جواب شکوہ

اقبال کی نظم ’’شکوہ‘‘ شائع ہوئی تو اس پر زبردست ہنگامہ ہوا۔ بعض مذہبی حلقوں نے شکوہ کے اظہاری سانچے کو خلاف ادب قرار دیا۔ یہاں تک کہ اس پر کفر کا الزام عائد کیا گیا۔ شکوہ کی اشاعت کے کچھ عرصے بعد اقبال نے ’’جوابِ شکوہ‘‘ لکھی تو بہت سے لوگوں نے یہ سمجھا کہ اقبال شکوہ پر علما کے اعتراضات سے گھبرا گئے ہیں اور انہوں نے شکوہ پر ہنگامہ برپا کرنے والوں کو خوش کرنے کے لیے ’’جواب شکوہ‘‘ لکھا ہے۔ تجزیہ کیا جائے تو اس خیال کی پشت پر ایک نفسیاتی مسئلہ موجود ہے۔ انسان جیسا خود ہوتا ہے دوسروں کو بھی ویسا ہی سمجھتا ہے۔ ورنہ حقیقت یہ ہے کہ نہ اقبال نے شکوہ کسی کو ناراض کرنے کے لیے لکھی تھی اور نہ جواب شکوہ کسی کو خوش کرنے کے لیے لکھی۔ شکوہ 20 ویں صدی میں امت مسلمہ کی آدھی حقیقت کا بیان ہے۔ یہ دونوں بیانات ملتے ہیں تو ایک مکمل دائرہ وجود میں آتا ہے جو 20 ویں صدی میں امت مسلمہ کی پوری حقیقت کو سامنے لاتا ہے۔ یعنی اگر کوئی شخص یہ جاننا چاہتا ہے کہ عصر حاضر میں امت مسلمہ کی حالت اور مستقبل کیا ہے تو اسے اقبال کی شکوہ اور جواب شکوہ دونوں پڑھنی ہوں گی۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اقبال نے جواب شکوہ کسی خارجی ضرورت کے تحت لکھی ہے انہیں جواب شکوہ کے اس شعر پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔
عشق تھا فتنہ گر و سرکش و چالاک مرا
آسماں چیر گیا نالۂ بیباک مرا
اقبال کے اس شعر کا مطلب یہ ہے کہ اقبال کا شکوہ تعلق اور شعور سے پیدا ہوا تھا اور ان دونوں چیزوں نے شکوہ کو وہ اخلاص اور برجستگی عطا کی جس کے بغیر وہ بارگاہ خداوندی میں رسائی حاصل نہیں کرسکتا تھا اور نہ ہی آسمان سے جواب شکوہ کی صورت میں اس کا جواب آسکتا تھا۔ لیکن اقبال کے شکوے نے آسمان کو چیرا تو کیا ہوا؟ اس سوال کا جواب اقبال کی زبانی سنیے۔
پیرِ گردوں نے کہا سن کے کہیں ہے کوئی
بولے سیّارے سرِعرشِ بریں ہے کوئی
چاند کہتا تھا نہیں اہلِ زمیں ہے کوئی
کہکشاں کہتی تھی پوشیدہ یہیں ہے کوئی
کچھ جو سمجھا مرے شکوے کو تو رضواں سمجھا
مجھے جنت سے نکالا ہوا انساں سمجھا
٭٭
تھی فرشتوں کو بھی حیرت کے یہ آواز ہے کیا
عرش والوں پہ بھی کھلتا نہیں یہ راز ہے کیا
تا سرِ عرش بھی انساں کی تگ و تاز ہے کیا
آگئی خاک کی چٹکی کو بھی پرواز ہے کیا
غافل آداب سے سُکّانِ زمیں کیسے ہیں
شوخ و گستاخ پہ پستی کے مکیں کیسے ہیں؟
اقبال کی نظم کے ان بندوں سے دو باتیں ظاہر ہورہی ہیں۔ ایک یہ کہ انسان اتنی بڑی چیز ہے کہ وہ اپنے وجود کی پوری صداقت اور کامل اخلاص کے ساتھ کچھ کہتا ہے تو اس کی گونج پوری کائنات میں سنائی دیتی ہے۔ اقبال کے ان بندوں سے دوسری بات یہ عیاں ہورہی ہے کہ اہل زمین کی طرح اہل آسمان بھی اقبال کے شکوے کو سمجھنے سے قاصر ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ بھی اقبال کے شکوے کے ’’ظاہر‘‘ پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں۔ یہاں تک کہ فرشتے بھی اقبال کے نالے کو سمجھنے میں ناکام ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اخلاص ایسی چیز ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے فرشتوں تک کو مطلع نہیں فرمایا ہے۔ اخلاص کو صرف اللہ تعالیٰ سمجھتا ہے۔ چناں چہ اقبال اللہ کی جناب میں شکوہ لے کر کھڑے ہوتے ہیں تو اللہ تعالیٰ اس طرح اقبال سے مخاطب ہوتا ہے۔
آسماں گیر ہوا نعرئہ مستانہ ترا
کس قدر شوخ زباں ہے دلِ دیوانہ ترا
شکر شکوے کی کیا حسنِ ادا سے تونے
ہم سخن کردیا بندوں کو خدا سے تونے
اقبال کے بند کے آخری شعر سے تعلق کا ایک راز آشکار ہوا ہے۔ بظاہر ادب اور محبت میں کوئی تضاد نہیں ہے۔ مگر اکثر دیکھا گیا ہے کہ ادب میں احترام تو ہوتا ہے مگر قربت اور محبت نہیں ہوتی۔ اسی طرح محبت میں ادب کبھی کبھی کم نظر آتا ہے۔ مگر قربت بے انتہا ہوتی ہے۔ اس بند کے آخری شعر میں خدا نے اقبال کو اس بات پر داد دی ہے اس نے بندوں کو خدا سے ہم سخن کردیا تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اقبال کی محبت نے انہیں خدا سے اتنا قریب کردیا ہے کہ وہ خدا سے شکوہ کرتے ہوئے بھی نہیں گھبرائے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ بندوں کے خدا سے ہم سخن ہونے کی داد دینے کے بعد اللہ تعالیٰ نے جواب شکوہ میں کیا کہا ہے؟۔
جس طرح اقبال کی شکوہ اعتراضات سے شروع ہوتی ہے اسی طرح جواب شکوہ کا آغاز اللہ تعالیٰ کی ڈانٹ ڈپٹ سے ہوتا ہے۔ لیکن جس طرح شکوہ کے ایک ایک لفظ سے محبت ٹپک رہی ہے اسی طرح جواب شکوہ کی ڈانٹ ڈپٹ سے بھی محبت کی پھوار نمودار ہورہی ہے۔ خدا کہہ رہا ہے۔
ہم تو مائل بہ کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں
راہ دکھلائیں کِسے رہروِ منزل ہی نہیں
تربیت عام تو ہے جوہرِ قابل ہی نہیں
جس سے تعمیر ہو آدم کی یہ وہ گلِ ہی نہیں
کوئی قابل ہو تو ہم شانِ کئی دیتے ہیں
ڈھونڈنے والوں کو دنیا بھی نئی دیتے ہیں
٭٭
ہاتھ بے زور ہیں، الحاد سے دل خوگر ہیں
امتی باعثِ رسوائی پیغمبر ہیں
بت شکن اُٹھ گئے، باقی جو رہے بت گر ہیں
تھا براہیم پدر اور پسر آزر ہیں
بادہ آشام نئے، بادہ نیا، خُم بھی نئے
حرمِ کعبہ نیا، بت بھی نئے تُم بھی نئے
اللہ تعالیٰ کی یہ ڈانٹ ڈپٹی کافی طویل ہے لیکن اس ڈانٹ ڈپٹ کا نچوڑ جس شعر میں آگیا ہے وہ یہ ہے۔
رہ گئی رسمِ اذاں روحِ بلالی نہ رہی
فلسفہ رہ گیا تلقینِ غزالی نہ رہی
اس شعر کا مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کے لیے اسلام ’’قال‘‘ بن گیا اور اب وہ ان کا ’’حال‘‘ نہیں رہا۔ روح بلالی کا مطلب یہ ہے کہ اذان کے الفاظ سیدنا بلالؓ کے لیے محض الفاظ نہیں تھے ان کا تجربہ تھے۔ اور غزالی کے لیے ان کا خیال محض خیال نہیں تھا ایک بسر کی ہوئی حقیقت تھا۔ جواب شکوہ میں اللہ تعالیٰ کی ڈانٹ ڈپٹ کو دیکھا جائے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ ڈانٹ ڈپٹ نظم کے آخر تک چلے گی لیکن نظم کے اختتام سے کچھ پہلے شکوہ کی طرح جواب شکوہ بھی اچانک بدل جاتی ہے اور جس طرح شکوہ میں اقبال خدا سے لڑتے لڑتے اچانک جذبے کے مصلّے پر بیٹھ کر دعا مانگنے لگتے ہیں اسی طرح جواب شکوہ میں اللہ تعالیٰ اچانک ڈنٹ ڈپٹ ختم کرکے امت مسلمہ کے طرف دار بن کر کھڑے ہوجاتے ہیں۔
دیکھ کر رنگِ چمن ہو نہ پریشاں مالی
کو کبِ غنچہ سے شاخیں ہیں چمکنے والی
خس و خاشاک سے ہوتا ہے گلستاں خالی
گل بر انداز ہے خونِ شہدا کی لالی
رنگ گروں کا زرا دیکھ تو عناّبی ہے
یہ نکلتے ہوئے سورج کی افق تابی ہے
لیکن یہ تو اللہ تعالیٰ کی امت پسندی کی ابتدا ہے تین بندوں کے بعد اقبال نے اللہ تعالیٰ سے اصل بات کہلوا دی ہے۔ فرماتے ہیں۔
چشمِ اقوام سے مخفی ہے حقیقت تیری
ہے ابھی محفلِ ہستی کو ضرورت تیری
زندہ رکھتی ہے زمانے کو حرارت تیری
کوکبِ قسمتِ امکاں ہے خلافت تیری
وقتِ فرصت ہے کہاں کام ابھی باقی ہے
نورِ توحید کا اتمام ابھی باقی ہے
لیجیے کہاں تو اللہ تعالیٰ امت مسلمہ کو ڈانٹ رہے تھے اور کہاں فرما رہے ہیں کہ مسلمان محفل ہستی کی ضرورت ہیں اور ان کی حرارت زمانے کو زندہ رکھنے والی ہے۔
یہاں تک کہ اللہ مسلمانوں کے ذریعے ہی قرآن مجید میں کیے گئے وعدے کے مطابق اپنے نور کا اتمام فرمائیں گے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو جواب شکوہ میں اللہ تعالیٰ کی ڈانٹ ڈپٹ امت مسلمہ سے اس کی محبت کا پردہ بن جاتی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ امت مسلمہ عہد حاضر میں عظمت کیسے حاصل کرے گی۔ اس سوال کا جواب بھی اقبال نے جواب شکوہ میں اللہ تعالیٰ سے دلوایا ہے۔
مثلِ بُو قید ہے غنچے میں پریشاں ہو جا
رخت بردوش ہوائے چمنستاں ہو جا
ہے تنک مایہ تُو زرے سے بیاباں ہو جا
نغمۂ موج سے ہنگامۂ طوفاں ہو جا
قوتِ عشق سے ہر پست کو بالا کردے
دہر میں عشقِ محمدؐ سے اجالا کردے
لیکن عشق محمدؐ میں وہ کیا بات ہے جو ہر پست کو بالا کرسکتی ہے۔؟ اس کا جواب بھی سنیے۔
ہو نہ یہ پھول تو بلبل کا ترنم بھی نہ ہو
چمن دہر میں کلیوں کا تبّسم بھی نہ ہو
یہ نہ ساقی ہو تو پھر مے بھی نہ ہو خُم بھی نہ ہو
بزمِ توحید بھی دنیا میں نہ ہو تم بھی نہ ہو
خیمہ افلاک کا استادہ اسی نام سے ہے
نبضِ ہستی تپش آمادہ اسی نام سے ہے
یعنی رسول اکرمؐ کی ذات کائنات کی تخلیق کا باعث ہے۔ رسول اکرمؐ نہ آتے تو کچھ بھی نہ ہوتا۔ یہاں تک کہ بزم توحید بھی انہی کی وجہ سے سجائی گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جواب شکوہ اس شعر پر ختم ہوتی ہے۔
کی محمدؐ سے وفا تونے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
یہاں سوال یہ ہے کہ بساط عالم پر امت مسلمہ کی مرکزیت کا سبب کیا ہے؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ مسلمانوں کے پاس توحید کی امانت ہے۔ اگر دنیا کو کفر اور شرک کے اندھیروں سے نکلنا ہے تو صرف امت مسلمہ ہی اس سلسلے میں اس کی مددگار ہوسکتی ہے۔
امت کے پاس قرآن ہے۔ دنیا کو اگر یہ جاننا ہے کہ خدا انسانوں سے کیا چاہتا ہے تو صرف امت مسلمہ ہی قرآن کے ذریعے اس سوال کا جواب فراہم کرسکتی ہے۔ امت مسلمہ کے پاس رسول اکرمؐ کا اسوئہ حسنہ ہے۔ اگر دنیا کو کامل ترین نمونہ حیات سے ہمکنار ہونا ہے تو یہ نمونہ بھی صرف امت مسلمہ ہی فراہم کرسکتی ہے۔ یہاں یہ سوال بھی اہم ہے کہ جواب شکوہ میں امت مسلمہ کے مستقبل سے جو توقعات وابستہ کی گئی ہیں انہیں امت مسلمہ نے کس حد تک پورا کیا ہے؟۔
اقبال نے جب ’’شکوہ‘‘ اور ’’جواب شکوہ‘‘ لکھی تو اس وقت امت مسلمہ یورپی طاقتوں کی غلام تھی اور اس غلامی کے خاتمے کا امکان بھی موجود نہ تھا۔ چناں چہ امت کے روایتی علما کی عظیم اکثریت اس بات پر ایمان لے آئی تھی کہ اب اسلام صرف عقاید، عبادات اور اخلاقیات تک محدود ہوگا۔ اس کا ریاست، سیاست، معیشت اور آرٹ سے کوئی تعلق نہ ہوگا۔ لیکن امت مسلمہ نے گزشتہ 75 سال میں نوآبادیاتی طاقتوں سے آزاد ہو کر دکھایا۔ آج دنیا میں 57 آزاد مسلم ریاستیں موجود ہیں۔ امت مسلمہ میں آج اس بات پر اجماع ہے کہ اسلام ایک مکمل ضابطہ ٔ حیات ہے اور وہ ریاست و سیاست اور معیشت و آرٹ کے سلسلے میں بھی انسانوں کی کامل رہنمائی کرتا ہے۔ اقبال جواب شکوہ میں کہہ رہے تھے کہ مسلمانوں میں تلقین غزالی اور روح بلالیؓ موجود نہیں لیکن امت مسلمہ نے عہد حاضر میں مولانا مودودی کے علم کلام کی صورت میں تلقین غزالی پیدا کرکے دکھائی ہے۔ رہی روح بلالیؓ تو اس کی موجودگی کا ثبوت یہ ہے کہ امت مسلمہ نے گزشتہ 40 سال میں افغانستان کے اندر وقت کی دو سپر پاور کو منہ کے بل گرایا ہے۔ طالبان کے ہاتھوں امریکا اور اس کے 48 اتحادیوں کو شکست پر غزوہ بدر کی روایت کے سائے کو صاف دیکھا جاسکتا ہے۔

Leave a Reply