنٹ ہی نے انہیں اقتدار سے باہر کیا۔ جرنیلوں کی تاریخ یہ ہے کہ وہ سیاسی عدم استحکام کا نعرہ لگاتے ہوئے اقتدار میں آتے ہیں مگر جب وہ اقتدار سے رخصت ہوتے ہیں تو ملک پہلے سے زیادہ سیاسی عدم استحکام کا شکار ہوتا ہے۔ جنرل ایوب کے حوالے سے یہی ہوا ہے، یہاں تک کہ جنرل یحییٰ کے دور میں تو ملک ہی دو ٹکڑے ہوگیا۔

جنرل ضیا الحق 1977ء کے سیاسی بحران کو بنیاد بناکر اقتدار میں آئے تھے مگر جب اُن کا طیارہ حادثے کا شکار ہوا تو ملک زیادہ بڑے سیاسی بحران کی زد میں تھا۔ جنرل پرویزمشرف کی بھی یہی کہانی ہے۔ دنیا کی تاریخ یہ ہے کہ آمروں نے بھی قوموں کو بڑا بنایا ہے۔ چین ایک آمریت تھا، ایک آمریت ہے، مگر آمریت ہی نے چین کو دنیا کی دوسری بڑی معیشت بنایا ہے۔ لی کوآن کی آمریت نے سنگاپور کو بڑی معاشی قوت میں ڈھالا ہے۔ مہاتیر محمد بھی ایک چھوٹے موٹے آمر ہی تھے مگر انہوں نے ملائشیا کو خوش حال ملک میں ڈھالا۔ بدقسمتی سے پاکستان کی آمریتیں بھی جعلی ہیں، چنانچہ انہوں نے ملک و قوم کو بحرانوں کے سوا کچھ نہیں دیا۔

مغربی جمہوریت کے بارے میں ہماری رائے ہمیشہ سے خراب ہے۔ مگر جمہوریت نے امریکہ کو امریکہ اور یورپ کو یورپ بنایا ہے۔ اس نے جاپان کو مدتوں تک دنیا کی دوسری بڑی معیشت بنائے رکھا۔ جمہوریت ہی نے بھارت کو آج تک متحد رکھا ہوا ہے اور جمہوریت ہی نے بھارت کی معیشت کو دنیا کی بڑی معیشت بنایا ہے۔ مگر بدقسمتی سے جس طرح پاکستان کی آمریت جعلی ہے اسی طرح پاکستان کی جمہوریت بھی جعلی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کی جمہوریت شریف خاندان اور بھٹو کے قبیلے کا کھیل ہے۔

بھٹو صاحب خود کو ’’ڈیموکریٹ‘‘ کہتے تھے مگر انہوں نے کبھی پیپلزپارٹی میں جمہوریت کو داخل نہیں ہونے دیا۔ میاں نوازشریف ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کا نعرہ لگاتے ہیں مگر انہوں نے آج تک پارٹی میں انتخابات کرواکے کبھی ووٹ کو عزت نہیں دی۔ عمران خان کی پارٹی میں بھی ابھی تک جمہوریت داخل نہیں ہوسکی ہے۔ جس طرح مولانا فضل الرحمٰن کا اسلام جعلی ہے اور وہ ’’اسلامی سیکولرازم‘‘ کی علامت ہیں اسی طرح ان کی جمہوریت پسندی بھی جعلی ہے۔ کبھی ان کے والد جے یو آئی کے سربراہ تھے، آج مولانا خود جے یو آئی کے سربراہ ہیں، وہ نہیں ہوں گے تو اُن کے فرزند اُن کی جگہ لے لیں گے۔

ہمارے سیاسی رہنمائوں کی جمہوریت سے یہ وابستگی ظاہر کرتی ہے کہ پاکستان میں جمہوریت محض ایک نعرہ اور محض ایک ڈھکوسلہ ہے۔ پاکستان کی سیاسی جماعتوں میں اگر کچھ اہم ہے تو خاندان۔ اگر کچھ اہم ہے تو موروثیت۔ اگر کچھ اہم ہے تو شخصیت پرستی۔ چنانچہ جو جمہوریت دنیا بھر میں استحکام پیدا کرتی ہے وہی جمہوریت پاکستان میں سیاسی عدم استحکام کا سبب ہوتی ہے۔

Leave a Reply