مغربی دنیا اور دھوکا دہی کی وارداتیں

مسلم دنیا میں مغرب کے بت کو پوجنے والوں کی بڑی تعداد موجود ہے۔ مغرب کے بت کو پوجنے والے کہتے ہیں کہ مغرب سے زیادہ اصول پرست تو کوئی ہے ہی نہیں۔ وہ جو وعدہ کرتا ہے پورا کرتا ہے۔ جھوٹ، مکر اور فریب سے مغرب کا کوئی تعلق ہی نہیں۔ مغرب جو کہتا ہے وہی کرتا ہے۔ مغرب قانون پرست ہے، معاہدوں کا پاسدار ہے، مغرب خدا نہیں ہے تو کم سے کم فرشتہ ضرور ہے۔ بدقسمتی سے ان باتوں میں سے ایک بات بھی درست نہیں۔ مغرب کی پوری تاریخ جھوٹ، مکر اور دھوکا دہی کی وارداتوں سے بھری ہوئی ہے۔ ان وارداتوں کی داستان اتنی طویل ہے کہ سمجھ میں نہیں آرہا اسے کہاں سے شروع کیا جائے۔
چلیے افغانستان سے بات کا آغاز کرتے ہیں۔ امریکا نے دوحا میں طالبان کے ساتھ طویل مذاکرات کے بعد ایک معاہدے پر دستخط کیے اور معاہدے میں لکھا کہ بالآخر امریکا کی ساری فوج فلاں تاریخ تک افغانستان سے نکل جائے گی۔ مگر اب امریکا کہہ رہا ہے کہ اس کے 650 فوجی امریکی سفارت خانے کی حفاظت کے لیے افغانستان میں موجود رہیں گے۔ ایک تازہ ترین خبر یہ ہے کہ امریکا اشرف غنی کی حکومت کو تقویت فراہم کرنے کے لیے بھی کچھ فوجی افغانستان میں رکھے گا۔ معاہدہ ایک طرح کا تحریری وعدہ ہوتا ہے مگر مغرب کی سب سے بڑی طاقت افغانستان میں تحریری وعدے سے مکر گئی ہے۔ یہ دروغ گوئی کی مثال بھی ہے اور مکر و فریب کی مثال بھی ہے۔ امریکا کے دل میں کچھ تھا اور زبان پر کچھ اور تھا۔ معاہدے پاسداری کے لیے کیے جاتے ہیں، دھوکا دہی کے لیے نہیں۔ لیکن معاہدوں کی خلاف ورزی تو امریکا کی پرانی عادت ہے۔
پاکستان 1960ء کی دہائی میں سیٹو اور سینٹو کا رکن تھا اور امریکا ان معاہدوں کے تحت پاکستان کی سلامتی کا ضامن تھا۔ لیکن جب 1965ء میں پاک بھارت جنگ ہوئی اور پاکستان نے امریکا کو مدد کے لیے پکارا تو امریکا نے صاف کہہ دیا کہ ہم صرف کمیونسٹ خطرے کی صورت پاکستان کی مدد کے پابند ہیں۔ بھارت اس وقت روس کے کیمپ میں تو نہیں تھا مگر وہ روس کے بے حد قریب تھا اور 1965ء کی جنگ میں بھارت کی بالادستی سے خطے میں روس کے مفادات آگے بڑھتے مگر امریکیوں نے 1965ء کی جنگ میں روس کے اتحادی کے خلاف پاکستان کی کوئی مدد نہیں کی بلکہ الٹا پاکستان کو ہتھیاروں کی فراہمی بند کردی۔ 1971ء کا بحران پاکستان کے لیے اور بھی سنگین تھا۔ 1971ء میں پاکستان کا وجود دائو پر لگا ہوا تھا اور امریکا کا فرض تھا کہ وہ اپنے اتحادی کی مدد کرے۔ امریکا نے وعدہ بھی کیا کہ وہ اپنا ساتواں بحری بیڑا پاکستان کی مدد کے لیے بھیج رہا ہے مگر امریکا کا ساتواں بحری بیڑا کبھی مشرقی پاکستان نہ پہنچ سکا اس لیے کہ امریکا کا ساتواں بحری بیڑا کبھی مشرقی پاکستان کے لیے روانہ ہی نہیں ہوا تھا۔ اس سے بہت پہلے 1962ء میں چین اور بھارت کی جنگ ہوئی۔ بھارت گھبرا کر اپنی ساری فوجیں چینی سرحد پر لے گیا۔ اس صورت حال میں چین نے پاکستان کو پیغام دیا کہ آگے بڑھو اور بھارت سے اپنا کشمیر چھین لو۔ یہ ایک نادر موقع تھا۔ پاکستان 10 ہزار فوجیوں کے ذریعے کشمیر فتح کرسکتا تھا مگر امریکا نے جنرل ایوب کو پیغام بھیجا کہ آپ طاقت کے زور پر آگے نہ بڑھیں۔ آپ چین بھارت جنگ ختم ہونے دیں ہم مسئلہ کشمیر حل کرادیں گے۔ جنرل ایوب امریکا کے آگے جھک گئے۔ چین بھارت جنگ بالآخر ختم ہوگئی مگر امریکا نے وعدے کے مطابق مسئلہ کشمیر حل نہ کرایا۔
یہ بات تاریخ کے ریکارڈ پر ہے کہ پاکستان نے 1980ء کی دہائی میں امریکا سے ایف 16 طیارے خریدنے کے لیے ایک تجارتی معاہدہ کیا اور اس سلسلے میں ایک ارب ڈالر سے زیادہ کی رقم پیشگی ادا کردی۔ مگر امریکا اپنے تجارتی معاہدے سے مکر گیا۔ اس نے نہ پاکستان کو ایف 16 طیارے دیے نہ پاکستان کی رقم لوٹائی۔ پاکستان ایک غریب ملک ہے اس کے لیے ایک ارب ڈالر کی بڑی اہمیت تھی مگر امریکا دس بارہ سال تک پاکستان کی رقم پر سانپ بن کر بیٹھا رہا۔ امریکا نے بالآخر پاکستان کی رقم لوٹائی مگر سویا بین آئل کی صورت میں۔ جس کی پاکستان کو کوئی ضرورت ہی نہیں تھی۔
یہ کل ہی کی بات ہے کہ امریکا نے ایران کے ساتھ اس کے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے ایک معاہدے پر دستخط کیے۔ روس، چین، برطانیہ اور جرمنی بھی معاہدے کا حصہ تھے۔ یہ معاہدہ ہر اعتبار سے بین الاقوامی تھا مگر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ ان کا امریکا اس معاہدے کو تسلیم نہیں کرتا اور انہوں نے معاہدے پر خط تنسیخ پھیر دیا۔ ایران بہت چیخا چلایا مگر امریکا نے اس کی ایک نہ سنی نہ برطانیہ اور جرمنی نے، اس سلسلے میں امریکا پر کوئی دبائو ڈالا۔ اس سے دنیا کو یہ پیغام ملا کہ امریکا معاہدوں کے سلسلے میں قابل اعتبار نہیں۔ اس کی ایک حکومت معاہدے پر دستخط کرتی ہے اور دوسری حکومت معاہدے کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیتی ہے۔
مغربی دنیا خود کو ’’انسانی حقوق‘‘ کا علمبردار کہتی ہے مگر مغربی دنیا نے تاریخ کے طویل سفر میں جتنے بڑے پیمانے پر انسانوں کو قتل کیا ہے اس کی کوئی مثال پوری انسانی تاریخ میں موجود نہیں۔ چنگیز خان کو وحشت اور درندگی کی علامت کے طور پر پیش کیا جاتا ہے مگر وحشت اور درندگی کے حوالے سے چنگیز خان مغربی دنیا کے سامنے ایک بچہ ہے۔ چنگیز خان نے 2 کروڑ انسانوں کو قتل کیا مگر امریکا کے سفید فاموں نے امریکا پر قبضہ کرکے وہاں 8 سے 10 کروڑ افراد کو قتل کیا۔ مغرب کے سفید فاموں نے آسٹریلیا پر قبضہ کرکے 40 لاکھ سے زیادہ مقامی باشندوں کو ہلاک کیا۔ دو عالمی جنگیں مغربی طاقتوں کی ’’ایجاد‘‘ تھیں، ان جنگوں میں 10 کروڑ افراد ہلاک ہوئے۔ اصول ہے کہ جنگ میں ایک شخص ہلاک ہوتا ہے تو تین زخمی ہوتے ہیں۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ دو عالمی جنگوں میں کم و بیش 30 کروڑ افراد زخمی ہوئے۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ دو عالمی جنگیں پندرہویں صدی میں نہیں 20 ویں صدی میں ہوئیں جنہیں مغرب، علم کی صدی کہتا ہے، شعور کی صدی کہتا ہے، تہذیب کی صدی کہتا ہے، سائنس کی صدی کہتا ہے۔ امریکا کے ممتاز ماہر نفسیات ایرک فرام نے اپنی تصنیف ’’The Anatomy of Human Destructiveness‘‘ میں لکھا ہے کہ مغربی اقوام نے گزشتہ پانچ سو سال میں 2600 سے زیادہ جنگیں لڑی ہیں ان جنگوں میں کوئی مشرقی قوم شامل نہیں تھی۔ ان جنگوں کی تعداد سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ مغرب کو ’’انسانی حقوق‘‘ کا کتنا خیال ہے۔ ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ امریکا اور اس کے مغربی اتحادیوں نے صدام حسین کے عراق پر اقتصادی پابندیاں عائد کیں، یہ پابندیاں اتنی سخت تھیں کہ ان پابندیوں کی وجہ سے عراق میں غذا اور دوائیوں کی قلت ہوگئی۔ اس قلت سے پانچ لاکھ بچوں سمیت 10 لاکھ افراد ہلاک ہوئے۔ امریکا کی سابق وزیر خارجہ میڈلن البرائٹ سے 10 لاکھ افراد کی ہلاکت کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے انسانی حقوق کے تصور کو پھلانگتے ہوئے فرمایا کہ یہ ہلاکتیں ان کے لیے قابل قبول ہیں۔
امریکا اور اس کے مغربی اتحادی جمہوریت کے بھی بڑے علمبردار ہیں مگر مسلم دنیا کی تاریخ یہ ہے کہ مسلم مالک میں جب بھی مارشل لا آیا ہے امریکا، برطانیہ یا فرانس کی مرضی سے آیا ہے۔ جنرل ایوب، جنرل ضیا الحق اور جنرل پرویز مشرف کو اقتدار میں لانے والا اور ان کے اقتدار کو دوام بخشنے والا امریکا تھا۔ یہ امریکا کی قومی سلامتی کی مشیر کونڈا لیزا رائس تھیں جنہوں نے جنرل پرویز مشرف اور بے نظیر کے درمیان این آر او کرایا۔ یہ بات کونڈا لیزا رائس نے اپنی خود نوشت میں خود لکھی ہے یہ بات بھی تاریخ کے ریکارڈ پر موجود ہے کہ امریکا کو مسلم دنیا میں جمہوریت اس وقت پسند آتی ہے جب وہ کسی سیکولر یا لبرل شخص اور جماعت کو اقتدار میں لائے۔ جمہوریت کسی اسلام پسند رہنما یا جماعت کو اقتدار میں لے آئے تو مغرب اپنی ہی جمہوریت کے منہ پر تھوک دیتا ہے۔ الجزائر میں اسلامی فرنٹ انتخابات میں کامیاب ہوا تو مغرب نے اسلامی فرنٹ پر الجزائر کی فوج کو چھوڑ دیا۔ ترکی میں نجم الدین اربکان وزیراعظم بن گئے تو انہیں ایک سال سے زیادہ نہیں چلنے دیا گیا۔ فلسطین میں حماس کامیاب ہوئی تو اس کی حکومت کو مغرب نے جمہوری حکومت تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ حالاں کہ وہ واضح اکثریت سے اقتدار میں آئی تھی۔ مصر میں صدر مرسی آئے تو امریکا نے جنرل سیسی کو صدر مرسی اور اخوان پر چھوڑ دیا۔ یہاں تک کہ امریکا نے جنرل سیسی کے مارشل لا کو مارشل لا بھی قرار نہ دیا۔ امریکا ایسا کرتا تو مصر پر اقتصادی پابندیاں عائد کرنی پڑ جاتیں۔ مغربی دنیا خود کو جمہوریت پسند کہتی ہے مگر اس نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پانچ طاقتوں کو ویٹو پاور دے کر سب سے بڑے عالمی ادارے میں جمہوریت کی نفی کی ہوئی ہے۔ امریکا خود کو بین الاقوامی قوانین کا پاسدار کہتا ہے مگر امریکا نے گزشتہ 70 برسوں میں 100 سے زیادہ ملکوں میں فوجی مداخلتیں کی ہوئی ہیں۔ اسی لیے امریکا کے ممتاز دانش ور نوم چومسکی امریکا کو ایک بدمعاش ریاست کہتے ہیں۔

Leave a Reply