مذہب، دولت اور انسان

انسانی زندگی میں ’’انفرادی رائے‘‘ کی بڑی اہمیت ہے۔ انفرادی رائے سے انسان کا اصل ’’جوہر‘‘ آشکار ہوتا ہے مگر انفرادی رائے کو ’’مستند‘‘ ہونا چاہیے۔ سوال یہ ہے کہ رائے کو مستند بنانے والی ’’سند‘‘ کہاں سے آتی ہے؟ ایک مسلمان کے لیے اس سوال کا جواب دینا نہایت آسان ہے۔ مسلمان کے لیے سند اس کے مذہب سے آتی ہے۔ مذہب کی پیدا کی ہوئی تہذیب اور تاریخ سے آتی ہے۔ دین کے مستند شارحین سے آتی ہے۔ انسان خاص طور پر مسلمان کی رائے مستند نہ ہو تو وہ اقبال کے الفاظ میں ابلیس کی ایجاد ہے۔ اقبال نے صاف کہا ہے۔
گو فکر خدا داد سے روشن سے زمانہ
آزادیٔ افکار ہے ابلیس کی ایجاد
بدقسمتی سے مسلم معاشروں کے اخبارات و رسائل میں ابلیس کی ایجادات کے دریا بہہ رہے ہیں۔ پاکستان کے متعدد کالم نگار اس اعتماد سے ابلیس کی ایجاد پیش کرتے ہیں کہ حیرت ہوتی ہے۔ اس سلسلے میں یاسر پیرزادہ کا ایک حالیہ کالم اچھی مثال کی حیثیت رکھتا ہے۔ یاسر پیرزادہ نے اپنے کالم میں کیا لکھا ہے۔ انہی کے الفاظ میں ملاحظہ کیجیے۔ لکھتے ہیں۔
’’مگر یہاں سے ایک دوسری غلط فہمی جنم لیتی ہے اور وہ یہ کہ دولت کمانا کوئی بری بات یا جرم ہے، ہر گز نہیں، بشرطیکہ اس کے ذرائع جائز ہوں۔ جس طرح ہم نے ارب پتیوں کے بارے میں خواہ مخواہ فرض کرلیا ہے کہ وہ دانشور بھی ہوتے ہیں اسی طرح ہم نے دولت کے بارے میں بھی فرض کرلیا ہے کہ اُس کے پیچھے کوئی نہ کوئی جرم ضرور ہوتا ہے۔ آج کل کے جدید زمانے میں خوشحال تو کیا باعزت زندگی بھی خاصی مہنگی ہے۔ دنیا کی سیر کرنی ہو، پہاڑوں میں بسیرا کرنا ہو، اپنے شوق کی تکمیل کرنی ہو، کتابیں پڑھنی ہوں، جہازوں میں سفر کرنا ہو، بیماری کا بہترین علاج کروانا ہو، اپنی مرضی کی زندگی جینی ہو۔ ان تمام کاموں کے لیے دولت مند ہونا ضروری ہے۔ جو شخص دو وقت کی روٹی کے چکر ہی سے نہیں نکل پاتا اس کے لیے اپنے کسی شوق کی تکمیل قریب قریب ناممکن ہوجاتی ہے۔ بقول غالب
’کم جانتے تھے ہم بھی غمِ عشق کو پر اب
دیکھا تو کم ہوئے پہ غمِ روزگار تھا
یہاں سے البتہ ایک غلط فہمی جنم لیتی ہے اور وہ دولت اور خوشی کے باہمی تعلق کے بارے میں ہے۔ نہ جانے کیوں ہم نے یہ بھی فرض کرلیا ہے کہ دولت کا خوشی سے کوئی تعلق نہیں، دولت مند لوگ ’’اندر‘‘ سے مطمئن نہیں ہوتے، اضطراب نے انہیں گھائل کیا ہوتا ہے اور رات کو نیند نہیں آتی۔ یہ بات ہمیں ایک انجانی سی خوشی دیتی ہے حالاں کہ اس سے بڑا ڈھکوسلہ کوئی نہیں۔ ممکن ہے بہت سے امیر لوگ ٹینشن میں رہتے ہوں مگر اس میں ان کی دولت کا نہیں اپنا قصور ہوتا ہے۔ دولت تو زندگی گزارنے میں سہولت فراہم کرتی ہے اگر کوئی شخص اس سہولت کا فائدہ اٹھانا نہیں جانتا تو ایسے شخص کا ذہنی علاج کروانا چاہیے نہ کہ غربت کو رومانوی انداز میں پیش کرکے غریب کو چکی پستے رہنے کا سبق پڑھانا چاہیے۔
کالم کی دُم: ایسے ترغیبی مقرروں کی باتوں میں نہ آئیں جو سچی اور روحانی خوشی جیسی دلفریب باتوں کے جال میں الجھاتے ہیں، پہلے اپنی زندگی کو خوشحال بنانے کے لیے جائز ذرائع سے دولت کمائیں، ’’سچی خوشی‘‘ خود بخود قدموں میں آکر بیٹھ جائے گی‘‘۔
(روزنامہ جنگ۔ 31 جنوری 2021ء)
دولت دنیا کا ایک حصہ ہے اور دنیا کے بارے میں تمام بڑے مذاہب کا اس بات پر اتفاق رائے ہے کہ دنیا ایک دھوکے کے سوا کچھ نہیں۔ قرآن نے دنیا کو دھوکے کی ٹٹّی یا Smoke Screen قرار دیا ہے۔ ہندو ازم دنیا کو مایہ یا دھوکا قرار دیتا ہے۔ مولانا روم نے اپنے ایک شعر میں صاف کہا ہے کہ رسول اکرمؐ کے لائے ہوئے دین کی اصل شوکت اور جہاد ہے اور سیدنا عیسیٰؑ کے دین کی اصل ’’ترک دنیا‘‘ ہے۔ بدھ ازم کا مرکزی خیال یہ ہے کہ انسان کا اصل مسئلہ اس کی خواہشیں ہیں۔ ان سے نجات حاصل کیے بغیر انسان خوش رہ سکتا ہے اور نہ مکتی یا نجات حاصل کر سکتا ہے۔ بدھ ازم میں نروان کا تصور بھی ترک خواہشات یا ترک دنیا سے متعلق ہے۔ مگر یاسر پیرزادہ نے ’’دولت پوجا‘‘ کرتے ہوئے نہ ہندو ازم سے سروکار رکھا ہے، نہ انہوں نے بدھ ازم کی مثال دی ہے۔ نہ انہوں نے عیسائیت سے کوئی دلیل پیش کی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ انہوں نے اس ضمن میں قرآن و حدیث سے استفادے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی۔ ان کے جو منہ میں آیا کہہ دیا اور وہ بھی اس طرح۔
سارے عالم پر ہوں میں چھایا ہوا
مستند ہے میرا فرمایا ہوا
یہ میر کا شعر ہے۔ ایک تو میر اردو زبان کے تین عظیم ترین شاعروں میں سے ایک ہیں۔ چناں چہ ان کی ’’خود پسندی‘‘ کو گوارا کیا جاسکتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ میر کے شعر میں ’’میرا فرمایا ہوا‘‘ کا ایک مفہوم یہ بھی ہے کہ یہ بات میر کی روایت نے کہی ہے۔ مگر یاسر پیرزادہ نہ اردو کے تین عظیم ترین کالم نویسوں میں سے ایک ہیں نہ ان کی ’’میں‘‘ کے پیچھے روایت بول رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یاسر پیرزادہ کی انفرادی رائے اقبال کے الفاظ میں ابلیس کی ایجاد نظر آرہی ہے۔
دنیا میں ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیا تشریف لائے۔ ان میں سے ایک نبی نے بھی دنیا یا دولت کی محبت پیدا کرنے کی بات نہیں کی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انبیا و مرسلین اور ان کا اتباع کرنے والوں کی زندگیاں خدا مرکز ہوتی ہیں۔ آخرت مرکز ہوتی ہیں۔ عام لوگوں کی زندگیاں رسول مرکز ہوتی ہیں، اس لیے انبیا کا اسوہ ہی فکروعمل کا بہترین نمونہ ہوتا ہے۔ رسول اکرمؐ کی پوری حیات طیبہ شکر اور صبر کے درمیان بسر ہوئی۔ رسول اکرمؐ نے فرمایا میں چاہتا ہوں کہ ایک دن پیٹ بھر کر کھائوں تا کہ شکر کروں۔ دوسرے دن بھوکا رہوں تا کہ صبر کروں۔ رسول اکرمؐ نے فرمایا دنیا کی بہترین جگہ مسجد اور بدترین جگہ بازار ہے۔ سوال یہ ہے کہ مسجد دنیا کی بہترین جگہ کیوں ہے اور رسول اکرمؐ نے بازار کو دنیا کی بدترین جگہ کیوں قرار دیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مسجد اللہ کا گھر ہے۔ مسجد میں ’’عبد‘‘ اپنے ’’معبود‘‘ سے ’’ملاقات‘‘ کرتا ہے۔ مسجد اللہ کے ذکر کا مرکز ہوتی ہے۔ اس کے برعکس بازار دنیا اور دولت کی علامت ہے۔ بازار انسان کو دنیا میں مشغول کردیتا ہے۔ دنیا کی مشغولیت انسان کو کسی نہ کسی درجے میں خدا سے دور کردیتی ہے۔ بازار انسانی خواہشات کا بھی مظہر ہے۔ رسول اکرمؐ نے مسلمانوں کو بازار کھولنے اور بازار جانے سے منع نہیں فرمایا مگر اسے مسجد کے تناظر میں بیان کرکے مسلم تہذیب میں اس کی پوزیشن واضح کردی ہے۔ منڈی کی معیشت پوری دنیا کو بازار بنانے کے لیے کوشاں ہے تا کہ اس دنیا میں مسجد کے لیے کوئی جگہ ہی نہ رہے۔ منڈی کی معیشت اور سرمائے کی پوجا میں بڑا گہرا تعلق ہے۔ اس کے برعکس اسلام چاہتا ہے کہ پوری دنیا مسجد بن جائے۔ یہاں تک کہ بازار بھی مسجد کے زیر سایہ آجائے۔
یہاں رسول اکرمؐ کا ایک اور ارشاد مبارک یاد آگیا۔ آپؐ نے فرمایا ہر امت کا ایک فتنہ ہے اور میری امت کا فتنہ مال ہے۔ رسول اکرمؐ مال کو فتنہ قرار دے رہے ہیں اور یاسر پیرزادہ پوری ڈھٹائی کے ساتھ مسلمانوں کو مال کی محبت میں مبتلا کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ رسول اکرمؐ نے دولت کو فتنہ قرار دیا ہے اور ہم جانتے ہیں کہ مال یا دنیا کی محبت ہی نے خلافت کو ملوکیت میں ڈھالا۔ دنیا کی محبت ہی نے کربلا تخلیق کی۔ دنیا ہی کی محبت نے خانوادئہ رسول کو تہہ تیغ کرنے کی راہ ہموار کی۔ آج مال کا یہ فتنہ بھی ہمارے سامنے ہے کہ امت مسلمہ دو حصوں میں بٹی ہوئی ہے۔ ایک طرف امت کا وہ حصہ ہے جس کے پاس مال کی کثرت ہے اور اس کے لیے مال کی کثرت فتنہ بن گئی ہے۔ اس لیے کہ اس طبقے نے تعیش کو اوڑھنا بچھونا بنالیا ہے۔ اس نے دولت کو معاشرے میں انسان کی عزت و ذلت کا پیمانہ بنادیا ہے۔ دوسری طرف امت کا وہ طبقہ ہے جو مال کی قلت میں مبتلا ہے اور اس کے لیے مال کی قلت فتنہ بن گئی ہے۔ مال کی قلت نے اس طبقے کو گہرے احساس کمتری میں مبتلا کیا ہوا ہے۔ یہ طبقہ پوری زندگی مال کمانے کی فکر میں بسر کردیتا ہے۔ یہ طبقہ پڑھتا ہے تو مال کمانے کے لیے، محنت کرتا ہے تو مال کے لیے۔ یہاں تک کہ اس کی دعائیں بھی مال و دولت سے متعلق ہوتی ہیں۔ اسلام کہتا ہے کہ اسلامی معاشرے میں فضیلت صرف دو چیزوں کو حاصل ہے۔ ایک تقوے کو اور دوسرے علم کو مگر نہ مسلم دنیا کا مال دار طبقہ تقوے اور علم کا شغف رکھتا ہے نہ مال کی قلت میں مبتلا طبقے تقوے اور علم سے دلچسپی رکھتا ہے۔ اب ہمارے معاشرے میں فضیلت صرف دو چیزوں کو حاصل ہے۔ طاقت کو اور دولت کو۔ یاسر پیرزادہ نے بھی اپنے کالم میں دولت کو فضیلت کی کرسی پر بٹھایا ہوا ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ ان کی طرح پورا معاشرہ بھی دولت کا طواف کرے اور اس پر فخر کرے۔
دولت دنیا کا صرف ایک حصہ ہے اور رسول اکرمؐ نے پوری دنیا کی مذمت فرمائی ہے۔ آپؐ ایک روز صحابہ کرام کے ساتھ کہیں تشریف لے جارہے تھے۔ راستے میں بکری کا ایک مرا ہوا بچہ پڑا تھا۔ رسول اکرمؐ اس کو دیکھ کر ٹھیر گئے۔ صحابہ بھی رُک گئے۔ رسول اکرمؐ نے صحابہ سے پوچھا تم میں سے کوئی شخص اس بچے کو خریدنا چاہے گا؟ صحابہ نے کہا کہ ایک تو یہ بچہ ہے اوپر سے مرا ہوا بھی ہے۔ ہم میں سے کوئی اِسے مفت لینا بھی پسند نہ کرے گا۔ رسول اکرمؐ نے فرمایا یاد رکھو دنیا بکری کے اس مرے ہوئے بچے سے زیادہ حقیر ہے۔ بدقسمتی سے یاسر پیرزادہ بکری کے اس مرے ہوئے بچے کی مینگینوں کو معاشرے کے سامنے ’’Ideal‘‘ بنا کر پیش کررہے ہیں۔
وہ کہہ رہے ہیں جو کچھ ہے دولت ہے۔ یہاں تک کہ خوشی بھی صرف دولت سے حاصل ہوتی ہے۔ دنیا کتنی حقیر ہے اس کا اندازہ رسول اکرمؐ کی ایک اور حدیث مبارک سے کیا جاسکتا ہے۔ رسول اکرمؐ نے فرمایا کہ اگر دنیا مچھر کے پر کے برابر بھی اہم ہوتی تو کافروں کا اس میں کوئی حصہ نہ ہوتا۔ آج امریکا اور یورپ مادی ترقی اور خوشحالی کی معراج پر ہیں۔ وہ پوری دنیا کے لیے ’’نمونہ ٔ عمل‘‘ بنے ہوئے ہیں۔ کروڑوں مسلمان امریکا اور یورپ کے باشندوں کی طرح کی زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں۔ جب سے چین دنیا کی دوسری بڑی معیشت بنا ہے وہ بھی مسلمانوں کی آنکھوں کو خیرہ کیے ہوئے ہے۔ مسلم دنیا کے حکمران اپنے ملکوں کو یا تو امریکا اور یورپ بنانا چاہتے ہیں یا چین۔ کسی مسلم حکمران کیا کسی مسلم دانش ور کو بھی رسول اکرمؐ کا یہ ارشاد یاد نہیں کہ اگر دنیا مچھر کے پر کے برابر بھی اہم ہوتی تو کافروں اور مشرکوں کا اس میں کوئی حصہ نہ ہوتا۔
اسلامی تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ صرف رسول اکرمؐ نے نہیں، صحابہ، تابعین، تبع تابعین ہمارے ہزاروں صوفیا، علما اور دانش وروں نے دنیا اور دولت کی محبت سے پاک زندگی بسر کی۔ ایک صحابیٔ رسول کا قول ہے کہ انہوں نے ایک بار سیدنا عمرؓ کے لباس کی طرف دیکھا تو اس میں 17 پیوند لگے ہوئے تھے، حالاں کہ اس وقت سیدنا عمرؓ وقت کی دو سپر پاور کو شکست دے چکے تھے اور مسلمانوں کے پاس مادی وسائل کی کمی نہ تھی۔ سیدہ عائشہؓ نے سیدنا عمرؓ کو بلا کر ایک روز کہا کہ ساری دنیا کے بڑے بڑے لوگ آپ سے ملنے آتے ہیں۔ آپ کو اب اپنا لباس بدل لینا چاہیے۔ سیدنا عمرؓ نے کہا کہ میں اپنے دونوں رفیقوں یعنی رسول اکرمؐ اور سیدنا ابوبکرؓ کے راستے کو نہیں چھوڑ سکتا۔
ان حقائق کی روشنی میں سوال یہ ہے کہ کیا دولت بالکل بھی اہم نہیں۔ ایسا نہیں ہے۔ انسان کو دو وقت کی روٹی اور لباس کے لیے بھی پیسے درکار ہوتے ہیں۔ چناں چہ اسلام چاہتا ہے کہ دولت معاشرے میں صرف ’’ضرورت‘‘ کی سطح پر رہے وہ انسانوں کو تعیش میں مبتلا نہ کرے۔ دوسری سطح پر دولت زندگی اور انسان ناپنے تولنے کا پیمانہ اور معیار نہ بنے۔ اسلام میں انسان اور زندگی کو ناپنے تولنے کی دو ہی بنیادیں ہیں۔ تقویٰ اور علم۔ جس معاشرے میں دولت، عزت اور ذلت کا پیمانہ بن جائے وہ معاشرہ اسلامی ہونے کے باوجود اسلامی نہیں ہے۔

Leave a Reply