کیا مذہب اور سیکولر ازم ہم معنی ہیں؟

یاس یگانہ چنگیزی کا شعر ہے علم کیا علم کی حقیقت کیا جیسی جس کے گمان میں آئی
اس شعر کا نقص یہ ہے کہ اس شعر میں یگانہ نے علم اور گمان کو ہم معنی بنادیا ہے حالاں کہ ان میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ علم ’’خبر‘‘ ہے اور گمان ایک ’’افواہ‘‘ ہے۔ بدقسمتی سے یاس یگانہ چنگیزی نے خبر اور افواہ کو ہم معنی بنادیا ہے۔ لیکن یہ کام صرف یگانہ نے تھوڑی کیا ہے۔ ہمارے سیکولر اور لبرل لکھاری بھی یہی کام کرتے ہیں۔ اس سلسلے کی تازہ ترین مثال یاسر پیرزادہ کا کالم ’’میری عینک میرا ورلڈ ویو‘‘ ہے۔ اس کالم میں یاسر پیرزادہ نے لکھا ہے کہ وہ کبھی ایک دائیں بازو کے ترجمان اخبار کا مطالعہ کیا کرتے تھے۔ یاسر کے والد اس اخبار میں کالم لکھتے تھے۔ یاسر کے بقول اخبار، گھر کے ماحول اور اسکول اور کالج کی تعلیم سے ان کا ایک ’’ورلڈ ویو‘‘ بن گیا۔ یاسر نے اس ورلڈ ویو کو عینک کا نام دیا ہے۔ دایاں بازو ساری دنیا میں مذہب کی علامت ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ یاسر کی آنکھوں پر کبھی مذہب کی عینک لگی ہوئی تھی۔ یاسر کے مطابق وہ ایک انگریزی اخبار میں گئے تو انہوں نے اس کے ماحول کو سیکولر پایا مگر یاسر کے بقول اس کے باوجود ان کی آنکھوں پر لگی ہوئی عینک نہ بدلی۔ یاسر نے لکھا ہے کہ وہ اخبار کی نوکری چھوڑ کر سرکاری ملازم ہوئے تو ان کی آنکھوں پر سرکاری نقطہ ٔ نظر کی عینک بھی لگ گئی۔ اس عینک کا کمال یہ تھا کہ اس عینک سے یاسر کو عوام کا نقطہ ٔ نظر دکھائی ہی نہیں دیتا تھا۔ یاسرپیرزادہ نے لکھا ہے کہ انہیں قوم پرستی کی عینک بھی میسر آئی۔ فرقے اور برادری کی عینکوں نے بھی یاسر پیرزادہ کی آنکھوں کو شرف بخشا۔ یاسر پیرزادہ نے لکھا ہے کہ ان تمام عینکوں سے نجات پانے میں انہیں کئی سال لگے۔ اس سلسلے میں سفر مطالعے اور سوال کرنے کی عادت یاسر کے بڑے کام آئی۔ یاسر پیرزادہ نے آخر میں قارئین سے سوال کیا ہے کہ کیا انہیں ان کے نظریات یا عینکوں میں عیب نظر آئے اور انہوں نے اپنے نظریات کو خیر آباد کہا یا معاشرے کے دبائو کے تحت اپنے نظریات یا عینکوں سے چمٹے رہے۔ (روزنامہ جنگ 7 اپریل 2021ء)
یاسر پیرزادہ کے اس کالم سے ظاہر ہے کہ ان کے نزدیک مذہب اور سیکولر ازم کے عالمی تناظر یا ورلڈ ویو میں کوئی فرق نہیں۔ بلکہ وہ مذہب، قوم پرستی، فرقے اور برادری کی عینکوں کو بھی ہم معنی چیزیں سمجھتے ہیں۔ یعنی مذہب بھی ایک عینک ہے اور سیکولر ازم بھی ایک عینک ہے۔ مذہب بھی ایک ورلڈ ویو ہے اور سیکولر ازم اور لبرل ازم بھی ایک ورلڈ ویو ہے۔ مذہب بھی ایک تناظر ہے اور قوم پرستی، فرقہ بندی اور برادری ازم بھی ایک تناطر ہے۔ چوں کہ یہ تمام عینکیں ہم معنی ہم پلّہ اور ہم وزن ہیں اس لیے ان عینکوں سے بہ یک وقت جان چھڑانا بھی ایک ہی طرح کی سرگرمی ہے۔
دنیا میں مذہب جیسی معروضی یا Objective چیز کا تصور محال ہے۔ ہزاروں یا لاکھوں سال کی طویل تاریخ میں ایک لاکھ 24 ہزار انبیا آئے مگر تمام انبیا نے زندگی اور کائنات کے بنیادی حقائق کے بارے میں ایک جیسی بات کہی۔ مثلاً سب انبیا توحید پرست تھے۔ تمام انبیا نے حیات بعدالموت کا تصور پیش کیا۔ تمام انبیا نے اللہ ہی کو عبادت کے لائق قرار دیا۔ تمام انبیا نے جنت اور دوزخ کا تصور پیش کیا۔ تمام انبیا نے فرشتوں کے ہونے کی گواہی دی۔ تمام انبیا نے حلال اور حرام کا تصور پیش کیا۔ تمام انبیا نے توبہ اور دعا کی تعلیم دی۔ اس کے برعکس انسانی ساختہ فکر کا معاملہ یہ ہے کہ فلسفے اور سائنس کی تاریخ تردید در تردید کی تاریخ ہے۔ ایک فلسفی جو کچھ کہتا ہے۔ دوسرا فلسفی آکر اس کی نفی کردیتا ہے۔ تیسرا فلسفی دوسرے فلسفی کو دریا برد کردیتا ہے۔ چوتھا فلسفی آکر تیسرے فلسفی کو تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک دیتا ہے۔ سائنس کو بہت معروضی یا Objective قرار دیا جاتا ہے مگر اس کا حال یہ ہے کہ نیوٹن کی Mechanics تین سو سال تک حتمی حقیقت کے طور پر پڑھائی جاتی رہی مگر آئن اسٹائن کے نظریہ اضافیت نے نیوٹن کی حتمی حقیقت کو ازکار رفتہ بنادیا اور اب کوانٹم کے نظریات آئن اسٹائن کے نظریات اضافیت پر سوالات اٹھارہے ہیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو علم تو ایک ہی ہے۔ مذہب، باقی جو کچھ ہے ظن و تخمین ہے، قیاس ہے، گمان ہے، اسی لیے اقبال نے فرمایا ہے۔
عقلِ بے مایہ امامت کی سزا وار نہیں
راہبر ہو ظن و تخمیں تو زبوں کارِ حیات
اقبال کہہ رہے ہیں کہ رہبری صرف ’’وحی‘‘ کے لیے زیبا ہے۔ انسان کی خود ساختہ فکر تو صرف ظن و تخمین ہے اور اس سے انسان کی پوری زندگی تباہ و برباد ہوجاتی ہے۔ اقبال گمان کے مقابلے پر ہمیشہ یقین کو لاتے ہیں اور گمان پر یقین کی فوقیت ثابت کرتے ہیں۔ اقبال کا شعر ہے۔
مرا دل مری رزم گاہِ حیات
گمانوں کے لشکر یقیں کا ثبات
اس سلسلے میں اقبال کی تین شعروں پر مشتمل ایک نظم ’’غلاموں کے لیے‘‘ پر نظر ڈال لینا بھی مفید ہوگا۔ اقبال نے کہا ہے۔
حکمتِ مشرق و مغرب نے سکھایا ہے مجھے
ایک نکتہ کہ غلاموں کے لیے ہے اکسیر
دین ہو، فلسفہ ہو، فقر ہو، سلطانی ہو
ہوتے ہیں پختہ عقاید کی بنا پر تعمیر
حرف اس قوم کا بے سوز، عمل زار و زبوں
ہوگیا پختہ عقاید سے تہی جس کا ضمیر
اقبال کے یہ تین شعر سیاسی غلاموں کے لیے ہی نہیں سیکولر ازم اور لبرل ازم کے غلاموں کے لیے بھی یکساں مفید ہیں۔
بدقسمتی سے ہمارے زمانے میں انسان کے نظریات اداکاروں کے فیشن کی طرح روز بدلتے ہیں اور نظریات کی اس تبدیلی یا ناپختگی کو ’’روشن خیالی‘‘ باور کرایا جاتا ہے۔ حالاں کہ عقاید کی مسلسل تبدیلی ایک روحانی مرض ہے اور عہد ِ جدید بری طرح اس مرض میں مبتلا ہے۔ اس لیے اقبال نے کہا ہے۔
پختہ افکار کہاں ڈھونڈنے جائے کوئی
اس زمانے کی ہوا رکھتی ہے ہر چیز کو خام
اقبال کے اس شعر کا مفہوم یہ ہے کہ عہد جدید کے مزاج میں ناپختگی ہے اور عہد جدید عقاید و نظریات ہی کو نہیں خیالات اور جذبات و احساسات کو بھی پختہ نہیں ہونے دیتا۔ ہمارے زمانے میں آزادی ٔ افکار کو ایک عقیدے کی طرح پوجا جارہا ہے مگر اقبال آزادی ٔ افکار کے سلسلے میں بھی پختگی و پائیداری کو شرط اولین قرار دیتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اگر انسان کی فکر خام ہو تو پھر آزادی ٔ افکار انسان کو انسان بنانے کے بجائے حیوان بناتی ہے۔ اقبال نے فرمایا ہے۔
آزادیٔ افکار سے ہے ان کی تباہی
رکھتے نہیں جو فکر و تدبر کا سلیقہ
ہو فکر اگر خام تو آزادیٔ افکار
انسان کو حیوان بنانے کا طریقہ
اس تناظر میں دیکھا جائے تو ہمارے عہد کے تمام سیکولر اور لبرل دانش ور آزادی ٔ افکار کی آڑ میں انسانوں کو حیوان بنانے کے لیے کوشاں ہیں۔ عہدِ حاضر کے انسانوں کی ناپختہ یا سیکولر اور لبرل فکر نے انسانوں کا کیا حال کیا ہے۔ اقبال نے اس پر بھی گہری روشنی ڈالی ہے۔ اقبال فرماتے ہیں۔
ڈھونڈنے والا ستاروں کی گزر گاہوں کا
اپنے افکار کی دنیا میں سفر کر نہ سکا
جس نے سورج کی شعائوں کو گرفتار کیا
زندگی کی شبِ تاریک سحر کر نہ سکا
اقبال کہہ رہے ہیں کہ عہدِ جدید کا انسان ستاروں کی گزر گاہوں کو تلاش کررہا ہے مگر دوسری طرف اس کی نارسانی کا یہ عالم ہے کہ وہ اپنے افکار کی دنیا میں سفر کرنے سے قاصر ہے۔ بلاشبہ اس نے سورج کی شعائوں کو گرفتار کرنا سیکھ لیا ہے مگر زندگی کی تاریک رات کو روشن کرنا نہیں آسکا۔ حالاں کہ انسان کی اصل ضرورت یہی ہے کہ وہ زندگی کو زندگی اور انسان کو انسان بنا کر دکھائے۔ پختگی کے بارے میں ایک بنیادی بات یہ ہے کہ فکر کی پختگی کو صرف اقبال ہی پسند نہیں کرتے تھے۔ شیکسپیئر نے بھی کہا ہے Ripeness is all یعنی پختگی ہی سب کچھ ہے۔ اور بلاشبہ مذہب بالخصوص اسلام انسان کو جیسی پختگی عطا کرتا ہے ویسی پختگی انسان کو کہیں اور سے میسر نہیں آسکی۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اقبال ایک مذہبی انسان تھے، مذہب ان کے لیے انتخاب کا مسئلہ نہیں تھا۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔ اقبال کی شخصیت میں بھی کشمکش برپا ہوتی تھی مگر اس کشمکش میں وہ ہمیشہ مذہب کو اپنی مدد کے لیے پکارتے تھے۔ اقبال کا ایک شعر ہے۔
تُو اے مولائے یثرب آپ میری چارہ سازی کر
مری دانش ہے افرنگی میرا ایماں ہے زنارّی
اقبال نے اس شعر میں نبی اکرمؐ کو بے ساختہ مدد کے لیے پکارا ہے۔ انہوں نے فرمایا ہے کہ اے یثرب کے والی میری مدد فرمائیے، اس لیے کہ میری دانش مغربی ہے اور میرا ایمان برہمنی ہے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ اقبال کو نہ اپنی مغربی فکر پر اعتماد تھا نہ اپنے آبائو اجداد سے فراہم ہونے والی میراث پر اعتبار تھا، انہیں اعتبار تھا تو رسول اکرمؐ اور آپؐ کے ورثے پر۔ مگر یاسر پیرزادہ روشنی اور تاریکی، حق و باطل، اور خیر و شر کو ہم معنی، ہم پلہ اور ہم وزن بنانے پر کمربستہ ہیں۔ ان کے نزدیک مذہب کی عینک بھی ایک عینک ہے اور سیکولر ازم کی عینک بھی ایک عینک ہے۔ یہاں تک کہ قوم پرستی اور برادری ازم کی عینک بھی ایک عینک ہے۔ حالاں کہ مذہب حق ہے۔ سیکولرازم باطل ہے، قوم پرستی ضلالت ہے اور برادری ازم جہالت ہے۔ بدقسمتی سے یاسر پیرزادہ تو تناظر ورلڈ ویو یا عینک کا فرق بھی معلوم نہیں اس سلسلے میں اقبال کی ایک نظم مقصود کا مطالعہ مفید ہے۔
اسپنوزا
نظر حیات پہ رکھتا ہے مردِ دانش مند
حیات کیا ہے حضور و سرور و نور و وجود
فلاطوں
نگاہ موت پہ رکھتا ہے مردِ دانش مند
حیات ہے شبِ تاریک میں شرر کی نمود
اقبال
حیات و موت نہیں التفات کے لائق
فقط خودی ہے خودی کی نگاہ کا مقصود
یہ ایک حقیقت کے بارے میں تین بڑی شخصیتوں کے تناظر کا فرق ہے۔

Leave a Reply