اسٹیبلشمنٹ کی ایم کیو ایم پرستی

کراچی میں ایم کیو ایم ہر اعتبار سے مرتی ہوئی تنظیم ہے۔ اس کا نظریہ پٹ چکا ہے۔ اس کا قائد مفرور ہے۔ اس کا ووٹ بینک سکڑ رہا ہے۔ اس کے نعرے مردہ ہوچکے ہیں۔ عوام ایم کیو ایم کے کسی دعوے پر اعتبار کے لیے تیار نہیں۔ ایم کیو ایم کی انتخابی کارکردگی یہ ہے کہ فاروق ستار قومی اسمبلی کا انتخاب لڑتے ہیں تو انہیں دو ہزار ووٹ ملتے ہیں۔ یہ کراچی کے لیے ہر اعتبار سے اچھی اطلاعات ہیں۔ مگر ہمیشہ کی طرح اس بار بھی اسٹیبلشمنٹ ایم کیو ایم کے تن ِ مردہ میں جان ڈالنے کے لیے متحرک ہے۔ اسٹیبلشمنٹ زدہ سندھ کے گورنر کامران ٹیسوری ایم کیو ایم کے دھڑوں کو ایک کرنے کے لیے دن رات ایک کیے ہوئے ہیں۔ فاروق ستار جنہیں ایم کیو ایم پاکستان سے سو شکایات تھیں وہ ایم کیو ایم کو گلے لگانے اور خالد مقبول صدیقی کی قیادت میں کام کرنے کے لیے آمادہ ہیں۔ مصطفی کمال کے لیے ایم کیو ایم پاکستان الطاف حسین کا ورثہ تھی مگر وہ بھی اب ایم کیو ایم میں شمولیت پر آمادہ ہیں۔ ایم کیو ایم حقیقی کے بارے میں اطلاع ہے کہ وہ بھی قوم کے وسیع تر مفاد میں ایم کیو ایم کا حصہ بننے کے لیے تیار ہے۔ ایم کیو ایم کی تاریخ یہ ہے کہ اسے جنرل ضیا الحق نے خلق کیا۔ ایجنسیوں نے الطاف حسین کو پاکستان سے باہر جانے کے لیے ’’Safe Exit‘‘ دیا۔ جنرل پرویز مشرف نے ایم کیو ایم اور الطاف حسین کی کھل کر سرپرستی کی۔ اب ایم کیو ایم فطری موت مر رہی ہے اور کراچی لسانیت کے تعصب سے آزاد ہورہا ہے تو اسٹیبلشمنٹ ایم کیو ایم کو ایک بار پھر بڑی سیاسی قوت بنانے کے لیے کوشاں ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کی یہ پالیسی پاکستان دشمنی کے سوا کیا ہے؟
پاکستان اسلام کے نام پر وجود میں آیا تھا اور اسلام میں کسی نسلی، جغرافیائی یا لسانی تعصب کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ قرآن مسلمانوں کو مخاطب کرکے صاف کہتا ہے کہ اللہ کی رسّی کو مضبوطی سے تھام لو اور فرقوں میں بٹ کر نہ رہ جائو۔ چناں چہ جو قوت اسلامی معاشرے میں تعصب کو ہوا دیتی ہے، اس کو تحفظ مہیا کرتی ہے وہ اللہ کی رسّی کو توڑتی ہے اور امت کو ٹکڑوں میں تقسیم کرتی ہے۔ اسلام کا تصور انسان یہ ہے کہ اسلام پوری انسانیت کو اللہ کا کنبہ قرار دیتا ہے اور اس کی خواہش یہ ہے کہ پوری انسانیت صرف خدا مرکز، God Centric بن کر اُبھرے۔ وہ قرآن اور اللہ کے آخری نبی کو اپنا رہنما تسلیم کرے اور رنگ و نسل، زبان، جغرافیے اور فرقوں اور مسالک کے تعصبات کو بھول جائے۔ رسول اکرمؐ کی مدنی زندگی کا مشہور واقعہ ہے کہ ایک مہاجر اور انصاری میں جھگڑا ہوگیا۔ مہاجر نے اپنے قبیلے کو مدد کے لیے پکارا اور انصاری نے مدد کے لیے اپنے قبیلے کو آواز دی۔ کسی شخص نے رسول اکرمؐ کو جا کر اس بات کی اطلاع دی تو رسول اکرمؐ جائے وقوع پر تشریف لائے۔ آپؐ کا چہرئہ انور ناراضی سے سرخ تھا۔ آپؐ نے متحارب فریقوں سے کہا کہ اسلام نے تمہیں جن گڑھوں سے نکالا تھا تم دوبارہ ان میں جاگرے۔ یہ سن کر مہاجر اور انصار دونوں شرمندہ ہوئے اور دونوں نے ایک دوسرے کو گلے سے لگا لیا۔ قیام پاکستان کا مطالبہ ہوا تو اسلام نے ایک بار پھر اپنا معجزہ دکھایا۔ اس مطالبے سے قبل برصغیر کی ملت اسلامیہ سندھی، پنجابی، یوپی، سی پی، پشتون، بنگال، بلوچ اور سرائیکی کے خانوں میں بٹی ہوئی تھی۔ اس میں دیوبندی اور بریلوی کی تقسیم بھی تھی۔ ذاتوں، برادریوں کا تماشا اس کے سوا تھا مگر اسلام نے ان تمام امتیازات اور ان تمام تعصبات کا خاتمہ کردیا اور برصغیر میں مسلمانوں کی بھیڑ ایک قوم اور ایک ملت بن کر اُبھری۔ اسلام کے معجزاتی اثر کا ایک نتیجہ یہ تھا کہ پاکستان بنگال، پنجاب، سندھ، کے پی کے اور بلوچستان میں بن رہا تھا مگر اس کی تحریک دلّی اور یورپی میں چل رہی تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ دلّی اور یورپی کے مسلمانوں کا مذہبی شعور گہرا تھا، ان کی تہذیبی حس بیدار تھی، ان کا تاریخی فہم بے مثال تھا، ان عوامل کے تحت ان کا خیال تھا کہ اسلامی ریاست دلّی اور یورپی میں بنے یا پنجاب اور بنگال میں قائم ہو یہ پوری دنیا کے مسلمانوں کی فتح ہوگی۔ اس لیے کہ پاکستان قائداعظم کے اعلان کے بعد عہد جدید میں اسلام کی تجربہ گاہ ہوگا۔ یہ تجربہ گاہ پوری دنیا کو بتائے گی کہ اسلام چودہ سو سال پہلے کے لیے ہی نہیں تھا، وہ عہد جدید کے لیے بھی ہے۔ دلّی اور یوپی کے لوگوں کو معلوم تھا کہ قیام پاکستان سے انہیں کوئی سیاسی یا معاشی فائدہ نہیں ہوگا مگر اس کے باوجود وہ تحریک پاکستان میں ہر اول دستے کا کردار ادا کررہے تھے۔
قیام پاکستان کے مطالبے کے سامنے آنے سے بہت پہلے برصغیر میں اقبال کی عظیم الشان شاعری کا ظہور ہو چکا تھا۔ یہ شاعری اسلام کے ترانے سنا رہی تھی۔ مسلمانوں کو ان کی عظمت رفتہ یاد دلا رہی تھی اور مردہ دلوں کو زندگی عطا کررہی تھی۔ اقبال کی شاعری کا تصورِ انسان اور تصورِ معاشرہ بالکل عیاں تھا۔ یہ شاعری مسلمانوں سے کہہ رہی تھی۔
قوتِ عشق سے ہر پست کو بالا کر دے
دہر میں اسمِ محمدؐ سے اُجالا کردے
٭٭
کی محمدؐ سے وفا تُو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
٭٭
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہو کر
٭٭
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کر تاب بہ خاکِ کاشغر
٭٭
فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں
اقبال کی اس شاعری کے دائرے میں کسی بھی طرح کے تعصب کو ’’حرام‘‘ کا درجہ حاصل تھا۔
قائداعظم کا ظاہر ضرور ’’جدید‘‘ نظر آتا تھا مگر ان کی روح ’’قدیم‘‘ تھی۔ ان کا شعور ہر طرح کے تعصبات سے بلند تر تھا۔ قائداعظم معاشرے کی تنظیم میں ہر جگہ اسلام کو بالادست دیکھنا چاہتے تھے۔ چناں چہ انہوں نے اپنی ایک تقریر میں فرمایا۔
’’میں چاہتا ہوں کہ آپ بنگالی، پنجابی، سندھی، بلوچی اور پٹھان وغیرہ کی اصطلاحوں میں بات نہ کریں۔ میں مانتا ہوں کہ یہ اپنی اپنی جگہ وحدتیں ہیں۔ لیکن میں پوچھتا ہوں، کیا آپ وہ سبق بھول گئے ہیں جو تیرہ سو سال پہلے آپ کو سکھایا گیا تھا؟ اگر مجھے اجازت دی جائے تو کہوں گا کہ یہاں آپ سب باہر کے آئے ہوئے ہیں۔ میں پوچھتا ہوں، بنگال کے اصلی باشندے کون تھے؟ وہ ہر گز نہیں جو آج کل بنگال میں رہتے ہیں۔ پس یہ کہنے کا آخر کیا فائدہ ہے کہ ہم پنجابی ہیں، ہم سندھی ہیں، ہم پٹھان ہیں؟ نہیں، ہم مسلمان ہیں۔
اسلام نے ہمیں یہی سبق دیا ہے‘ اور آپ یقینا مجھ سے اتفاق کریں گے کہ آپ، خواہ کچھ بھی ہوں اور کہیں بھی ہوں، آپ اوّل و آخر مسلمان ہیں۔ اب آپ ایک باقاعدہ قوم سے تعلق رکھتے ہیں۔ اب آپ نے ایک وسیع علاقہ اپنے تسلط میں کرلیا ہے، جو آپ کا اپنا ہے۔ یہ پنجابیوں کا ہے نہ سندھیوں کا۔ پٹھانوں کا ہے نہ بنگالیوں کا۔ یہ آپ کا ہے۔ آپ کی اپنی ایک مرکزی حکومت ہے جس میں ان جغرافیائی وحدتوں کو نمائندگی حاصل ہے۔ اس لیے اگر آپ خود کو ایک قوم، ایک عظیم قوم کے سانچے میں ڈھالنا چاہتے ہیں تو خدا کے لیے اس صوبائی عصبیت کو فوراً ترک کردیجیے۔ صوبائی عصبیت بھی سنی شیعہ وغیرہ کی فرقہ واری کی طرح ایک بہت بڑی لعنت ہے‘‘۔ (جلسہ عام، ڈھاکا، 21 مارچ 1948ء)
قائداعظم نے اپنی ایک اور تقریر میں فرمایا۔
’’میں مسلمانوں سے چاہتا ہوں کہ وہ صوبائی تعصب کی بیماری سے چھٹکارا حاصل کریں۔ کوئی قوم ترقی نہیں کرسکتی جب تک کہ وہ ایک صف میں متحد ہو کر آگے نہ بڑھیں۔ ہم سب پاکستان کے شہری ہیں۔ پاکستان میں زندگی بسرکرتے ہیں۔ اس لیے ہمیں بھی اس کا حق ادا کرنا چاہیے۔ ہمیں اس کی خدمت کرنی چاہیے۔ اس کے لیے قربانیاں دینی چاہئیں اور اگر یہ مانگے تو اپنی جان بھی نذر کردینی چاہیے، تا کہ یہ دنیا بھر کی ایک شاندار عظیم اور خوشحال مملکت بن جائے‘‘۔ (بار ایسوسی ایشن، کراچی، 25 جنوری 1948ء)
ان حقائق کے تناظر میں دیکھا جائے تو اسٹیبلشمنٹ کراچی میں ایم کیو ایم کی سرپرستی کرکے قرآن و سنت کے خلاف کام کررہی ہے۔ وہ نظریہ پاکستان کا مذاق اُڑا رہی ہے۔ فکر ِ اقبال پر تھوک رہی ہے۔ قائداعظم کی فکر کی توہین کررہی ہے۔ بدقسمتی سے اسٹیبلشمنٹ نے تاریخ کے ہر دور میں نظریہ پاکستان کا مذاق اُڑایا ہے۔ پوری قوم کو یاد ہے کہ 1970ء کے بحران میں شیخ مجیب الرحمن کا کردار بنیادی تھا۔ شیخ مجیب کی پوری سیاست چھے نکات کے گرد گھومتی تھی اور عام خیال یہ تھا کہ شیخ مجیب نے چھے نکات پاکستان توڑنے کے لیے وضع کیے تھے۔ لیکن 25 سال قبل ایک واقعے نے اس سلسلے میں ہماری رائے کو بدل ڈالا۔ ہوا یہ کہ ملک کے ممتاز وکیل ایس ایم ظفر نے لاہور میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ شیخ مجیب الرحمن کے چھے نکات ملک کے ممتاز دانش ور اور جنرل ایوب کے سابق وزیر اطلاعات الطاف گوہر نے ڈرافٹ کرکے شیخ مجیب کے حوالے کیے تھے۔ یہ خبر روزنامہ نوائے وقت کراچی میں شائع ہوئی۔ الطاف گوہر اس وقت زندہ تھے اور نوائے وقت میں کالم لکھ رہے تھے۔ انہوں نے ایس ایم ظفر کے دعوے کی تردید کی۔ اس کے جواب میں ایس ایم ظفر نے ایک بیان میں کہا کہ الطاف گوہر پاکی ِ داماں کی حکایت کو آگے نہ بڑھائیں۔ ان کے پاس اپنے دعوے کے ثبوت بھی موجود ہیں۔ اس کے بعد الطاف گوہر خاموش ہوگئے۔ الطاف گوہر اول و آخر اسٹیبلشمنٹ کے آدمی تھے۔ چناں چہ ایس ایم ظفر صاحب کے دعوے کے معنی یہ ہوئے کہ شیخ مجیب کی سیاست کی پشت پر اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ موجود تھا۔
جنرل ضیا الحق نے بھٹو کو پھانسی دی تو دیہی سندھ میں سخت ردِعمل سامنے آیا اور پیپلز پارٹی جنرل ضیا الحق کے لیے درد سر بن گئی۔ جماعت اسلامی کراچی سے بھی غفور صاحب، سید منور حسن اور محمود اعظم فاروقی جنرل ضیا کی آمریت کے خلاف آواز بلند کرتے رہتے تھے۔ چناں چہ جنرل ضیا نے دیہی سندھ میں پیپلز پارٹی اور کراچی میں جماعت اسلامی کو دیوار سے لگانے کے لیے الطاف حسین کی پشت پناہی کی اور ایم کیو ایم کو ایک غیر معمولی سیاسی طاقت بنا کر اُبھارا۔ لیکن الطاف حسین اور ایم کیو ایم کی سیاست نے مہاجروں کو تباہی و بربادی کے سوا کچھ نہیں دیا۔ مہاجر مذہب پرست تھے، الطاف حسین اور ایم کیو ایم نے ان میں سیکولر ازم کو پروان چڑھایا۔ مہاجر مہذب تھے، الطاف حسین اور ایم کیو ایم نے ان میں دہشت گردی کو فروغ دیا۔ مہاجروں کا تشخص علم اور محنت تھی، الطاف حسین نے مہاجروں کو بھتا خوری میں مبتلا کیا۔ مہاجر پرامن تھے، الطاف حسین اور ایم کیو ایم کی سیاست نے گزشتہ 35 سال میں کراچی کو 92 ہزار لاشوں کا تحفہ دیا۔ ایم کیو ایم 30 سال تک کراچی کی سیاست پر چھائی رہی مگر اس نے کراچی کو کچھ نہ دیا۔ چناں چہ اب ایم کیو ایم کے باقی رکھنے کا کوئی جواز موجود نہیں۔ یہ امر عیاں ہے کہ جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کراچی میں مقبول جماعتیں بن کر ابھر چکی ہیں۔ جماعت اسلامی ایم کیو ایم کا بہترین متبادل ہے۔ تحریک انصاف نے بھی کراچی کے لوگوں کو لسانی سیاست کے گڑھے سے نکالا ہے۔ مگر اسٹیبلشمنٹ ان جماعتوں کی مقبولیت کو قبول کرنے کے بجائے کراچی کو پھر سے لسانی تعصب کے گڑھے میں گرانے کے لیے کوشاں ہے۔

Leave a Reply