ترقی

ترقی کہنے کو ایک لفظ ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایک نظریہ ہے۔ ایک عقیدہ ہے۔ اگرچہ ترقی کا موجودہ تصور جدید مغرب کی پیداوار ہے اور جدید مغرب مذہب کو نہیں مانتا لیکن اس نے ترقی کے تصور کو ایک ’’مذہب‘‘ بنادیا ہے۔ ترقی کے تصور اور مغرب کے باہمی تعلق کا معاملہ اتنا اہم ہے کہ اردو ادب کے سب سے بڑے نقاد محمد حسن عسکری نے کہیں لکھا ہے کہ جدید مغرب کی پوری روح لفظ ’’ترقی‘‘ میں بند ہے۔ لیکن یہ مسئلہ اب صرف مغرب تک محدود نہیں۔ ترقی کے تصور نے ایک ایسی فضا پیدا کردی ہے کہ پوری دنیا ترقی کے مادی تصور پر نہ صرف یہ کہ ایمان لے آئی ہے بلکہ اس نے اسے اپنی زندگی کا محور بنالیا ہے۔ چناں چہ ’’مسٹر‘‘ ہوں یا ’’مولانا‘‘، مشرق ہو یا مغرب، شمال ہو یا جنوب، سب ترقی کرنا چاہتے ہیں اہم اور دلچسپ بات یہ ہے کہ ترقی کرنے والوں اور ترقی کا خواب دیکھنے والوں کی اکثریت کو ترقی کے معنی اور اس کے ممکنات و مضمرات کا شعور نہیں ہے۔
مغرب میں ترقی کا تصور اتنا اہم ہے کہ وہاں اس موضوع پر سیکڑوں کتابیں لکھی جاچکی ہیں۔ ان کتب کی اہم بات یہ ہے کہ چوں کہ مغرب ترقی کے مادی تصور پر پوری طرح ایمان لایا ہوا ہے۔ اس لیے اس کے مفکروں اور دانش وروں کی بڑی تعداد نے مادی ترقی کو ایک ’’تاریخی تصور‘‘ کے طور پر لیا ہے اور اپنی کتب میں یہ دکھانے کی کوشش کی ہے کہ ترقی کا تصور اتنا ہی پرانا ہے جتنی خود مغرب کی تاریخ۔ مثال کے طور پر مغرب کے ممتاز فلسفی زینوفین کا ایک فقرہ مغرب میں ترقی کے حوالے سے پہلے بیان کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ زینو فین نے کہا تھا دیوتائوں نے ابتدا میں انسان کو تمام باتیں نہیں بتائی تھیں۔ تاہم انسان نے اپنی کوشش سے رفتہ رفتہ اس چیز کو پالیا جو اس کے لیے بہتر تھا۔ اس سلسلے میں افلاطون کا یہ بیان بھی نقل کیا جاتا ہے کہ تغیر ایک لمحے میں واقع نہیں ہوا بلکہ اس کے وقوع پزیر ہونے میں طویل عرصہ لگا اور انسان نے ’’رفتہ رفتہ‘‘ قدم آگے بڑھائے۔ لیکن مغرب میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جنہوں نے صاف کہا ہے کہ ترقی کا موجودہ تصور حال کی چیز ہے اور ماضی کے لوگوں کو ترقی کا شعور نہیں تھا۔ واٹر بیچ ہاک نے 1872ء میں لکھا کہ عہد قدیم کے لوگوں کو مادی ترقی کے بارے میں کچھ علم نہ تھا۔ جے بی بری نے کہا ہے کہ یونانی اور رومن تہذیب میں ترقی کا تصور موجود نہ تھا اور اس کی وجہ یہ تھی کہ یونانی اور رومی تاریخ کے دائروی یا cyclical تصور پر یقین رکھتے تھے۔ اس تصور کے تحت تاریخ خود کو دہراتی رہتی ہے۔ اس کے برعکس ترقی کے مادی تصور کے مطابق ترقی کے مادی تصور کی بنیاد ایک دائرے میں سفر کے بجائے خط مستقیم میں سفر کرنے کے خیال پر رکھی ہوئی ہے۔ اس تصور کے تحت تاریخ سیدھی لکیر کی صورت میں مسلسل آگے کی طرف سفر کررہی ہے اور یہی ترقی ہے۔
مغربی دنیا کے دانش وروں کے مطابق ترقی کے تصور نے 1750ء سے 1900ء کے درمیان بے انتہا فروغ پایا۔ یہاں تک کہ ترقی کا تصور مغربی تہذیب کا مرکزی خیال بن گیا۔ اس عرصے میں اگرچہ مساوات، سماجی انصاف اور عوام کے اقتدارِ اعلیٰ کے تصورات نے بھی اہمیت حاصل کی لیکن ترقی کے تصور نے ان تمام تصورات کے لیے ایک ’’تناظر‘‘ کا کردار ادا کیا۔
تاہم مغرب میں ایسے دانش ور بھی موجود ہیں جو کہتے ہیں کہ تاریخ خط ِ مستقیم یا سیدھی لکیر کی صورت میں نہیں بلکہ ایک دائرے کی صورت میں سفر کررہی ہے۔ مگر ان دانش وروں کے یہاں تاریخ کے دائروی یا cyclic تصور کا عجیب و غریب مفہوم پایا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر جان گرے نے کہا ہے کہ حکومت اور معاشرتی نظام کی ترقی حقیقی مگر بحیثیت مجموعی عارضی ہے۔ جان گرے کے مطابق ہماری مادی ترقی ماضی کا قصہ بن سکتی ہے۔ بلکہ ایسا ہونے کا امکان نہ ہونے کے امکان سے زیادہ قوی ہے۔ چناں چہ جان گرے کے مطابق نہ تو کچھ بہتر ہورہا ہے اور نہ بدتر بلکہ ہم تاریخ کے ایک ایسے دائرے میں پھنس کر رہ گئے ہیں جہاں ترقی اور تنزل دائمی طور پر خود کو دہرا رہے ہیں۔ چناں چہ جان گرے کے نزدیک تاریخ خط ِ مستقیم میں سفر کرنے کے بجائے ایک دائرے کی صورت میں حرکت کررہی ہے۔
لیکن تاریخ کا دائروی تصور اپنی نہاد میں ایک مذہبی تصور ہے اور مذہبی تصور کے دائرے میں اصل چیز مادی ترقی نہیں بلکہ روحانی اور اخلاقی ترقی ہے۔ چناں چہ تمام مذہبی تہذیبوں بالخصوص اسلامی تہذیب میں ترقی کی معراج یہ ہے کہ وہ عارف بااللہ بن جائے۔ اور اللہ تعالیٰ کی رضا میں راضی رہنا سیکھ لے۔ مولانا رومؒ نے کہا ہے کہ تہذیب کی اصل انسان کا احترام ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو مغربی تہذیب ترقی کے بجائے تنزلی کی علامت ہے۔ اس لیے کہ اس تہذیب میں خدا اور بندے کے تعلق اور اس کی غیر معمولی اہمیت کا کوئی تصور موجود نہیں۔ بلاشبہ مغربی تہذیب نے سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں کمال کرکے دکھایا ہے لیکن مغربی دنیا کے عظیم مورخ آرنلڈ ٹوائن بی نے کہا ہے کہ ٹیکنالوجی کی ترقی اور اخلاقی زوال میں ایک ربط باہمی پایاجاتا ہے یعنی جب کوئی تہذیب یا معاشرہ تکنیکی طور پر ترقی کرتا ہے تو اس میں لازماً اخلاقی زوال رونما ہو کر رہتا ہے۔ مغرب میں یہی ہوا ہے۔ چناں چہ مغرب کی ترقی اپنی ضد بن گئی ہے۔ مغرب ایک جانب مادے کے رازوں کے انکشاف کی سب سے بڑی علامت بن گیا ہے اور دوسری جانب وہ دنیا میں جبرواستبداد اور اخلاقی زوال کا سب سے بڑا استعارہ بن گیا ہے۔ چناں چہ مغرب کی ترقی آپ اپنی ضد بن گئی ہے۔ مغرب کا معاملہ یہ ہے کہ وہ اپنے لیے آزادی اور باقی دنیا کے لیے غلامی کا خواہش مند ہے۔ اس کے رہنمائوں کے نزدیک انسانی حقوق کا حق دار صرف مغربی دنیا کا انسان ہے اس لیے کہ صرف مغربی دنیا کا انسان ہی ’’آدمی‘‘ کہلانے کا مستحق ہے۔ مغرب کی مادی ترقی کا دوسرا رُخ یہ ہے کہ مغرب میں مادی ترقی انسانی تعلق کی سب سے بڑی قاتل بن گئی ہے اور اس نے انسان کے تمام بنیادی رشتوں کو توڑ دیا ہے یا انتہائی کمزور کرکے غیر انسانی بنادیا ہے۔ مغرب کی مادی اور تکنیکی ترقی انسان کے ساتھ کیا کررہی ہے اس کا اندازہ چارلی چپلن کی مشہور زمانہ فلم Modern Times سے بخوبی کیا جاسکتا ہے۔ چارلی چپلن کی یہ فلم کہنے کو ’’مزاحیہ‘‘ ہے لیکن اس کی بنیاد فلسفیانہ ہے اور ہر پڑھے لکھے انسان کے ذہن پر اس کا اثر ویسا ہی ہوتا ہے جیسا کہ کسی اعلیٰ فلسفیانہ مضمون کا ہوتا ہے۔ چارلی چپلن کی اس فلم میں ترقی کا المیہ پہلو پوری طرح نمایاں ہو کر سامنے آتا ہے۔
ترقی کے سلسلے میں مغربی مفکرین کی آرا بھی اہمیت کی حامل ہیں۔ نٹشے کے بقول ترقی ایک نیا جھوٹا خیال یا idea ہے۔ نٹشے کے مطابق آج کے یورپی باشندے نشاۃ ثانیہ کے یورپی باشندوں سے کمتر ہیں۔ چناں چہ نٹشے کے مطابق آگے بڑھنے کا مطلب قدم بہ قدم زوال کی طرف بڑھنا ہے۔ میکس ویبر کے مطابق مغربی انسان کی ’’عقل پرستی‘‘ نے اس کی روح کو نقصان پہنچایا ہے۔ اس نے کئی دہائیوں پہلے کہا تھا کہ ہمارامستقبل موسم بہار نہیں، قطب شمالی کی برفانی سیاہ رات کی سختی ہے۔ ارنیسٹ اینان نے اس مسئلے کا تجزیہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایسی منظم ’’انا پرستی‘‘ مغرب کا مقدر ہے جو محبت اور جاں نثاری کی جگہ لے لے گی، میکس نور دائو نے خیال ظاہر کیا ہے کہ مغرب کا انسان حیاتیاتی زوال کی زد میں آچکا ہے جس سے تنزل اور ثقافتی سفاکیت کو فروغ حاصل ہوگا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ مغربی دانش وروں کے نزدیک ترقی کے تصور کا مستقبل کیا ہے؟
رابرٹ نسبت نے اپنی تصنیف The History of Idea of Progress میں اس سوال کا جواب دیا ہے۔ اس نے کہا ہے کہ مغرب میں ترقی کے تصور کی بنیاد پانچ نکات پر تھی۔
(1) ماضی کی قدرو قیمت پر یقین۔
(2) مغربی تہذیب کی نجابت بلکہ برتری پر ایمان۔
(3) معاشی اور تکنیکی ترقی کی قدرو قیمت کی قبولیت۔
(4) عقل اور اس علم میں ایمان جو صرف عقل مرکز ہے۔
(5) روئے زمین پر انسانی زندگی کی قدرو قیمت پر یقین۔
رابرٹ نسبت نے اپنی کتاب کے ایک پورے باب میں دکھایا ہے کہ مغرب میں ان تمام تصورات پر گہرے شکوک و شبہات کا اظہار کیا جاچکا ہے۔ رابرٹ نسبت کے بقول اگر مغرب کے دانش وروں اور عوام کی اکثریت کو ایک بار پھر مذکورہ بالا تصورات کی اہمیت اور درستی پر قائل کر لیا جائے تو ترقی کا تصور زندہ رہ سکتا ہے ورنہ یہ تصور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے فنا ہوسکتا ہے۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ مغرب میں ترقی کا تصور مر بھی گیا تو بہت سی غیر مغربی اقوام اسے آگے بڑھا دیں گی۔ اس لیے کہ ترقی کا مغربی تصور مغرب سے مشرق منتقل ہوچکا ہے۔
مشرق میں جاپان، چین، کوریا اور ہندوستان ترقی کی بہت بڑی علامت بن کر سامنے آچکے ہیں۔ جہاں تک مسلم دنیا کا تعلق ہے تو پوری اسلامی دنیا کی رال ترقی کے مغربی تصور پر ٹپک رہی ہے۔ ایک مسلم ملک ترقی میں امریکا بننا چاہتا ہے، دوسرا مسلم ملک یورپ کو اپنے لیے رہنما سمجھتا ہے۔ بہت سے مسلم ملکوں میں ترقی کا چینی ماڈل آنکھوں کو خیرہ کررہا ہے۔ بہت سے لوگ اس طرح کی باتیں پڑھتے اور سنتے ہیں تو وہ سوال اٹھاتے ہیں کہ کیا اسلام مادی ترقی کے خلاف ہے۔ اس سوال کا جواب واضح ہے۔ اسلام مادی ترقی کے خلاف نہیں۔ البتہ اسلام مادی ترقی کو مثالیہ یا Ideal بنانے کے سخت خلاف ہے۔ دیکھا جائے تو مغرب کا جرم مادی ترقی نہیں مادی ترقی کو Ideal بلکہ مذہب بنادینا ہے۔ جس مسلم معاشرے میں مادی ترقی Ideal ہو یا وہ مذہب کے طور پر لی جارہی ہو وہ معاشرہ ہرگز اسلامی معاشرہ کہلانے کا مستحق نہیں۔ خواہ وہ معاشرہ مکے اور مدینے کا معاشرہ ہی کیوں نہ ہو۔

Leave a Reply