پاکستانی ذرائع ابلاغ یا پورس کا ہاتھی؟

جس طرح ہمارے حکمران قوم کو شاہ دولہ کے چوہوں میں ڈھال رہے ہیں اسی طرح ہمارے ذرائع ابلاغ کی کوشش ہے کہ ہماری قوم علم اور فہم سے بے گانہ رہے، اس کا ذہن کبھی ترقی نہ کرے، اس کے جذبات، خیالات اور احساسات ہمیشہ خام رہیں۔ ذرائع ابلاغ کارپوریٹ اداروں کے سامنے ہتھیار ڈال چکے ہیں

ہماری دنیا ذرائع ابلاغ کی دنیا ہے۔ اب دنیا میں ذرائع ابلاغ کی یہ اہمیت ہے کہ ذرائع ابلاغ کے بغیر دنیا کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ ایک وقت تھا کہ ذرائع ابلاغ دنیا کا حصہ تھے، مگر ہمارے زمانے تک آتے آتے دنیا ذرائع ابلاغ کا حصہ بن گئی ہے۔ 1980ء کی دہائی میں مغربی دنیا میں ٹی وی کی یہ اہمیت تھی کہ اسے Electronic Parent یا الیکٹرانک والدین کہا جاتا تھا۔ یہ مغرب میں ٹی وی کے بچپن کا زمانہ تھا، لیکن اس کے باوجود ٹی وی بچوں کی تربیت کے سلسلے میں والدین کے برابر ہوگیا تھا۔ ہمارا زمانہ ٹی وی اور فلم کی جوانی کا زمانہ ہے۔ چنانچہ حقیقت یہ ہے کہ نئی نسل جتنا ٹی وی اور فلم کے زیر اثر ہے اتنا وہ والدین اور اساتذہ کے بھی زیر اثر نہیں۔

ذرائع ابلاغ کی اس اہمیت کا تقاضا ہے کہ ہم ذرائع ابلاغ کو تنقیدی نقطۂ نظر سے دیکھنے کے کام کا آغاز کریں۔ یہ کتنی عجیب بات ہے کہ ذرائع ابلاغ ہماری انفرادی، اجتماعی اور قومی زندگی کو کنٹرول کررہے ہیں، مگر ان کے کردار پر شاذ ہی تنقیدی نگاہ ڈالی جاتی ہے۔ لوگ تنقید کرتے بھی ہیں تو لفظی اور سرسری۔ پورس کے ہاتھیوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے اپنی ہی فوج کو کچل دیا تھا، جبکہ پاکستان کے ذرائع ابلاغ اپنی قوم کو کچل رہے ہیں۔ اس فرق کے باوجود پورس کے ہاتھی ایک منفی علامت ہے اور پاکستان کے ذرائع ابلاغ سر پر بادشاہ گر کا تاج رکھے گھوم رہے ہیں۔

یہ بات کروڑوں بار دہرائے جانے کے قابل ہے کہ پاکستان ایک نظریاتی ریاست ہے، اور دنیا کی تمام نظریاتی ریاستوں کے ذرائع ابلاغ بھی نظریاتی تھے۔ سوویت یونین سوشلزم کا قلب تھا اور سوویت یونین کے ذرائع ابلاغ سوشلسٹ فکر میں ڈوبے ہوئے تھے۔ وہ کمیونزم یا سوشلزم کی الٰہیات کے علَم بردار تھے، وہ سوشلزم کے تصورِ علم کا پرچم تھامے ہوئے تھے، وہ سوشلزم کے تصورِ انسان کو فروغ دے رہے تھے، وہ سوشلزم کے تصورِ معاشرہ کو پروان چڑھا رہے تھے، وہ سوشلسٹ معیشت کے تصور کو عام کررہے تھے۔

چین اگرچہ معیشت کی حد تک سرمایہ دار ہوگیا ہے مگر وہ آج بھی مارکسزم کو سینے سے لگائے کھڑا ہے۔ چنانچہ چین کے ذرائع ابلاغ میں مارکسزم کے خلاف ایک لفظ شائع نہیں ہوسکتا۔ امریکہ اور یورپ لبرل ازم پر ایمان رکھتے ہیں، چنانچہ امریکہ اور یورپ کے ذرائع ابلاغ میں اسلام کی حمایت نہیں کی جاسکتی، مارکسزم کے گیت نہیں گائے جاسکتے۔ امریکہ اور یورپ کے ذرائع ابلاغ صرف سیکولرازم اور لبرل ازم کی اقدار اور تصورات کو فروغ دینے کے لیے کام کررہے ہیں۔ آپ ان ذرائع ابلاغ میں جمہوریت کو گالی نہیں دے سکتے، آزاد منڈی کی معیشت کا مذاق نہیں اڑا سکتے۔

لیکن پاکستان کا معاملہ یہ ہے کہ اس کا نظریہ اسلام ہے، اور ہمارے ذرائع ابلاغ کو اسلام کی الٰہیات، اسلام کے تصورِ انسان، اسلام کے تصورِ علم، اسلام کے تصورِ تخلیق، اسلام کے تصورِ اقدار، اسلام کے تصورِ تاریخ، اسلام کے تصورِ تہذیب کے فروغ سے کوئی دل چسپی نہیں۔ بلاشبہ ہمارے بعض اخبارات ہفتے میں ایک بار اسلامی صفحہ ضرور شائع کرتے ہیں، مگر اس اسلامی صفحے کا اخبار کے مجموعی مواد سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ جس اخبار میں اسلامی صفحہ شائع ہوتا ہے اس اخبار کے سنڈے میگزین کے ٹائٹل پر خوب صورت ماڈل کی تصویر بھی شائع ہوتی ہے۔ اس اخبار میں اسلامی فکر سے متصادم مواد بھی شائع ہوتا ہے۔

ہمیں اخبارات پڑھتے ہوئے 40 اور کالم لکھتے ہوئے 32 سال ہوگئے ہیں، اور ان برسوں میں ہم نے پاکستانی اخبارات میں ایسے سیکڑوں مضامین شائع ہوتے دیکھے ہیں جن میں سیکولرازم اور لبرل ازم کی حمایت کی گئی تھی، جن میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ قائداعظم خدانخواستہ سیکولر تھے اور وہ پاکستان کو سیکولر ریاست بنانا چاہتے تھے۔ ہماری فوج اپنے اوپر تنقید کے حوالے سے بڑی حساس ہے۔ کوئی سوشل میڈیا پر اس کے خلاف ٹرینڈ چلاتا ہے تو گرفتار کرلیا جاتا ہے، یا کم از کم اس سے معافی منگوائی جاتی ہے، مگر ذرائع ابلاغ کے غیر اسلامی اور غیر تاریخی مواد پر ہم نے آج تک فوج کو ناراض ہوتے اور پکڑ دھکڑ کرتے نہیں دیکھا، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کا نظریہ فوج سے کروڑوں گنا اہم ہے۔

قائداعظم نے کہا تھا کہ صحافت اور قوم کا عروج و زوال ایک ساتھ ہوتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جب ہماری صحافت نظریاتی تھی تو قوم بھی نظریاتی تھی۔ اب ہماری صحافت بے سمت ہوگئی تو قوم بھی بے سمتی کا شکار ہوگئی ہے۔ یہ ایک سامنے کی بات ہے کہ ہماری اعلیٰ عدالتیں توہینِ عدالت کے سلسلے میں بڑی حساس ہیں، وہ اس سلسلے میں عمران خان تک کو نہیں بخشتیں، لیکن ذرائع ابلاغ کے ذریعے ملک کے نظریے کی توہین پر کوئی عدالت نہیں چونکتی، کوئی عدالت اس توہین کا نوٹس نہیں لیتی، کوئی عدالت اس سلسلے میں ذمے داروں کو عدالت کے روبرو طلب نہیں کرتی، حالانکہ ملک کے نظریے کی توہین عدالت کی توہین سے کروڑوں گنا بڑی چیز ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ اپنی اور اپنے ادارے کی عزت تو سب کو پیاری ہے مگر نظریے کی عزت کسی کو پیاری نہیں… فوج اور عدالتوں کو بھی نہیں۔

اس سلسلے میں سیاسی جماعتوں کا حال نہ ہی پوچھیں تو اچھا ہے۔ سیاسی جماعتیں اس خوف میں مبتلا رہتی ہیں کہ انہوں نے ذرائع ابلاغ پر اعتراض کیا تو ذرائع ابلاغ ان کا بائیکاٹ کردیں گے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اسلام سے زیادہ تنہا اور بے چارہ کوئی نہیں۔ اس سلسلے میں کوئی اور کیا، علما تک اپنا کردار ادا کرنے کے لیے تیار نہیں۔

یہ زیادہ پرانی بات نہیں کہ صحافت ایک مشن تھی مگر اب وہ کاروبار بن چکی ہے۔ بیسویں صدی کے ابتدائی پچاس برسوں کا جائزہ لیا جائے تو ہر طرف صحافت ایک مشن نظر آتی تھی، اس کے پیش نظر ہندو یا مسلم قوم کی ’’اصلاح‘‘ تھی۔ راجا رام موہن رائے ہندوئوںکے سرسید تھے، اور ان کی تحریریں اصلاحی نوعیت کی حامل تھیں۔ سرسید کی صحافت ’’مصلحانہ‘‘ تھی۔ ابوالکلام آزادؔ ایک معلم تھے۔ مولانا محمد علی جوہر کی صحافت ایک مشن تھی۔ مولانا مودودی کی صحافت انقلاب برپا کرنے کے لیے تھی۔

مولانا حالیؔ نے شاعری کی تو قوم کی اصلاح کے لیے، اقبالؔ نے شاعری کی تو قوم کو بیدار کرنے کے لیے۔ ہالی وڈ کہنے کو فلمی دنیا ہے مگر اس ہالی وڈ میں چارلی چپلن موجود تھا جس نے اپنی فلم ’’ماڈرن ٹائمز‘‘ میں صنعتی نظام کی ایسی تنقید پیش کی کہ اس کے آگے درجنوں کتابیں ہیچ ہیں۔ اس فلم کی دو سطحیں ہیں، ایک سطح پر یہ ایک مزاحیہ فلم ہے اور دوسری سطح پر یہ ایک علمی اور تہذیبی تنقید ہے۔ چارلی چپلن نے The Great Dictator میں ہٹلر کی شخصیت اور سیاست پر بے مثال طنز پیش کیا۔ اس نے اپنی فلم Gold Rush میں انسان کی حرص اور لالچ کو اعلیٰ ترین فنی سطح پر پیش کیا۔ ہالی وڈ کے ابتدائی پچاس برسوں میں اکثر فلمیں بڑے ناولوں اور افسانوں کی بنیاد پر تخلیق ہوئیں۔ بھارت کی فلم انڈسٹری بھی بیسویں صدی کی ابتدائی پانچ دہائیوں میں سماجی ذمہ داری اور تفریح کے امتزاج کے تصور پر فلمیں بناتی رہی۔ ان فلموں میں مشرق و مغرب کی آویزش تھی، شہری اور دیہی زندگی کا تصادم تھا، صنعتی اور زرعی معاملات کا ٹکرائو تھا۔ ان فلموں میں مذہبی موضوعات تھے، تاریخی موضوعات تھے، سماجی اور معاشی موضوعات تھے۔ مگر پاکستان کے ذرائع ابلاغ میں کہیں مشن موجود نہیں، کہیں مصلحانہ طرزِ فکر میسر نہیں، کہیں اصلاح کی فکر اپنا جلوہ نہیں دکھاتی۔

ہر معاشرے کے لیے ’’ہیرو‘‘ کا تصور اہم ہوتا ہے اس لیے کہ معاشرہ ’’ہیروز‘‘ کی تقلید کرتا ہے۔ ایک وقت تھا کہ ہمارے ہیرو علما تھے، فاتحین تھے، دانش ور تھے، شاعر تھے، ادیب تھے، سائنس دان تھے، معاشرے کی خدمت کرنے والے یعنی سوشل ورکر تھے، صحافی تھے۔ لیکن ہمارے ذرائع ابلاغ اب علماء، مفکرین، دانش وروں، شاعروں، ادیبوں، فاتحین اور صحافیوں کو ہیرو کے طور پر پیش ہی نہیں کرتے۔ انہوں نے معاشرے کو نئے ہیروز مہیا کیے ہیں، چنانچہ اب ہمارے ہیرو اداکار ہیں، گلوکار ہیں، ماڈلز ہیں، موسیقار ہیں، کرکٹ کے کھلاڑی ہیں۔ ہیروز کی تبدیلی کا عمل صرف ہمارے معاشرے تک محدود نہیں، برطانیہ میں کچھ سال پیشتر ایک ہزار سال کی اہم ترین شخصیات کے حوالے سے سروے کرایا گیا تو اس سروے میں نیوٹن کا پہلا، حضرت عیسیٰؑ کا دوسرا اور شیکسپیئر کا تیسرا نمبر تھا۔ لیکن یہ سروے ایک ہزار سال کا عرصہ کور کررہا تھا۔ یہ سروے اگر سو سال کے عرصے پر محیط ہوتا تو یہاں بھی اداکار، گلوکار اور کھلاڑی چھائے ہوئے ہوتے۔ ہیروز کی تبدیلی کے عمل سے یہ ہوا ہے کہ ہماری پوری نسل یا تو اداکار بننا چاہتی ہے، یا گلوکار… ماڈل بننا چاہتی ہے یا کھلاڑی، وہ بھی کرکٹ کا۔ اس لیے کہ شہرت اور پیسہ اب کرکٹ میں ہے، ہاکی کے کھلاڑی سے کوئی سیدھے منہ بات بھی نہیں کرتا۔

اخبارات ہوں یا ٹیلی ویژن… ریڈیو ہو یا فلم… ان تمام ذرائع کو Mass Medium کہا جاتا ہے، مگر بدقسمتی سے ہمارے ماس میڈیمز کا Masses یا عوام سے کوئی تعلق ہی نہیں، بلکہ دیکھا جائے تو ہمارے ذرائع ابلاغ عوام دشمن ہیں۔ بھارت کی سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس مرکنڈے کاٹ جُو نے دس سال پہلے ایک مضمون لکھا تھا، اس مضمون میں انہوں نے لکھا تھا کہ بھارت میں 80 کروڑ 60 لاکھ لوگوں کی یومیہ آمدنی 25 روپے ہے۔ بھارت کے47 فیصد بچے غذائی قلت کا شکار ہیں۔ یہ صورتِ حال ایتھوپیا اور صومالیہ سے بھی بدتر ہے۔

ملک میں بے روزگاری عام ہے، مہنگائی آسمان سے باتیں کررہی ہے، صحت اور تعلیم کے شعبوں کا برا حال ہے، زراعت کے شعبے کی خرابی کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ گزشتہ پندرہ برسوں میں بھارت کے چھوٹے کاشت کاروں نے قرضوں کے بوجھ سے تنگ آکر خودکشی کی ہے لیکن اس کے باوجود بھارتی ذرائع ابلاغ بالخصوص بھارت کے ٹی وی چینلز کی 90 فیصد کوریج فلم اسٹارز، فیشن شوز، پوپ موسیقی، ڈسکو ڈانسنگ، Reality Shows، ستارہ شناسی اور کھیل کے لیے وقف ہے۔ جسٹس مرکنڈے نے لکھا ہے کہ حال ہی میں بھارت کی ایک ممتاز اداکارہ کے یہاں بیٹی کی پیدائش کی خبر بھارت کے اخبارات میں صفحۂ اوّل پر رپورٹ ہونے والی تھی، لیکن میں نے پریس کونسل آف انڈیا کے چیئرمین کی حیثیت سے شور مچایا تو یہ خبر اندر کے صفحات پر رپورٹ ہوئی۔

بھارت کی یہ مثال پاکستان کے ذرائع ابلاغ پر بھی پوری طرح منطبق ہوتی ہے۔ پاکستان کی 70 فیصد آبادی غربت میں مبتلا ہے۔ ملک کی آبادی کے 70 فیصد کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں، 70 فیصد آبادی بیمار پڑتی ہے تو ان کو باضابطہ ڈاکٹر فراہم نہیں ہوپاتا، ملک میں ڈھائی کروڑ بچے اسکولوں کے باہر کھڑے ہیں، مہنگائی آسمان کو چھو رہی ہے مگر ہمارے ذرائع ابلاغ ان حقائق کو اپنا موضوع ہی نہیں بناتے۔ یہ موضوعات نہ ذرائع ابلاغ میں شہ سرخیاں تخلیق کرتے ہیں، نہ ٹاک شوز میں انہیں موضوعِ بحث بنایا جاتا ہے، نہ یہ موضوعات کالموں میں زیر غور آتے ہیں۔ اس کے برعکس ہمارے ذرائع ابلاغ اداکاروں ، گلوکاروں، ماڈلز اور کھلاڑیوں کی خبروں سے بھرے ہوتے ہیں۔ پاکستان کے کم و بیش تمام بڑے اخبارات میں صفحے کا ایک حصہ اداکاروں، گلوکاروں، موسیقاروں اور ماڈلز کی خبروں کے لیے وقف ہوتا ہے۔ ہمارے یہاں فلم اور ڈرامے تخلیق کرنے والوں کو کبھی خیال ہی نہیں آتا کہ غربت، بے روزگاری اور تعلیمی نظام کی خرابی پر بھی فلمیں اور ڈرامے بنائے جاسکتے ہیں۔

ہمارے ذرائع ابلاغ کا ایک بڑا مرض یہ ہے کہ وہ ’’سیاست زدہ‘‘ ہیں، ہماری 90 فیصد خبریں سیاست سے متعلق ہوتی ہیں، ہمارے 90 فیصد کالم سیاست کے بارے میں ہوتے ہیں، ہمارے 90 فیصد اداریے سیاسی موضوعات پر لکھے جاتے ہیں، ہمارے 90 فیصد ٹاک شوز سیاسی موضوعات کے حامل ہوتے ہیں۔ ہمارے ذرائع ابلاغ کو خیال ہی نہیں آتا کہ فلسفہ بھی ایک اہم موضوع ہے، ادب کا زندگی میں بنیادی کردار ہے، نفسیات اور عمرانیات ہمیں انسان اور زندگی کا قیمتی فہم عطا کرتی ہیں، تہذیب اور تاریخ کا فہم انسان اور معاشرے کی ناگزیر ضرورت ہے، مذہب کو سمجھے بغیر ہم مسلمان کیا، انسان بھی نہیں ہوسکتے۔ بلاشبہ سیاست اہم ہے، مگر سیاست کی بھی کچھ علمی اور تاریخی بنیادیں ہیں۔ ہمارے ذرائع ابلاغ میں یہ بنیادیں زیربحث نہیں آتیں۔ بدقسمتی سے جس طرح ہمارے حکمران قوم کو شاہ دولہ کے چوہوں میں ڈھال رہے ہیں اسی طرح ہمارے ذرائع ابلاغ کی کوشش ہے کہ ہماری قوم علم اور فہم سے بے گانہ رہے، اس کا ذہن کبھی ترقی نہ کرے، اس کے جذبات، خیالات اور احساسات ہمیشہ خام رہیں۔

ہماری تہذیب میں عورت ماں کی حیثیت سے اتنی محترم ہے کہ اس کے پیروں تلے جنت ہے۔ ہماری تہذیب میں عورت بیوی کی حیثیت سے اتنی اہم ہے کہ اسے ’’شریکِ حیات‘‘ کہا جاتا ہے اور اس کے بغیر مرد کی زندگی ادھوری ہے۔ ہماری تہذیب میں عورت بہن اور بیٹی کی حیثیت سے اتنی محترم ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیٹی حضرت فاطمہؓ کو دیکھ کر کھڑے ہوجاتے تھے۔

ہمارے معاشرے میں عورت ڈاکٹر ہے، استاد ہے، انجینئر ہے، شاعر ہے، ادیب ہے، صحافی ہے۔ مگر ہمارے ذرائع ابلاغ عورت کو ان تمام حیثیتوں میں پیش ہی نہیں کرتے۔ انہوں نے عورت کو معاشرے میں صرف جنس کی علامت یا Sex Symbol بنا کر رکھ دیا ہے۔ ہمارے ٹی وی چینلز پر سب سے زیادہ دیکھی جانے والی چیز ڈراما ہے، اور اس ڈرامے کے بارے میں ممتاز ڈراما نگار حسینہ معین نے کہا تھا کہ اب ہم پاکستان کا ڈراما خاندان کے ساتھ بیٹھ کر نہیں دیکھ سکتے۔ ممتاز ڈراما نگار اور شاعر امجد اسلام امجد اس سے بھی آگے گئے۔ انہوں نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا کہ ہمارے بعض ڈرامے تو ایسے ہیں جنہیں شوہر اور بیوی بھی ساتھ بیٹھ کر نہیں دیکھ سکتے۔ روزنامہ ڈان میں ایک ڈراما نگار کا انٹرویو شائع ہوا جس میں انہوں نے کہا کہ ہمارے ڈرامے کو این جی اوز نے اچک لیا ہے۔ اب وہ ہمارے ڈراموں کے موضوعات طے کررہی ہیں۔ ایک ڈراما نگار نے کہا کہ ہمارے ڈراموں میں یا تو لبرل عورتوں کا کردار پیش کیا جارہا ہے یا روتی بسورتی عورت کا۔

یہ صورتِ حال بتا رہی ہے کہ ہمارے معاشرے میں ڈرامے کے ذریعے عورت کے کردار کو مسخ کیا جارہا ہے۔ ہمارے معاشرے میں دس بارہ کروڑ لوگ ڈراما دیکھتے ہیں، اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ڈرامے کے ذریعے آبادی کے کتنے بڑے حصے کے تصورِ عورت کو تباہ کیا جارہا ہے اور اسے اس کے مذہب، تہذیب اور تاریخ سے کاٹا جارہا ہے۔

ہمارے ذرائع ابلاغ آزادیِ اظہار کا نعرہ تو لگاتے ہیں مگر وہ خود اپنی آزادی کو رہن رکھتے ہیں۔ ہم نے آج تک پاکستان کے کسی اخبار اور ٹی وی چینل کو اسٹیبلشمنٹ کے مقابل آتے نہیں دیکھا۔ الطاف حسین اور ان کی ایم کیو ایم 32 سال تک کراچی میں قتل و غارت گری اور بھتہ خوری کا کھیل کھیلتی رہی، مگر ہمارے ذرائع ابلاغ کو کچھ بھی نظر نہ آیا۔ اب تو ہمارے ذرائع ابلاغ کا یہ حال ہے کہ انہوں نے بڑے بڑے کارپوریٹ اداروں اور ممتاز شخصیات کے آگے ہتھیار ڈالے ہوئے ہیں۔ سپریم کورٹ نے کچھ سال پہلے بحریہ ٹائون کے مالک ملک ریاض پر 560 ارب روپے کا جرمانہ کیا تو اس جرمانے کی خبر روزنامہ جنگ، روزنامہ دنیا، روزنامہ ایکسپریس اور روزنامہ 92 نیوز میں شائع نہ ہوسکی۔ صرف ڈان اور جسارت نے اس خبر کو رپورٹ کیا۔ دیکھا جائے تو یہاں بھی ذرائع ابلاغ پورس کے ہاتھی بن کر قوم کو روند رہے ہیں۔

Leave a Reply