ہندو قیادت کی مسلمانوں اور پاکستان سے نفرت

انسان کے بنیادی جذبے دو ہیں۔ محبت اور نفرت۔ کچھ لوگوں کی زندگی محبت کے زیر اثر ہوتی ہے۔ محبت وسعت قلبی اور فراخ دلی سے پہچانی جاتی ہے۔ اس کے برعکس کچھ لوگوں کی زندگی نفرت کے دائرے میں بسر ہوتی ہے۔ نفرت تنگ دلی اور کور چشمی سے پہچانی جاتی ہے۔ بدقسمتی سے بھارت کی ہندو قیادت ایک صدی سے مسلمانوں اور پاکستان کی نفرت میں مبتلا ہے۔ یہ نفرت ہمیں تاریخ کے صفحات اور رزم گاہِ حیات میں کتّے کی طرح بھونکتی نظر آتی ہے۔ یہ سامنے کی بات ہے کہ کورونا کے طوفان نے ہندوستان کو بنیادوں سے ہلا دیا ہے۔ بھارت میں کورونا کے مریض کتّے بلیوں کی طرح مر رہے ہیں۔ ہندوستان میں آکسیجن کی شدید قلت ہے۔ ہندوستان کی صورت حال اتنی گمبھیر ہے کہ بھارت کے ممتاز جریدے انڈیا ٹوڈے نے ہندوستان کو ’’ناکام ریاست‘‘ قرار دے دیا ہے۔ اس منظرنامے میں بھی ہندو قیادت کی مسلمانوں اور پاکستان سے نفرت پوری طرح زندہ ہے اور تاریخ کے صفحات اور رزم گاہِ حیات میں کتّے کی طرح بھونک رہی ہے۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ پاکستان نے ہندوستان کو ہر ممکن امداد فراہم کرنے کی پیشکش کی۔ پاکستان صرف ایک بار پیشکش کرکے نہیں رہ گیا بلکہ اس نے اس پیشکش کو بار بار دہرایا لیکن ہندوستان نے پاکستان کی پیشکش کو قبول نہیں کیا۔ ہندوستان کی ہندو قیادت کی نفرت کا ایک اور ثبوت یہ ہے کہ بھارتی پنجاب کے وزیراعلیٰ راجا امریندر سنگھ نے بھارت کی مرکزی حکومت سے درخواست کی کہ انہیں پاکستان سے آکسیجن لینے کی اجازت دی جائے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت ہمیں اس مقام سے آکسیجن فراہم کی جارہی ہے جو امرتسر سے 350 کلومیٹر دور ہے جب کہ لاہور اور امرتسر کے درمیان فاصلہ پچاس ساٹھ کلو میٹر ہے۔ چناں چہ انہوں نے استدعا کی کہ انہیں واہگہ کے ذریعے آکسیجن لینے کی اجازت دی جائے مگر بھارت کی مرکزی حکومت نے ایسا کرنے سے انکار کردیا۔ راجا امریندر سنگھ نے اس سلسلے میں بیان دیا تو بھارت کی مرکزی حکومت نے راجا امریندر سنگھ کی درخواست اور بیان کی تصدیق یا تردید کرنے سے انکار کردیا۔ جس کے معنی یہ ہیں کہ راجا امریندر سنگھ نے واقعتاً پاکستان سے آکسیجن لینے کا فیصلہ کیا۔ ایسا نہیں ہے کہ بھارت کسی ملک سے امداد نہیں لے رہا۔ بھارت کو سعودی عرب نے امداد دی ہے۔ امریکا نے بھارت کو مدد فراہم کی ہے۔ فرانس سے بھارت کے لیے امداد آئی ہے۔ حتیٰ کہ چین کی ریڈ کراس بھی بھارت میں موجود ہے۔ بھارت ساری دنیا سے مدد لے رہا ہے مگر وہ پاکستان کی نفرت میں پاکستان سے مدد لینے پر تیار نہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اس وقت دونوں ملکوں کے خفیہ اداروں کے اہلکاروں کے درمیان ’’خفیہ مذاکرات‘‘ ہورہے ہیں۔ اس کے باوجود بھارت کی ہندو قیادت منہ میں رام بغل میں چھری کی مثال بنی ہوئی ہے۔ بھارت کی قیادت مذاکرات کی میز پر ’’امن‘‘ کی بات کررہی ہے مگر پاکستان کی امداد نہ لے کر وہ ’’جنگی نفسیات‘‘ کا مظاہرہ کررہی ہے۔
بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ بھارت کی قیادت کی نفرت کا تحریک پاکستان یا پاکستان سے کوئی تعلق ہے۔ مگر یہ ایک خام خیالی ہے۔ تحریک پاکستان سے بہت پہلے ہندو قیادت مسلمانوں سے نفرت کا اظہار شروع کرچکی تھی۔ اس کی ایک مثال ہندوئوں کے سلسلے میں سرسید کے خیالات ہیں۔ ایک وقت تھا کہ سرسید فرمایا کرتے تھے کہ ہندو اور مسلمان ایک خوبصورت دلہن کی دو آنکھیں ہیں۔ مگر جب سرسید نے دیکھا کہ کانگریس کی تنگ نظر ہندو قیادت اردو اور فارسی کو پس منظر میں دھکیل رہی ہے اور ہندی کو فروغ دے رہی ہے تو سرسید نے مسلمانوں سے کہنا شروع کیا کہ تمہیں اگر اپنے مفادات عزیز ہیں تو کانگریس میں مت جائو اپنا الگ پلیٹ فارم بنائو اور اس سے اپنے مفادات کے تحفظ کی جنگ لڑو۔ چلیے فارسی تو غیر ملکی زبان تھی۔ وہ ایران سے آئی تھی۔ مگر اردو نے تو ہندوستان ہی میں جنم لیا۔ چناں چہ اردو کے فروغ میں ہندو شاعروں اور ادیبوں کا بھی اہم کردار ہے۔ اردو افسانے کے بنیاد گزار منشی پریم چند ہیں۔ اردو افسانے کا سب سے بڑا نام راجندر سنگھ بیدی ہے۔ اور بیدی سکھ تھے۔ فراق گورکھپوری تاثراتی تنقید کا سب سے بڑا نام ہیں۔ وہ جدید غزل کے اماموں میں بھی شامل ہیں اور فراق ہندو تھے۔ مگر ہندو قیادت نے اردو کو ایک لمحے میں ’’مسلمانوں کی زبان‘‘ بنا کر کھڑا کردیا۔ ہم نے مولانا محمد علی جوہر کی 1930ء میں کی گئی وہ تقریر خود پڑھی ہے جس میں مولانا گاندھی کو مخاطب کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ آپ شدھی کی اس تحریک کو کیوں نہیں روکتے جو مسلمانوں کو زبردستی ہندو بنارہی ہے۔ یہ تحریک پاکستان کے آغاز سے بہت پہلے کی بات ہے۔ پریم چند کو مسلم کلچر سے ایسی محبت تھی کہ انہوں نے عیدگاہ جیسا شاہکار افسانہ تخلیق کیا۔ اس افسانے کی فضا ایسی ہے کہ اگر اس افسانے سے پریم چند کا نام ہٹا لیا جائے اور اسے کسی عام آدمی کو پڑھنے کے لیے دیا جائے تو وہ سمجھے گا یہ افسانہ کسی راسخ العقیدہ مسلمان نے لکھا ہے۔ مگر ہندو قیادت نے پریم چند کے ذہن میں ایسا زہر گھولا کہ انہوں نے ایک روز اردو میں افسانے لکھنے بند کردیے۔ وہ ہندی میں افسانہ لکھنے لگے۔
بھارت کی متعصب ہندو قیادت کو مسلمانوں سے ایسی نفرت ہے کہ اس کا بس چلے تو سارے مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے مٹادے۔ قائد اعظم کا خیال تھا کہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ویسے ہی تعلقات ہوں گے جیسے امریکا اور کینیڈا کے درمیان ہیں۔ یعنی ’’دوستانہ‘‘۔ مگر ہندو قیادت نے پاکستان کو دل سے تسلیم ہی نہیں کیا۔ اس نے کشمیر، حیدر آباد دکن اور جونا گڑھ کو فوج کشی کے ذریعے مقبوضہ علاقہ بنادیا۔ اس نے پاکستان کے حصے کے وسائل پاکستان کو دینے سے صاف انکار کردیا۔ قیام پاکستان کے بعد مسلم کش فسادات کا خیال بھی قائد اعظم کے ذہن میں نہیں آیا تھا مگر ہندو قیادت نے مسلم کش فسادات شروع کراکے دس لاکھ سے زیادہ مسلمانوں کو شہید کردیا۔ گاندھی اور نہرو کے دوست مولانا ابوالکلام آزاد نے اپنی تصنیف ’’India Wins Freedom‘‘ میں لکھا ہے کہ دہلی میں مسلم کش فسادات کسی طرح رکنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے۔ ان کے بقول ان فسادات کی آگ سے بالائی طبقے کے مسلمان بھی محفوظ نہ تھے۔ مولانا کے پاس روزانہ اہم مسلمانوں کے فون آرہے تھے جن میں مولانا سے درخواست کی جارہی تھی کہ وہ مسلمانوں کے تحفظ کے لیے کچھ کریں۔ مولانا نے لکھا ہے کہ میں نے نہرو سے کئی بار کہا کہ وہ فسادات کو روکنے کے لیے کچھ کریں مگر نہرو ہر بار یہ کہہ کر جان چھڑا لیتے تھے کہ میں سردار پٹیل سے کہتا ہوں کہ فسادات روکو مگر وہ میری بات ہی نہیں سنتا۔ جس وقت نہرو یہ کہہ رہے تھے نہرو ہندوستان کے وزیراعظم تھے اور سردار پٹیل ہندوستان کے وزیر داخلہ۔ کیا یہ سوچا بھی جاسکتا ہے کہ نہرو جیسا مقبول عوام وزیراعظم اپنے وزیر داخلہ کو بار بار فسادات روکنے کا حکم دے گا اور وزیر داخلہ ہر بار اس کے حکم کو نظر انداز کردے گا۔ ظاہر ہے ایسا ممکن نہیں۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ مسلم کش فسادات کو خود نہرو بھی روکنا نہیں چاہتے تھے۔ نہرو کی تنگ نظری، تھڑ دلی اور نفرت کا یہ عالم تھا تو اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ مودی، امت شاہ اور آدتیہ یوگی ناتھ یوگی کی تنگ نظری، تھڑ دلی اور نفرت کا کیا عالم ہوگا۔
یہ بات تاریخ کے ریکارڈ کا حصہ ہے کہ سقوط ڈھاکا کے بعد بھارت کی وزیراعظم اور نہرو کی بیٹی اندرا گاندھی نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج ہم نے ایک ہزار سال کی تاریخ کا بدلہ لے لیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے آج دو قومی نظریے کو خلیج بنگال میں غرق کردیا ہے۔ سقوط ڈھاکا ہندوستان کی اتنی بڑی کامیابی تھی کہ صرف اس کا ذکر ہی کافی تھا مگر اندرا گاندھی نے اس کے حوالے سے تاریخ کو آواز دینا ضروری سمجھا اور انہوں نے زور دے کر یہ بات کہی کہ آج ایک ہزار سال کی تاریخ کا بدلہ لے لیا گیا ہے۔ دو قومی نظریہ اسلام کے سوا کچھ نہیں تھا۔ چناں چہ اندرا گاندھی نے دو قومی نظریے کو خلیج بنگال میں غرق کرنے کا اعلان کرکے گویا معاذاللہ اسلام کو خلیج بنگال میں غرق کرنے کا دعویٰ کیا۔ یہ اسلام، مسلمانوں اور پاکستان سے بھارت کی ہندو قیادت کی نفرت کی ایک بہت بڑی مثال ہے۔
کورونا ایک عالمگیر وبا ہے اور اس کا مسلمانوں سے کوئی تعلق نہیں مگر بھارت کی ہندو قیادت اور ذرائع ابلاغ نے کورونا کے پھیلائو کو مسلمانوں سے منسلک کردیا اور دہلی میں تبلیغی جماعت کے اجتماع کو کورونا بم کہہ کر پکارا۔ آج بھارت میں سیکڑوں مسلمان ان ہندوئوں کی چتائیں جلارہے ہیں جن کو ان کے اپنے بھی ہاتھ لگانے پر تیار نہیں۔ مگر ہندو قیادت مسلمانوں کی اس خدمت کا بھی کھلے دل سے اعتراف نہیں کررہی۔

 

Leave a Reply