فلسطینیوں کی مزاحمت شہادتِ حق کا ایک مظہر

اقبال نے کہا تھا
کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسا
مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی
یہاں سوال یہ ہے کہ کافر شمشیر پہ بھروسا کیوں کرتا ہے اور مومن بے تیغ بھی کیوں لڑتا ہے؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ کافر شمشیر پر بھروسا اس لیے کرتا ہے کہ اس کا بنیادی مسئلہ فتح اور شکست ہوتا ہے۔ اس کے برعکس مومن کا بنیادی مسئلہ حق کی شہادت دینا ہوتا ہے۔ اس فرض کی ادائیگی کے نتیجے میں فتح حاصل ہوجائے تو خوب نہ ہو تو حق کی گواہی اور اس کے غلبے کی جدوجہد کا ثواب تو کہیں گیا ہی نہیں۔ یہ بات انبیا و مرسلین کی سنت کے عین مطابق ہے۔ سیدنا ابراہیمؑ کے پاس نہ حکومت تھی، نہ ریاست تھی، نہ فوج تھی، نہ کوئی جماعت تھی مگر انہیں حکم ہوا کہ وہ وقت کے بادشاہ کو چیلنج کریں۔ سیدنا ابراہیمؑ نے حکم کے جواب میں اللہ تعالیٰ سے یہ نہیں کہا کہ پہلے مجھے کچھ قوت تو عطا فرما دیجیے۔ مجھے کوئی چھوٹی سی ریاست، چھوٹی سی حکومت، چھوٹی سی فوج یا چھوٹی سی جماعت تو دے دیجیے۔ انہوں نے اللہ کا حکم سنا اور نمرود کے پاس جا پہنچے۔ سیدنا موسیٰؑ کا مقابلہ بھی وقت کے بادشاہ سے تھا جو طاقت کے تمام مظاہر کا حامل تھا مگر سیدنا موسیٰؑ نے بھی فرعون کو چیلنج کرنے سے قبل کسی حکومت، کسی ریاست، کسی فوج یا کسی جماعت کا مطالبہ نہ کیا۔ وہ سیدنا ہارونؑ کے ساتھ فرعون کے پاس جا پہنچے۔ رسول اکرمؐ کا معاملہ بھی یہی تھا کہ آپؐ کے حریف عسکری طور پر قوی تھے۔ ان کے پاس دولت کی فراوانی تھی۔ ان کی پشت پر پوری قوم کھڑی تھی مگر رسول اکرمؐ نے تن تنہا شہادت حق کا فرض ادا کیا ہے۔ عہد حاضر میں مسلمانوں کی مزاحمت اور جدوجہد کی کئی مثالوں پر انبیا و مرسلین کی اسی سنت کا سایہ ہے۔
فلسطینی مسلمانوں بالخصوص حماس کی جدوجہد شہادت حق کا مظہر ہے۔ فلسطینیوں کے مقابل اسرائیل ہے۔ اسرائیل ایٹمی طاقت ہے۔ اس کے پاس جدید ترین طیارے، مصنوعی سیارے، میزائل، ٹینک اور اسلحہ ہے۔ اسے امریکا اور یورپ کی کامل حمایت حاصل ہے۔ اس کی معاشی طاقت غیر معمولی ہے۔ اس کے برعکس فلسطینیوں کے پاس نہ حکومت ہے، نہ ریاست ہے، نہ فوج ہے، نہ ایٹمی طاقت ہے، نہ میزائل ہیں، نہ طیارے ہیں۔ انہیں نہ امریکا کی حمایت حاصل ہے نہ یورپ ان کا پشت پناہ ہے۔ مگر اس کے باوجود وہ پچھتر سال سے اسرائیل کا مقابلہ کررہے ہیں۔ فلسطینیوں کے پاس اسرائیل کی طاقت ہوتی اور اسرائیل فلسطینیوں کی طرح کمزور ہوتا تو اسرائیل کبھی کا ہتھیار ڈال چکا ہوتا۔ مگر فلسطینی کسی قیمت پر اسرائیل کے آگے ہتھیار ڈالنے کے لیے تیار نہیں۔ یہ صورت حال تقاضا کرتی ہے کہ پوری امت مسلمہ فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی بھی کرے اور دامے، درمے، قدمے، سخنے ان کی مدد بھی کرے۔
امریکا، یورپ اور اسرائیل کے ایجنٹس مطالبہ کررہے ہیں کہ کئی عرب ملکوں نے اسرائیل کو تسلیم کرلیا ہے۔ چناں چہ فلسطینی بھی نہ صرف یہ کہ اسرائیل کو تسلیم کریں بلکہ اس کے آگے سرنگوں ہوجائیں۔ ایک زمانہ تھا کہ امریکا مسئلہ فلسطین کے دو ریاستی حل کا تصور پیش کرتا تھا مگر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس حل سے منہ موڑ لیا اور صرف ایک ریاستی حل کے خیال کو آگے بڑھایا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے یہودی داماد جیرڈ کشنر نے فلسطینیوں سے کہا کہ ہم تمہارے معاشی اور سماجی ڈھانچے کو بہتر بنانے اور تمہیں پانی، بجلی، سڑکوں اور نکاسی آب کی بہترین سہولتیں فراہم کرنے کے لیے 50 ارب ڈالر کی امداد دیں گے۔ بس تم مسئلہ فلسطین کے ایک ریاستی حل کو قبول کرلو۔ مگر فلسطینیوں بالخصوص حماس نے جیرڈ کشنر کی اس تجویز کو حقارت سے مسترد کردیا۔ یہودی بالخصوص صہیونی دعویٰ کرتے ہیں اور بعض مسلمان اس دعوے کو تسلیم کرتے ہیں کہ ارضِ فلسطین یہودیوں کی مقدس سرزمین ہے آج سے دو ہزار سال پہلے یہاں سیدنا سلیمانؑ کی حکومت تھی اور فلسطین میں ہیکل سلیمانی نصب تھا۔ لیکن اگر اس دعوے کو تسلیم کرلیا جائے تو پھر ہمیں پوری دنیا کی تاریخ کو بدلنا ہوگا۔ آج سے تین سو سال پہلے امریکا ریڈ انڈینز کا ملک تھا۔ سفید فاموں نے 8 سے 10 کروڑ ریڈ انڈینز کو مارکر امریکا پر قبضہ کرلیا۔ آج بھی امریکا میں چند ہزار ریڈ انڈینز موجود ہیں۔ اب ریڈ انڈینز دعویٰ کریں کہ امریکا تو ہمارا ہے۔ یہاں سے سفید فاموں کو نکالو یا کم از کم انہیں ہماری ماتحتی میں دو، تو کیا دنیا ریڈ انڈینز کے دعوے کو تسلیم کرے گی۔ آسٹریلیا پورا براعظم ہے اور تین سو سال پہلے آسٹریلیا ایب اوریجنلز کا ملک تھا۔ یہاں بھی سفید فاموں نے مقامی افراد کا قتل عام کیا۔ ان کی نسل کشی کی اور 45 لاکھ ایب اوریجنلز مار ڈالے۔ آج بھی آسٹریلیا کے صوبے تسمانیہ میں ایب اوریجنلز موجود ہیں۔ اب اگر یہ ایب اوریجنلز کہیں کے سفید فاموں کو آسٹریلیا سے بھگائو یا انہیں ہماری غلامی اختیار کرنے پر آمادہ کرو تو کیا دنیا ایب اوریجنلز کے دعوے کو تسلیم کرے گی۔ اسی طرح ہندوستان اپنی اصل میں دراوڑوں کا ملک تھا۔ آریہ وسطی ایشیا سے آئے تھے۔ وہ مداخلت کار تھے اور انہوں نے طاقت کے زور پر ہندوستان کو قبضے میں لیا۔ آج بھی ہندوستان میں کچھ دراوڑ موجود ہیں اگر اب دراوڑ مطالبہ کریں کہ تمام آریوں کو ہندوستان سے نکالو اور ہمیں ہندوستان کا حکمران بنائو تو کیا دنیا اُن کی ہاں میں ہاں ملائے گی؟ اگر نہیں تو یہودیوں کے اس دعوے کو کیسے تسلیم کیا جائے کہ چوں کہ دو ہزار سال قبل ارض فلسطین ان کی تھی اس لیے انہیں ارض فلسطین پر قبضے کا حق حاصل ہے؟۔
فلسطینیوں کی حمایت اور مدد امت مسلمہ پہ اس لیے بھی واجب ہے کہ فلسطینی ’’مظلوم‘‘ ہیں۔ اسلام مسلمانوں کو مظلوموں کی حمایت اور مدد کا حکم دیتا ہے۔ فلسطینیوں کی مظلومیت کو دیکھا جائے تو اس کی دوسری مثال تلاش کرنا دشوار ہے۔ انہیں ان کی سرزمین سے محروم کردیا گیا ہے۔ اسرائیل ان کی پانچ چھ نسلوں کو کھا گیا ہے۔ 50 لاکھ سے زیادہ فلسطینی جلاوطنی کا عذاب سہہ رہے ہیں۔ اور ان کی وطن واپسی کا دور دور تک کوئی امکان نہیں۔ جو فلسطینی مغربی کنارے اور غزہ میں آباد ہیں اسرائیل نے ان کی زندگی کو جہنم بنایا ہوا ہے۔ اسرائیل جب چاہتا ہے فلسطینیوں کی بستیوں پر بمباری کردیتا ہے۔ جب چاہتا ہے فلسطینیوں کی بستی پر میزائل داغ دیتا ہے۔ اسرائیل نے فلسطین کی تحریک مزاحمت کے دو رہنمائوں یعنی شیخ احمد یٰسین اور عبدالعزیز رنتیسی کو شہید کیا۔ خالد مشعل کو زہر دیا۔ اتفاق سے زہر دینے والے موساد کے ایجنٹس پکڑے گئے اور اسرائیل خالد مشعل کے لیے زہر کا تریاق مہیا کرنے پر مجبور ہوگیا۔ اسرائیل کے لیے عام فلسطینی اور فلسطینی بچوں اور خواتین میں کوئی فرق نہیں۔ وہ جتنی آسانی اور بے رحمی کے ساتھ بڑی عمر کے لوگوں کو مارتا ہے اتنی ہی آسانی کے ساتھ خواتین اور بچوں کو شہید کرتا ہے۔ ہمیں یاد ہے کہ 1998ء اور 1999ء میں اسرائیل نے دو ہزار سے زیادہ فلسطینی بچوں کو نشانہ باندھ کر مارا۔ شور مچا تو اسرائیل نے کہہ دیا کہ یہ بچے کراس فائرنگ میں مارے گئے ہیں۔ پانی اور بجلی زندگی کی بنیادی ضرورت ہیں مگر اسرائیل نے غزہ میں صاف پانی کے بندوبست کو تقریباً تباہ کردیا ہے۔ بجلی کے پلانٹ کی صلاحیت کو بھی اس نے بری طرح متاثر کیا ہے۔ چناں چہ غزہ میں دس دس بارہ بارہ گھنٹے کی لوڈشیڈنگ ہوتی ہے۔ اسرائیل نے بمباری کرکے سیکڑوں اسکولوں کو تباہ یا ناکارہ کردیا ہے۔ یہاں تک کہ اسرائیل نے غزہ میں نکاسی ٔ آب کو خاص طور پر نشانہ بنا کر اسے شدید نقصان پہنچایا ہے۔ اسرائیل نے نکاسی ٔ آب کے بندوبست کو اس لیے تباہ کیا ہے تا کہ فلسطینی غلاظت اور تعفن میں زندگی بسر کریں۔ یہ اسرائیل کی شیطنت کی انتہا ہے۔
فلسطینی بھائیوں کی حمایت اور مدارس کے لیے بھی ضروری ہے کہ فلسطینی تنہا ہیں۔ نہ امریکا ان کے ساتھ ہے، نہ روس ان کا ہمدرد ہے۔ نہ چین کو ان سے دلچسپی ہے۔ نہ یورپ ان کے ساتھ ہے۔ حد تو یہ ہے کہ اب عرب ملکوں نے بھی فلسطینیوں کا ساتھ چھوڑ دیا ہے۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے اخوان اور حماس دونوں کو دہشت گرد قرار دے دیا ہے۔ حالاں کہ اخوان اور حماس کا تعلق عرب دنیا کے مرکزی دھارے سے ہے۔ اس دھارے کے تمام لوگوں کا دین ایک ہے۔ مذہب ایک ہے۔ ملک ایک ہے۔ تہذیب ایک ہے۔ تاریخ ایک ہے۔ زبان ایک ہے۔ عرب حکمرانوں کو اصل میں خوف ہے کہ کہیں اخوان اور حماس ان کے اقتدار کے لیے خطرہ نہ بن جائیں۔ عرب حکمرانوں نے فلسطینیوں پر تازہ ترین ظلم یہ کیا ہے کہ انہوں نے اسرائیل کو تسلیم کرنے کا آغاز کردیا ہے۔ حالاں کہ تمام عرب ریاستوں کا موقف یہ تھا کہ جب تک فلسطین کے مسئلے کا دو ریاستی حل تلاش نہیں کرلیا جاتا اس وقت تک وہ اسرائیل کو تسلیم نہیں کریں گی۔ مگر اب وہ دو ریاستی حل کے بغیر ہی اسرائیل کو تسلیم کررہی ہیں۔ اس صورت حال کو دیکھ کر کہا جاسکتا ہے کہ عرب حکمران امریکا کے بعد اسرائیل کے بھی ’’اتحادی‘‘ بن گئے ہیں اور ظالم کا اتحادی بھی ظالم ہوتا ہے۔ غاصب کا اتحادی بھی غاصب ہوتا ہے۔
عہد حاضر میں مسلمانوں کی قوت مزاحمت نے افغانستان میں دو سپر پاورز یعنی سوویت یونین اور امریکا کو شکست سے دوچار کیا ہے۔ یہ ٹیکنالوجی پر ایمان کی فتح کا اظہار ہے۔ یہ تاریخ کی انہونیوں میں سے دو بہت ہی بڑی انہونیاں ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ آج نہیں تو کل ارض فلسطین پر بھی ایمان ٹیکنالوجی کو شکست سے دوچار کرے گا۔

Leave a Reply