ہندوستان اور اس کا سیکولرازم

پنڈت جواہر لعل نہرو کے ہندوستان میں سیکولرازم ایک ’’رومان‘‘ تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی پنڈت جواہر لعل نہرو خود بھی سیکولر ہونے کے دعویدار تھے اور انہوں نے بھارت کو سیکولر آئین بھی دیا تھا۔ پنڈت جواہر لعل نہرو کے ہندوستان میں سیکولرازم کا رومان اتنا شدید تھا کہ اس نے فلمی گیتوں تک کو متاثر کردیا تھا۔ بھارت نے 1959ء میں فلم ’’دھول کا پھول‘‘ بنائی۔ اس فلم میں ساحر لدھیانوی کا لکھا ہوا گیت بھی شامل تھا۔ گیت یہ تھا۔
تو ہندو بنے گا نہ مسلمان بنے گا
انسان کی اولاد ہے انسان بنے گا
٭٭
اچھا ہے ابھی تک ترا کچھ نام نہیں ہے
تجھ کو کسی مذہب سے کوئی کام نہیں ہے
جس علم نے انسان کو تقسیم کیا ہے
اس علم کا تجھ پر کوئی الزام نہیں ہے
تو بدلے ہوئے وقت کی پہچان بنے گا
انسان کی اولاد ہے انسان بنے گا
٭٭
مالک نے ہر انسان کو انسان بنایا
ہم نے اسے ہندو یا مسلمان بنایا
قدرت نے تو بخشی تھی ہمیں ایک ہی دھرتی
ہم نے کہیں بھارت کہیں ایران بنایا
جو توڑ دے ہر بند وہ طوفان بنے گا
انسان کی اولاد ہے انسان بنے گا
٭٭
نفرت جو سکھائے وہ دھرم تیرا نہیں ہے
انساں کو جو روندے وہ قدم تیرا نہیں ہے
قرآن نہ ہو جس میں وہ مندر نہیں تیرا
گیتا نہ ہو جس میں وہ دھرم تیرا نہیں ہے
تُو امن کا اور صلح کا ارمان بنے گا
انسان کی اولاد ہے انسان بنے گا
٭٭
یہ دین کے تاجر یہ وطن بیچنے والے
انسانوں کی لاشوں کے کفن بیچنے والے
یہ محلوں میں بیٹھے ہوئے قاتل یہ لٹیرے
کانٹوں کے عوض روحِ چمن بیچنے والے
تو ان کے لیے موت کا اعلان بنے گا
انسان کی اولاد ہے انسان بنے گا
فلم میں یہ گیت ایک بچے کو مخاطب کرتے ہوئے گایا گیا ہے۔ 1960ء اور 1970ء کی دہائی میں یہ گیت ایک مقبول عوام گیت تھا۔ اس گیت کی اہمیت یہ تھی کہ اس میں ایک حد تک ہی سیکولر ازم موجود تھا۔ ہندوستان میں یہ کہنا تو کوئی بڑی بات نہیں تھی کہ مسلمان مسلمان نہ رہے مگر ہندو اکثریت کے ہندوستان میں یہ کہنا اہم تھا کہ ہندو، ہندو نہ رہے۔ لیکن یہاں اس گیت کا تجزیہ ضروری ہے اس لیے کہ اس گیت کے تجزیے میں بھارت کے نام نہاد سیکولرازم کا پورا تشخص بند ہے۔ فلم کا ایک کردار بچے سے مخاطب ہو کر کہہ رہا ہے۔
تو ہندو بنے گا نہ مسلمان بنے گا
انسان کی اولاد ہے انسان بنے گا
اس شعر میں ’’انسانیت‘‘ کو لامذہبیت سے منسلک کردیا گیا ہے اور شاعر کہہ رہا ہے کہ ہندو یا مسلمان بن کر انسان، انسانیت کے مرتبے سے گر جاتا ہے۔ انسانیت کی تاریخ گواہ ہے کہ مذاہب عالم نے جتنی عظیم شخصیات اور جتنے عظیم انسان پیدا کیے ہیں سیکولرازم ان کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ دنیا میں کون ہے جو رسول اکرمؐ کی طرح ہو۔ سیدنا ابراہیمؑ، سیدنا موسیٰؑ، سیدنا عیسیٰؑ یا کرشن اور رام کی طرح ہو۔ خیر یہ تو پیغمبروں کا دائرہ ہے۔ پیغمبرانہ روایت نے جو انسان پیدا کیے ہیں ان جیسے انسان بھی سیکولر ازم کی روایت میں ڈھونڈنے سے نہیں ملتے۔ دنیا میں کون ہے جو سیدنا ابوبکرؓ، سیدنا عمرفاروقؓ، سیدنا عثمان غنیؓ اور سیدنا علیؓ کی طرح ہو؟ لیکن ہندوستان کا سیکولر ازم اتنا اندھا تھا کہ اسے پوری مذہبی تاریخ میں کہیں ہزاروں سورج ،چاند اورلاکھوں ستارے چمکتے ہوئے نظر نہیں آرہے تھے۔ اس کا خیال تھا کہ انسان ہونے کا مطلب ہی سیکولر ہونا ہے۔ ہندوستان کے اس سیکولرازم میں اتنی شدت تھی کہ وہ خود ایک مذہب کی طرح کلام کرتا ہوا نظر آرہا تھا۔
گیت میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ مذہبی علم انسانوں کو تقسیم کرتا ہے۔ حالاں کہ اسلام پوری انسانیت کو اللہ تعالیٰ کا کنبہ سمجھتا ہے۔ اسلام اہل کتاب سے صاف کہتا ہے کہ آئو ان باتوں پر ایک ہوجائیں جو تمہارے اور ہمارے درمیان مشترک ہیں۔ اسلام صاف صاف اعلان کرتا ہے کہ فضیلت صرف دو چیزوں کو حاصل ہے ایک تقوے یعنی تعلق با اللہ کو اور دوسری علم کو۔ اس کے سوا انسانوں کے درمیان کوئی فرق نہیں۔ اسلام نہ رنگ کو تسلیم کرتا ہے، نہ نسل کو اہمیت دیتا ہے، نہ ذات برادری کو گھاس ڈالتا ہے، نہ مال دو دولت اور طاقت و حشمت کو خاطر میں لاتا ہے۔ البتہ اسلام انسانوں کو صرف حق و باطل کی بنیاد پر تقسیم کرتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان کا اصل تشخص اللہ کا بندہ ہونا ہے۔ انسان اللہ کا بندہ نہیں تو پھر وہ انسان کہلانے کا بھی مستحق نہیں۔ لیکن ہندوستان کا سیکولرازم مذہب اور مذہبی علم پر الزام لگارہا تھا کہ وہ انسانوں کو تقسیم کرنے کا سبب ہے۔
گیت کے دوسرے بند میں اچانک ’’مالک‘‘ کا لفظ در آیا۔ اس لفظ کو استعمال کرتے ہوئے شاعر نے فرمایا۔ مالک نے ہر انسان کو انسان بنایا۔ ارے بھائی جب آپ لامذہبیت کے قائل ہیں تو خدا کو بیچ میں لانے کا کیا جواز ہے؟ اس پر یہ دعویٰ کہ خدا نے انسان کو انسان بنایا ہے ہندو یا مسلمان نہیں بنایا ہے۔ تمام مذہبی روایتوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ مذہب انسان کی ایجاد نہیں ہے بلکہ مذہب اللہ تعالیٰ کی عطا ہے۔ چناں چہ یہ کہنا درست نہیں کہ اللہ نے ہمیں انسان بنایا البتہ ہم نے خود انسانوں کو ہندو اور مسلمان میں ڈھالا۔ یہاں کہنے کی ایک اہم بات یہ ہے کہ اگر خدا خود انسانوں کو مسلمان یا ہندو بنا کر بھیجتا تو مذہب ایک جبر بن جاتا۔ اختیار نہ رہتا۔ چناں چہ پھر جزا اور سزا کا کوئی تصور بھی نہ ہوتا۔ یہی سبب ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اختیار اور ارادے کی آواز دی ہے۔ دنیا میں کروڑوں انسان ایسے ہیں جو مسلمانوں کے گھروں میں پیدا ہونے کے باوجود اچھے اور سچے مسلمان نہیں بن پائے۔ شاعر کا یہ کہنا درست ہے کہ مالک نے ہمیں ایک ہی زمین دی تھی ہم نے کہیں بھارت کہیں ایران بنایا۔ مگر تاریخ انسانی کا مطالعہ بتاتا ہے کہ جیسی قوم پرستی جیسی دھرتی پوجا سیکولر ازم نے انسانوں کو سکھائی ہے ویسی قوم پرستی اور دھرتی پوجا مذہب نے انسانوں کو نہیں سکھائی۔ اس سلسلے میں اسلام کی پوزیشن صاف ہے۔ اسلام تو ہجرت کا دین ہے۔ دھرتی پوجا کی نفی کا دین ہے۔ ایک وقت تھا کہ پورا عالم اسلام ایک مذہب اور سیاسی وحدت تھا اور ایک وقت آئے گا کہ اسلام پوری انسانیت اور پوری زمین کو ایک مذہبی، انسانی اور سیاسی وحدت بنادے گا۔
گیت کے چوتھے بند میں ہندوستان کا سیکولرازم مذہب کے آگے سجدہ ریز ہوجاتا ہے۔ اس بند میں قرآن بھی ہمارے سامنے آکر کھڑا ہوجاتا ہے اور گیتا بھی ایک حقیقت بن کر سامنے آجاتی ہے۔ اس بند میں ہندوستان کے سیکولر ازم کا تقاضا یہ نہیں کہ قرآن اور گیتا کو نہ مانو بلکہ اس کا تقاضا یہ ہے ہر مندر میں ایک قرآن ہونا چاہیے اور ہر مسجد میں گیتا موجود ہونی چاہیے۔ یعنی مسلمان تھوڑے سے ہندو بن جائیں اور ہندو تھوڑے سے مسلمان قرار پاجائیں۔ یہ برصغیر میں مسلمانوں کے جداگانہ مذہبی، تہذیبی، تاریخی، نفسیاتی، جذباتی اور سماجی تشخص پر حملہ ہے۔ برصغیر میں مسلمانوں کی تاریخ یہ ہے کہ انہوں نے ایک ہزار سال تک ہندوئوں پر حکومت کی مگر کبھی نہ ان کی مذہبی کتابوں کو کچھ کہا نہ ان کے دیوی دیوتائوں پر کوئی حملہ کیا۔ البتہ ہندو قرآن، اسلام اور پیغمبر اسلام پر حملے کرتے رہے ہیں۔ یہاں تک کہ انہوں نے دن دہاڑے بابری مسجد کو شہید کیا۔ بہرحال یہاں کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ جن انسانوں کے پاس قرآن مجید فرقان حمید جیسی نعمت ہو ان کو گیتا کے مطالعے سے بھلا کیا حاصل ہوگا؟۔
گیت کے آخری بند میں دین کے تاجروں اور وطن اور کفن فروخت کرنے والوں پر شدید حملہ کیا ہے اور انہیں سرمایہ دارقرار دے کر انہیں کانٹوں کے عوض روح چمن فروخت کرنے والا کہا ہے۔ تجزیہ کیا جائے تو یہ دو قومی نظریے اور پاکستان پر حملہ ہے۔ اس لیے کہ پاکستان کی اساس اسلام ہے اور اسی کی وجہ سے ’’بھارت ماتا‘‘ کے ٹکڑے ہوئے ہیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو بھارت کا سیکولرازم کنفیوژن کا شکار ہے۔ اسے سمجھ نہیں آرہا کہ وہ اسلام کو پورا قبول کرے یا آدھا؟۔ ایک طرف ہندوستان کا سیکولرازم ہر مندر میں قرآن رکھوا رہا ہے، دوسری طرف وہ دین کی بنیاد پر سیاست کرنے والوں کو دین کے تاجر، وطن بیچنے والے، قاتل اور لٹیرے قرار دے رہا ہے۔
ہندو قیادت کا تجزیہ بتاتا ہے کہ اس کا سیکولر ازم ایک ڈھکوسلے کے سوا کچھ نہ تھا۔ گاندھی سیکولر تھے مگر نہرو کی بہن وجے لکشمی پنڈت نے ایک مسلمان سے شادی کی تو گاندھی وجے لکشمی پنڈت پر سخت ناراض ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ تجھے کروڑوں ہندوئوں میں سے ایک لڑکا بھی ایسا نہ ملا جسے تو اپنا شوہر بنا سکے۔ مولانا محمد علی جوہر نے 1930ء میں گاندھی سے شکایت کی کہ وہ مسلمانوں کو زبردستی ہندو بنانے والی شدھی کی تحریک کو کچھ نہیں کہتے۔ مگر گاندھی شدھی کی تحریک چلانے والے ہندوئوں سے یہ کیوں کہتے کہ مسلمانوں کو زبردستی مسلمان نہ بنائو۔ گاندھی خود چاہتے تھے کہ مسلمانوں کو ہندو بنایا جائے۔ اس کا سبب یہ تھا کہ گاندھی کی پوری شخصیت اور سیاست مذہبی تھی۔ ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ قائد اعظم نے پاکستان کا مطالبہ نریندر مودی کے دور میں نہیں گاندھی، نہرو اور پٹیل کے زمانے میں کیا تھا۔ ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ بابری مسجد سیکولر کانگریس کے زمانے میں شہید کی گئی۔

Leave a Reply