موت

انسان زندگی اور موت کے درمیان واقع ایسی حقیقت ہے کہ اگر وہ زندگی سے دور ہوجائے تو بھی اس کی انسانیت متاثر ہوجاتی ہے اور اگر وہ موت سے دور ہوجائے تو بھی اس کی انسانیت میں ایک نقص در آتا ہے۔ لیکن مذہبی اور اخلاقی معنوں میں دیکھا جائے تو موت کا تصور زندگی کی معنویت متعین کرتا نظر آتا ہے۔ اس لیے کہ زندگی یقینی نہیں مگر موت یقینی ہے۔ موت کی یہ اہمیت موت کو ازخود ’’مذہبی‘‘ بنادیتی ہے۔ موت کا تصور اسی لیے بھی مذہبی ہے کہ زندگی کے معنی متعین کرتے ہوئے انسان خود کو نظر انداز کرسکتا ہے جیسا کہ کروڑوں کیا اربوں انسان کرتے ہیں مگر انسان موت کو نظر انداز نہیں کرسکتا۔ اس لیے کہ موت خدا کی طرف سے ایک تصور نہیں ہے بلکہ وہ حسّی مشاہدہ بھی ہے۔ جو ایک لمحے میں انسان کو موت کے حسّی تجربے تک پہنچا سکتا ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ موت جس زندگی کی معنویت متعین نہیں کرتی وہ زندگی، زندگی کہلانے کی مستحق نہیں۔
نوجوانی میں زندگی کی اتنی فراوانی ہوتی ہے کہ اکثر نوجوانوں کے لیے موت ایک ’’رومانوی‘‘ چیز ہوتی ہے۔ اس دور میں انسان محبوب کے لیے جان دے سکتے ہیں۔ ماں باپ اور بہن بھائیوں کے لیے مر سکتے ہیں۔ وطن کے لیے جان کا نذرانہ پیش کرسکتے ہیں۔ لیکن جیسے جیسے انسان کی عمر بڑھتی ہے موت کا خوف بھی بڑھتا چلا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ بڑھاپے میں موت ایک ہولناک حقیقت بن کر سامنے آکھڑی ہوتی ہے۔ اس فرق کی ایک وجہ یہ ہے کہ جوانی میں زندگی کی شدت اس کی ضد کو خوبصورت بنادیتی ہے۔ جب کہ بڑھاپے میں زندگی کی قلت موت کو بد صورت بنادیتی ہے۔ اس کی دوسری وجہ یہ ہے کہ جوانی میں موت میں تصور کا عنصر کا زیادہ اور مشاہدے اور تجربے کا عنصر کم ہوتا ہے جب کہ بڑھاپے میں موت تصور کم اور تجربہ زیادہ محسوس ہوتی ہے۔
تجزیہ کیا جائے تو موت سب سے زیادہ تکلیف دہ کافروں کے یہاں نظر آتی ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ کافروں کے یہاں دنیا کی زندگی ہی اصل زندگی ہے اور وہ موت کے بعد کی زندگی کا کوئی تصور نہیں رکھتے۔ چناں چہ ان کے یہاں موت زندگی کے پورے تجربے کو ملیامیٹ کرنے والی ہے۔ چناں چہ کافروں کی زندگی میں موت سرتاپا دہشت ناک تصور ہے اور اذیت ناک تصور بھی۔
کافروں کے یہاں موت اس سے بھی ہولناک اور لرزہ دینے والی بن جاتی ہے کہ ان کے لیے دنیا کی زندگی ہی سب کچھ ہے۔ چناں چہ وہ دنیا سے اتنا متعلق ہو جاتے ہیں کہ تصور کی سطح پر بھی اور عملاً بھی ان کی روح جسم کو چھوڑنے سے انکار کردیتی ہے۔ چناں چہ قرآن مجید میں ان فرشتوں کا ذکر ہے جو روح کو ڈوب کر کھینچ نکالتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ انہیں ایسا کرنے کی ضرورت کافروں یا ایسے لوگوں کے لیے ہی پیش آتی ہوگی جو دنیا کی زندگی میں پھنس کر رہ جاتے ہیں۔ ہم نے دیکھا ہے کہ بعض مسلمانوں میں بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو ایمان رکھنے کے باوجود مرنے کے لیے رتّی برابر تیار نہیں ہوتے۔ یہاں تک کہ ان سے تعلق خاطر رکھنے والے ان کے سامنے کسی کی موت کا ذکر اس لیے نہیں کرتے کہ کہیں انہیں یہ یاد نہ آجائے کہ ایک نہ ایک دن انہیں بھی مرنا ہے۔ لیکن زندگی میں موت انسان کا مسئلہ کیوں بن جاتی ہے؟ اس کی ایک مثال غالب کا یہ شعر ہے۔
تھا زندگی میں مرگ کا کھٹکا لگا ہوا
اُڑنے سے پیشتر بھی مرا رنگ زرد تھا
اس شعر میں اصل لفظ نہ زندگی ہے نہ مرگ۔ اس شعر کا اصل لفظ ’’کھٹکا‘‘ ہے۔ انسان خدا سے دور ہوجاتا ہے تو زندگی چوری کی ایک واردات بن کر رہ جاتی ہے اور جس طرح چور کو سپاہی کا ڈر لگا رہتا ہے اس طرح خدا سے دور ہو کر موت زندگی کا سب سے بڑا اندیشہ اور سب سے بڑا کھٹکا بن جاتی ہے اور آدمی موت کا لفظ سن کر بھی بدکنے لگتا ہے۔ چناں چہ انسان جیتے جی مرجاتا ہے۔ غالب کے شعر میں ’’اڑنے سے پیشتر بھی مرا رنگ زرد تھا‘‘ کا یہی مفہوم ہے۔
لیکن مسئلہ صرف اتنا سا نہیں ہے۔ زندگی مشکلات، پریشانیوں اور آزمائشوں سے بھری ہوئی ہے اور کبھی کبھی ان چیزوں کا بوجھ اتنا بڑھ جاتا ہے کہ زندگی اپنی ضد بن جاتی ہے اور انسان فانی بدایونی کے الفاظ میں چیخ اُٹھتا ہے اور کہتا ہے۔
ہر نفس عمرِ گزشتہ کی ہے میّت فانی
زندگی نام ہے مر مر کے جیے جانے کا
بلاشبہ زندگی شکوہ شکایت بھی ہے اور نالہ و شیون بھی مگر زندگی صبر اور ضبط بھی ہے۔ فانی کی شاعری میں موت کا اتنا ذکر ہے کہ لوگ انہیں ’’موت پرست‘‘ کہتے ہیں، لیکن فانی کا مسئلہ موت پرستی نہیں۔ وہ موت کو پسند نہیں کرتے بلکہ زندگی کے بوجھ سے گھبرا کر موت کا ڈھول پٹنے لگتے ہیں اور بتانا چاہتے ہیں کہ زندگی ان کے لیے کتنی ناقابل برداشت ہے۔ یہ مسئلہ غالب کے یہاں زیادہ بلند سطح پر بیان ہوا ہے۔ غالب نے کہا ہے۔
دل میں ذوقِ وصل و یادِ یار تک باقی نہیں
آگ اس گھر میں لگی ایسی کہ جو تھا جل گیا
ذوقِ وصل کے فنا ہونے کا مطلب یہ ہے کہ مصائب کے اثر سے جنسی جبلت تک نے کام کرنا چھوڑ دیا ہے اور شاعر کے لیے جنسی جذبے میں بھی کوئی رغبت اور کوئی معنی نہیں رہ گئے۔ یادِ یار کے رخصت ہو جانے کا مطلب یہ ہے کہ تکلیف دہ تجربات نے محبوب کے خیال یا اس کے تصور تک کو باقی نہیں رہنے دیا۔ یعنی مصائب و آلام جبلت ہی کو نہیں متخیلّہ تک کو کھا گئے ہیں۔ شیخ سعدی کا مشہور زمانہ شعر ہے۔
چناں قحط سالِ شُد اندر دمشق
کہ یاراں فراموش کردند عشق
شیخ سعدیؒ فرما رہے ہیں کہ ایک بار دمشق میں ایسا قحط پڑا کہ لوگ عشق تک کرنا بھول گئے۔ غالب نے جو بات ذاتی تجربے کے حوالے سے کہی ہے شیخ سعدی نے وہی بات قومی یا اجتماعی حوالے سے کہی ہے۔ ظاہر ہے کہ قحط کا خوف قحط کا نہیں موت کا خوف تھا اور موت کا یہ اجتماعی خوف اتنا ہولناک تھا کہ شیخ سعدی کے بقول لوگ عشق تک کرنا بھول گئے۔ یورپ میں پہلی اور دوسری عالمی جنگیں آٹھ دس کروڑ لوگوں کو نگل گئیں اور موت کا تجربہ اتنا عام ہوا کہ یورپ میں بے معنویت اور لامذہبیت رجحان سے وبا بن گئیں۔ فرانس کے مشہور زمانہ فلسفی ژاں پال سارتر کا مشہور زمانہ فقرہ ہے کہ انسان کو دنیا میں مرنے کے لیے پھینک دیا گیا ہے۔ اس فقرے میں دو عالمی جنگوں کے اثر کو صاف طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔ لیکن مسلم معاشروں کا ایک تجربہ اس کے برعکس بھی ہے۔ جرمن نو مسلم دانش ور مراد ہوف مین نے اپنے اسلام لانے کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ الجزائر کی جدوجہد آزادی کے دوران وہ الجزائر میں جرمنی کے سفیر تھے اور ان کے لیے یہ بات حیرت انگیز تھی کہ لاکھوں لوگوں کی ہلاکتوں یا شہادتوں کا معاشرے پر کوئی منفی اثر نہیں تھا اور معاشرے نے اتنے بڑے جانی نقصان کو جذب کرلیا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ انہوں نے جب اس تجربے کی بنیاد کو تلاش کیا تو معلوم ہوا کہ اس کا سبب اسلام ہے۔ اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ افغانستان نے سوویت یونین اور امریکا کے خلاف جہاد میں ہونے والی 20 لاکھ سے زیادہ ہلاکتوں کو جذب کرلیا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس کا سبب بھی اسلام ہی ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ صرف اللہ اور انسانوں کی محبت میں یہ صلاحیت ہے کہ وہ موت کے تجربے کی ہولناکی کو پھلانگ سکتی ہے۔
اس بات کا شعور اردو کے تمام بڑے شاعروں کے یہاں موجود ہے۔ میر کا مشہور شعر ہے۔
مرگِ مجنوں پہ عقل گُم ہے میر
کیا دوانے نے موت پائی ہے
مجنوں کی موت کا قصہ یہ ہے کہ وہ لیلیٰ کے خیال میں کھویا ہوا ایک کھوکھلے درخت میں بیٹھا ہوا تھا۔ لوگ آئے اور انہوں نے ٹھیک اس مقام پر آرا چلا دیا جہاں مجنوں کی گردن تھی۔ درخت کے ساتھ مجنوں کے ٹکڑے ہوئے تو معلوم ہوا کہ وہاں مجنوں بیٹھا ہوا تھا۔ اقبال کے یہاں عشق جگہ جگہ موت کو شکست دیتا نظر آتا ہے۔ اقبال کا ایک کم معروف شعر ہے۔
عشق کے خورشید سے شامِ اجل شرمندہ ہے
عشق سوزِ زندگانی تا ابد پائندہ ہے
یعنی عشق کے سورج نے موت کی شام کو فتح کرکے اسے بھی زندگی کی صبح بنادیا ہے۔ اور ایسا اس لیے ممکن ہوا کہ عشق زندگی کی اصل ہے اور اس کی زندگی کبھی نہ ختم ہونے والی ہے۔ زندگی کے مدارج میں جمادات کا مقام سب سے کمتر ہے۔ لیکن اقبال کہتے ہیں کہ عشق کا سایہ اگر پتھر پر بھی پڑ جاتا ہے تو وہ بھی آئنہ بن جاتا ہے۔ اقبال نے کہا ہے۔
اہلِ محفل کو دِکھا دیں اثر صیقلِ عشق
سنگِ امروز کو آئینہِ فردا کر دیں
ظاہر ہے کہ اس شعر میں سنگ موت اور آئینہ زندگی کی علامت ہے۔ اقبال کا یہ شعر مشہور زمانہ ہے۔
اقبال کس کے عشق کا یہ فیضِ عام ہے
رومی فنا ہوا حبشی کو دوام ہے
سلطنت روما انسانی تاریخ کی عظیم الشان سلطنت تھی لیکن اقبال کہہ رہے ہیں کہ سلطنت روما مٹ گئی مگر سیدنا بلالؓ جو کبھی محض ایک حبشی غلام تھے ان کے دین اور رسول اکرمؐ سے عشق نے انہیں آج بھی کروڑوں مسلمانوں کے دلوں میں زندہ رکھا ہوا ہے۔ انسان کے وجود پر عشق کا سایہ ہو تو موت اس کے لیے ’’شکر‘‘ تک میں ڈھل جاتی ہے۔ اس کا ثبوت اردو کا یہ غیر معمولی اور زندہ شعر ہے۔
جان دی، دی ہوئی اُسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا

Leave a Reply