غربت اور اس کی ہولناکیاں

دنیا کے منظرنامے پر ایک نظر ڈالنے ہی سے معلوم ہوجاتا ہے کہ وسائل سے محروم افراد کی کوئی آواز ہے نہ کوئی پکار ہے۔

ہماری دنیا کو علم کی دنیا کہا جاتا ہے، شعور کی دنیا کہا جاتا ہے، سائنس اور ٹیکنالوجی کی دنیا کہا جاتا ہے۔ سب سے بڑھ کر ’’ترقی‘‘ کی دنیا کہا جاتا ہے۔ صنعتی انقلاب کو آئے دو صدیاں ہوگئی ہیں۔ امریکہ اور یورپ کی ترقی نے ترقی کو ایک مذہب بنا دیا ہے۔ امریکہ اور یورپ عالمی جی ڈی پی کا 42 فیصد پیدا کررہے ہیں۔ دنیا کے ارب پتیوں کے پاس 4 ارب 60 کروڑ انسانوں سے زیادہ دولت ہے۔ دنیا کے صرف 22 ارب پتیوں کے پاس براعظم افریقہ کی تمام خواتین کی دولت سے زیادہ دولت ہے۔

مگر ان تمام حقائق کے باوجود ہماری دنیا غریبوں کی دنیا ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ دنیا کی آبادی کا 80 فیصد 10 ڈالر یومیہ سے کم پر کھڑا ہوا ہے۔ دنیا کے تین ارب انسانوں کی یومیہ آمدنی ڈھائی ڈالر سے کم ہے۔ دنیا کے 68 کروڑ افراد ایک ڈالر یومیہ سے کم کما پاتے ہیں۔ مغرب کی پیدا کردہ ’’ترقی یافتہ‘‘ اور ’’خوش حال‘‘ دنیا میں 82 کروڑ افراد روز بھوکے سوتے ہیں۔ دنیا کے دو ارب انسانوں کو پینے کا صاف پانی بھی میسر نہیں۔ دنیا میں کروڑوں انسان ایسے ہیں جو اُنھی تالابوں سے پانی پیتے ہیں جن سے جانور اپنی پیاس بجھاتے ہیں۔ مغرب کی پیدا کردہ اس دنیا میں 40 کروڑ لوگوں کو بنیادی طبی سہولیات بھی حاصل نہیں۔

اس دنیا میں ایک ارب 60 کروڑ انسان ایسے ہیں جن کی رہائش گاہ ان کے لیے کافی نہیں پڑتی۔ اس دنیا میں 10 کروڑ افراد بے گھر ہیں۔ غربت کو لوگ عام طور پر صرف معاشی مسئلہ سمجھتے ہیں۔ مگر غربت صرف معاشی مسئلہ نہیں، غربت اپنی پست ترین سطح پر ایک روحانی مسئلہ بن جاتی ہے۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت وہ حدیثِ مبارکہ ہے جس میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس غربت سے اللہ کی پناہ طلب کرنے کا حکم دیا ہے جو انسان کو کفر تک پہنچا دیتی ہے۔ یعنی غربت کی بدترین صورت انسان سے اُس کا ایمان تک چھین سکتی ہے۔

بدترین غربت میں مبتلا انسان کو رفتہ رفتہ ایسا محسوس ہونے لگتا ہے کہ اِس دنیا کا کوئی خدا نہیں ہے، اور اگر ہے بھی تو وہ نعوذ باللہ غریبوں کا خدا نہیں ہے۔ دنیا میں ہر سال ہزاروں افراد غربت کے ہاتھوں تنگ آکر خودکشی کرلیتے ہیں۔ خودکشی کرنے والے اعلان کرتے ہیں کہ وہ اپنے خدا اور دنیا سے مکمل طور پر مایوس ہوچکے ہیں اور وہ زندگی کو عطیۂ ربانی نہیں سمجھتے۔ وہ سوچتے ہیں ہماری زندگی صرف ہماری زندگی ہے اور ہم جب چاہیں اسے ختم کرسکتے ہیں۔ خودکشی کرنے والوں میں تمام مذاہب کے ماننے والے شامل ہوتے ہیں، اور ہر مذہب میں خدا کا کوئی نہ کوئی تصور موجود ہے، مگر ’’بدترین غربت‘‘ خدا کے اس تصور کو مؤثر نہیں رہنے دیتی۔ وہ انسان کی قلبِ ماہیت کرکے اسے خدا سے دور لے جاتی ہے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ بدترین غربت انسان کی روحانی موت کا سبب بن سکتی ہے۔ روحانی موت سے، جسمانی موت کی راہ ازخود ہموار ہوجاتی ہے۔

مغرب کی پیدا کردہ اس دنیا میں غربت افراد کیا، قوموں تک کے ’’تصورِ ذات‘‘ یا Self Image کو بدل کر رکھ دیتی ہے۔ ہمارا مذہب ہمیں بتاتا ہے کہ فضیلت صرف دو چیزوں میں ہے، تقویٰ میں یا علم میں۔ یعنی جس کے پاس تقویٰ ہے وہ فضیلت کا حامل ہے، یا جس کے پاس علم ہے وہ فضیلت کا حامل ہے۔ مگر مغرب کی پیدا کردہ اس دنیا میں فضیلت صرف دو چیزوں میں ہے، دولت میں یا طاقت میں۔ اس دنیا میں جس کے پاس دولت ہے وہی ’’انسان‘‘ ہے، وہی ’’صاحبِ عزت‘‘ ہے، وہی ’’نجیب‘‘ ہے، وہی ’’شریف‘‘ ہے، وہی ’’ذہین‘‘ ہے، وہی ’’قابلِ قدر‘‘ ہے۔ یا پھر جس کے پاس طاقت ہے وہی ان تمام خوبیوں کا مالک ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ طاقت اور دولت میں ایک ربطِ باہمی پایا جاتا ہے۔

دولت سے طاقت بڑھتی ہے اور طاقت سے دولت میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس دنیا میں غریب ’’سید‘‘ ہوکر بھی ’’چمار‘‘ شمار کیا جاتا ہے۔ آپ دیکھتے نہیں مغرب نے انسانی معاشرے کو دولت کی بنیاد پر طبقات میں تقسیم کیا ہوا ہے۔ عہدِ حاضر کے معاشرے میں ایک ’’بالائی طبقہ‘‘ ہے۔ یہ بالائی طبقہ اپنی روحانیت، اپنے اخلاق، اپنے کردار، اپنے علم، اپنے فضل، اپنے رحم اور اپنے کرم کی وجہ سے بالائی طبقہ نہیں ہے، بلکہ یہ اس لیے بالائی طبقہ ہے کہ اس کے پاس بہت سی دولت ہے۔ اس معاشرے میں ایک متوسط اور ایک زیریں متوسط طبقہ ہے، اس لیے نہیں کہ اس کے پاس درمیانے درجے کی روحانیت یا درمیانے درجے کا علم اور درمیانے درجے کا اخلاق ہے، بلکہ یہ طبقہ متوسط اور زیریں متوسط اس لیے کہلاتا ہے کہ اس کے پاس اوسط درجے کے مالی وسائل ہوتے ہیں۔

پھر ایک زیریں اور ایک نچلا طبقہ ہے جو اپنی غربت، عسرت اور معاشی تنگ دستی کی وجہ سے زیریں یا نچلا طبقہ کہلاتا ہے۔ اس طبقے کے پاس کیسی ہی روحانیت، کیسا ہی اخلاق، کیسا ہی کردار کیوں نہ ہو اسے کوئی نہیں دیکھتا۔ یہ مسئلہ صرف کسی ایک معاشرے کا نہیں۔ مغربی دنیا نے اقوام کو بھی معاشی بنیادوں پر تقسیم کیا ہوا ہے۔ ہماری دنیا میں کچھ اقوام ترقی یافتہ ہیں۔ یہ امیر ممالک ہیں، ان کے پاس وسائل کی فراوانی ہے، یہ اقوام دنیا پر حکمرانی کرتی ہیں۔ یہ صاحبِِ تکریم ہیں۔ یہ ساری دنیا اور تمام اقوام کے لیے کرداری نمونہ یا رول ماڈل ہیں۔ کچھ لوگ ’’ترقی پذیر‘‘ ہیں۔ ان کی عزت متوسط طبقے کی طرح درمیانے درجے کی ہے۔ ان اقوام کے وسائل بھی متوسط طبقے کے وسائل کی طرح محدود ہیں۔ دنیا میں کچھ اقوام ایسی بھی ہیں جو ’’پسماندہ‘‘ کہلاتی ہیں۔ ان اقوام کی دنیا میں کوئی عزت نہیں۔ اس طرح ایک دنیا میں بیک وقت تین دنیائیں موجود ہیں۔ ان دنیائوں کے تصورِ ذات میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے:مفلسی سب بہار کھوتی ہے مرد کا اعتبار کھوتی ہے

کسی زمانے میں مفلسی صرف مرد کا اعتبار کھوتی تھی، مگر ہماری دنیا میں تو مفلسی عورت کا کیا، پوری قوم کا اعتبار کھو دیتی ہے۔ مغرب کی پیدا کردہ اس دنیا میں وہی قوم شریف، نجیب اور مہذب ہے جو دولت مند اور طاقتور ہے، اور مغرب کی پیروکار ہے۔
دنیا کی چھ ہزار سال کی معلوم تاریخ میں علم کبھی بھی ’’دولت مرکز‘‘ نہیں رہا۔ ہندو ازم، عیسائیت اور اسلام کی تاریخ نے اگر ایک ہزار عظیم شخصیات پیدا کی ہیں تو اس میں سے کوئی شخصیت بھی اس لیے صاحبِ علم نہیں تھی کہ وہ مال دار تھی۔ لیکن مغرب نے جو دنیا خلق کی ہے اس میں علم کی دولت اُنھی لوگوں کے ہاتھ آسکتی ہے جو غریب نہیں ہیں۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ڈھائی کروڑ بچے اسکول ہی نہیں جاتے ۔ اس لیے نہیں کہ ان میں علم حاصل کرنے کی اہلیت نہیں، بلکہ اس لیے کہ وہ غریب ہیں۔

اس مسئلے کو سمجھنے کے لیے پاکستان کے تعلیمی ماڈل پر ایک نظر ڈال لینا کافی ہے۔ ہم نے سرکاری اسکول اور سرکاری کالج سے تقریباً مفت تعلیم حاصل کی۔ ہم نے 1991ء میں جب جامعہ کراچی سے ابلاغ عامہ میں ایم اے کیا تو ہمارے آخری سمسٹر کی فیس 450 روپے تھی۔ اب اسی جامعہ کراچی میں ہمارے بیٹے غزالی فاروقی نے ایم اے کے آخری سمسٹر کی فیس 12 ہزار روپے جمع کرائی ہے۔ اتنی فیس اگر ہمارے زمانے میں ہوتی تو ہم ایم اے کر ہی نہیں سکتے تھے۔ یہ تو سرکاری جامعہ کا حال ہے۔

اب ملک میں نجی شعبے کے اندر درجنوں جامعات قائم ہوگئی ہیں جہاں ایک سال کی فیس لاکھوں میں ہے۔ یہ صرف جامعات کا حال نہیں، پرائیویٹ اسکول بھی اب بہت مہنگے ہوچکے ہیں۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ غریب کیا، متوسط طبقے کے بچوں پر بھی اچھے اسکولوں، کالجوں اور جامعات کے دروازے بند ہوچکے ہیں۔ یعنی غربت معاشرے میں نئی نسل کے علم و شعور کے خلاف ایک سازش بن کر کھڑی ہوگئی ہے۔ تعلیم کو ’’دولت مرکز‘‘ بنانے کا یہی انجام ہوسکتا تھا۔ دنیا کی تاریخ بتاتی ہے کہ عبقری افراد یا جینیئس لوگوں کئی بڑی تعداد متوسط اور غریب طبقات سے آئی ہے، مگر اب متوسط اور غریب طبقات پر علم و شعور کے تمام دروازے بند کردیے گئے ہیں۔ علم کے دائرے میں بھی دولت رقصِ ابلیس پیش کررہی ہے۔

دنیا کے منظرنامے پر ایک نظر ڈالنے ہی سے معلوم ہوجاتا ہے کہ وسائل سے محروم افراد کی کوئی آواز ہے نہ کوئی پکار ہے۔ پاکستان کو قائم ہوئے 75 سال ہوگئے ہیں، اس کے باوجود 40 فیصد آبادی ناخواندہ ہے۔ پاکستان کو وجود میں آئے75 سال ہوگئے ہیں، مگر ہماری آبادی کے 70 فیصد حصے کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں۔ ملک کو قائم ہوئے 75 سال ہوگئے ہیں، مگر ہماری 70 فیصد آبادی بیمار پڑتی ہے تو اسے مناسب طبی سہولتیں فراہم نہیں ہوپاتیں۔ ہمارے دیہات میں کروڑوں ہاریوں، مزدوروں اور محنت کشوں کی زندگی عذاب بنی ہوئی ہے، مگر غریبوں کی کوئی آواز ہی نہیں ہے۔ نہ سیاسی جماعتیں غریبوں کے حال پر توجہ کرتی ہیں، نہ فوجی اسٹیبلشمنٹ کے کان پر جوں رینگتی ہے، نہ ذرائع ابلاغ غریبوں کے مسائل کو مسائل باور کراتے ہیں۔

آپ نے سیاسی موضوعات پر ہزاروں ٹی وی ٹاک شوز دیکھے ہوں گے، مگر غریبوں کے مسائل پر آپ نے ایک بھی ٹی وی ٹاک شو نہیں دیکھا ہوگا۔ غربت ہزاروں سال سے ایک مسئلہ ہے، مگر ہمارے زمانے میں غربت کی ایک نئی صورت سامنے آگئی ہے۔ یہ صورت مہنگائی کی تخلیق کردہ ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ لوگ کہتے تھے فلاں شخص کی آمدنی 25 ہزار روپے ماہانہ ہے، مشکل سے ہی اُس کی گزر بسر ہوسکتی ہے۔ مگر مہنگائی کے سونامی نے 50 ہزار روپے ماہانہ کمانے والے کو بھی اچانک غریب بناکر کھڑا کردیا ہے۔ ہم نارتھ ناظم آباد کے جس اپارٹمنٹ میں رہتے ہیں وہ 40 سال پرانا ہے، اس کے باوجود اس اپارٹمنٹ کے فلیٹس کا کرایہ 20 سے 25 ہزار روپے ماہانہ ہے۔

فرض کیجیے آپ اس میں 20 ہزار روپے ماہانہ کرائے والے فلیٹ میں رہتے ہیں اور آپ کی آمدنی 50 ہزار روپے ماہانہ ہے، تو آپ نے 20 ہزار روپے تو کرائے کی مد میں ادا کردیے، آپ کے پاس باقی بچے 30 ہزار روپے۔ ایک اندازے کے مطابق ہر فلیٹ میں بجلی کا بل اوسطاً 15 ہزار روپے ماہانہ آرہا ہے۔ آپ نے 15ہزار روپے بجلی کے بل کی مد میں خرچ کرڈالے۔ اب آپ کے پاس بچے 15 ہزار روپے۔ اب ان پندرہ ہزار روپے میں آپ کیا کھائیں گے، کیا پئیں گے اور اپنے بچوں کو اسکول، کالج یا یونیورسٹی میں کیسے پڑھائیں گے؟ اس تناظر میں دیکھا جائے تو فی زمانہ 50 ہزار روپے ماہانہ کمانے والا شخص بھی ایک ’’غریب آدمی‘‘ ہے۔ آج سے بیس سال پہلے یہ تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا کہ 50 ہزار روپے ماہانہ کمانے والا شخص غریب کہلائے گا۔ آپ یہ نہ سمجھیں کہ یہ مسئلہ کراچی یا لاہور کے کسی خاص علاقے کا ہے، مہنگائی کے عفریت نے ہر جگہ اخراجات کو بے پناہ بڑھا دیا ہے۔ نتیجہ یہ کہ کروڑوں برسر روزگار لوگوں کی زندگی معاشی جہنم کی نذر ہوگئی ہے۔

ایک زمانہ تھا کہ غربت اور امارت کو انسان اپنی ’’تقدیر‘‘ سمجھ کر قبول کرلیتا تھا، چنانچہ غربت بہت زیادہ تکلیف دہ نہیں ہوتی تھی۔ مگر اب ہر معاشرے میں، یہاں تک کہ مسلم معاشرے میں بھی تقدیر پر ایمان رکھنے والے لوگوں کی تعداد بہت کم رہ گئی ہے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ چین نے چالیس سال میں 70 کروڑ افراد کو غربت کے گڑھے سے نکالا ہے، بھارت نے 40 سال میں 30 کروڑ کی مڈل کلاس پیدا کی ہے۔ چنانچہ اب کروڑوں لوگ سمجھتے ہیں کہ انسان کی تقدیر اس کے اپنے ہاتھ میں ہے۔ اس تصور نے غربت کو نفسیاتی اور سماجی طور پر بہت زیادہ تکلیف دہ بنادیا ہے۔ چنانچہ بھارت جیسے معاشرے میں غربت کی وجہ سے خودکشی کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو آف انڈیا کے مطابق بھارت میں روزانہ 450 افراد موت کو گلے لگا رہے ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق 2021ء میں ایک لاکھ 64 ہزار سے زیادہ ہندوستانیوں نے غربت سے تنگ آکر خودکشی کرلی تھی۔

 

Leave a Reply