کیا مسکان کا نعرۂ تکبیر اور عورت مارچ ہم معنی ہیں؟

حق و باطل کا تعلق روشنی اور تیرگی کا تعلق ہے۔ حق روشنی ہے نور ہے باطل تیرگی ہے تاریکی ہے۔ حق و باطل کا فرق بالعموم عیاں ہوتا ہے لیکن کبھی کبھی حق و باطل میں امتیاز کرنا دشوار ہوتا ہے۔ چناں چہ مسلم شعور کا ایک امتیازی وصف یہ ہے کہ وہ ہر صورت میں حق و باطل کو پہچان لیتا ہے۔ قرآن کا ایک نام فرقان ہے۔ اس لیے کہ قرآن حق و باطل کے درمیان فرق کو عیاں کرنے والی کتاب ہے۔ سیدنا عمرؓ کو فاروق کا لقب عطا ہوا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ سیدنا عمرؓ ہر صورت میں حق و باطل کو پہچان لیتے تھے۔ یوم بدر کو یوم فرقان بھی کہا جاتا ہے اس لیے کہ اس دن حق و باطل کا فرق عیاں ہوگیا تھا۔ حق پر وہ تھا جو رسول اکرمؐ کے لشکر میں تھا اور باطل وہ تھا جو ابوجہل کی فوج کا حصہ تھا۔ لیکن بدقسمتی سے ہمارے زمانے تک آتے آتے حق و باطل کے فرق کو سمجھنا مشکل ہوگیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر لکھنے والے حق و باطل کو آمیز کردیتے ہیں۔ ان کے بیان سے لگتا ہے کہ حق باطل ہے اور باطل حق اس کی ایک حالیہ اور بڑی مثال یاسر پیرزادہ کا کالم ہے۔ اس کالم میں یاسر پیرزادہ نے حق و باطل کو کس طرح خلط ملط کیا ہے۔ ملاحظہ کیجیے لکھتے ہیں۔
’’وہ عورت مارچ ہی تھا جو مسکان خان نے کیا۔ بھارت کے جنونیوں کے سامنے ڈٹ کرکھڑے ہوجانا، اُن کے سامنے اللہ اکبر کا نعرہ لگانا اور حجاب اتارنے سے انکار کرنا۔ میرا برقع میری مرضی۔ یہی عورت مارچ ہے۔ ہر عورت کی طرح مسکان خان کو بھی بنیادی حق ہے کہ وہ اپنی مرضی کا لباس پہنے اور اپنے عقیدے، مذہب اور رسوم و روایات کے مطابق زندگی گزارے۔ آر ایس ایس کے غنڈے کرناٹک میں مسلمان لڑکیوں کے سروں سے جو حجاب نوچ کر پھینک رہے ہیں دراصل یہ کہہ رہے ہیں کہ تمہیں اپنی مرضی سے جینے کا کوئی حق نہیں، تم ہندو معاشرت، دھرم اور سماج میں اپنی مسلمانیت کے ساتھ زندگی نہیں گزار سکتیں، اگر یہاں رہنا ہے تو محکوم بن کر اُسی طرح رہنا ہوگا جیسے ہم چاہیں گے۔ تمہاری حدود و قیود ہم طے کریں گے، ہم فیصلہ کریں گے کہ تم کس قسم کا لباس پہنو گی، اور حجاب کو تو بھول ہی جائو۔ ان حالات میں ایک 19 برس کی مسلمان لڑکی کا جنونیوں کے گروہ کے سامنے اللہ اکبر کا نعرہ لگانا کسی جہاد سے کم نہیں تھا۔ اسے سلام پیش کیا جانا چاہیے اور اسی اصول کے تحت یہ سلام ان تمام پاکستانی عورتوں کو بھی پیش کیا جانا چاہیے جو اس پدر سری معاشرے میں اپنے حقوق کے لیے ہر سال عورت مارچ کرتی ہیں۔ ان عورتوں کی مخالفت میں بھی کم و بیش اسی قسم کے دلائل دیے جارہے ہیں۔ مثلاً یہ عورتیں پاکستان جیسے اسلامی ملک میں لبرل ایجنڈے کی علم بردار ہیں، انہیں صرف من پسند مردوں کے ساتھ سونے کا حق چاہیے، عورتوں کے حقیقی مسائل سے ان کا کوئی لینا دینا نہیں، اگر انہیں احتجاج کرنا ہے تو فلاں فلاں ایشو کو اجاگر کیوں نہیں کرتیں، یہ بیہودہ نعروں کے ذریعے صرف مغرب کے ایجنڈے کو مسلط کرنا چاہتی ہیں، یہ ہماری اقدار و مذہبی رسومات پر حملہ ہے، ہم اسے کبھی برداشت نہیں کریں گے، وغیرہ۔ اس منطق میں اور بھارتی جنونیوں کی منطق میں کوئی زیادہ فرق نہیں۔ آر ایس ایس والے بھی مسلمانوں کو اپنی اقدار، دھرم اور سماج کے لیے ویسا خطرہ ہی سمجھتے ہیں جیسا ہمارے یہاں کے مردوں کی اکثریت عورت مارچ والی خواتین کو مسلم اقدار کے لیے خطرہ سمجھتی ہے۔ اسی خطرے کے پیش نظر آر ایس ایس کے جنونی کارکن مسلمان عورتوں کے حجاب پہننے کے خلاف ہیں، اسی لیے وہ مسلمانوں کو جے شری رام کا نعرہ لگانے پر مجبور کرتے ہیں۔ یہ بات میری سمجھ سے باہر ہے کہ جس اصول کے تحت ہم مسکان خان کے بنیادی حقوق کی حمایت کررہے ہیں اسی اصول کے تحت اپنے ملک کی عورتوں کو حقوق کی حمایت کیوں نہیں کرتے؟‘‘
(روزنامہ جنگ۔ 20 فروری 2022ء)
بلاشبہ بھارتی ریاست کرناٹک کی بہادر مسلم بیٹی مسکان ایک عورت ہے اور عورت مارچ کرنے والی عورتیں بھی عورت ہی کہلاتی ہیں۔ لیکن انہیں ہم معنی اور ہم رتبہ سمجھنا پرلے درجے کی حماقت ہے۔ اس لیے کہ جب مسکان نے ہندو غنڈوں کے سامنے اللہ اکبر کا نعرہ بلند کیا تو اس نے لاالہ الٰہ اللہ کا پرچم بلند کیا۔ اس کے برعکس پاکستان میں عورت مارچ کے تحت میرا جسم میری مرضی کا نعرہ بلند کرنے والی عورتیں لاالٰہ الہ انسان کا نعرہ بلند کرتی ہیں۔ مسکان نے جب برقعے کا دفاع کیا تو اس نے کہا میں اللہ کی ’’عبد‘‘ ہوں اور پردہ اللہ کا حکم ہے۔ چناں چہ میں شیطان صفت ہندوئوں کے خوف سے پردہ ترک نہیں کرسکتی۔ اس کے برخلاف میرا جسم میری مرضی کا نعرہ بلند کرنے والی صاف کہتی ہیں کہ ہم کسی معبود کی ’’عبد‘‘ نہیں ہیں۔ ہم ایک ’’خودمختار وجود‘‘ ہیں۔ ہم کسی خدا، کسی رسول اور کسی قرآن کے پابند نہیں۔ ہم اپنے جسم کو جس طرح برتنا چاہیں برتنے میں آزاد ہیں۔ ہمارے لیے خدا، رسول اور مذہب کے احکامات جبر ہیں اور ہم اس جبر کا انکار کرتی ہیں۔ مسکان نے نعرہ تکبیر بلند کیا تو اس نے یہ بھی اعلان کیا کہ پردہ ذاتی پسند اور نا پسند کا معاملہ ہی نہیں ہے۔ یہ خدا اور رسول کا حکم ہے اور میں ایک مسلمان کی حیثیت سے خدا اور رسول کے حکم کے سامنے سر جھکاتی ہوں۔ یہ حقیقت راز نہیں کہ میرا جسم خدا کی مرضی اور میرا جسم میری مرضی کہنے والی عورتوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ جو عورت میرا جسم خدا کی مرضی کا نعرہ بلند کرتی ہے وہ عفیفہ ہے۔ وہ پاک باز ہے، وہ شریعت کی پابند ہے، وہ اپنی تہذیب کی اسیر ہے، وہ اپنی تاریخ کی قیدی ہے۔ اس کے برعکس میرا جسم میری مرضی کا نعرہ تو صرف طوائف ہی لگا سکتی ہے۔ ایسی عورت کسی شریعت کی پابند نہیں۔ ایسی عورت اسلامی تہذیب کی علامت نہیں لگتی اسے اسلامی تاریخ کا استعارہ باور نہیں کرایا جاسکتا۔ ان ہولناک امتیازات کے باوجود یاسر پیرزادہ فرماتے ہیں کہ نعرہ تکبیر بلند کرنے والی مسکان خان نے بھی دراصل عورت مارچ کیا تھا۔ نہیں بھائی نہیں۔ اس نے عورت مارچ نہیں کیا اس نے ’’حق مارچ‘‘ کیا۔ اس نے اپنی ذاتی کے لیے کچھ نہیں کیا، اس نے جو کچھ کیا ذات باری تعالیٰ کے لیے کیا۔ اس کی انا اس کی ذاتی انا نہیں تھی۔ اس کی انا اس کے مذہب کی انا تھی۔ اس کی تہذیب کی انا تھی۔ اس کی تاریخ کی انا تھی۔ اس نے عورت کا مقدمہ نہیں لڑا اس نے ایک ’’عبد‘‘ کا مقدمہ لڑا۔ اسی لیے اس نے اپنی مدد کے لیے اللہ کو پکارا اس نے یہ نہیں کہا میں بڑی ہوں اس لیے میں ہندو غنڈوں کے سامنے سر نہیں جھکائوں گی۔ اس نے کہا میرا اللہ سب سے بڑا ہے اس لیے میں ہندو غنڈوں کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالوں گی۔ یاسر پیرزادہ کا خیال ہے کہ عورت مارچ کی خواتین کا ایجنڈا بالکل صحیح ہے۔ اگر ایسا ہے تو سوال یہ ہے کہ وہ ایک اسلامی معاشرے میں کھڑے ہو کر یہ کیوں نہیں کہتیں کہ معاشرہ عورتوں کو وہ حق دے جو انہیں اللہ اور اس کے رسول نے عطا کیا ہے۔ وہ یہ مطالبہ کیوں نہیں کرتیں کہ مسلمان معاشرہ ان کے حقوق کے سلسلے میں قرآن و سنت کی پاسداری کیوں نہیں کرتا۔ عورت مارچ کے تمام نعرے اور مطالبات مغرب سے کیوں آتے ہیں؟۔ کیا چودہ سو سال کی اسلامی تاریخ میں ایک مسلمان عورت بھی ایسی ہوئی ہے جس نے میرا جسم میری مرضی کا نعرہ بلند کیا ہو؟ اسلامی تہذیب اور اسلامی معاشرے میں عورت کیا مرد اور مرد کیا حکمران کی مرضی کی بھی کوئی اہمیت نہیں۔ اسلامی تہذیب اور اسلامی معاشرے میں سب کچھ خدا کی مرضی اور رسول کی منشا ہے۔ جو مرضی کی ان دو صورتوں کے دائرے میں ہے حق ہے اور جو مرضی کے ان دو دائروں کے باہر ہے باطل ہے اور مسلمان کبھی بھی باطل کو قبول نہیں کرسکتا اس کے آگے سر نہیں جھکا سکتا۔ اس وقت مسلمانوں کی آبادی ایک ارب 80 کروڑ ہے۔ اس آبادی کا نصف خواتین پر مشتمل ہے۔ ان میں پردہ دار خواتین بھی ہیں اور ایسی خواتین بھی جو پردہ نہیں کرتیں مگر ان خواتین کی عظیم اکثریت یہ نعرہ نہیں لگاتی کہ ہمارا جسم ہماری مرضی ہے۔ اگر آپ مسلم دنیا کی خواتین سے پوچھیں کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کے عطا کردہ حقوق چاہتی ہیں یا مغرب کے دیے ہوئے حقوق چاہتی ہیں تو ہمیں کامل یقین ہے کہ مسلم خواتین کا 98 فی صد کہے گا ہمیں اللہ اور اس کے رسول کا عطا کردہ حقوق درکار ہیں، ہمیں مغرب کے عطا کردہ حقوق درکار نہیں ہیں۔
یاسر پیرزادہ نے اپنے کالم میں یہ تاثر بھی دیا ہے کہ بھارت میں مسلم خواتین کو ہراساں کرنے والے جنونی ہندوئوں اور پاکستان میں عورت مارچ پر اعتراض کرنے والوں میں کوئی فرق نہیں۔ یاسرپیرزادہ کا خیال ہے کہ بھارت کے جنونی ہندو بھی دراصل اپنی اقدار ہی کا دفاع کررہے ہیں۔ اسی مسئلے پر گفتگو کے دو اسالیب ہیں۔ ایک تاریخی اور دوسرا آئینی و قانونی۔ تاریخی اسلوب ہمیں بتاتا ہے کہ مسلمانوں نے ایک ہزار سال تک ہندوستان پر حکومت کی مگر انہوں نے ہندوئوں کے مذہبی معاملات میں کبھی مداخلت نہیں کی۔ چناں چہ بھارت کے ہندوئوں کو بھی مسلمانوں کے مذہبی معاملات میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔ اس مسئلے کا آئینی اور قانونی اسلوب یہ ہے کہ بھارت کا آئین سیکولر ہے اور وہ تمام مذاہب کے ماننے والوں کو اپنے مذہب پر عمل کا حق دیتا ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو بھارت کے جنونی ہندو اپنے تاریخی تجربے کے بھی غدار ہیں اور اپنے آئین اور قانون کے بھی غدار ہیں۔ اس کے برعکس جو لوگ عورت مارچ پر اعتراض کرتے ہیں ان کا اعتراض شخصی، ذاتی، انفرادی یا جماعتی نہیں ہے۔ ان کا اعتراض مذہبی، روحانی، اخلاقی اور تہذیبی ہے۔ عورت مارچ منظم کرنے والی خواتین کو عورت کے حقوق کے تحفظ کا اتنا ہی خیال ہے تو اپنے نعروں، اپنے ایجنڈے اور اپنی جدوجہد کو قرآن و سنت کے دائرے میں لائیں، مغرب کی اصطلاحوں اور مغرب کے اسلوب میں کلام نہ کریں۔
یاسر پیرزادہ نے اپنے کالم میں ایک جگہ یہ بھی لکھا ہے کہ کچھ لوگوں نے یہ فرض کرلیا ہے کہ عورت مارچ کرنے والی خواتین ہماری اقدار کے لیے خطرہ ہیں۔ سال بھر میں مشکل سے چند ہزار خواتین کا اجتماع اگر ہماری اقدار کے لیے خطرہ ہے تو پھر ہمیں ایسی اقدار اور روایات پر فخر کرنا چھوڑ دینا چاہیے جو محض چند عورتوں کی نعرے بازی سے زمین بوس ہوجاتی ہیں۔
؎ہمیں حیرت ہے کہ یاسر پیرزادہ کسی بھی سلسلے میں حق و باطل، غلط اور صحیح اور حسن و قبیح کا سوال اٹھاتے ہی نہیں۔ ارے بھائی مذہب اور اقدار سے انحراف تو انحراف ہے چاہے چند لوگ انحراف کریں یا چند ہزار یا چند لاکھ۔ تاریخ کا تجربہ بتاتا ہے کہ معاشرہ کبھی بھی کسی کو مسلمات سے انحراف کی اجازت نہیں دیتا۔ فرانس میں بمشکل چند سو خواتین برقع لیتی اور اسکارف باندھتی ہیں مگر فرانس کی حکومت نے اس کے باوجود برقعے اور اسکارف پر پابندی لگادی ہے۔ فرانس کا دعویٰ ہے کہ برقع اور اسکارف ان کی لبرل اقدار سے انحراف ہے۔ یہ ایک سامنے کی بات ہے کہ ہلاکت کے لیے چٹکی بھر زہر بھی کافی ہوتا ہے انسان کو خودکشی کرنے کے لیے ایک کلو زہر کی ضرورت نہیں ہوتی۔ عورت مارچ کی منتظمین اپنے مارچ کے ذریعے ایک اسلامی معاشرے کی رگوں میں لبرل ازم اور سیکولر ازم کا زہر اتارنے کے لیے کوشاں ہیں۔ وہ معاشرے میں خواتین کو خدا، رسول اور مذہب سے بغاوت پر اکسا رہی ہیں۔ چناں چہ انہیں اپنا ایجنڈا معاشرے پر مسلط کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ یاسر پیرزادہ نے پاکستانی معاشرے کو پدر سری ہونے کا طعنہ بھی دیا ہے۔ یاسر پیرزادہ اتنے بڑے ہوگئے مگر انہیں اتنی سی بات معلوم نہیں کہ مسئلہ معاشرے کا پدرسری یا مدرسری ہونے کا نہیں مسئلہ معاشرے کے انسانی اور منصفانہ ہونے کا ہے اور بلاشبہ اسلام جس طرح معاشرے کو انسانی اور منصفانہ بنا سکتا ہے سیکولر ازم اور لبرل ازم نہیں بنا سکتا۔

Leave a Reply