عیبوں سے بھری پاکستان کی سیاسی جماعتیں

اقبال نے کہا تھا قومیں شاعروں کے دلوں میں پیدا ہوتی ہیں اور سیاست دانوں کے ہاتھوں تباہ ہوتی ہیں مگر بعض سیاست دان شاعر کا دل لے کر پیدا ہوتے ہیں چناں چہ وہ قوم اور ملک تخلیق کرتے ہیں اور انقلاب برپا کرتے ہیں۔ قائداعظم کہنے کو سیاست دان تھے مگر انہوں نے برصغیر میں مسلمانوں کی ’’بھیڑ‘‘ کو ’’قوم‘‘ بنایا اور جغرافیے کو پاکستان میں ڈھالا۔ گاندھی اور نہرو نے ہندوئوں کو آزاد ہندوستان کا تحفہ دیا۔ جس طرح محمد علی جناح اپنی عظمت کی وجہ سے قائداعظم کہلائے۔ اس طرح گاندھی کو ان کی قوم نے ’’باپو‘‘ یا باپ کہہ کر پکارا۔ لینن اور مائو بھی سیاسی رہنما ہی تھے مگر ان کے بغیر روس اور چین کے انقلابات کا تصور نہیں کیا جاسکتا مگر موجودہ پاکستان کے اکثر سیاست دانوں اور سیاسی جماعتوں کے سینوں میں شاعر کیا انسان کا دل بھی نہیں ہے۔ بلکہ اس کی جگہ ان کے سینے میں ’’سِل‘‘ دھڑکتی ہے۔ پتھر کی سِل۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے اکثر سیاست دان اور اکثر سیاسی جماعتیں ملک و قوم کو تباہ و برباد کرنے والی بن گئی ہیں۔ ان سیاست دانوں اور جماعتوں میں ڈھونڈنے سے بھی کوئی خوبی نہیں ملتی۔ یہ سیاست دان اور جماعتیں عیبوں سے بھرے بستے کی حیثیت رکھتی ہیں۔
پاکستان ایک نظریاتی مملکت ہے۔ چناں چہ پاکستان کی ہر سیاسی جماعت اور ہر سیاسی رہنما کو نظریاتی ہونا چاہیے۔ لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں جماعت اسلامی کے سوا کوئی جماعت نظریاتی نہیں ہیں۔ جماعت اسلامی کا نظریاتی پن مولانا مودودی کے عظیم الشان لٹریچر سے عیاں ہے۔ جماعت اسلامی کے دستور سے واضح ہے۔ جماعت اسلامی کے انتخابی منشور سے اس کا سراغ ملتا ہے۔ جماعت اسلامی کی ساخت، اس کی سیاست اور اس کے نعرے سب کچھ نظریاتی ہیں۔ بدقسمتی سے جماعت اسلامی کے سوا پاکستان کی کوئی جماعت خود کو نظریاتی نہیں کہہ سکتی۔ نواز لیگ خود کو پاکستان کی سب سے بڑی جماعت کہتی ہے مگر اس جماعت کا کوئی نظریہ ہی نہیں ہے۔ وہ نہ اسلام کو اپنا نظریہ کہتی ہے نہ وہ سیکولر ازم کے غلبے کا نعرہ اور دعویٰ لے کر کھڑی ہے۔ نہ وہ ملک میں سوشلزم نافذ کرنا چاہتی ہے نہ وہ لبرل ازم کو اپنا نظریہ حیات باور کراتی ہے۔ کہنے کو میاں نواز شریف کئی بار کہہ چکے ہیں کہ وہ اب نظریاتی ہوگئے ہیں مگر انہوں نے ایک بار بھی اپنے نظریے کی نشاندہی نہیں کی اور انہوں نے ایسا اس لیے نہیں کیا کہ ان کا اصل میں کوئی نظریہ ہی نہیں ہے۔ لیکن یہ بات انسان کے فہم سے بعید ہے کہ اس کا کوئی نظریہ ہی نہ ہو۔ اس تناظر میں جب ہم شریف خاندان اور نواز لیگ کو دیکھتے ہیں تو ان کا ایک نظریہ کرپشن ہے۔ شریف خاندان سیاست میں آنے سے قبل صرف لکھ پتی تھا اب ارب پتی ہے۔ ممتاز صحافی ضیا شاہد نے نواز شریف پر لکھی گئی اپنی کتاب میں نواز شریف کے والد میاں شریف کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایک دن وہ میاں شریف کے پاس گئے تو انہوں نے کہا کہ میں نے نواز شریف کی سیاست پر 3 ارب روپے خرچ کیے ہیں۔ چناں چہ مجھے اب میاں نواز شریف کی سیاست سے 300 گنا منافع یا 9 ارب روپے تو ملنے ہی چاہئیں۔ اس سلسلے میں میاں نواز شریف، میاں شہباز شریف اور ان کے بیٹوں نے اپنے میاں شریف کو مایوس نہیں کیا۔ انہوں نے اپنی کرپشن سے 9 کیا کئی سو ارب کما ڈالے۔ میاں نواز شریف اور ان کی بیٹی کی سیاست بتاتی ہے کہ نواز لیگ کا ایک نظریہ ’’پنجابیت‘‘ بھی ہے۔ میاں صاحب جس زمانے میں اسلامی جمہوری اتحاد کی سیاست کررہے تھے، اس زمانے میں بھی انہوں نے پنجاب میں جاگ پنجابی جاگ کا نعرہ لگانے سے گریز نہیں کیا۔ اب نواز شریف کی دختر نیک اختر مریم نواز خود کو اسلام یا پاکستان کی بیٹی نہیں پنجاب کی بیٹی کہتی ہیں۔
ایک زمانہ تھا کہ بھٹو صاحب کہا کرتے تھے کہ اسلام ہمارا دین ہے۔ سوشلزم ہماری معیشت ہے اور جمہوریت ہماری سیاست ہے۔ مگر اب پیپلز پارٹی دین کی بات کرتی ہے نہ سوشلزم کو منہ لگاتی ہے نہ جمہوریت کا نام لیتی ہے۔ کسی زمانے میں بھٹو صاحب نے اسلامی سوشلزم بھی ایجاد کیا تھا مگر بھٹو کی زندگی سے ثابت تھا کہ وہ نہ اسلامی ہیں نہ سوشلسٹ ہیں۔ وہ صرف ایک جاگیردار ہیں۔ وہ صرف ایک وڈیرے ہیں، مگر بلاول زرداری یا آصف زرداری کا نظریہ یہ ہے، کل بھی بھٹو زندہ تھا آج بھی بھٹو زندہ ہے۔ جیسا کہ ظاہر ہے دنیا میں شخصیت پرستی کو کہیں بھی نظریہ نہیں سمجھا جاتا ہے۔ پیپلز پارٹی کا دوسرا نظریہ کرپشن ہے۔ بھٹو صاحب جب تک زندہ رہے ان پر کسی نے کرپشن کا الزام نہیں لگایا۔ لیکن اب ملک میں ایک باشعور اور باخبر شخص بھی ایسا تلاش نہیں کیا جاسکا جو آصف زرداری اور پیپلز پارٹی کو کرپٹ نہ سمجھتا ہو۔
عمران خان ریاست مدینہ کی بات کرتے ہیں مگر ریاست مدینہ ان کا نعرہ ہے نظریہ نہیں۔ ریاست مدینہ ان کا نظریہ ہوتا تو تحریک انصاف کا کوئی دستور ہوتا اور اس میں ریاست مدینہ نظریے کے طور پر موجود ہوتا۔ بدقسمتی سے تحریک انصاف کے منشور میں بھی ریاست مدینہ کا تصور موجود نہیں۔ تحریک انصاف کی ساخت اور تربیتی نظام میں بھی کہیں مذہب کا غلبہ نہیں۔ عمران خان نے گزشتہ انتخابات سے قبل ’’تبدیلی‘‘ کو اپنا نعرہ اور نظریہ باور کرایا تھا مگر عمران خان نے تبدیلی کے سلسلے میں ایک انچ بھی پیش قدمی نہیں کی بلکہ انہوں نے ڈان کو انٹرویو دیتے ہوئے صاف کہا کہ مجھے اقتدار میں آنا ہے اس لیے میں سرمائے کی سیاست بھی کروں گا اور الیکٹ ایبلز کی سیاست بھی کروں گا۔ اس طرح انہوں نے نظریہ تبدیلی کو خود منہ کے بل گرا دیا۔
پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں صبح سے شام تک لفظ جمہوریت کی جگالی کرتی رہتی ہیں۔ مگر جماعت اسلامی کے سوا کسی بھی جماعت میں جمہوریت نہیں ہے۔ نواز لیگ کی عمر 30 سال سے زیادہ ہے مگر میاں نواز شریف کو آج تک پارٹی میں انتخاب کرانے کا خیال نہیں آیا۔ یہ امر ظاہر ہے کہ اگر میاں نواز شریف پارٹی کے اعلیٰ ترین عہدے کے لیے انتخاب لڑیں گے تو کوئی بھی دوسرا شخص انہیں شکست نہیں دے سکتا۔ لیکن اس کے باوجود میاں صاحب پارٹی میں انتخابات نہیں کراتے۔ انہوں نے ووٹ کو عزت دو کے عنوان سے ایک پوری مہم چلائی مگر وہ خود پارٹی میں انتخابات کراکے ووٹ کو عزت دینے کے لیے تیار نہیں۔ ایم کیو ایم کا نعرہ تھا ہمیں منزل نہیں رہنما چاہیے۔ یہ صرف ایم کیو ایم کا نعرہ نہیں ہے۔ یہ نواز لیگ کا بھی نعرہ ہے، اسے بھی منزل نہیں رہنما چاہیے۔ میاں نواز شریف نہ ہوں تو نواز لیگ کو شہباز شریف درکار ہیں۔ وہ بھی نہ ہوں تو مریم نواز پارٹی کی ضرورت ہیں۔ اس سلسلے میں نواز لیگ کے تعصب کا یہ عالم ہے کہ نواز لیگ کے رہنما میاں لطیف نے کہا کہ مریم نواز کو کچھ ہوا تو ہم سے پاکستان کی سلامتی کے لیے کام کرنے کی توقع نہ کی جائے۔ ان کے الفاظ یہ نہیں تھے مگر ان کا مفہوم یہی تھا۔
پیپلز پارٹی بھی پہلے دن سے بھٹو خاندان کی جاگیر ہے۔ بھٹو صاحب جمہوریت کو اپنی سیاست قرار دیتے تھے مگر انہوں نے کبھی جمہوریت کو پارٹی کے اندر داخل نہ ہونے دیا۔ بے نظیر بھٹو بھی بڑی ’’ڈیموکریٹ‘‘ بنتی تھیں مگر انہوں نے بھی کبھی پارٹی میں انتخابات نہ کرائے۔ آصف زرداری اور بلاول کو بھی آج تک پارٹی میں انتخابات کرانے کا خیال نہیں آیا۔
اس سلسلے میں عمران خان کا حال بھی مختلف نہیں۔ انہوں نے ایک بار پارٹی میں انتخابات کرائے تھے۔ انہوں نے پارٹی میں انتخابات کی نگرانی کا کام جسٹس وجیہ کو سونپا۔ جسٹس وجیہ نے پارٹی میں انتخابات کے بعد عمران خان کو رپورٹ دی کہ انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلی ہوئی ہے۔ چناں چہ انتخابات دوبارہ منعقد کرائے جائیں۔ اصولاً عمران خان کو جسٹس وجیہ کے مشورے پر عمل کرنا چاہیے تھا مگر انہوں نے پارٹی میں دوبارہ انتخابات کرانے کے بجائے جسٹس وجیہ ہی کو عہدے سے ہٹادیا۔
جماعت اسلامی اپنی سیاست میں قوم کی خدمت کا نعرہ لگاتی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ قوم کی خدمت جماعت اسلامی کا صرف نعرہ نہیں ہے یہ جماعت اسلامی کا عمل ہے۔ جماعت اسلامی کا ایک بڑا اور منظم شعبہ خدمت خلق ہے۔ ملک میں زلزلہ آیا تو جماعت اسلامی ایک ریاست بن کر کھڑی ہوگئی۔ اس نے زلزلے سے متاثرہ لوگوں کی مدد میں پانچ ارب روپے نقد اور اشیا کی صورت میں خرچ کیے۔ جماعت اسلامی کی خدمات کی بھی قیمت لگائی جائے تو جماعت نے زلزلے سے متاثرہ افراد کی مدد پر 20 ارب روپے سے زیادہ خرچ کیے۔ سندھ میں سیلاب آیا تو جماعت اسلامی ایک بار پھر ریاست بن کر کھڑی ہوگئی۔ اس نے سیلاب سے متاثرہ افراد کو غذا دی، لباس دیا، انہیں طبی سہولتیں فراہم کیں، انہیں گھر بنا کر دیے۔ لیکن زلزلے اور سیلاب کے دوران کہیں بھی نواز لیگ کو موجود اور متحرک نہ دیکھا جاسکا۔ پیپلز پارٹی بھی اس دوران کہیں کام کرتی نظر نہ آئی۔ سندھ پیپلز پارٹی کا گڑھ ہے مگر پیپلز پارٹی نے بحیثیت جماعت کہیں بھی سیلاب سے متاثرہ افراد کی مدد نہ کی۔ نواز لیگ اور پیپلز پارٹی کا دعویٰ ہے کہ وہ سیاست کے ذریعے عوام کی خدمت کرنا چاہتے ہیں مگر عوام کی خدمت کے سلسلے میں ان کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں۔ یہاں تک کہ نواز لیگ اور پیپلز پارٹی میں کوئی شعبہ خدمت خلق ہی نہیں ہے۔ بلاشبہ عمران خان نے لاہور اور پشاور میں شوکت خانم اسپتال بنایا، وہ اب کراچی میں شوکت خانم اسپتال کی شاخ تعمیر کررہے ہیں۔ عمران خان نے نمل یونیورسٹی بنائی ہے لیکن تحریک انصاف کی سطح پر عمران خان بھی عوامی خدمت پر یقین نہیں رکھتے۔ رکھتے تو ان کی جماعت کا کوئی شعبہ خدمت خلق ضرور ہوتا۔

Leave a Reply