ترقی پسند دانش ور کی خود فریبی اور مغالطے

ڈاکٹر عالیہ امام پاکستان کی معروف ترقی پسند دانش ور ہیں۔ وہ راجا صاحب محمود آباد کے چھوٹے بھائی کی اہلیہ ہیں۔ ان کی ایک اہمیت یہ ہے کہ وہ کسی زمانے میں بھٹو اور فیض احمد فیض جیسے لوگوں کے قریب تھیں۔ انہیں نصرت بھٹو بھی بڑی اہمیت دیتی تھیں۔ ڈاکٹر عالیہ امام کئی کتابوں کی مصنف ہیں۔ انہوں نے برطانیہ سے پی ایچ ڈی کیا ہے اور ترقی پسند حلقوں میں آج بھی ان کی بڑی مان دان ہے۔ ان سب باتوں کے باوجود ڈاکٹر عالیہ امام بھی دوسرے ترقی پسند دانش وروں کی طرح خود فریبیوں اور فکری مغالطوں میں مبتلا ہیں۔ ان کی یہ خود فریبیاں اور فکری مغالطے روزنامہ ایکسپریس میں شائع ہونے والے ان کے ایک حالیہ انٹرویو میں بھی موجود ہیں۔ یہ انٹرویو روزنامہ ایکسپریس کے سنڈے میگزین میں شائع ہوا ہے۔
انٹرویو نگار کے بقول انٹرویو کے دوران ترقی پسندوں کی مذہب بیزاری کا ذکر ہوا تو ڈاکٹر عالیہ امام نے اسے غلط قرار دیا اور فرمایا کہ اسلام ایک ایسے نظام کی بات کرتا ہے جس میں حاکمیت چند لوگوں کے ہاتھ میں نہ ہو اور وسائل سب کے لیے ہوں۔ پھر انہوں نے فرمایا کہ دراصل اسلام اور سوشلزم ایک ہی ہیں۔ بس ان کے چہرے بدلے ہوئے ہیں۔ ڈاکٹر صاحبہ نے مزید فرمایا کہ اسلام کی بنیاد عقل پرستی پر رکھی ہوئی ہے۔ یہی سوشلزم ہے کہ سب کی صلاحیتوں کو ترقی کے مواقع ملیں جو یہاں صرف دولت مندوں کو ملتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحبہ نے یہ بھی فرمایا کہ اسلام ایک انقلابی طاقت ہے۔
جیسا کہ ظاہر ہے اسلام اور سوشلزم کو ایک قرار دینا نہ صرف یہ کہ ایک بہت بڑا جھوٹ بلکہ ایک بہت بڑی علمی جہالت ہے۔ بلاشبہ اسلام ایک انقلابی طاقت تھا، ہے اور رہے گا اور یہ بھی ٹھیک ہے کہ سوشلزم نے دنیا کے کئی ممالک میں انقلاب برپا کیا لیکن یہ ایک اسلام اور سوشلزم میں ایک سرسری اور سطحی مماثلت ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ فکری نظاموں کی مماثلت یا امتیاز کا تعلق بنیادی طور پر ان کی الٰہیات یا Ontology سے ہوتا ہے۔ الٰہیات کو بنیاد بنایا جائے تو اسلام اور سوشلزم ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ اسلام ایک خدا مرکز دین اور نظام ہے۔ اس نظام میں خدا خالق بھی ہے، مالک بھی ہے اور انسانوں کا رازق بھی ہے۔ اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ انسان خدا کی وجہ سے زمین پر موجود ہے، اسی کی وجہ سے وہ یہاں مقیم ہے اور بالآخر وہ لوٹ کر اللہ ہی کے پاس جائے گا۔ اس کے برعکس سوشلزم خدا کا منکر ہے، وہ نہ خدا کو خالق مانتا ہے، نہ مالک جانتا ہے نہ رازق گردانتا ہے۔ بلکہ سوشلزم کا دعویٰ یہ ہے کہ مذہب عوام کی افیون ہے یا ایک نشہ ہے۔ جسے معاشرے کی بالادست طاقتوں نے عوام کو دھوکا دینے اور عوام پر اپنی بالادستی یقینی بنانے کے لیے خلق کیا ہے۔ فکری نظاموں کی تعریف صرف الٰہیات سے متعین نہیں ہوتی۔ اس سلسلے میں فکری نظاموں کے تصور علم کا بھی مرکزی کردار ہوتا ہے۔ اتفاق سے اسلام اور سوشلزم کا تصور علم ایک دوسرے کی ضد ہے۔ اسلام صاف کہتا ہے کہ سب سے برتر علم وحی کا علم ہے۔ اس لیے کہ وحی کا علم اللہ تعالیٰ کی عطا ہے اور خدا سے بڑا عالم کوئی نہیں ہے۔ اس کے برعکس سوشلزم سرسے وحی ہی کا منکر ہے اس لیے کہ وہ رسالت کے ادارے کو تسلیم ہی نہیں کرتا۔ جب کوئی رسالت نہیں تو کوئی وحی بھی نہیں۔ سوشلزم کا تصورِ علم یہ ہے کہ انسانی عقل سے پیدا ہونے والا علم سب سے اعلیٰ اور برتر ہے اور انسان کو اس علم پر بھروسا کرنا چاہیے۔ فکری نظاموں کے دائرے میں ان کے تصور انسان کی بھی بڑی اہمیت ہے۔ اسلام کا تصور انسان یہ ہے کہ انسان اشرف المخلوقات ہے۔ وہ روح، نفس اور جسم کا مرکب ہے۔ ہمارے صوفیا نے کہا ہے کہ انسان کائنات اصغر ہے۔ اس کے برعکس سوشلزم کا تصور انسان یہ ہے کہ انسان صرف ایک جسمانی حقیقت ہے۔ اس کے اندر نہ روح موجود ہے نہ اس کے اندر نفس امارہ، نفس لوامہ یا نفس مطمئنہ نام کی کوئی چیز پائی جاتی ہے۔ بلاشبہ سوشلزم بھی دو سرے حیوانوں پر انسان کی برتری کا قائل ہے لیکن سوشلزم بھی ڈارون کے تصور ارتقا پر ایمان رکھتا ہے اور اس کا بھی یہ خیال ہے کہ انسان بندر کی ترقی یافتہ شکل ہے۔ اسلام کے فکری نظام میں عقیدہ آخرت کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ اسلام کہتا ہے کہ دنیا کی زندگی تو صرف امتحان ہے اور جو شخص اس امتحان میں کامیاب ہوگا اس کو آخرت میں جنت ملے گی۔ چناں چہ اسلام اپنے ماننے والوں سے کہتا ہے کہ آخرت کے لیے عمل کرو۔ یہ دنیا چار دن کی ہے اس کے برعکس آخرت کی زندگی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہے۔ اسلام کے برعکس سوشلزم کا کوئی تصور آخرت ہی نہیں ہے۔ سوشلزم کہتا ہے جو کچھ ہے یہی دنیا ہے۔ اس دنیا کے سوا اور کوئی دنیا نہیں ہے۔ جنت اور دوزخ مذہب کے گھڑے ہوئے افسانے ہیں۔ اسلام کا تصور تخلیق بھی سوشلزم کے تصور تخلیق سے یکسر مختلف ہے۔ اسلام کہتا ہے کہ خدا ایسا خلّاق ہے کہ اس نے کن کہا اور یہ کائنات تخلیق کردی۔ سوشلزم کہتا ہے کہ کائنات خدا نے خلق نہیں کی بلکہ یہ Big Bang کا نتیجہ ہے۔ ابتدا میں ایک انتہائی کثیف ذرہ موجود تھا۔ پھر اس ذرے میں اچانک دھماکا ہوا اور یہ ذرا پھیلتا پھیلتا کائنات بن گیا۔
اسلام اور سوشلزم کا تصور اخلاق بھی ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ اسلام معروضی اخلاق یا Objective Morality پر ایمان رکھتا ہے۔ چناں چہ اس کے حلال و حرام کبھی نہیں بدلتے۔ شراب اسلام کے آغاز میں بھی حرام تھی اور آج چودہ سو سال بعد بھی حرام ہے۔ زنا چودہ سو سال پہلے بھی گناہ کبیرہ تھا اور آج بھی گناہ کبیرہ ہے۔ اس کے برعکس سوشلزم کا تصور اخلاق موصنوعی یا Subjective ہے۔ چناں چہ سوشلزم کے حلال و حرام بدل سکتے ہیں۔ چین ایک سوشلسٹ ملک ہے اور چالیس سال پہلے چین میں سرمایہ داری حرام تھی مگر آج حلال ہے۔ آپ نے دیکھا اسلام اور سوشلزم میں کوئی قدر مشترک ہی نہیں ہے مگر ڈاکٹر عالیہ امام فرما رہی ہیں کہ اسلام اور سوشلزم ایک ہی ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ عالیہ امام نہ اسلام کو جانتی ہیں نہ سوشلزم سے آگاہ ہیں۔ وہ ساری زندگی نہ اسلام سے واقف ہوئیں نہ انہوں نے سوشلزم کو سمجھ کر دیا۔ ڈاکٹر عالیہ امام نے یہ بھی فرمایا کہ اسلام چند لوگوں کی حاکمیت کی بات نہیں کرتا۔ حیرت ہے کہ ڈاکٹر عالیہ امام کو اتنی سی بات بھی معلوم نہیں کہ اسلام میں حاکمیت صرف اللہ کے لیے خاص ہے۔ انسان اس زمین پر صرف اللہ کا نائب ہے۔ چناں چہ اسلام میں چند افراد کی حاکمیت کا تصور ہے نہ عوام کی اکثریت کی حاکمیت کا تصور ہے۔ پاکستان کا موجودہ آئین ایک سوشلسٹ بھٹو کا بنایا ہوا ہے لیکن اس آئین میں لکھا ہوا ہے کہ حاکمیت صرف خدا کے لیے ہے اور پاکستان میں قرآن و سنت سے متصادم قانون نہیں بنایا جاسکتا۔ عالیہ امام نے یہ بھی فرمایا کہ اسلام کی بنیاد عقل پر ہے۔ یہ بھی ایک خود فریبی اور ایک بہت بڑا فکری مغالطہ ہے۔ بلاشبہ اسلام عقل کا قائل ہے اور اسے بڑی اہمیت دیتا ہے لیکن اسلام صاف کہتا ہے کہ انسانی عقل وہی ٹھیک ہے۔ جو وحی کی روشنی میں کام کرے اور عقل پر وحی کی بالادستی کو تسلیم کرے۔ جو عقل وحی کی روشنی میں کام کرتی ہے نہ اپنے اوپر وحی کو بالادست مانتی ہے وہ عقل سراسر ضلالت اور گمراہی ہے۔ امام غزالی کے زمانے میں بہت سے علم فلسفی عقل پر وحی کی بالادستی کے قائل نہیں رہ گئے تھے۔ چناں چہ غزالی نے ان کے خلاف فکری جہاد کیا۔ یہ ٹھیک ہے کہ اسلام بھی ایک انقلابی قوت ہے اور سوشلزم بھی کبھی ایک انقلابی قوت تھا مگر اسلام نے جہاں اپنی انقلابی روح کا اظہار کیا ہے وہاں اس نے ایک ’’خدا مرکز‘‘ معاشرہ قائم کیا ہے۔ اس کے برعکس سوشلزم نے ہر جگہ ’’انسان مرکز‘‘ معاشرے کو جنم دیا ہے۔ یہاں تک کہ اب تو سوشلزم فنا ہی ہوگیا ہے۔ سوشلزم کے فنا ہوجانے کا عمل بھی سوشلزم پر اسلام کی بالادستی کو ہمارے سامنے لاتا ہے۔ اسلام چودہ سو سال پہلے آیا تھا مگر اسلام آج بھی زندہ ہے۔ اس کے عقائد پر ایک ارب 80 کروڑ مسلمانوں کا کامل ایمان ہے۔ اس کی عبادات کا نظام پوری طرح محفوظ ہے۔ مسلمانوں کے حلال و حرام وہی ہیں جو اسلام نے انہیں سکھائے ہیں۔ اسلام کے تصور جہاد نے افغانستان میں وقت کی دو سپر پاورز کو منہ کے بل گرایا ہے۔ اس کے برعکس سوشلزم کا کچھ بھی محفوظ نہیں رہا۔ سوشلزم صرف 70 سال میں بکھر گیا اور آج دنیا میں اس کا کوئی نام لیوا موجود نہیں۔
ڈاکٹر عالیہ امام نے اپنے انٹرویو میں صرف فکری موضوعات کے حوالے سے خود فریبی اور فکری مغالطوں کے دریا نہیں بہائے، انہوں نے تاریخی حقائق کو بھی مسخ کیا ہے۔
انٹرویو لینے والے نے قیام پاکستان کے بعد ہندوستان کے ماحول کو ٹٹولنا چاہا تو ڈاکٹر عالیہ امام نے فرمایا کہ ہندوستان میں گاندھی اور نہرو جیسی ہستیاں تھیں جو کوئی تفریق نہیں کرتی تھیں۔ ہندوستان کی جمہوری فضا اتنی بلند تھی کہ مسلمان اور ہندو ایک دوسرے کے تہواروں میں شرکت کرتے تھے۔
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ گاندھی اور نہرو ہندو اور مسلمانوں میں تفریق کرتے تھے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو پاکستان کبھی قائم نہ ہوتا۔ ہمارے سامنے مولانا محمد علی جوہر کی ایک تقریر رکھی ہوئی ہے۔ یہ تقریر انہوں نے 1930ء میں کی تھی۔ اس تقریر میں مولانا محمد علی جوہر نے گاندھی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہندوستان کے کٹر ہندو شدھی کی تحریک چلا رہے اور مسلمانوں کو جبراً ہندو بنانے میں مصروف ہیں مگر گاندھی انہیں کچھ نہیں کہتے۔ گاندھی اور نہرو اگر مسلمانوں میں تفریق نہ کرتے تو شدھی تحریک ایجاد ہی نہیں ہوسکتی تھی۔ یہ بات بھی تاریخ کے ریکارڈ پر موجود ہے کہ یہ گاندھی تھے جنہوں نے فارسی اور اردو کو مسلمانوں کی زبانیں قرار دے کر پس منظر میں دھکیلا اور ہندی کو ہندوئوں کی زبان کے طور پر فروغ دیا۔ منشی پریم چند اردو افسانے کے بنیاد گزار ہیں مگر گاندھی کے زیر اثر انہوں نے اردو میں افسانے لکھنے ترک کردیے اور وہ ہندی میں افسانے لکھنے لگے۔ یہ حقیقت بھی سب کے سامنے ہے کہ نہرو کی بہن وجے لکشمی پنڈت نے ایک مسلمان سے شادی کرلی تھی گاندھی کو اس شادی کا علم ہوا تو انہوں نے وجے لکشمی پنڈت کو طلب کیا اور سخت ناراض ہوئے۔ انہوں نے وجے لکشمی پنڈٹ سے کہا کہ کروڑوں ہندوئوں میں تمہیں ایک شخص بھی ایسا نظر نہیں آیا جس سے تم شادی کرسکو۔ انہوں نے وجے لکشمی پنڈٹ پر اتنا دبائو ڈالا کہ انہوں نے مسلمان کے ساتھ اپنی شادی ختم کردی۔ یہ تمام حقائق بتا رہے ہیں کہ گاندھی ہندوئوں اور مسلمانوں میں تفریق کرتے تھے۔ مولانا ابوالکلام آزاد نے اپنی کتاب India wins freedom کے ان صفحات میں جو ان کے انتقال کے 30 سال بعد شائع ہوئے لکھا ہے کہ دہلی میں مسلم کش فسادات ہوئے تو میں نے نہرو سے کئی بار کہا کہ وہ فسادات کو روکنے کے لیے کچھ کریں مگر نہرو ہر بار یہی کہتے تھے کہ میں وزیرداخلہ سردار پٹیل کو کئی بار کہہ چکا ہوں کہ وہ فسادات روکیں مگر سردار پٹیل میری بات ہی نہیں مانتے۔ نہرو جدوجہد آزادی کے ہیرو تھے۔ وہ گاندھی کے بعد کانگریس کے اہم ترین رہنما تھے۔ وہ ملک کے وزیراعظم تھے۔ کیا سردار پٹیل ان کے کسی حکم کو نظر انداز کرسکتے تھے۔ اصل بات یہ تھی کہ نہرو ہندوئوں اور مسلمانوں میں تفریق کرتے تھے۔ چناں چہ انہوں نے دہلی تک میں مسلمانوں کو فسادیوں سے بچانے کے لیے کچھ نہیں کیا۔ عالیہ امام کا یہ بیان بھی صریح جھوٹ ہے کہ ہندو اور مسلمان ایک دوسرے کے تہواروں میں شرکت کرتے تھے۔ ہمارے بزرگ بتاتے ہیں کہ ہندوستان میں مسلمانوں اور ہندوئوں کی عظیم اکثریت کے محلے تک جدا تھے۔ مسلمانوں کی عظیم اکثریت ہندوئوں کے تہواروں سے دور رہتی تھی۔ خاص طور پر ہولی سے۔ اس لیے کہ ہولی رنگوں کا تہوار ہے۔ مسلمانوں میں ہولی کے حوالے سے یہ خیال پایا جاتا تھا کہ اگر کسی مسلمان کے جسم پر ہولی کا رنگ لگ گیا تو جسم کا وہ حصہ جہنم میں ضرور جلے گا۔ البتہ مسلمانوں کی اشرافیہ کا ایک قلیل حصہ ایسا تھا جو ہندوئوں کے تہواروں میں شرکت کرتا تھا۔ لیکن چند مسلمانوں کو مسلم قوم کی اکثریت کا نمائندہ باور کرنا پر لے درجے کے غلط بیانی ہے۔

Leave a Reply