مغرب کی نسل پرستی اور اس کے مضمرات

گزشتہ ایک ہزار سال کی تاریخ میں مغرب بار بار نسل پرست ثابت ہوا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ مغرب کی نسل پرستی کو جیسے ہی سازگار ماحول فراہم ہوتا ہے وہ بے لباس ہو کر ہمارے سامنے آجاتی ہے۔ روس اور یوکرین کی جنگ کو شروع ہوئے ابھی ایک ہفتہ بھی نہیں ہوا ہے اور مغربی ذرائع ابلاغ جنگ کی نسل پرستانہ کوریج پر اتر آئے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق مغربی ذرائع ابلاغ روس اور یوکرین کی جنگ میں صرف یوکرین کی مزاحمت کو خبر کا موضوع بنارہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ مغربی ذرائع ابلاغ اس امر پر بھی افسوس کا اظہار کررہے ہیں کہ یوکرین جیسا مہذب ملک اور اس میں آباد ایک مہذب قوم کیونکر اس طرح کے تنازع کا شکار ہوسکتی ہے۔ خبر کے مطابق چند روز پیش تر ایک امریکی ٹی وی چینل کے ایک سینئر نمائندے نے یہ کہنا ضروری سمجھا کہ یوکرین عراق یا افغانستان کی طرح کی جگہ نہیں جو دہائیوں سے تنازعات کا شکار ہیں بلکہ یہ ’’مہذب لوگ‘‘ ہیں۔ بی بی سی نے چند روز پیش تر یوکرین کے جنرل پراسیکیوٹر سے بات کی جس کا کہنا تھا کہ میرے لیے یہ ایک انتہائی جذباتی موقع ہے۔ اس نے کہا کہ میں دیکھ رہا ہوں ’’نیلی آنکھوں‘‘ اور ’’سنہرے بالوں‘‘ والے یورپی لوگ روزانہ پیوٹن کے میزائلوں، راکٹوں اور ہیلی کاپٹروں سے ہونے والی فائرنگ کا نشانہ بن رہے ہیں۔ یہ سن کر بی بی سی کے اینکر نے فرمایا کہ میں سمجھ سکتا ہوں کہ آپ کیا کہہ رہے ہیں۔ میں آپ کے جذبات کی قدر کرتا ہوں۔ سوشل میڈیا پر بی بی سی کی اس کوریج پر کافی ہنگامہ ہوا۔ ایک صارف نے طنزاً کہا کہ نیلی آنکھوں اور سنہرے بالوں والے اگر مشرق وسطیٰ اور افریقا میں بم برسائیں تو ٹھیک ہے۔ ایک اور صارف نے کہا کہ سفید فام افراد کی برتری ثابت کرنا یورپ کی ایک قدر یا Value ہے۔ الجزیرہ ٹی وی کے انگریزی زبان کے اینکر نے بھی مغرب کی نسل پرستی کی ترجمانی کی۔ اس نے یوکرین کے لوگوں کے بارے میں کہا کہ وہ خوشحال اور متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگ ہیں۔ یہ وہ پناہ گزین نہیں جو اپنے جنگ زدہ ملکوں سے نکلنا چاہتے ہیں۔ نہ ہی یہ شمالی افریقا کے لوگ ہیں جو اپنے ملکوں سے نکلنا چاہتے ہیں۔ بلکہ یہ لوگ کسی بھی یورپی خاندان کی طرح ہیں جو آپ کے ساتھ والے گھر میں رہتا ہے۔ مغرب کے ایک اور چینل اسکائے نیوز نے وسطی یوکرین کے باشندوں کو اپنے دفاع کے لیے پٹرول بم تیار کرتے ہوئے دکھایا۔ اس پر صارفین نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر افغانستان یا فلسطین کے لوگ اپنے دفاع میں پٹرول بم تیار کررہے ہوتے تو مغربی ذرائع ابلاغ انہیں دہشت گرد قرار دیتے۔
مغرب کی نسل پرستی صرف سیاست تک محدود نہیں۔ مغرب کے لوگ سمجھتے ہیں کہ چوں کہ ان کی نسل بہتر ہے اس لیے ان کا خدا بھی برتر ہے۔ ان کا مذہب بھی برتر ہے۔ ان کا رسول بھی برتر ہے۔ ان کا فلسفہ بھی برتر ہے۔ ان کا آرٹ بھی برتر ہے۔ آپ کا کیا خیال ہے کہ صلیبی جنگیں مسلمانوں کی ایجاد تھیں؟ ایسا نہیں تھا۔ صلیبی جنگیں نسل پرست مغرب کی ایجاد تھیں۔ اس وقت کے پوپ اربن دوم نے 1095ء میں ایک تقریر فرمائی۔ اس نے کہا مسلمانوں کا مذہب ایک شیطانی مذہب ہے اور میرے قلب پر یہ بات القا کی گئی ہے کہ عیسائیوں کا فرض ہے کہ وہ اس شیطانی مذہب اور اس کے ماننے والوں کو صفحہ ٔ ہستی سے مٹادیں۔ پوپ نے 1095ء میں یہ بات کہی اور 1099ء میں پورا عیسائی یورپ ایک صلیبی جھنڈے کے نیچے جمع ہوا اور ان صلیبی جنگوں کا آغاز ہوا جو کم و بیش دو سو سال جاری رہیں۔ زیر بحث موضوع کے حوالے سے اہم بات یہ ہے کہ پوپ نے اسلام کو شیطانی مذہب قرار دینے کے لیے انجیل یا فلسفے کی کسی کتاب سے کوئی ’’دلیل‘‘ پیش نہیں کی۔ اس نے اپنے قیاس کو اس کی بنیاد بنایا اور بلاشبہ یہ قیاس ’’شیطانی‘‘ تھا مگر پوپ اسے ’’رحمانی‘‘ سمجھ رہا تھا۔ اس کی وجہ پوپ اربن کا تصور ذات تھا۔ انفرادی تصور ذات بھی اور اجتماعی تصور ذات بھی۔ انفرادی تصور ذات کے دائرے میں پوپ سیدنا عیسیٰؑ کا قائم مقام تھا۔ اجتماعی تصور ذات کے دائرے میں عیسائی قوم خدا کی پسندیدہ قوم تھی اس لیے کہ عیسائی عقیدے کے مطابق وہ خدا کے بیٹے پر ایمان لانے والی قوم تھی۔ عیسائی انفرادی حیثیت میں اسلام اور پیغمبر اسلام کے بارے میں خواہ کچھ بھی کہتے ہوں۔ مگر اسلام اور رسول اکرمؐ کے سلسلے میں چرچ کی سرکاری پوزیشن یہ ہے کہ عیسائی اسلام کو پیغام حق اور رسول اکرمؐ کو پیغمبر نہیں مانتے۔ ان کا عقیدہ ہے کہ معاذ اللہ رسول اکرمؐ نے کچھ یہودیت سے لیا اور کچھ عیسائیت سے لیا اور ان دونوں کو ملا کر اسلام ایجاد کر ڈالا۔
مغرب کا احساس برتری صرف 11 ویں صدی ہی میں سامنے نہیں آتا۔ ہمیں نائن الیون کے بعد کا مغرب آج بھی اچھی طرح یاد ہے۔ ہمیں یاد ہے کہ نائن الیون کے بعد امریکا کے صدر جارج بش نے امریکی قوم سے خطاب کیا تو انہوں نے اپنی تقریر میں ’’کروسیڈ‘‘ یا صلیبی جنگ کی اصطلاح استعمال کی۔ اس طرح انہوں نے 21 ویں صدی کو 11 ویں صدی سے منسلک کردیا۔ امریکی صدر کی اصطلاح پر ایک آدھ مسلم ملک کی جانب سے احتجاج ہوا تو کہہ دیا گیا کہ خطاب کرتے ہوئے امریکی صدر کی زبان پھسل گئی۔ یہ بات غلط تھی اس لیے کہ امریکی صدر برجستہ تقریر نہیں کررہے تھے۔ وہ لکھی ہوئی تقریر پڑھ رہے تھے۔ لیکن اگر بالفرض وہ لکھی تقریر بھی پڑھ رہے تھے تو بھی وہ مجرم تھے۔ اس لیے کہ مغرب کے ممتاز ماہر نفسیات فرائیڈ نے زبان پھسلنے کے موضوع پر ایک مضمون لکھا ہوا ہے۔ اس مضمون میں فرائیڈ نے کہا ہے کہ یہ جو بات کرتے ہوئے ہماری زبان پھسل جاتی ہے وہ اتفاقی امر نہیں ہوتا بلکہ اس کا بھی ایک نفسیاتی، جذباتی اور ذہنی پس منظر ہوتا ہے۔ چناں چہ جارج بش کی زبان پھسلنے کا بھی ایک تاریخی پس منظر تھا۔ لیکن جارج بش کی بات تو ایک معمولی بات تھی اور صرف ایک لفظ پر مشتمل تھی۔ جارج بش کے بعد مغرب کے ایک اہم رہنما نے ایک پورا بیان جاری کردیا۔ یہ بیان تھا اٹلی کے وزیراعظم سلویہ برلسکونی کا۔ اٹلی کے وزیراعظم نے اس بیان میں مغرب کی نسلی برتری کو ظاہر کرتے ہوئے فرمایا کہ مغربی تہذیب اسلامی تہذیب سے برتر ہے اور اس نے جس طرح کمیونزم کو شکست دی ہے اسی طرح وہ اسلامی تہذیب کو بھی شکست دے گی۔ اٹلی کے وزیراعظم نے جب مغرب کے نسلی تکبر کو زبان دی تو اس وقت پورے مغرب کا
موقف یہ تھا کہ وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کرنے نکلا ہے۔ اس تناظر میں اٹلی کے وزیراعظم سے پوچھا جاسکتا تھا کہ انہوں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران اچانک مغربی تہذیب اور اسلامی تہذیب کا موازنہ کرکے مغربی تہذیب کو برتر کیوں قرار دیا ہے؟ مگر مسلم دنیا تو نیند میں چلنے والوں کی دنیا ہے۔ چناں چہ کہیں سے کوئی آواز بلند نہ ہوئی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مغرب کا مذہبی اور تہذیبی تکبر بڑھ گیا۔ اس تکبر کا اظہار جارج بش کے اٹارنی جنرل ایش کرافٹ کا واشنگٹن ڈی سی میں ایک تقریب سے خطاب تھا۔ اس خطاب میں ایش کرافٹ نے فرمایا کہ عیسائیت کا خدا اسلام کے خدا سے برتر ہے کیوں کہ ان کے بقول اسلام کا خدا ایک ایسا خدا ہے جو اپنی عظمت کے اظہار کے لیے اپنے ماننے والوں سے جہاد کی صورت میں شہادت طلب کرتا ہے۔ اس کے برعکس عیسائیت کا خدا ایسا خدا ہے جس نے انسانیت کی نجات کے لیے اپنے بیٹے یعنی سیدنا عیسیٰؑ کو سولی پر چڑھا دیا۔ ایش کرافٹ سے پوچھا جاسکتا تھا کہ انہیں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں عیسائیت اور اسلام کے تصور خدا کے موازنے اور عیسائیت کے خدا کی خود ساختہ برتری ظاہر کرنے کی ضرورت کیوں پڑی ہے؟ مگر مسلم دنیا خواب خرگوش کا مزہ لینے والوں کی دنیا ہے۔ چناں چہ امریکا کے اٹارنی جنرل کے اس بیان پر مسلم دنیا سے ایک بیان بھی سامنے نہ آیا۔ نائن الیون کے بعد مغرب کی برتری کے حوالے سے ایک اور بیان سامنے آیا۔ یہ بیان تھا یورپ میں ناٹو کی فورسز کے سابق کمانڈرکا ویزے کلارک نے بی بی سی ورلڈ کو انٹرویو دیتے ہوئے مغرب کی نسلی اور تہذیب برتری کا ایک پورا اشتہار دے ڈالا۔ جنرل کلارک نے کہا مسلمانوں کی عالمی آبادی ایک ارب سے زیادہ ہے۔ یہ آبادی اسلام سے اثر قبول کرتی ہے۔ چناں چہ مغرب کی ساری جنگ اسلام کو Define کرنے کی جنگ ہے۔ ہمیں طے کرنا ہے کہ آیا اسلام ایک پرامن مذہب ہے جیسا کہ مسلمانوں کی اکثریت کہتی ہے یا یہ ایک ایسا مذہب ہے جو اپنے ماننے والوں کو تشدد پر اُکساتا ہے جیسا کہ اسامہ بن لادن اور ملا عمر کرتے ہیں۔
باقی صفحہ7نمبر1
شاہنواز فاروقی
امریکی جنرل کے اس بیان میں مغرب کا احساس برتری عروج پر ہے۔ اس عروج کی انتہا یہ ہے کہ مغرب نے اسلام جیسے آسمانی مذہب کی تشریح و تعبیر کا حق بھی مسلمانوں سے چھین لیا ہے۔
مغرب کی نسلی برتری کی ایک علامت یہ ہے کہ ترکی گزشتہ 50 سال سے یورپی یونین کا رکن بننے کے لیے ہاتھ پائوں مار رہا ہے مگر مغربی دنیا اسے یورپی یونین کا حصہ بنانے کے لیے تیار نہیں۔ ایک وقت تھا کہ یورپ نے ترکی سے کہا کہ تم ’’جمہوری‘‘ نہیں ہو جمہوری ہوتے تو تمہیں یورپی یونین کا حصہ بنالیا جاتا۔ ترکی جمہوری ہوا تو کہا گیا کہ ترکی کا انسانی حقوق سے متعلق ریکارڈ اچھا نہیں۔ ترکی نے انسانی حقوق سے متعلق اپنا ریکارڈ بہتر بنایا تو اس کے سامنے ایک اور مطالبہ رکھ دیا گیا۔ اس سلسلے میں یورپ ترکی سے اصل بات نہیں کہتا اور وہ یہ کہ یورپی یونین ایک ’’یورپی کلب‘‘ ہے اور ترکی ایک مسلم ملک ہے۔ بھلا ایک مسلم ملک یورپی کلب کا حصہ کیسے بن سکتا ہے؟

Leave a Reply