آزادی ٔاظہار اور صحافی

کراچی میں ہونے والی عالمی اردو کانفرنس میں کئی صحافیوں نے ملک میں آزادی ٔ اظہار کی صورت حال کا ماتم کیا ہے۔ وجاہت مسعود نے کہا ہے کہ اردو صحافت پر پہلی جنگ عظیم کے بعد سے اب تک ’’قدامت پرستی‘‘ چھائی ہوئی ہے۔ انہوں نے سوال اٹھایا ہے کہ ہمارے اخبارات میں بلوچستان سے متعلق خبریں کیوں شائع نہیں ہوتیں؟ عاصمہ شیرازی نے فرمایا ہے کہ ہمارا صحافتی عہد کٹھ پتلیوں کا عہد ہے۔ انہوں نے کہا کہ پہلے صرف پی ٹی وی سرکاری چینل تھا اب ملک میں 70 سرکاری چینلز ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت ہمارا معاشرہ ریموٹ کنٹرول سے چلنے والا معاشرہ بن چکا ہے۔ مظہر عباس نے خیال ظاہر کیا کہ اسٹیبلشمنٹ اردو صحافت سے خوف زدہ رہتی ہے کیوں کہ اردو صحافت عوام کی زبان بولتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ چوں کہ جنگ، جیو اور ڈان نے مزاحمت کی ہے اس لیے ان پر بہت دبائو ہے۔
اقبال نے کہا تھا ؎
آزادی ٔ افکار سے ان کی تباہی
رکھتے نہیں جو فکر و تدبر کا سلیقہ
ہو فکر اگر خام تو آزادی ٔ افکار
انسان کو حیوان بنانے کا طریقہ
آزادی ٔ اظہار معاشرے کے لیے بہت اہم ہے مگر اقبال کا کہنا یہ ہے کہ اگر آزادیٔ اظہار کو برتنے والوں کے پاس فکر و تدبر کا سلیقہ نہ ہو تو آزادی ٔ افکار فائدہ پہنچانے کے بجائے اُلٹا معاشرے کو نقصان پہنچاتی ہے۔ اقبال کا کہنا یہ بھی ہے کہ اگر فکر ’’پختہ‘‘ نہ ہو بلکہ خام ہو تو آزادیٔ افکار انسان کو حیوان بنانے کے کام آتی ہے۔ اس تناظر میں سوال یہ ہے کہ پاکستانی معاشرے میں کتنے صحافی ہیں جن کے پاس فکر و تدبر کا سلیقہ ہے۔ ایک اسلامی معاشرے میں حقیقی فکر و تدبر صرف مذہب سے آسکتا ہے اور پاکستانی صحافیوں کی عظیم اکثریت یا تو مذہب سے وابستہ نہیں یا ان کے لیے مذہب کسی گہری معنویت کا حامل نہیں ہے۔ چناں چہ پاکستان کے رائے ساز افراد کی اکثریت آزادی ٔ اظہار کو برتنے اور اس سے لطف اندوز ہونے کے قابل ہی نہیں ہیں۔ اقبال نے یہ بات بھی صاف کہی ہے کہ خام فکر کے حامل افراد کے لیے بھی آزادیٔ اظہار بڑی خطرناک ہے کیوں کہ خام فکر پر مبنی آزادیٔ اظہار انسان کو حیوان بنانے کے کام آتی ہے۔ اس کی ایک چھوٹی سی مثال وجاہت مسعود کا یہ بیان ہے کہ اردو صحافت پر جنگ عظیم اول سے اب تک ’’قدامت پرستی‘‘ چھائی ہوئی ہے۔ جیسا کہ ظاہر ہے کہ قدامت پرستی سے ان کی مراد یہ ہے کہ اردو صحافت مذہب کے زیر اثر ہے۔ کتنی عجیب بات ہے کہ وجاہت مسعود کو جس بات کی تعریف کرنی چاہیے وہ اس کا ماتم کررہے ہیں۔ کیا وجاہت مسعود کے سابق کعبے سوویت یونین کے پریس میں سوشلزم غالب نہیں تھا۔ کیا امریکا اور یورپ کے پریس پر سیکولر ازم اور لبرل ازم غالب نہیں ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو پاکستان کے جرنل ازم پر اگر مذہب کا اثر ہے تو اس پر ماتم کا کیا محل ہے؟ وجاہت مسعود ایک جانب آزادیٔ اظہار کا پرچم بلند کرتے ہیں دوسری جانب ان کے خوف کا یہ عالم ہے کہ انہوں نے یہ کہنے کے بجائے کہ پاکستان کی صحافت ’’مذہب‘‘ کے زیر اثر ہے یہ کہا ہے کہ پاکستانی صحافت ’’قدامت پسندی‘‘ کے زیر اثر ہے۔ ارے بھائی آپ کو مذہب کی مخالفت کرنی ہے تو کھل کر مذہب کی مخالفت کریں۔ آپ اپنا مافی الضمیر بیان کرتے ہوئے لفظ کیوں چباتے ہیں۔ آپ آزادیٔ اظہار کے چمپئن ہیں تو کھل کر مذہب پر حملہ کریں۔ عاصمہ شیرازی نے بالکل درست کہا ہے کہ پہلے ایک سرکاری ٹی وی تھا اب 70 سرکاری ٹی وی ہیں۔ مگر ان کی جرأت اظہار کا بھی یہ عالم ہے کہ انہوں نے صحافت کی کٹھ پتلیوں پر بات کی مگر ان قوتوں کی ’’نشاندہی‘‘ نہیں کی جو کٹھ پتلیوں کو نچاتی ہیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو آزادیٔ اظہار کے علمبردار خود آزادیٔ اظہار سے وفاداری کا ثبوت نہیں دے رہے۔ وہ ’’شفتالو‘‘ کہنے کے بجائے شف، شف، شف کرتے رہتے ہیں۔ مظہر عباس نے بھی آزادیٔ اظہار کا ماتم کرتے ہوئے آزادیٔ اظہار سے کام نہیں لیا۔ انہوں نے کہا کہ اسٹیبلشمنٹ اردو صحافت سے ڈرتی ہے کیوں کہ اردو صحافت عوام کی زبان بولتی ہے۔ مظہر عباس کو آزادیٔ اظہار سے محبت ہوتی تو وہ یہاں اسٹیبلشمنٹ کی اصطلاح استعمال کرنے کے بجائے فوج کی اصطلاح استعمال کرتے۔ یہاں ہم مظہر عباس سے سوال کرتے ہیں کہ وہ یہ بھی تو بتائیں کہ اردو صحافت میں وہ کون لوگ ہیں جو ’’عوام کی زبان‘‘ بول رہے ہیں؟ ہمیں تو جتنے بھی لوگ نظر آتے ہیں ان میں کوئی نواز لیگ کی زبان بول رہا ہے، کوئی پیپلز پارٹی کی زبان بول رہا ہے، کوئی فوج کی زبان بول رہا ہے، کوئی پی ٹی آئی کی زبان بول رہا ہے۔ عوام کی زبان بولنے والے انگریزی صحافت ہی میں نہیں اردو صحافت میں بھی نایاب ہیں۔
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ پاکستان کے جرنیل ملک کی صحافت کو آزاد نہیں دیکھنا چاہتے۔ چناں چہ جرنیلوں کی مذمت ناگزیر ہے مگر جرنیلوں کو برا بھلا کہنے والے یہ بھی تو بتائیں کہ میاں نواز شریف، آصف علی زرداری، عمران خان اور الطاف حسین کون سا آزادیٔ صحافت کے علمبردار ہیں۔ میاں نواز شریف صحافیوں کو خریدنے کے لیے بدنام ہیں۔ بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری بھی صحافیوں کا اپنا قبیلہ بنائے ہوئے تھے۔ کیا قوم کو یاد نہیں کہ میاں نواز شریف نے ملیحہ لودھی کے خلاف غداری کا مقدمہ درج کرایا تھا اور بے نظیر بھٹو کے دور میں کراچی کے ایک دو نہیں چھے اخبارات بند کیے گئے تھے۔ الطاف حسین اور ان کی ایم کیو ایم کے جبر کا یہ عالم تھا کہ الطاف حسین اور ایم کیو ایم کے خلاف اکثر اخبارات میں پچیس سال تک ایک لفظ بھی شائع نہیں ہوا۔ ایک دو اخبارات نے ایم کیو ایم کے خلاف کچھ شائع کیا تو الطاف حسین نے ان اخبارات کا ناطقہ بند کردیا اور ان اخبارات کے ’’معزز مالکان‘‘ کو نائن زیرو پر الطاف حسین کے قدموں میں بیٹھے دیکھا گیا۔ الطاف حسین اور ایم کیو ایم کے خوف کا یہ عالم تھا کہ ارشاد احمد حقانی سے برادرم یحییٰ بن زکریا صدیقی نے لاہور کے ایک مذاکرے میں پوچھا کہ آپ سب کے خلاف لکھتے ہیں مگر الطاف حسین اور ایم کیو ایم کے خلاف نہیں لکھتے۔ کہنے لگے کہ میں نے سنا ہے ایم کیو ایم اپنے خلاف لکھنے والوں کو مروا دیتی ہے۔ ارشاد احمد حقانی عام صحافی نہیں تھے۔ وہ ملک کے ممتاز ترین کالم نگار تھے۔ ان کے تعلقات صرف ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں ہی سے نہیں اسٹیبلشمنٹ سے بھی تھے۔ پھر وہ رہتے بھی لاہور میں تھے، مگر لاہور کے محفوظ ماحول میں بھی وہ الطاف حسین اور ایم کیو ایم سے خوف زدہ تھے۔ ہماری صحافت کے لیے آزادیٔ اظہار اہم ہوتی تو وہ الطاف حسین اور ایم کیو ایم کے خلاف بھی بروئے کار آئی ہوتی۔ واصف علی واصف کا فقرہ ہے کہ ہم زندگی فرعون کی بسر کرتے ہیں مگر طاقت ہمیں موسیٰؑ کی درکار ہوتی ہے۔ یہی قصہ آزادیٔ اظہار کے حوالے سے صحافیوں کا ہے۔ ہمارے صحافی اور اخبارات کے مالکان زندگی غلاموں کی بسر کرتے ہیں اور لبوں پر ان کے آزادیٔ اظہار کے ترانے ہوتے ہیں۔
ہمارے صحافی اور ہمارے رائے ساز آزادیٔ اظہار پر پابندی کے حوالے سے بجا طور پر اسٹیبلشمنٹ کا نام تو لیتے ہیں مگر وہ کارپوریٹ مفاد کے اسپانسر کا ذکر نہیں کرتے جو اسی طرح صحافت کا گلا گھونٹ رہا ہے جس طرح اسٹیبلشمنٹ صحافت کا گلا گھونٹ رہی ہے۔ اس سلسلے کی ایک ٹھوس مثال یہ ہے کہ عدالت عظمیٰ نے بحریہ ٹائون کے مالک ملک ریاض پر تقریباً 400 ارب کا جرمانہ کیا۔ یہ ایک بڑی خبر تھی اور اسے پاکستان کے تمام اخبارات میں رپورٹ ہونا چاہیے تھا مگر بدقسمتی سے پاکستان کے چار پانچ بڑے اخبارات میں یہ خبر رپورٹ ہی نہیں ہوئی۔ ممکن ہے کسی اخبار میں یہ خبر شہ سرخی میں رپورٹ ہوتی۔ کسی اور اخبار میں یہ صفحہ اول پر تین کالمی سرخی کے ساتھ شائع ہوتی لیکن اس خبر کو ہر صورت میں تمام اخبارات میں شائع ہونا چاہیے تھا۔ لیکن کراچی میں یہ خبر صرف جسارت اور ڈان میں شائع ہوئی۔ جنگ، دنیا، ایکسپریس اور دی نیوز میں یہ خبر موجود ہی نہیں تھی۔ یہ صحافت پر کارپوریٹ مفاد کے غلبے کا ایک مظہر تھا۔ یہ صورتِ حال اس امر کا اظہار تھی کہ ملک ریاض بھی ہماری صحافت کے لیے اسٹیبلشمنٹ سے کم نہیں۔
آزادیٔ اظہار پر قدغن کے حوالے سے صحافیوں کا انفرادی مفاد اور انفرادی خوف بھی بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ ایک وقت تھا کہ برصغیر پر انگریزوں کا قبضہ تھا۔ انگریز وقت کی واحد سپر پاور تھے۔ ان کے خلاف زبان کھولنے کا مطلب زندگی کو دائو پر لگانا تھا۔ انگریزوں کے زمانے میں کالے پانی کی سزا بھی عام تھی اور اس سزا کا مطلب زندہ درگور ہوجانا تھا مگر اس کے باوجود نہ مولانا حسرت موہانی انگریزوں سے ڈرے نہ مولانا محمد علی جوہر نے انگریزوں کے آگے ہتھیار ڈالے۔ نہ مولانا ابوالکلام آزاد نے پابند صحافت کا تجربہ کیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس زمانے میں صحافت ایک مشن تھی، اس کا ایک نظریہ تھا۔ بدقسمتی سے اب صحافت مالکان کے لیے ایک کاروبار ہے اور صحافیوں کی عظیم اکثریت کے لیے صحافت ایک ’’Job‘‘ ہے۔ ایک ’’کیریئر‘‘ ہے۔ ایک ’’مشغلہ‘‘ ہے۔ اس صحافت کا کسی مذہب، کسی نظریے، کسی تہذیب اور کسی تاریخ سے کوئی تعلق نہیں۔ یہاں تک کہ اب ہماری صحافت کا قوم سے بھی کوئی تعلق نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قوم بھی اخبارات اور صحافیوں کے حال اور مستقبل سے بے نیاز ہے۔ ایک وقت تھا کہ مولانا محمد علی جوہر کے اخبار پر جرمانہ ہوتا تھا تو قوم جرمانے کی رقم لے کر مولانا کے پاس پہنچتی تھی اور ایک وقت یہ ہے کہ بڑے بڑے صحافی گرفتار ہوتے ہیں اور قوم ان کی گرفتاری سے لاتعلق رہتی ہے۔

Leave a Reply