ایم کیو ایم کے مظالم کی تاریخ

شاعر نے کہا ہے
ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے
خون پھر خون ہے ٹپکے گا تو جم جائے گا
لیکن کراچی میں ایم کیو ایم کے مظالم کی تاریخ نے اب تک اس شعر کو اس حال میں رکھا ہوا ہے۔
ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو بڑھ جاتا ہے
خون پھر خون ہے ٹپکے گا تو بہہ جائے گا
اس شعر کی تازہ ترین مثال سانحہ بلدیہ فیکٹری کے سلسلے میں سامنے آنے والا انسداد دہشت گردی کی عدالت کا فیصلہ ہے۔ جیسا کہ دنیا جانتی ہے ایم کیو ایم کے رہنمائوں اور کارکنوں نے بلدیہ فیکٹری میں 264 افراد کو زندہ جلا دیا تھا۔ اس مقدمے کا فیصلہ آٹھ سال کی طویل مدت کے بعد ہوگیا ہے مگر اس مقدمے میں ایم کیو ایم کے دو کارکنوں رحمن بھولا اور زبیر چریا کو موت کی سزا ہوئی ہے۔ ایم کیو ایم کی اعلیٰ قیادت سزا سے صاف بچ گئی ہے۔ عدالت نے مقدمے کے مرکزی ملزم ایم کیو ایم کے رہنما حماد صدیقی کے تاحیات ناقابل ضمانت وارنٹ جاری کردیے ہیں۔ ایم کیو ایم کے رہنما رئوف صدیقی سمیت چار ملزموں کو بری کردیا گیا ہے۔ فیصلے کے بعد دو اہم ردعمل سامنے آئے۔ 264 زندہ جلائے جانے والے افراد کے کئی لواحقین نے کہا کہ انصاف نہیں ہوا اس لیے کہ ایم کیو ایم کے اہم لوگوں کو تو سزا ملی ہی نہیں۔ ایم کیو ایم کے رہنما فیصل سبزواری نے رئوف صدیقی کے بری ہونے کے حوالے سے فرمایا کہ اس سے ثابت ہوگیا کہ ایم کیو ایم بلدیہ فیکٹری کے سانحے میں ملوث نہیں۔ اس پر پیپلز پارٹی کے رہنما سعید غنی نے پوچھ لیا کہ حماد صدیقی، رحمن بھولا اور زبیر چریا کون ہیں؟ کیا ایم کیو ایم کے لوگ نہیں؟۔
ایم کیو ایم کے مظالم کی تاریخ طویل بھی ہے اور شرمناک بھی۔ مہاجر کمیونٹی پاکستان کا سب سے مذہبی اور نظریاتی گروہ تھی۔ پاکستان میں لسانی اور صوبائی تعصبات کی سیاست ہورہی تھی مگر مہاجر اس فضا میں بھی اپنے مذہبی اور نظریاتی تشخص سے چمٹے ہوئے تھے۔ اس لیے 1947ء سے 1984ء تک کراچی پاکستان کا سب سے نظریاتی شہر تھا۔ لیکن ایم کیو ایم اور اس کے سرپرست جرنیلوں نے مہاجروں کو ’’مہاجریت‘‘ کی راہ پر ڈال دیا۔ اس طرح ملک میں پنچابیت، سندھیت، پشتونیت، بلوچیت کی طرح ایک اور ’’یت‘‘ کا اضافہ ہوگیا۔ یہ مہاجروں کے ساتھ ہونے والا سب سے بڑا ظلم تھا۔ سیدنا عیسیٰؑ کا مشہورِ زمانہ قول ہے کہ انسان صرف روٹی کے سہارے زندہ نہیں رہ سکتا مگر الطاف حسین اور ان کی ایم کیو ایم مہاجروں کو پٹی پڑھارہی تھی کہ زندگی میں گندم اور تعصب کی روٹی کے سوا کچھ بھی اہم نہیں۔ ایک وقت تھا کہ مہاجر، پنجابیت، سندھیت، پشتونیت اور بلوچیت کی پوجا کرنے والوں سے بلند تھے مگر الطاف حسین اور ایم کیو ایم نے مہاجروں کو بھی مہاجریت کا بت تھمایا اور کہا کہ لو اس کی پوجا کرو۔ اس بت نے مہاجروں سے ان کا مذہبی اور نظریاتی ایقان چھین لیا۔ ایقان کا چھن جانا معمولی بات نہیں۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے جسم سے روح نکال لی جائے۔
انسانی تاریخ میں بہت سے انسانوں اور گروہوں نے ظلم و وحشت کی تاریخ رقم کی ہے۔ یہاں تک کہ انقلابیوں نے بڑے پیمانے پر انسانوں کو ہلاک کیا ہے۔ چین کے انقلاب میں 4 کروڑ لوگ مارے گئے۔ روس کے انقلاب میں 80 لاکھ لوگ ہلاک ہوئے۔ یہودیوں کے دعوے کے مطابق ہٹلر نے 60 لاکھ یہودیوں کو قتل کیا۔ لیکن چین اور روس میں پرولتاریوں یا عوام نے خواص کو قتل کیا۔ جرمنی میں جرمن قوم پرستوں نے یہودیوں کو مارا۔ لیکن ایم کیو ایم نے مہاجروں کی نمائندہ ہونے کے باوجود سب سے زیادہ مہاجروں کو قتل کیا۔ اس نے جماعت اسلامی اور اسلامی جمعیت طلبہ کے مہاجروں کو مارا۔ پیپلز پارٹی کے مہاجروں کو قتل کیا۔ ایم کیو ایم حقیقی کے مہاجروں کو ٹھکانے لگایا۔ مسلمان صرف مسلمان ہوتا ہے۔ پنچابی، پٹھان، سندھی یا مہاجر نہیں ہوتا۔ لیکن ایم کیو ایم کا اصرار تھا کہ اس کی مہاجریت معاذ اللہ اسلامی تشخص سے بھی زیادہ اہم ہے، مگر اس نے پنچابیوں، سندھیوں اور پٹھانوں سے کہیں زیادہ مہاجروں کو قتل کیا۔ سندھ رینجرز کے سابق ڈی جی محمد سعید نے اے آر وائی کو انٹرویو دیتے ہوئے انکشاف کیا کہ گزشتہ تیس پینتیس سال کے دوران کراچی میں 92 ہزار افراد قتل ہوئے ہیں۔ یہاں سمجھنے کی اہم بات یہ ہے کہ 92 ہزار افراد میں کم از کم 80 ہزار مہاجر ہوں گے۔ قتل کے سلسلے میں ایم کیو ایم بڑی ’’Creative‘‘ ثابت ہوئی۔ اس نے زندہ انسانوں کو جلایا۔ اس نے زندہ انسانوں کو ڈرل کیا۔ اس نے زندہ انسانوں کو سگریٹوں سے داغا۔ اس نے بوری بند لاشوں کا ’’کلچر‘‘ متعارف کرایا۔ اس نے زندہ انسانوں کی کھالیں اُتروائیں، زندہ انسانوں کے ناخن اکھڑوائے۔ اس نے اپنے تمام سیاسی حریفوں سے نفرت کو مذہب بنادیا۔ اس نفرت کے بغیر ایم کیو ایم وہ ظلم نہیں کرسکتی تھی جو اس نے کیے۔
ایم کیو ایم نے بھتا خوری کے ظلم میں بھی ’’جدت‘‘ پیدا کی۔ اس نے کراچی میں بھتا خوری کو ایک ’’پیشہ‘‘ بنادیا۔ بہت کم لوگوں کو یاد ہوگا کہ بلدیہ فیکٹری کے سانحے کی کہانی صرف اتنی سی ہے کہ ایم کیو ایم نے بلدیہ میں موجود فیکٹری کے مالکوں سے 25 کروڑ بھتے کا مطالبہ کیا۔ فیکٹری کے مالکان سے کہا گیا کہ یا تو 25 کروڑ بھتا دو یا فیکٹری میں ایم کیو ایم کو شراکت دار بنائو۔ فیکٹری کے مالکان ایم کیو ایم کو ایک کروڑ روپے بھتا دینے پر آمادہ تھے۔ مگر یہ رقم ایم کیو ایم کے مطالبے سے کم تھی۔ چناں چہ ایم کیو ایم کے رہنما حماد صدیقی نے جو اس وقت شاید تنظیمی کمیٹی کا سربراہ تھا رحمن بھولا اور زبیر چریا کو حکم دیا کہ فیکٹری میں آگ لگادی جائے اور اس بات کی پروا نہ کی جائے کہ آگ لگنے سے 264انسان بھی زندہ جل جائیں گے۔
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ ایم کیو ایم صرف کروڑوں کا بھتا لیتی تھی۔ ایسا نہیں تھا۔ ایم کیو ایم کے بھتے کی سطح گر کر کروڑوں سے لاکھوں، لاکھوں سے ہزاروں اور ہزاروں سے سیکڑوں پر آجاتی تھی۔ ایک روز رات گئے ہم پان شاپ پر گئے تو دیکھا کہ ایک نوجوان علاقے کے پان والے سے کانا پھوسی میں مصروف ہے۔ پھر اچانک پان والے نے اسے غلے سے کچھ روپے نکال کر دیے۔ نوجوان چلا گیا۔ اس وقت پان شاپ پر پان شاپ کے مالک اور ہمارے سوا کوئی نہ تھا۔ ہم نے مالک سے پوچھا خیریت تو ہے۔ کہنے لگا خیریت کہاں ہے۔ یہ لڑکا مہینے میں تیسری بار بھتا لے کر گیا ہے۔ ہم نے پوچھا آپ نے کتنے پیسے دیے۔ کہنے لگا ایک ہزار روپے۔ یعنی ایم کیو ایم کا وہ کارکن پان شاپ والے سے ایک ماہ میں تین ہزار روپے اینٹھ چکا تھا اور مستقبل کا در کھلا تھا۔ ہمیں ایک زمانے میں گھر سے دفتر جاتے ہوئے دیر ہوجاتی تھی تو ہم ٹیکسی لے لیتے تھے۔ علاقے کے کئی ٹیکسی والے ہمارے شناسا بن گئے تھے۔ ایک دن ہم دفتر کے لیے گھر سے نکلے تو دیکھا کہ مخصوص درخت کے نیچے کوئی ٹیکسی موجود نہیں۔ ہم نے اِدھر اُدھر دیکھا تو دور سے آواز آئی۔ بھائی میں یہاں کھڑا ہوں۔ ہم نے دیکھا ایک ٹیکسی والا ہمیں کچھ فاصلے پر کھڑا ہو کر اپنی طرف بلا رہا ہے۔ ہم ٹیکسی میں بیٹھ گئے۔ ہم نے ٹیکسی والے سے پوچھا کہ تم آج مخصوص درخت کے نیچے کیوں موجود نہیں تھے؟ کہنے لگا سر بھائی لوگوں نے بھتا بڑھادیا ہے۔ پہلے وہ پانچ سو روپے لیتے تھے اب ایک ہزار روپے مانگتے ہیں۔ سر ہم ایک ہزار روپے ماہانہ ان کو دیں گے تو خود کیا کھائیں گے۔ یہ آج سے پچیس سال پرانی بات ہے۔ اس وقت ہزار روپے اچھی خاصی رقم ہوتے تھے۔ اس دن ہم پر انکشاف ہوا کہ ایم کیو ایم کے لوگ ٹیکسی والوں سے بھی بھتا لیتے ہیں۔ کہنے کو بلدیہ فیکٹری کے سانحے کے سلسلے میں انصاف ہو گیا مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ ادھورا انصاف ہے۔ اس میں حکم ماننے والے تو سزائے موت کے مستحق قرار پا گئے ہیں مگر حکم دینے والے بچ گئے ہیں۔ ایم کیو ایم کے حوالے سے یہ شعر سچ ہے۔
ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو بڑھ جاتا ہے
خون پھر خون ہے ٹپکے گا تو بہہ جائے گا

Leave a Reply