نظریہ پاکستان اور ندیم ایف پراچہ کی دروغ گوئی

سلیم احمد نے کہا تھا
سلیم میرے حریفوں میں یہ خرابی ہے
کہ جھوٹ بولتے ہیں اور خراب لکھتے ہیں
خدا کا شکر ہے ہمارا کوئی حریف نہیں۔ مگر سلیم احمد نے جو کچھ کہا ہے وہ پاکستان کے سیکولر دانش وروں پر بھی پوری طرح منطبق ہوتا ہے۔ پاکستان کے سیکولر دانش وروں میں سے اکثر جھوٹ بولتے ہیں اور خراب لکھتے ہیں۔ غور کیا جائے تو خراب لکھنا بھی جھوٹ بولنے ہی کی طرح ایک برائی ہے۔
رسول اکرمؐ کے زمانے کے کافروں اور مشرکوں میں دو برائیاں تھیں۔ ایک یہ کہ وہ کہتے تھے کہ ہم نے اپنے بزرگوں کو کفر اور شرک پر کھڑے پایا ہے چناں چہ ہم ان کی روایت کو ترک نہیں کرسکتے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ رسول اکرمؐ کے زمانے کے کافر اور مشرک خاندان پرست یا قبیلہ پرست تھے۔ ان کے لیے اصل چیز ’’حق‘‘ نہیں تھی ان کے لیے اصل چیز ان کے خاندان اور ان کے قبیلے کا عقیدہ تھا۔ رسول اکرمؐ کے زمانے کے کافروں اور مشرکوں میں دوسری برائی یہ تھی کہ ان کے تخیل کی پرواز بلند نہیں تھی۔ چناں چہ وہ کہتے تھے کہ کیا جب ہم مر کر مٹی ہوجائیں گے تو ہمیں پھر خاک سے زندہ کیا جائے گا۔ بھلا یہ کیسے ہوگا؟ اس کا جواب خود قرآن نے یہ دیا کہ خدا اس پر قادر ہے۔ آخر اس نے تمہیں پہلے بھی اچھل کر نکلتے ہوئے پانی سے پیدا کیا ہے۔ رسول اکرمؐ کے زمانے کے کافروں اور مشرکوں میں یہ دونوں برائیاں تو تھیں مگر وہ لوگ جھوٹ نہیں بولتے تھے۔ چناں چہ جب رسول اکرمؐ نے ان کے سامنے حق پیش کیا تو تھوڑی سی مزاحمت کے بعد انہوں نے حق کو قبول کرلیا اور وہ دنیا کے بہترین انسان بن کر سامنے آئے۔ ایسے انسان جن پر تاریخ ہمیشہ ناز کرے گی۔ مگر پاکستان کے سیکولر دانش وروں کا المیہ صرف یہ نہیں ہے کہ وہ منکر حق ہیں بلکہ ان کا المیہ یہ بھی ہے کہ حق کو پہچان کر بھی اسے قبول نہیں کرتے۔ چناں چہ وہ حق سے جان چھڑانے کے لیے جھوٹ گھڑ لیتے ہیں۔ ڈان کے کالم نگار ندیم ایف پراچہ کو نہ صرف یہ کہ اسلام سے چڑ ہے بلکہ وہ تواتر کے ساتھ جھوٹ لکھتے رہتے ہیں۔ وہ اس سلسلے میں اپنے قارئین کی لاعلمی اور کم فہمی کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ایسا نہ ہوتا تو وہ تواتر کے ساتھ جھوٹ نہیں لکھ سکتے تھے۔
ندیم ایف پراچہ نے اپنے ایک حالیہ کالم میں ایک بہت بڑا تاریخی جھوٹ گھڑا ہے۔ انہوں نے اپنے کالم میں لکھا ہے کہ بانیان پاکستان نے کبھی نظریہ ٔ پاکستان یا آئیڈیا لوجی آف پاکستان کی اصطلاح استعمال نہیں کی۔ ندیم ایف پراچہ کے دعوے کے مطابق یہ اصطلاح قیام پاکستان کے بعد گیارہ برسوں میں بھی کبھی سننے یا پڑھنے میں نہیں آئی۔ ندیم ایف پراچہ کے بقول جنرل ایوب نے پہلی بار 1958-59 میں Pakistan Ideology کی اصطلاح استعمال کی اور انہوں نے منتخب دانش وروں سے سوال کیا کہ آخر اس اصطلاح کا مفہوم کیا ہے؟ ندیم ایف پراچہ نے لکھا ہے کہ جنرل ایوب کے گیارہ سالہ دورِ اقتدار میں نظریہ ٔ پاکستان کی اصطلاح پوری طرح وضع نہیں ہوئی تھی بلکہ اس عرصے میں اس اصطلاح کی تشکیل کا کام جاری رہا۔ البتہ جنرل ایوب کے سوال کے جواب میں دانش وروں نے نظریہ ٔ پاکستان کو دو قومی نظریے سے منسلک کیا اور کہا کہ پاکستان ایک ایسا قوم پرستانہ تجربہ ہے جس میں اسلام اقتصادی اور سماجی جدیدیت کے ساتھ تعلق استوار کرے گا یا ان کے ساتھ Interact کرے گا۔ ندیم ایف پراچہ نے لکھا ہے کہ 1967ء میں مولانا مودودی اپنا نظریہ ٔ پاکستان لے کر سامنے آگئے۔ مولانا کا نظریہ ٔ پاکستان جدیدیت کو ترک کردینا چاہتا تھا کیوں کہ مولانا کی نظر میں جدیدیت سیکولر، مغربی اور جوڈوکرسچن تہذیب کی پیدا کردہ چیز تھی۔ مولانا کے بعد بھٹو صاحب نے نظریہ ٔ پاکستان کا سوشلسٹ ورژن پیش کیا۔ تاہم 1970ء کی دہائی کے بعد ملک میں صرف اسلام پسندوں کا نظریہ ٔ پاکستان باقی رہ گیا جسے جنرل ضیا الحق کے دور میں تقویت حاصل ہوئی۔ (روزنامہ ڈان: 3 جولائی 2022)
ندیم ایف پراچہ کا سب سے بڑا جھوٹ یہ ہے کہ بانیان پاکستان نے کبھی نظریہ ٔ پاکستان کی اصطلاح استعمال نہیں کی۔ بلکہ ندیم ایف پراچہ کے بقول قیام پاکستان کے گیارہ سال بعد تک بھی اس اصطلاح کا وجود نہیں ملتا۔ یہ دونوں باتیں جھوٹ بھی نہیں سفید جھوٹ ہیں۔ ہمارے سامنے قائداعظم کا ایک بیان رکھا ہوا ہے۔ اس میں قائداعظم نے فرمایا ہے۔
Pakistan not only means freedom and independence but the muslim ideology which has to be preserved, which has come to us as precious gift and treasure and which, we hope, others will share with us.
ترجمہ: پاکستان کا مطلب صرف آزادی نہیں بلکہ ایک نظریہ ہے۔ ہمیں اس نظریے کی حفاظت کرنی ہے۔ یہ نظریہ ہمیں ایک تحفے اور خزانے کے طور پر ملا ہے۔ ہمیں امید ہے دوسرے لوگ اس چیز کو ہمارے ساتھ بانٹیں گے۔
(سرحد کے مسلم اسٹوڈنٹ کے نام ایک پیغام۔ 18 جون 1945)
ہمارے سامنے قائداعظم کا ایک خطاب بھی ہے۔ قائداعظم نے فرمایا۔
“the ideology of the League is based on the fundamental principle, the Muslim India is an Independent Nationality”
ترجمہ: ’’مسلم لیگ کا نظریہ اس اصول پر مبنی ہے کہ بھارت کے مسلمان ایک ایک آزاد قوم ہیں‘‘۔
(آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس سے خطاب، مدراس، 10 اپریل 1941)
جیسا کہ ظاہر ہے ان دونوں اقتباسات میں بانی ٔ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے نظریہ یا Ideology کی اصطلاح استعمال کی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ ان میں سے ایک اقتباس 1941ء کا ہے اور دوسرا اقتباس 1945ء کا ہے۔ اس طرح ندیم ایف پراچہ کے یہ دونوں دعوے جھوٹے ہیں کہ بانیان پاکستان نے کبھی نظریے کی اصطلاح استعمال نہیں کی اور یہ اصطلاح قیام پاکستان کے گیارہ سال بعد بھی کہیں موجود نہ تھی۔ تاریخی شہادتوں سے ثابت ہوگیا کہ یہ اصطلاح قیام پاکستان سے بہت پہلے اپنا وجود رکھتی تھی۔
تاریخ کے تناظر میں دیکھا جائے تو اکثر یہ ہوتا ہے کہ ایک چیز کی روح موجود ہوتی ہے مگر اس کا کوئی نام نہیں ہوتا۔ رسول اکرمؐ کے زمانہ مبارک میں قرآن کی تشریح اور تعبیر مسلسل ہورہی تھی مگر ’’علم تفسیر‘‘ کی کوئی اصطلاح موجود نہ تھی۔ رسول اکرمؐ کے عہد اور خلافت راشدہ کے دور میں مختلف چیزوں کے احکام بیان کیے جارہے تھے مگر ’’فقہ‘‘ کی اصطلاح موجود نہ تھی۔ تصوف کے بارے میں کسی نے کہا ہے کہ تصوف خلافت راشدہ میں بھی موجود تھا مگر اس کا کوئی نام نہ تھا۔ نظریہ ٔ پاکستان کی اصطلاح بھی اگر قیام پاکستان سے پہلے اور قیام پاکستان کے فوراً بعد موجود نہ ہوتی تو بھی دو قومی نظریہ تو اپنی جگہ موجود تھا۔ یہ نظریہ ٔ پاکستان کی روح، اس کی اصل اور اس کی ساخت کو بیان کرنے کے لیے کافی تھا۔
ندیم ایف پراچہ کی ایک دروغ گوئی یہ ہے کہ انہوں نے دو قومی نظریہ کی اقسام ایجاد کر ڈالیں۔ حالاں کہ دو قومی نظریہ اسلام ہے اور اسلام ایک ہی ہے۔ وہ جنرل ایوب، مولانا مودودی اور بھٹو کا اسلام نہیں ہے۔ پاکستان کے سیکولر دانش ور قائداعظم کو سیکولر ثابت کرنے کے لیے 11 ستمبر کی تقریر کا حوالہ دیتے ہیں مگر پاکستانیات کے ممتاز ماہر پروفیسر شریف المجاہد نے کہیں لکھا ہے کہ 1934ء سے 1948ء تک کی اپنی کسی تقریر میں سیکولرازم کو ایک آئیڈیالوجی کے طور پر استعمال نہیں کیا۔ عجیب بات یہ ہے کہ ندیم ایف پراچہ دوقومی نظریے کی اقسام ایجاد کر ڈالیں مگر انہوں نے اس سلسلے میں قائداعظم کی کسی تقریر یا بیان کا کوئی اقتباس پیش نہیں کیا۔ حالاں کہ اس سلسلے میں قائداعظم کی متعدد تقاریر اور بیانات موجود ہیں۔ مثلاً قائداعظم نے 1943ء میں کراچی میں ہونے والے مسلم لیگ کے ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا۔
’’وہ کون سا رشتہ ہے جس میں منسلک ہونے سے تمام مسلمان جسدِ واحد کی طرح ہیں۔ وہ کون سی چٹان ہے جس پر ان کی ملت عمارت استوار ہے۔ وہ کون سا لنگر ہے جس سے اس امت کی کشتی محفوظ کردی گئی ہے۔ وہ رشتہ وہ چٹان، وہ لنگر خدا کی کتاب قرآن کریم ہے۔ مجھے یقین ہے کہ جوں جوں ہم آگے بڑھتے جائیں گے ہم میں زیادہ سے زیادہ اتحاد پیدا ہوتا جائے گا۔ ایک خدا، ایک رسولؐ، ایک کتاب، ایک امت‘‘۔
ندیم ایف پراچہ صاحب یہ ہے اصل دو قومی نظریہ۔ سوال یہ ہے کہ کیا جنرل ایوب جیسے سیکولر حکمران کا دوقومی نظریہ بھی یہی تھا؟ ہاں تو اس کی شہادت کہاں ہے۔ نہیں تو پھر جنرل ایوب کا نظریہ ٔ پاکستان جعلی اور غیر مستند ہے اور اِسے تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک دینا چاہیے۔ ندیم ایف پراچہ قوم کو بتائیں کہ کیا سوشلسٹ بھٹو کا دوقومی نظریہ بھی یہی تھا۔ ہاں تو اس کی شہادتیں پیش کی جائیں۔ نہیں تو پھر بھٹو کا دوقومی نظریہ بھی جعلی غیر مستند اور خود ساختہ تھا۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو صرف مولانا مودودی کا دوقومی نظریہ اصل اور مستند ہے۔ اس لیے کہ قائداعظم بھی ایک خدا، ایک کتاب، ایک رسول اور ایک امت کے اصول کو مانتے تھے اور مولانا مودودی بھی اسی اصول پر ایمان رکھتے تھے۔ یہاں ہمیں قائداعظم کی ایک اور تقریر یاد آگئی قائداعظم نے 8 مارچ 1944 کو مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا۔
’’پاکستان اس دن وجود میں آگیا تھا جب ہندوستان میں پہلا ہندو مسلمان ہوا۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب یہاں مسلمانوں کی حکومت قائم نہیں ہوئی تھی۔ مسلمانوں کی قومیت کی بنیاد کلمہ توحید ہے، وطن نہیں اور نہ ہی نسل۔ ہندوستان کا جب پہلا فرد مسلمان ہوا تو وہ پہلی قوم کا فرد نہیں رہا۔ وہ ایک جداگانہ قوم کا فرد ہوگیا۔ ہندوستان میں ایک نئی قوم وجود میں آگئی‘‘۔
یہ ہے قائداعظم کے دوقومی نظریے کی ایک اور جھلک۔ کیا جنرل ایوب اور بھٹو کا دوقومی نظریہ بھی کلمہ طیبہ پر کھڑا ہوا ہے؟ اگر نہیں تو پھر اس نظریے کی اوقات ہی کیا ہے؟ ندیم ایف پراچہ نے موجودہ شکل میں موجود نظریہ ٔ پاکستان کو خالی جہاز قرار دیا ہے اور لکھا ہے کہ خالی جہاز صرف شور مچاتے ہیں۔ یہ نظریہ ٔ پاکستان ہی کی نہیں اسلام کی توہین ہے۔ اس لیے کہ نظریہ ٔ پاکستان اسلام ہے۔ اسلام میں خدا ہے، رسول ہیں، قرآن ہے، علم حدیث ہے، بے مثال تاریخ ہے، تہذیب ہے۔ اس کے باوجود بھی ندیم ایف پراچہ کو نظریہ ٔ پاکستان ’’خالی جہاز‘‘ نظر آتا ہے۔ اس کے برعکس سیکولرازم میں کوئی بامعنی اور حقیقی چیز موجود نہیں اس کے باوجود ندیم ایف پراچہ کے لیے سیکولرازم ایک بھرا ہوا جہاز ہے۔

Leave a Reply