اسلام، علم، غزالیؒ اور مولانا مودودیؒ

اسلام میں علم کی اہمیت اتنی زیادہ ہے کہ اسلام اور علم ہم معنی الفاظ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ علم کی اہمیت کا ایک پہلو یہ ہے کہ قرآن مجید میں 800 سے زیادہ مقامات پر علم یا اس کے متعلقہ موضوع پر کلام کیا گیا ہے اور مسلمانوں کو طرح طرح سے علم کی طرف مائل کیا گیا ہے۔ علم کی فضیلت کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ رسول اکرمؐ نے فرمایا کہ جب اہل دنیا، دنیا سے رخصت ہوتے ہیں تو وہ اپنے پیچھے ورثے کے طور پر مال و دولت چھوڑ کر جاتے ہیں مگر جب کوئی نبی دنیا سے رخصت ہوتا ہے تو وہ علم کو روثے کے طور پر چھوڑ کر جاتا ہے۔ اس اعتبار سے علم مسلمانوں کے لیے رسول اکرمؐ کا ’’ورثہ‘‘ ہے۔ چناں چہ جس نے علم کو اختیار کیا اس نے رسول اکرمؐ کے ورثے کو اختیار کیا اور جس نے علم کو چھوڑا اس نے دراصل رسول اکرمؐ کے ورثے کو چھوڑا اور جس نے رسول اکرمؐ کے ورثے کو چھوڑا وہ کس بات کا مسلمان ہے؟۔
علم کی اسی اہمیت کی وجہ سے مسلمانوں نے دنیا میں علم کی ایسی شاندار روایت پیدا کی ہے کہ تاریخ عالم سے اس کی مثال نہیں لائی جاسکتی۔ دنیا میں آسمانی کتب کئی ہیں اور ان تمام پر کلام کی روایت موجود ہے مگر مسلمانوں نے قرآن پر گفتگو کے حوالے سے جتنا بڑا تفسیری علم پیدا کیا اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ دنیا میں ایک لاکھ 24 ہزار انبیا آئے، ان میں 240 یا 25 کا ذکر قرآن میں بھی موجود ہے مگر ہمیں جلیل القدر، انبیا کے بھی صرف چند اقوال ملتے ہیں۔ اس کے برعکس مسلمانوں نے علم حدیث کی صورت میں اتنا بڑا علم مدون کیا کہ رسول اکرمؐ کا ایک ایک ارشاد گرامی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے محفوظ ہوگیا۔ مسلمانوں نے فقہ کی اتنی بڑی روایت پیدا کی کہ صرف امام ابوحنیفہؒ نے 12 لاکھ مسائل کا اسلامی حل پیش فرمایا ہے۔ اس روایت میں امام شافعیؒ، امام مالکؒ اور امام حنبلؒ کا علم بھی شامل کرلیا جائے تو علم کا ایک سمندر وجود میں آجاتا ہے۔ مسلمانوں نے شاعری کی اتنی بڑی روایت پیدا کی کہ مولانا روم کو دنیا کے 100 بڑے شاعروں کے مقابلے پر رکھا جائے تو کیفیت اور معنویت کے اعتبار سے مولانا کا پلڑا بھاری ہوگا۔
جہاں تک جدید علم کا تعلق ہے تو مغرب کے دانش وروں رابرٹ بریف لٹ اور مائیکل مورگن ہملٹن نے اپنی تصانیف Making of Humanity اور The lost History میں ثابت کیا ہے کہ جدید مغرب کے پاس ایک علم بھی ایسا نہیں جو اسے مسلمانوں سے فراہم نہ ہوا ہو۔ چناں چہ دونوں مصنفین اس امر پر متفق ہیں کہ یورپ کی نشاط شانیہ مسلمانوں سے حاصل ہونے والے علوم کے بغیر ممکن نہ تھی۔
علم کی اسی اہمیت کے باعث امام غزالی نے اپنی معرکہ آرا تصنیف احیا العلوم میں ایک پورا باب علم کے لیے وقف کیا ہے۔ غزالی نے احیا میں علم کے حوالے سے قرآن مجید کی 14 آیات کا حوالہ دیا ہے۔ ان میں سے چند یہ ہیں۔
(1) ’’اللہ تعالیٰ (اس حکم کی اطاعت سے) تم میں ایمان والوں کے اور (ایمان والوں میں) ان لوگوں کے جن کو علم (دین) عطا ہوا ہے (اخروی) درجے بلند فرمائے گا‘‘۔
(احیا العلوم، جلد اوّل، صفحہ35)
(2) ’’اور ہم قرآنی مثالوں کو لوگوں کے (سمجھانے) کے لیے پیش کرتے ہیں اور ان مثالوں کو بس علم والے ہی سمجھتے ہیں‘‘۔
(احیا العلوم، جلد اوّل صفحہ36)
(3) ’’اور خدا سے وہی بندے ڈرتے ہیں جو (اس کی عظمت کا) علم رکھتے ہیں‘‘۔
(احیا، جلد اوّل، صفحہ35)
غزالی نے علم کی اہمیت کے حوالے سے رسول اکرمؐ کی 28 احادیث بھی پیش کی ہیں۔ ان میں سے چند یہ ہیں۔
(1) اللہ جس کے ساتھ بھلائی کرتا ہے اس کو دین کی سمجھ اور ہدایت عطا کرتا ہے۔
(2) علما انبیا کے وارث ہیں۔
غزالی نے یہ حدیث پیش کرکے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ نبوت سب سے بڑا منصب ہے۔ چناں چہ اس منصب کی وراثت سے بڑا شرف کوئی نہیں۔
(3) زمین و آسمان کی تمام چیزیں عالم کے لیے دعائے مغفرت کرتی ہیں۔
(4) ایمان ننگا ہے۔ اس کا لباس تقویٰ ہے، اس کی زینت حیا ہے اور اس کا ثمر علم ہے۔
(5) عالم کی فضیلت عابد پر ایسی ہی ہے جیسے میری فضیلت ادنیٰ صحابی پر۔
(6) علم خزانہ ہے۔ اس کی کنجی سوال ہے۔ علم کے متعلق پوچھتے رہا کرو اس لیے کہ ایک سوال کرنے سے چار آدمیوں کو ثواب ملتا ہے۔ سائل کو، عالم کو، سننے والے کو اور جو اُن سے محبت رکھتا ہو۔
(7) ایک عالم کی مجلس میں حاضری ہزار رکعت نماز پڑھنے سے، ہزار مریضوں کی عیادت کرنے سے اور ہزار جنازوں میں شرکت کرنے سے افضل ہے۔
(8) جس شخص کو اس حالت میں موت آجائے کہ وہ اسلام کو زندہ رکھنے کے لیے علم حاصل کررہا ہو تو جنت میں اس کے اور انبیا کے درمیان صرف ایک درجے کا فرق ہوگا۔
(احیا العلوم، جلد اوّل، صفحہ36 تا 43)
سیدنا علیؓ نے علم کی اہمیت پر تواتر سے گفتگو کی ہے۔ انہوں نے فرمایا علم مال سے بہتر ہے۔ علم تیری حفاظت کرتا ہے اور تو مال کی۔ علم حاکم ہے اور مال محکوم۔ مال خرچ کرنے سے گھٹتا ہے اور علم خرچ کرنے سے بڑھتا ہے۔
ابن مبارک تابعین میں سے ہیں۔ ان سے کسی نے پوچھا۔ کون لوگ صحیح معنوں میں انسان ہیں۔ فرمایا: ’’علما‘‘۔ غزالی نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ابن مبارک نے صرف اہل علم کو اس لیے انسان قرار دیا کہ صرف علم ہی انسان کو جانوروں سے ممتاز کرتا ہے۔ حسن بصری کہا کرتے تھے کہ اگر عالموں کے قلموں کی سیاہی اور شہیدوں کے خون کو تولا جائے تو سیاہی کا وزن زیادہ ہوگا۔ حسن بصری نے ربنّا اتِنا فی الدنیا حسنتہً وَّفی اَلاخر خِرۃِ حسنتہ کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا ہے اس آیت مبارک میں دنیا کے حسنہ سے مراد ’’علم اور عبادت‘‘ اور آخرت کے حسنہ سے مراد ’’جنت‘‘ ہے۔
جس طرح اسلام اور علم ہم معنی ہیں اور جس طرح علم اور غزالی ہم معنی ہیں ٹھیک اسی طرح مولانا مودودی اور علم بھی ہم معنی ہیں۔ چناں چہ علم کی اہمیت اور عظمت کے حوالے سے مولانا مودودی کی تحریر کا ایک اقتباس پیش خدمت ہے۔ مولانا نے 5 جنوری 1941ء کو دارالعلوم ندوۃ العلما لکھنؤ کی انجمن طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:۔
’’سب سے پہلے یہ امر غور طلب ہے کہ اس دنیا میں امامت و قیادت کا مدار آخر ہے کس چیز پر؟ کیا چیز ہے جس کی بنا پر کبھی مصر امام بنتا ہے اور دنیا اس کے پیچھے چلتی ہے، کبھی یونان امام بنتا ہے اور دنیا اس کی پیروی کرتی ہے اور کبھی اسلام اقوام کا امام بنتا ہے اور دنیا اس کے نقش قدم پر ہولیتی ہے اور کبھی یورپ امام بنتا ہے اور دنیا اس کی متبع بن جاتی ہے؟ آخر وہ کیا چیز ہے جس کی وجہ سے امامت آج ایک کو ملتی ہے، کل اس سے چھن کر دوسرے کی طرف چلی جاتی ہے اور پرسوں اس سے سلب ہو کر تیسری کی طرف منتقل ہوجاتی ہے؟ کیا یہ بے ضابطہ اتفاقی امر ہے یا اس کا کوئی ضابطہ ہے؟ اس مسئلے پر جتنا بھی غور کیا جائے اس کا جواب یہی ملتا ہے کہ ہاں، اس کا ضابطہ ہے اور وہ ضابطہ یہ ہے کہ امات کا دامن ہمیشہ علم سے وابستہ رہے گا۔ انسان کو بحیثیت نوع کے زمین کی خلافت ملی ہی علم کی وجہ سے ہے‘‘۔
(30 مئی تا 5 جون، ہفت روزہ ایشیا 2019ء)
بلاشبہ مغرب کے غلبے کا ایک سبب اس کا علم بھی ہے مگر علم اس کے غلبے کا دوسرا سبب ہے۔ پہلا اور فیصلہ کن سبب اس کی عسکری برتری ہے۔ مگر بہرحال مولانا نے اصول بالکل ٹھیک ٹھیک بیان کیا ہے۔ مسلمانوں کے غلبے کے دو بنیادی اسباب تھے۔ ایک مسلمانوں کا تقویٰ، ان کا قربِ الٰہی، ان کی خدا مرکز زندگی، تقوے کو اللہ تعالیٰ نے یہ صلاحیت عطا کی ہے کہ وہ قلوب کو مسخر کرتا ہے۔ مسلمانوں کے غلبے کا دوسرا سبب ان کی علمی فضیلت تھی۔ جس طرح تقویٰ دلوں کو مسخر کرتا ہے اسی طرح علم اذہان کو فتح کرتا ہے اور جب آپ انسانوں کے دلوں اور اذہان کو فتح کرلیں تو پھر اور فتح کرنے کے لیے رہ ہی کیا جاتا ہے؟۔
خود مولانا کی شخصیت علمی فضیلت کی اہمیت اور برتری کی مثال ہے۔ برصغیر کا کون سا مذہبی یا غیر مذہبی گروہ ہے جس نے مولانا پر حملے نہیں کیے، ان کے خلاف پروپیگنڈا نہیں کیا مگر چوں کہ مولانا کے پاس برتر علم اور برتر دلیل تھی اس لیے مولانا کا علم پھیل کر رہا۔ مولانا نے اپنی ایک تقریر میں صاف کہا ہے کہ جماعت اسلامی تقریروں سے برآمد ہونے والی جماعت نہیں ہے بلکہ یہ لٹریچر سے جنم لینے والی جماعت ہے۔ اس اعتبار سے جماعت اسلامی کا ایک مطلب علم ہے۔ جماعت اسلامی کا دوسرا مطلب کتاب ہے۔ جماعت اسلامی کا تیسرا مطلب مطالعہ ہے۔ جماعت اسلامی کا چوتھا مطلب اسلام کے دائرے میں رہتے ہوئے نئے خیالات کی تخلیق ہے۔ جماعت اسلامی کا پانچواں مطلب باطل سے علمی پنجہ آزمائی کرنا ہے۔ جماعت اسلامی کا چھٹا مطلب زندگی کے ہر دائرے میں قدم، ملت، امت اور انسانیت کو برتر بیانیہ یا Superior Narrative مہیا کرنا ہے۔ جو شخص یہ باتیں نہیں جانتا فکر مودودی کی روشنی میں اُسے جماعت اسلامی کی الف ب بھی معلوم نہیں۔ اس لیے کہ غلبہ اسلام کی جدوجہد میں تقوے کے بعد علم ہمارا سب سے بڑا سہارا اور سب سے بڑا ہتھیار ہے۔ مولانا کی ساری کامیابیوں کی دو ہی بنیادیں ہیں، مولانا کا تقویٰ اور ان کا علم اور جیسا کہ ہم جان چکے ہیں قرآن وحدیث اور فقہ کا فہم بھی علم سے گزر کر حاصل ہوتا ہے اور عابد پر عالم کو فوقیت بھی علم کے وسیلے سے میسر آتی ہے۔ تاریخ کا ایک زمانہ وہ تھا جب ہمارے مفکرین اور دانش وروں کی کتابیں مغرب کی دانش گاہوں میں پڑھائی جاتی تھیں اور حیرت و ہیبت سے دیکھی جاتی تھیں۔ تاریخ کا ایک زمانہ یہ ہے کہ ہمارے تعلیمی اداروں میں مغرب کے مفکرین کے نظریات پڑھائے جاتے ہیں اور ہمارے لاکھوں اساتذہ اور طلبہ ان نظریات کو حیرت اور ہیبت سے دیکھتے ہیں۔ اسلام کو اگر دنیا پر دوبارہ غالب آنا ہے اور یقینا آنا ہے تو ہمیں تقوے کے ساتھ ساتھ علمی فضیلت بھی پیدا کرکے دکھانی ہوگی۔ اس کے بغیر غلبہ اسلام کی بات ایک خیالی پلائو کے سوا کچھ نہیں۔

Leave a Reply