کراچی کی تباہی کے ذمے دار

میر تقی میر نے دلّی کا مرثیہ لکھا تو فرمایا:
کیا بودو باش پوچھو ہو پورب کے ساکنو
ہم کو غریب جان کے ہنس ہنس پکار کے
دلّی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب
رہتے تھے منتخب ہی جہاں روزگار کے
اس کو فلک نے لوٹ کے برباد کردیا
ہم رہنے والے ہیں اسی اجڑے دیار کے
دلّی کی بربادی کا یہ ماتم مذاق نہیں تھا۔ دلّی ہندوستان کا دل تھا۔ دلّی میں پورے ہندستان کے اہل کمال جمع ہوگئے تھے۔ چناں چہ دلّی اُجڑی تو پورا ہندوستان اُجڑ گیا۔ کراچی کا معاملہ بھی دلّی سے مختلف نہیں۔ کراچی میں پورے برصغیر کے اہل کمال کی کہکشاں موجود تھی۔ چناں چہ کراچی برباد ہوا تو شہر کیا پورا برصغیر اُجڑ گیا۔ لیکن بدقسمتی سے کراچی کو میر جیسا مرثیہ نگار میسر نہیں آسکا۔ صرف ایک سلیم احمد تھے جنہوں نے کراچی کی تباہی سے ذرا پہلے کراچی کی بربادی کی پیشگوئی کرتے ہوئے کہہ دیا تھا۔
جیسے یہ شہر کل نہیں ہوگا
جانے کیا وہم ہو گیا ہے مجھے
بدقستی سے کراچی کی تباہی میں پاکستان کے فوجی اور سول حکمرانوں نے یکساں کردار ادا کیا ہے۔ جنرل ایوب سے پہلے کراچی میں مہاجر پٹھان کشمکش کا کوئی وجود نہ تھا مگر جنرل ایوب کے فرزند گوہر ایوب نے کراچی میں پشتونوں کا جلوس نکال کر کراچی کی فضا میں لسانی زہر گھول دیا۔ جنرل ایوب سے پہلے کراچی ملک کا دارالحکومت تھا اور کراچی کو دارالحکومت بنانے کا فیصلہ قائداعظم نے کیا تھا۔ اس فیصلے کے اسباب تھے۔ کراچی ملک کی واحد بندرگاہ تھا۔ کراچی پاکستان کا سب سے بڑا صنعتی مرکز تھا۔ کراچی میں ملک کا واحد بین الاقوامی ہوائی اڈا موجود تھا۔ کراچی شہر قائد تھا۔ کراچی ایک زمانے تک منی برصغیر تھا۔ چناں چہ کراچی کی تزویراتی اہمیت غیر معمولی تھی مگر جنرل ایوب نے قائداعظم کی پسند اور بصیرت دونوں کو روند ڈالا۔ انہوں نے اسلام آباد بسا کر اسے ملک کا دارالحکومت بنا ڈالا۔ حالاں کہ اسلام آباد میں نہ اسلام تھا اور نہ ہی اسلام آباد میں بڑی آبادی تھی۔ دارالحکومت کی یہ تبدیلی بتا رہی تھی کہ اب پاکستان کی سیاست اور پاکستان کی تقدیر ’’پنجاب مرکز‘‘ اور GHQ Centric ہوگی۔ یہ بات بھی ہمارے تاریخی ریکارڈ کا حصہ ہے کہ مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح جب تک زندہ رہیں انہوں نے کراچی ہی کو اپنا مرکز بنائے رکھا۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو فاطمہ جناح کراچی کی اور کراچی فاطمہ جناح کی علامت تھا۔ لیکن جنرل ایوب نے یہاں بھی کراچی پر حملے سے گریز نہیں کیا۔ انہوں نے قومی اخبارات میں آدھے صفحے کے ایسے اشتہار شائع کرائے جن میں فاطمہ جناح کو ’’بھارتی ایجنٹ‘‘ قرار دیا گیا تھا۔ یہ تو اچھا ہی ہوا قائداعظم 1947ء میں دنیا سے رخصت ہوچکے تھے قائداعظم زندہ ہوتے تو جنرل ایوب انہیں بھی بھارتی ایجنٹ قرار دلوا دیتے۔ ملک میں صدارتی انتخابات ہوئے تو مغربی پاکستان میں صرف کراچی ایسا شہر تھا جہاں محترمہ فاطمہ جناح نے جنرل ایوب کو شکست فاش دی تھی۔ اس سے ثابت ہوا کہ کراچی پورے مغربی پاکستان سے زیادہ صاحب شعور بھی تھا اور آمریت کی مزاحمت کرنے والا بھی۔
ذوالفقار علی بھٹو ملک کے پہلے مقبول ِ عوام سول حکمران تھے۔ وہ ’’اسلامی سوشلزم‘‘ کے علمبردار تھے۔ یہ ایک بے معنی اصطلاح تھی اس لیے کہ اسلام سوشلزم کی اور سوشلزم اسلام کی ضد تھا۔ لیکن بھٹو صاحب کی دلجوئی کے لیے ایک لمحے کے لیے اس اصطلاح کو قبول کرلیا جائے تو کہا جائے گا کہ نہ اسلام معاشرے کی بنیادی اکائیوں کو باہم لڑانے کی اجازت دیتا ہے نہ سوشلزم نے معاشرے کی بنیادی اکائیوں کو باہم دست و گریبان کیا تھا۔ لیکن بھٹو صاحب نے سندھ میں لسانی بل اور کوٹا سسٹم متعارف کراکے سندھ کے دیہی اور شہری علاقوں کو ایک دوسرے کا دشمن بنادیا۔ لسانی بل اور کوٹا سسٹم کی وجہ سے اردو اور سندھی ایک دوسرے کے مقابل آگئیں اور مہاجر اور سندھی ایک دوسرے کے حریف بن کر کھڑے ہوگئے۔ لسانی بل کی وجہ سے سندھ میں لسانی فسادات ہوئے۔ اس پوری صورت حال کا سب سے زیادہ گہرا اثر کراچی نے قبول کیا۔ اردو صرف مہاجروں کی زبان نہیں تھی، اردو پورے برصغیر کی زبان تھی مگر بھٹو صاحب کے لسانی بل نے اردو کو صرف مہاجروں کی زبان بنادیا تھا۔ یہ لسانی وحشت کی ایک مثال تھی۔ اس مثال سے متاثر ہو کررئیس امروہوی نے ’’اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے‘‘ کے عنوان سے ایک طویل نظم لکھی جو روزنامہ جنگ کراچی میں 8 جولائی 1972ء کو شائع ہوئی۔
کیوں جانِ حزیں خطرہِ موہوم سے نکلے
کیوں نالۂ حسرت دلِ مغموم سے نکلے
آنسو نہ کسی دیدئہ مظلوم سے نکلے
کہہ دو کہ نہ شکوہ لبِ مغموم سے نکلے
اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے
اردو کا غمِ مرگ سبک بھی ہے گراں بھی
ہے شاملِ ارباب عزا شاہ جہاں بھی
مٹنے کو ہے اسلاف کی عظمت کا نشاں بھی
یہ میّتِ غم دہلیِ مرحوم سے نکلے
اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے
اے تاج محل نقش بہ دیوار ہو غم سے
اے قلعۂ شاہی یہ الم پوچھ نہ ہم سے
اے خاکِ اودھ فائدہ کیا شرحِ ستم سے
تحریک یہ مصر و عرب و روم سے نکلے
اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے
سایہ ہو جب اردو کے جنازے پہ ولیؔ کا
ہوں میر تقیؔ ساتھ تو ہم راہ ہوں سوداؔ
دفنائیں اسے مصحفیؔ و ناسخؔ و انشاؔ
یہ فال ہر اک دفترِ منظوم سے نکلے
اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے
بد ذوق ہے احباب سے گو ذوق ہیں رنجور
اردوئے معلی کے نہ ماتم سے رہیں دور
تلقین سرِ قبر پڑھیں مومنِ مغفور
فریاد دلِ غالبِؔ مرحوم سے نکلے
اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے
ہے مرثیہ خواں قوم میں اردو کے بہت کم
کہہ دو کہ انیسؔ اس کا لکھیں مرثیہِ غم
جنت سے دبیرؔ آ کے پڑھیں نوحہِ ماتم
یہ چیخ اُٹھے دل سے نہ حلقوم سے نکلے
اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے
اس لاش کو چپکے سے کوئی دفن نہ کر دے
پہلے کوئی سرسیدِؔ اعظم کو خبر دے
وہ مردِ خدا ہم میں نئی روح تو بھر دے
وہ روح کہ موجود نہ معدوم سے نکلے
اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے
اردو کے جنازے کی یہ سج دھج ہو نرالی
صف بستہ ہوں مرحومہ کے سب وارث و والی
آزادؔ و نذیرؔ و شررؔ و شبلیؔ و حالیؔ
فریاد یہ سب کے دلِ مغموم سے نکلے
اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے
بدقسمتی سے کوٹا سسٹم کے بارے میں نہ مہاجروں نے انصاف سے کام لیا نہ سندھیوں نے۔ کوٹا سسٹم ایک مخصوص عرصے کے لیے سندھ کی ضرورت تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ مہاجروں میں تعلیم اور اہلیت کی فراوانی تھی اور سندھی نوجوان میرٹ پر مہاجر نوجوانوں کا مقابلہ نہیں کرسکتے تھے۔ چناں چہ دس پندرہ سال کے لیے انہیں کوٹا سسٹم کا تحفظ فراہم کرنا ضروری تھا لیکن بدقسمتی سے ملک چلانے والوں نے سندھ میں کوٹا سسٹم کو دائمی بنا کر علم اور اہلیت کے گلے پر پائوں رکھ دیا۔ لیکن کراچی کے ساتھ سب سے بڑا ظلم جنرل ضیا الحق نے کیا۔
انہوں نے کوٹا سسٹم میں توسیع کرکے اسے دائمی بنایا اور دوسری جانب انہوں نے الطاف حسین اور ایم کیو ایم کی سرپرستی کی۔ مہاجروں کی عظیم اکثریت مذہبی تھی۔ الطاف حسین نے انہیں سیکولر بنادیا۔ مہاجروں کا تشخص امن تھا، الطاف حسین نے دہشت گردی کو مہاجروں کا تشخص بنادیا۔ مہاجروں کی پہچان علم تھا الطاف حسین نے مہاجر نوجوانوں کو نقل کا رسیا بنادیا۔ مہاجر اپنی اہلیت سے پہچانے جاتے تھے۔ الطاف حسین نے انہیں بھتا خور بنادیا۔ کراچی مفسر قرآن مفتی شفیع، محمد حسن عسکری، سلیم احمد، قمر جمیل اور اشتیاق حسین قریشی جیسے لوگوں سے جانا جاتا تھا۔ الطاف حسین نے ان کی جگہ لنگڑے، ٹنڈے اور کانے لاکر کھڑے کردیے۔ جنرل ضیا الحق کے بعد جنرل پرویز مشرف نے کھل کر الطاف حسین اور ایم کیو ایم کی سرپرستی کی۔ الطاف حسین نے دہلی میں سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے صاف کہا کہ اگر وہ 1947ء میں ہوتے تو ہرگز پاکستان کے حق میں ووٹ نہ دیتے مگر جنرل پرویز مشرف نے دہلی میں پاکستانی سفارت خانے کو حکم دیا کہ وہ الطاف حسین کو سفارت خانے میں مدعو کرکے ان کے اعزاز میں ضیافت کا اہتمام کرے۔ یہ بات بھی تاریخ کے ریکارڈ پر موجود ہے کہ الطاف حسین فوجی اسٹیبلشمنٹ کی مرضی سے ملک سے فرار ہوئے۔ فوجی اسٹیبلشمنٹ انہیں گرفتار کرنا چاہتی تو آسانی سے گرفتار کرسکتی تھی مگر اس نے الطاف حسین کو ملک سے فرار ہونے کا موقع دیا۔ الطاف حسین اور ایم کیو ایم کے خلاف دو فوجی آپریشن ہوئے مگر ان آپریشنوں نے ’’ظالم‘‘ ایم کیو ایم کو ’’مظلوم‘‘ بنا کر کھڑا کردیا۔ اس کی سب سے بڑی مثال یہ ہے کہ 1992ء میں ایم کیو ایم کے خلاف فوجی آپریشن شروع ہوا تو بریگیڈیئر ہارون نے کراچی میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ الطاف حسین اور ایم کیو ایم کراچی کو ’’جناح پور‘‘ بنانے کی سازش کررہے ہیں۔ یہ ایک بہت بڑا اور سنگین الزام تھا اور اس سلسلے میں ٹھوس شہادتیں پیش کرنا ضروری تھیں مگر فوجی آپریشن کرنے والوں نے ایسا کرنے کے بجائے پریس کانفرنس کے اگلے ہی روز بریگیڈیئر ہارون کو اسلام آباد بلالیا۔
اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ظالم ایم کیو ایم مظلوم ایم کیو ایم بن گئی۔ 1992ء کے فوجی آپریشن سے ایم کیو ایم کا تو کچھ نہ بگڑا البتہ اس آپریشن سے کراچی کے شہریوں کی خوب تذلیل کی گئی۔ ہم 1992ء میں ایک رات شادی کی تقریب سے گھر لوٹ رہے تھے کہ فوجیوں نے گھر کے قریب ہماری ٹیکسی کو روک لیا۔ اور اس کی تلاشی لینے لگے۔ تلاشی لیتے ہوئے وہ اس امر کا بھی خیال نہیں کررہے تھے کہ ٹیکسی میں خواتین موجود ہیں۔ اس زمانے میں ہم سگریٹ پیتے تھے اور ایک ماچس ہمارے ہاتھ میں تھی۔ ایک فوجی نے ہمیں پریشان کرنے کے لیے پوچھا اس ماچس میں کیا ہے؟ ہم نے عرض کیا اس میں آگ ہے۔
کراچی کی تباہی و بربادی کا ایک پہلو چند ماہ پیش تر عجیب انداز میں سامنے آیا۔ جنرل باجوہ کراچی کے دورے پر تشریف لائے تو کراچی کے ممتاز تاجروں اور صنعت کاروں کے ایک وفد نے ان سے ملاقات کی۔ ملاقات کرنے والوں نے جنرل باجوہ کو آگاہ کیا کہ کراچی کا بنیادی ڈھانچہ تباہ ہوگیا ہے۔ سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ جگہ جگہ گٹر اُبل رہے ہیں۔ پورا شہر کچرا کنڈی بنا ہوا ہے۔ بجلی کی لوڈشیڈنگ نے پیداوار کو بری طرح متاثر کیا ہوا ہے۔ جنرل باجوہ نے یہ باتیں غور سے سنیں اور ان مسائل کو حل کرنے کی یقین دہانی کرانے کے بجائے انہوں نے کراچی کے تاجروں اور صنعت کاروں سے فرمایا کہ آپ لوگ پنجاب میں سرمایہ کاری کریں وہاں آپ کو سب سہولتیں فراہم کی جائیں گی۔ معلوم نہیں یہ جنرل باجوہ کی ’’پاکستانیت‘‘ تھی یا ’’فوجیت‘‘ یا ’’پنجابیت‘‘۔ البتہ اس واقعے سے یہ حقیقت ایک بار پھر آشکار ہوگئی کہ کراچی کی تباہی و بربادی ’’اتفاقی‘‘ بات نہیں۔

Leave a Reply