کہتے جاتے ہیں مگر منہ سے معاذاللہ بھی (آخری حصہ)

اس پر ردعمل تو آئے گا اور معاشرہ تقسیم بھی ہوگا۔ تاہم خورشید ندیم کا اس حوالے سے یہ کہنا یوم خواتین معاشرے کو دو گروہوں میں تقسیم کردیتا ہے ٹھیک نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ میرا جسم میری مرضی کا نعرہ بلند کرنے والے ایک حقیر اقلیت ہیں۔ معاشرے میں ان کی تعداد دو فی صد سے زیادہ نہیں۔ دوسری طرف اس نعرے کو ناپسند کرنے والے اور اس کے خلاف ردعمل دینے والے ہیں۔ یہ لوگ معاشرے کا 98 فی صد ہیں چناں چہ دو فی صد اور 98 فی صد کا ذکر اس طرح نہیں کیا جاسکتا کہ جیسے وہ مساوی الحیثیت چیزیں ہوں۔ جو شخص یہ تاثر دیتا ہے وہ بد دیانت ہے اور معاشرے کے خلاف سازش کرتا ہے ویسے بھی دیکھا جائے تو حق اور باطل کسی بھی طرح ہم پلہ نہیں ہوسکتے۔ اگر باطل معاشرے کا 99 فی صد ہو اور حق معاشرے کا صرف ایک فی صد ہو تو بھی اسلام کی نظر میں زیادہ اہم حق ہوگا۔
خورشید ندیم نے اپنے کالم میں یہ بھی لکھا ہے کہ مذہب کے لیے کام کرنے والے گروہوں میں کیوں بٹے ہوئے ہیں۔ ان کا مقصد ایک ہے تو وہ مختلف تنظیمیں بنا کر کام کیوں کررہے ہیں۔ ان کے نزدیک وحدت میں کثرت کیوں پائی جاتی ہے؟ دیکھا جائے تو یہ ایک طرح کا طنز ہے۔ بلاشبہ مذہب کے دائرے میں درجنوں تنظیمیں کام کررہی ہیں لیکن اس کی وجہ یہ ہے کہ مذہبی لوگ فرقے اور مسلک کی بنیاد پر تقسیم ہیں۔ یہ ایک افسوس ناک صورت حال ہے مگر یہ مسئلہ صرف مسلمانوں سے متعلق نہیں۔ عیسائیت میں 200 سے زیادہ فرقے اور مسالک پائے جاتے ہیں۔ عیسائیت کے بڑے فرقوں میں کیتھولکس، آرتھو ڈاکس، پروٹسٹنٹس ایوانجیکلز اور کوپٹکس کے فرقے سرفہرست ہیں۔ یہودیت کے بھی کئی بڑے فرقے ہیں۔ ہندوازم میں بھی کئی فرقے اور مسالک پائے جاتے ہیں۔ غیر مذہبی نظریوں میں بھی فرقے اور مسالک موجود رہے ہیں۔ سوویت یونین کا سوشلزم، سوشلزم کا ایک ماڈل تھا۔ چین کا سوشلزم، سوشلزم کا دوسرا ماڈل تھا۔ فرانس کا سوشلزم سوشلزم کا تیسرا ماڈل تھا۔ نہرو کا سوشلزم سوشلزم کا چوتھا ماڈل تھا۔ اس وقت دنیا میں جمہوریت کا بھی کوئی ایک نمونہ موجود نہیں۔ ایک صدارتی جمہوری نظام ہے۔ ایک پارلیمانی جمہوری نظام ہے۔ ایک متناسب نمائندگی کا نظام ہے۔ انسانی خیالات اور نظریات کا یہ تنوع انسانی فطرت ہے اور اس کا تعلق صرف مذہب سے نہیں ہے۔
خدا کا شکر ہے کہ خورشید ندیم نے میرا جسم میری مرضی کے نعرے کو غیر فطری قرار دے کر رد کیا ہے اور کہا ہے کہ دنیا میں مطلق آزادی کہیں موجود نہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ خورشید ندیم نے اس نعرے کو رد کرنے کے لیے ’’فطرت‘‘ کا سہارا کیوں لیا۔ انہوں نے اس نعرے کو ’’مذہبی بنیاد‘‘ پر کیوں رد نہیں کیا؟ فطرت کا لفظ ایک وسیع المعنی لفظ ہے۔ اسلام میں فطرت کا مفہوم کچھ اور ہے، ہندوازم میں کچھ اور، عیسائیت میں اس کے معنی کچھ اور ہیں اور چینی روایت میں اس کا مفہوم کچھ اور ہے۔ جہاں تک جدید مغرب کے فلسفے کا تعلق ہے تو جدید فلسفے میں فطرت کے معنی تمام مذہبی روایتوں سے الگ ہیں اس سلسلے میں ڈاکٹر ظفر حسن کی تصنیف سرسید اور حالی کا نظریۂ فطرت کلاسک کا درجہ رکھتی ہے۔
خورشید ندیم ایک جانب تو میرا جسم میری مرضی کے نعرے کو غیر فطری کہہ کر رد کرتے ہیں مگر اگلی ہی سانس میں وہ مذہب پر بھی یہ کہہ کر کلہاڑا چلاتے ہیں کہ اس سلسلے میں بعض اوقات مذہب بھی انتہا پسندانہ تعبیروں کا قیدی بن جاتا ہے۔ ان کے بقول ہم انفرادی آرا اور تفہیم کو خدا کا قانون بنا کر پیش کرتے ہیں۔ لاحول ولاقوۃ۔ اسلام اور انتہا پسندی؟ ان دونوں باتوں میں تو کوئی ربط ہی نہیں۔ اسلام کا مطلب ہے قرآن و حدیث یا قرآن و سنت۔ اسلام کے دائرے میں درجنوں چیزیں نصوص سے ممنوع قرار پائی ہیں۔ اس سلسلے میں کسی انفرادی رائے کا کوئی وجود ہی نہیں۔ مذہب میں جہاں انفرادی رائے یا قرآن و سنت کی تعبیر آتی ہے وہاں ’’اجماع‘‘ کا تصور ہمارے سامنے آجاتا ہے۔ قرآن و سنت کی اکثر تعبیرات پر ’’اجماع‘‘ کا سایہ ہے اور ’’اجماع‘‘ بجائے خود ایک دینی اصول ہے۔ خورشید ندیم ویسے تو ’’جمہوریت‘‘ کے بڑے قائل ہیں مگر مذہب کی تعبیر کے سلسلے میں انہیں اجماع میں جمہوریت نظر نہیں آتی۔ خورشید ندیم نے لکھا ہے کہ ہمیں مذہبی تعبیرات کے سلسلے میں انسان کو ’’آزاد‘‘ چھوڑ دینا چاہیے۔ سوال یہ ہے کہ کیوں چھوڑ دینا چاہیے۔ اسلام نے جب قرآن و سنت، قرآن و حدیث اور اجماع کی حدود متعین کردی ہیں تو ہم انفرادی رائے کو کیوں اہمیت دیں؟ آخر قرآن و سنت اور اجماع پر غامدی صاحب یا خورشید ندیم کو فوقیت دینے کا کیا روحانی، علمی اور اخلاقی جواز ہے؟
خورشید ندیم نے اپنے کالم میں ایک ہولناک بات یہ لکھی ہے کہ لبرل ازم ہو یا مذہب اسے یہ دیکھنا ہوگا کہ معاشرہ کہاں کھڑا ہے؟ اسلام روئے زمین پر انسان، معاشرے اور دنیا کو بدلنے آیا ہے، انسان معاشرے اور دنیا کے نظریات سے ہم آہنگ ہونے نہیں آیا۔ معاشرہ زرعی ہو یا صنعتی، معاشرہ کفر پر کھڑا ہو یا شرک پر، مذہب کو اپنے بنیادی تصورات اور ترجیحات کے مطابق کام کرنا ہے۔ مگر خورشید ندیم ’’غامدیانہ فکر‘‘ کے تحت اسلام کو معاشرے کا تابع بنادینا چاہتے ہیں۔ رسول اکرمؐ جب تشریف لائے تو معاشرہ کفر اور شرک پر کھڑا تھا۔ رسول اکرمؐ نے اسے توحید پر کھڑا کیا۔ معاشرہ اس وقت آخرت سے بے نیاز تھا۔ رسول اکرمؐ نے اس کو آخرت کی فکر میں مبتلا کیا۔ معاشرہ اس وقت حلال و حرام کو بھولا ہوا تھا۔ رسول اکرمؐ نے اسے حلال و حرام سے ہم آہنگ کیا۔ معاشرہ اس وقت قبائلیت پر کھڑا ہوا تھا رسول اکرمؐ نے اسے اُمت کے تصور پر کھڑا کیا۔ مگر خورشید ندیم چاہتے ہیں کہ اسلام زرعی معاشرے میں زرعی معاشرے کی اقدار کے آگے ہتھیار ڈالے۔ معاشرہ صنعتی ہو تو صنعتی معاشرے کی اقدار کے آگے سر تسلیم خم کرے۔ سوال یہ ہے کہ اگر مذہب کو یہی کرنا ہے تو پھر مذہب کی ضرورت ہی کیا ہے؟ اقبال نے کہا ہے۔
خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں
ہوئے کس درجہ فقیہانِ حرم بے توفیق
بلاشبہ غامدیانہ فکر کے حامل لوگ بھی حرم کے بے توفیق افراد ہیں۔ وہ دنیا کو قرآن کے مطابق نہیں بنانا چاہتے بلکہ وہ قرآن کو دنیا کے مطابق ڈھالنا چاہتے ہیں۔

Leave a Reply