خاتون خانہ بمقابلہ پیشہ ور خاتون

بعض انگریزی اخبارات میں قارئین کے مسائل کے حوالے سے ان کی رہنمائی کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ قارئین خطوط کی صورت میں مسئلہ بیان کرتے ہیں اور کوئی ماہر قارئین کو ان کے مسائل کا تجزیہ کرکے مسائل کا حل تجویز کرتا ہے۔ ان خطوط میں اکثر نوجوانوں کا سب سے بڑا مسئلہ محبت میں ناکامی سے متعلق ہوتا ہے لیکن کبھی کبھی ان خطوط میں ایسے مسائل بھی سامنے آجاتے ہیں جو بدلتی ہوئی سماجی نفسیات کے عکاس ہوتے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے ایک انگریزی اخبار میں ایک نوجوان لڑکی کا خط شائع ہوا۔ نوجوان لڑکی کا مسئلہ عجیب تھا۔ اس نے لکھا کہ میں نے ایم بی بی ایس کرلیا ہے لیکن میں ڈاکٹر بن کر پریکٹس نہیں کرنا چاہتی۔ اس کے برعکس میری خواہش ہے کہ میری شادی ہوجائے اور میں ایک خاتون خانہ یا گھریلو عورت کی زندگی بسر کروں۔ لڑکی نے لکھا کہ میرے اس خیال نے گھر میں ہنگامہ برپا کردیا ہے۔ میرے والدین، میرے رشتے دار، میرے بڑے بہن بھائی سب میرے خلاف ہوگئے ہیں۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ تم اگر ڈاکٹر نہ بنیں تو ہماری ناک کٹ جائے گی۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ گھریلو عورت کی زندگی بھی کوئی زندگی ہے، اصل زندگی تو پیشہ ورانہ ہے۔ اکبر الٰہ آبادی نے آج سے دو سو سال پہلے کہا تھا۔
تعلیم لڑکیوں کی ضروری تو ہے مگر
خاتون خانہ ہو وہ سبھا کی پری نہ ہوں
لیکن دو سو سال میں مغرب کے زیر اثر ہماری معاشرت اتنی بدل گئی ہے کہ اب ہمارے معاشرے میں خاتون خانہ مردہ باد، پیشہ ور خاتون زندہ باد کے نعرے لگ رہے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ اب پیشہ ورانہ زندگی صرف تعلیم و تدریس اور طب تک محدود نہیں۔ اب تو اداکارہ بھی ایک پیشہ ور ہے اور ماڈل گرل بھی ایک پیشہ ور ہے۔ چناں چہ مغرب کی طرح ہمارے معاشرے میں بھی لاکھوں لڑکیاں پیشہ ور ہونے کے خواب دیکھ رہی ہیں اور ان کی تمنا ہے کہ وہ کسی طرح خاتون خانہ نہ بنیں بلکہ اکبرالٰہ آبادی کی سبھا کی پری بن جائیں۔ مغرب میں تو اب یہ حال ہوگیا ہے کہ شادی کا ادارہ منہ کے بل گر گیا ہے۔ مغرب میں کروڑوں لڑکے اور لڑکیاں شادی کے بغیر ایک ساتھ رہ رہے ہیں۔ مغرب میں اب ہم جنس پرستوں کی تعداد بھی کروڑوں میں ہے اور ہم جنس پرستی روایتی شادی کے ادارے کی ضد ہے۔ اس کی تردید ہے، اس کی تکذیب ہے، مغرب میں کروڑوں لڑکیاں ایسی ہیں جو شادی کے بجائے صرف پیشہ ورانہ زندگی کے خواب دیکھتی ہیں۔ بدقسمتی سے مغرب کے زیر اثر ہمارے معاشرے میں بھی خاتون خانہ ایک معمولی چیز بن گئی ہے اور پیشہ ور خاتون کا کردار ایک کرداری نمونہ بن کر ابھر چکا ہے۔
مذاہب عالم کی تاریخ ہمارے سامنے ہے۔ اس تاریخ میں عورت کسی پیشے کے بغیر صرف عورت اور ایک گھریلو عورت کی حیثیت سے محترم اور مکرم ہے۔ سیدہ حاجرہ سیدنا ابراہیمؑ کی زوجہ تھیں مگر ان کی عظمت یہ ہے کہ ان کے قصے تو خدائے بزرگ و برتر نے قرآن مجید میں ہمیشہ کے لیے یادگار بنادیا ہے۔ سیدنا ابراہیمؑ جب سیدہ حاجرہ اور سیدنا اسمعٰیلؑ کو لق و دق صحرا میں چھوڑ کر گئے تو سیدہ حاجرہ پانی کی تلاش میں کبھی اِدھر دوڑ رہی تھیں کبھی اُدھر دوڑ رہی تھیں۔ اللہ تعالیٰ کو آپ کی یہ ادا اتنی پسند آئی کہ اسے سعی کی صورت میں مسلمانوں کی عظیم عبادت حج کا حصہ بنا کر رہتی دنیا تک کے لیے زندہ و تابندہ کردیا۔ سیدہ مریمؑ کا بھی کوئی پیشہ ورانہ تشخص نہیں تھا مگر عیسائیت کی تاریخ میں وہ سیدنا عیسیٰؑ کے بعد سب سے اہم شخصیت ہیں۔ خود اسلام میں سیدہ مریمؑ کا یہ مقام ہے کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے ان کی تعریف کی ہے اور سورہ مریم کے عنوان سے ایک صورت کو قرآن کا حصہ بنایا ہے۔ قرآن رسول اکرمؐ پر نازل ہوا مگر قرآن میں نہ کوئی سورہ خدیجہؓ ہے، نہ سورہ فاطمہؓ ہے نہ سورہ عائشہؓ ہے، لیکن قرآن مجید میں سورہ مریم موجود ہے۔ خود اسلام کی تاریخ میں سیدہ خدیجہؓ، سیدہ عائشہؓ اور سیدہ فاطمہؓ کی حیثیت مرکزی ہے۔ سیدہ خدیجہؓ کی اہمیت یہ ہے کہ رسول اکرمؐ پوری زندگی انہیں یاد کرتے رہے۔ سیدہ عائشہؓ کا مقام یہ ہے کہ رسول اکرمؐ کو اپنی بیویوں میں سب سے زیادہ محبت سیدہ عائشہؓ سے تھی۔ سیدہ عائشہؓ کا پوری امت پر یہ احسان ہے کہ مسلمانوں کی ایک چوتھائی فقہ سیدہ عائشہؓ سے ماخوذ ہے۔ سیدہ فاطمہؓ کا معاملہ یہ ہے کہ سیدہ فاطمہؓ تشریف لاتیں تو رسول اکرمؐ کھڑے ہوجاتے تھے اور ان کے لیے اپنی چادر بچھا دیتے تھے۔ جیسا کہ ساری دنیا جانتی ہے ان عظیم خواتین میں کوئی خاتون بھی کسی حوالے سے پیشہ ور نہیں تھی۔ ہندوازم کی تاریخ میں رام اور ان کی بیوی سیتا کا کردار مرکزی ہے۔ سیتا بادشاہ کی بیٹی تھیں مگر جب رام نے چودہ سال کا بن باس یا چودہ سال تک جنگلوں میں رہنا قبول کیا تو سیتا نے بھی عیش و عشرت کی زندگی ترک کرکے اپنے شوہر کے ساتھ جنگلوں میں رہنا پسند کیا۔ ہندوازم میں سیتا کی اہمیت یہ ہے کہ وہ دائمی طور پر ہندو عورتوں کے لیے ایک کرداری نمونہ ہیں۔ ہر اچھی ہندو عورت کا یہ خواب ہوتا ہے کہ وہ سیتا کی طرح بن سکے۔ اسلام میں عورت کی عظمت کا یہ پہلو پوری دنیا کے سامنے ہے کہ جنت ماں کے قدموں تلے ہے اور ماں ہمارے یہاں چودہ سو سال سے ایک خاتون خانہ کا کردار ادا کررہی ہے۔
نپولین نے کہا تھا تم مجھے بہترین مائیں دو میں تمہیں بہترین قوم دوں گا۔ نپولین نے جب مغرب میں کھڑے ہو کر یہ بات کہی تو مغرب میں پیشہ ور خواتین موجود تھیں مگر نپولین نے یہ نہیں کہا کہ تم مجھے بہترین ڈاکٹر دو میں تمہیں بہترین قوم دوں گا۔ اس نے یہ بھی نہیں کہا کہ تم مجھے بہترین انجینئر دو میں تمہیں بہترین قوم دوں گا۔ اس نے یہ بھی نہیں کہا کہ تم مجھے بہترین پیشہ ور عورتیں دو میں تمہیں بہترین قوم دوں گا۔ اس نے کہا تو یہ کہا کہ تم مجھے بہترین مائیں دو میں تمہیں بہترین قوم دوں گا۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر پوری انسانیت نے اپنی چھے ہزار سال کی معلوم تاریخ میں ایک لاکھ عظیم شخصیت پیدا کی ہیں تو یہ تمام شخصیتیں مائوں کی ’’مامتا‘‘ کا حاصل تھیں۔ ان کی پیشہ ورانہ اہلیت کا نہیں۔ اقبال ہمارے عہد کی عظیم شخصیات میں سے ایک ہیں۔ انہوں نے اپنی والدہ کے انتقال پر والدہ مرحومہ کی یاد کے عنوان سے 88 اشعار پر مشتمل ایک طویل نظم کہی ہے۔ اس نظم میں ماں کے لیے اقبال کی وارفتگی ملاحظہ کیجیے۔ لکھتے ہیں۔
کس کو اب ہوگا وطن میں آہ! میرا انتظار
کون میرا خط نہ آنے سے رہے گا بے قرار
خاکِ مرقد پر تری لے کر یہ فریاد آئوں گا
اب دعائے نیم شب میں کس کو میں یاد آئوں گا!
تربیت سے تیری میں انجم کا ہم قسمت ہوا
گھر مرے اجداد کا سرمایۂ عزت ہوا
دفترِ ہستی میں تھی زرّیں ورق تیری حیات
تھی سراپا دین و دنیا کا سبق تیری حیات
عمر بھر تیری محبت میری خدمت گر رہی
میں تری خدمت کے قابل جب ہوا تو چل بسی
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزئہ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے
یہاں کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ اقبال کی والدہ ایک عام گھریلو خاتون تھیں۔ وہ کسی اسکول، کسی کالج، کسی یونیورسٹی کی فارغ التحصیل نہیں تھیں اور نہ انہوں نے کوئی پیشہ ورانہ مہارت حاصل کر رکھی تھی۔
بدقسمتی سے ہمارے زمانے تک آتے آتے گھریلو زندگی کو معمولی چیز سمجھ لیا گیا ہے۔ ہم نے دیہی ماحول میں گھریلو خواتین کی سخت کوشی دیکھی ہے۔ گھروں میں گندم کی فصل آجاتی تھی تو وہ اس سے عہدہ برآ ہوتی تھیں۔ گھر میں چاول آجاتے تھے تو وہ انہیں چھڑ کر انہیں ٹھکانے لگاتی تھیں۔ وہ مردوں کی عدم موجودگی میں جانوروں کو چارہ ڈالتی تھیں۔ انہیں گرمیوں میں گرمی سے بچانے کے لیے سائے میں باندھتی تھیں۔ لکڑیوں سے چلنے والے چولہوں پر دس دس پندرہ پندرہ لوگوں کا کھانا بناتی تھیں۔ سِل بٹے سے سالن کا مصالحہ تیار کرتی تھیں۔ برسات سے ذرا پہلے گھروں کی کچی چھتوں کی لپائی کرتی تھیں۔ دودھ کو بلو کر چھاچھ اور مکھن تیار کرتی تھیں۔ گھر بھر کے کپڑے خود سیتی تھیں۔ خود دھوتی تھیں، خود استری کرتی تھیں، سردیوں میں مردوں اور خواتین کے سوئٹر بنتی تھیں، تکیوں پر اشعار کاڑھتی تھیں، رات گئے بچوں کو کہانیاں سناتی تھیں اور انہیں کبھی یہ شکایت کرتے نہیں دیکھا جاتا تھا کہ وہ بہت کام کرتی ہیں، یا یہ کہ وہ بہت تھک گئی ہیں۔ یا یہ کہ وہ مردوں کے برابر ہوگئی ہیں۔ تجزیہ کیا جائے تو خواتین کے پیشہ ور ہونے میں کوئی برائی نہیں، عورت ڈاکٹر اور استاد ہے تو یہ ایک بہترین بات ہے۔ لیکن خواتین کے پیشہ ور ہونے اور اس بنیاد پر گھریلو خواتین کی توہین کرنے میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ اس مسئلے کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ عورت کی پیشہ ورانہ زندگی سے گھریلو زندگی میں عدم توازن پیدا نہیں ہونا چاہیے۔ خواتین کی پیشہ ورانہ زندگی سے گھریلو زندگی متاثر ہوگی تو تہذیب کی بنیادیں ہل کر رہ جائیں گی۔

Leave a Reply