انسان اور زبان

انسان کی زندگی میں زبان کی اہمیت یہ ہے کہ زبان کے بغیر نہ انسان کا تصور کیا جاسکتا ہے اور نہ انسان کی زندگی کا۔ اللہ تعالیٰ قادرِ مطلق ہے‘ وہ حیوانات‘ نباتات اور جمادات سے کلام کرتا ہے چنانچہ وہ انسان سے کلام کے لیے بھی کوئی اور طریقہ اختیار کر سکتا تھا مگر اس نے انسان سے کلام کے لیے زبان کا وسیلہ اختیار کیا۔ چنانچہ مذہبی اعتبار سے زبان کی اہمیت غیر معمولی ہے۔ زبان سے خدا کے تعلق کی ایک مثال یہ ہے کہ خدا نے کائنات کو خلق کرنے کے لیے لفظ ’’کن‘‘ کو استعمال کیا۔ خدا نے کائنات سے کہا ’’ہو جا‘‘ اور کائنات وجود میں آگئی۔ خدا کی خلاقی طرح طرح سے اپنا اظہار کرتی ہے اس نے انسان کو مٹی سے بنایا۔ فرشتوں کو نور سے خلق کیا۔ جنات کو آگ سے پیدا کیا۔ وہ کائنات کو بھی ہزار طرح سے خلق کر سکتا تھا مگر اس نے کائنات کو خلق کرنے کے لیے لفظ کو استعمال کیا۔ بعض مذہبی صحائف میں آیا ہے کہ جب کچھ نہ تھا تو لفظ تھا۔ لفظ کی اہمیت یہ بھی ہے کہ خدا نے تمام آسمانی کتابیں کسی نہ کسی انسانی زبان میں نازل کیں۔ سیدنا عیسیٰؑ مردے کو زندہ کیا کرتے تھے۔ اُس سے کہتے تھے اُٹھ خدا کے حکم سے۔ انسان عبادت کرتا ہے تو زبان کے وسیلے سے‘ دعا مانگتا ہے تو زبان کے ذریعے سے۔ ایک زمانہ تھا کہ ہماری تاریخ میں زبان کا علم ایک زندہ علم تھا اور اس کی نوعیت غیر معمولی تھی۔ سیدنا ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے ایک رات عشا کے بعد سیدنا علیؓ کے گھر پر قیام کیا۔ سیدنا علیؓ نے عشا کی نماز کے بعد عربی حرف ب کے نقطے کی معنویت پر گفتگو کا آغاز کیا۔ ابن عباسؓ کے بقول ب کے نقطے کی معنویت کا بیان اتنا طویل ہوا کہ عشا سے فجر کا وقت ہو گیا مگر سیدنا علیؓ کی گفتگو جاری تھی۔ بدقسمتی سے زبان کی معنویت کا یہ علم اُٹھا لیا گیا ہے اور اب ہم زبان کی اہمیت اور معنویت سے بالکل بھی آگاہ نہیں رہ گئے ہیں۔ چنانچہ اب ہم بھول گئے ہیں کہ ہم سوچتے ہیں تو زبان کی مدد سے‘ جذبات کا اظہار کرتے ہیں تو زبان کے ذریعے سے‘ احساسات کا ابلاغ کرتے ہیں تو زبان کے وسیلے سے۔ زبان نہ ہو تو کچھ بھی نہ ہو۔ نہ خیالات ہوں‘ نہ جذبات ہوں نہ احساسات ہوں۔ بعض احمقوں کا خیال ہے کہ زبان صرف شعر و ادب سے اور عام گفتگو سے متعلق ہے۔ اس کا ریاضی اور طبیعات جیسے مضامین سے کوئی تعلق نہیں۔ اس لیے کہ ریاضی اور طبیعات میں فارمولوں کی زبان استعمال ہوتی ہے۔ مگر ایسے لوگ بھول جاتے ہیں کہ فارمولا بھی ایک ’’خیال‘‘ ہے اور ہر خیال کی جڑیں زبان میں پیوست ہیں‘ اس کے معنی یہ ہوئے کہ جن لوگوں کو زبان نہیں آتی وہ اچھے ریاضی دان یا ماہر طبیعات بھی نہیں بن سکتے۔ عربی ایک عظیم الشان زبان ہے۔ عربی اس لیے عظیم الشان زبان بنائی گئی کہ اس میں قرآن نازل ہونا تھا اور اس کے وسیلے سے رسول اکرمؐ کو کلام کرنا تھا۔ مگر یہاں کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ اہلِ عرب عربی کی عظمت کی وجہ سے باقی پوری دنیا کو عجم یا گونگا کہتے تھے۔ زبان کی اہمیت کے بارے میں ایک بار ہم نے کہیں برطانیہ کی سابق وزیراعظم مارگریٹ تھیچر کا قول پڑھا تھا۔ تھیچر نے کہا تھا لفظ سے ’’خیال‘‘ پیدا ہوتا ہے‘ خیال سے ’’عمل‘‘ جنم لیتا ہے‘ عمل سے ’’عادت‘‘ وجود میں آتی ہے‘ عادت سے ’’کردار‘‘ کا ظہور ہوتا ہے اور جیسا جس فرد کا کردار ہوتا ہے ویسی ہی اس کی ’’تقدیر‘‘ ہوتی ہے۔ خدا معلوم تھیچر کو اتنی گہری بات کیسے سوجھی مگر تھیچر کے قول کی روشنی میں دیکھا جائے تو انسان اور اقوام کی تقدیر لفظ یا زبان پر کھڑی ہے یعنی جیسی جس فرد یا قوم کی لسانی اہلیت ہے ویسی ہی اس کی تقدیر ہے۔
مسلمانوں کی تاریخ کو دیکھا جائے تو مسلمان اپنی تاریخ کے آغاز سے زبان کے عشق میں مبتلا رہے ہیں۔ اس کا ٹھوس ثبوت مسلمانوں کے غیر معمولی علمی اور تخلیقی تاریخ ہے۔ آسمانی کتب تو بہت آئیں‘ ان کتب میں توریت بھی ہے‘ زبور بھی ہے‘ انجیل بھی ہے‘ وید بھی ہیں مگر مسلمانوں نے قرآن کی تفسیر کا جیسا علم پیدا کیا ویسا علم دنیا کی کسی قوم یا کسی ملت اور کسی امت نے پیدا نہیں کیا۔ قرآن کی تفسیر کا کام رسول اکرمؐ کے زمانے سے شروع ہوا اور آج چودہ سو سال بعد بھی یہ کام جاری ہے۔ یہاں کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ ’’قرآن فہمی‘‘ زبان فہمی کے بغیر ممکن ہی نہیں۔ قرآن پر وہی شخص کلام کر سکتا ہے کہ جو عربی کو سمجھتا ہو اور اپنے فہم کو عربی یا کسی دوسری زبان میں بیان کرنے کی اہلیت رکھتا ہو۔ مگر مسلمانوں نے صرف علم تفسیر ہی پیدا نہیں کیا۔ انہوں نے علم حدیث بھی پیدا کیا اور یہ علم بھی زبان سے گہری وابستگی کے بغیر پیدا نہیں ہوسکتا تھا۔ مسلمانوں نے شاعری کی ایسی روایت پیدا کی جس کی نظیر موجود نہیں۔ فارسی کی شاعری اتنی بڑی شاعری ہے کہ اس سے بڑی شاعری کا تصور محال ہے۔ مسلمانوں نے برصغیر میں اردو زبان خلق کی اور اردو نے گزشتہ تین سو سال میں شاعری کا ایک سمندر خلق کر ڈالا ہے۔ یہ کارنامے بھی زبان کے عشق میں مبتلا ہوئے بغیر انجام نہیں پا سکتے تھے۔ مسلمانوں نے داستانوں کی بھی بہت بڑی روایت پیدا کی ہے اور داستان کی روایت زبان و بیان اور معنویت کی یکجائی کی غیر معمولی مثال ہے۔ مغرب کے دو دانشوروں رابرٹ برلفالٹ اور مائیکل مورگن ہملٹن نے اپنی کتب Making of Humanity اور The Lost History میں لکھا ہے کہ آج مغرب کے پاس جتنے علوم ہیں وہ سارے علوم انہیں مسلمانوں سے ملے ہیں۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ مسلمانوں نے جدید علوم میں بھی صدیوں تک دنیا کی قیادت کی ہے۔ یہ کارنامہ بھی لسانی اہلیت کے بغیر انجام نہیں دیا جاسکتا تھا۔ مگر ہمارے زمانے تک آتے آتے مسلمانوں کی لسانی اہلیت کی صورتِ حال انتہائی مخدوش ہو چکی ہے۔
ماہرین کے مطابق زبان آنے کا ایک پیمانہ مقرر ہے اور وہ یہ کہ انسان اپنی مادری زبان میں شاعری پڑھ سکتا ہو‘ سمجھ سکتا ہو اور اس سے لطف اندوز ہو سکتا ہو۔ اب ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے میٹرک اور انٹر کے طلبہ کی اکثریت نہیں، ہماری ایم اے اور ایم ایس سی کے طلبہ کی عظیم اکثریت شاعری کو سمجھنے اور اس سے لطف اندوز ہونے کی اہلیت تو کجا اسے ٹھیک طرح سے پڑھنے کی بھی اہلیت نہیں رکھتی۔ جن لوگوں کی مادری زبان اردو ہے وہ میر‘ غالب اور اقبال کی شاعری کو سمجھنا تو درکنار اسے ٹھیک طرح سے پڑھ بھی نہیں سکتے۔ جن لوگوں کی مادری زبان سندھی ہے وہ شاہ لطیف بھٹائیؒ کی شاعری کو سمجھنے کی اہلیت کیا اسے ٹھیک طرح سے پڑھنے کی بھی اہلیت نہیں رکھتے۔ جن لوگوں کی مادری زبان پنجابی ہے وہ بابا فرید‘ وارث شاہ اور بلھے شاہ کو ٹھیک طرح نہیں پڑھ سکتے۔ بدقسمتی سے ہمارے انگلش میڈیم کے طلبہ کی عظیم اکثریت کیٹس‘ بائرن اور شیلے کو پڑھنے کی اہلیت نہیں رکھتی۔ جیسا کہ عرض کیا جا چکا ہے کہ یہ میٹرک یا انٹر کے طلبہ کی بات ہو رہی ہے ماسٹرز کی سطح کے طلبہ کی بات ہو رہی ہے، اس وقت اردو کا ذخیرۂ الفاظ ڈھائی سے تین لاکھ الفاظ پر مشتمل ہے۔ ایک اندازے کے مطابق جو لوگ اخبار پڑھتے ہیں ان کی لغت یا ذخیرہ الفاظ 800 سے ایک ہزار الفاظ پر مشتمل ہوتا ہے اور جو اخبار نہیں پڑھتے ان کا ذخیرہ الفاظ اور بھی کم ہوتا ہے۔ ایک خبر کے مطابق امریکا اور یورپ کے بعض ملکوں میں ایسے چمپنزی پائے جاتے ہیں جو علامتوں کی مدد سے 800 سے ہزار الفاظ کو پہچان لیتے ہیں‘ اس کے معنی یہ ہے کہ اب ہم میں سے اکثریت کی لغت چمپنزی یا بندروں کی سطح پر آگئی ہے۔ کہنے کو ہم اشرف المخلوقات ہیں مگر ہمارا ذخیرہ الفاظ بندروں کے ذخیرۂ الفاظ کے برابر ہے۔ یہ آج سے پچیس تیس سال پرانی بات ہے۔ ہم نے جامعہ کراچی کے شعبہ عمرانیات کی ایک طالبہ کی امتحانی کاپی دیکھی جس نے ایم اے میں دوسری پوزیشن حاصل کی تھی۔ اس طالبہ کی زبان ایسی تھی کہ ایک فقرہ دوسرے فقرے سے مربوط نہیں تھا۔ اس کا کوئی خیال اور کوئی دلیل واضح نہیں تھی مگر اس کے باوجود اس نے دوسری پوزیشن حاصل کر لی تھی۔
مولانا مودودیؒ پر ان کے حریفوں نے درجنوں اعتراضات کیے ہیں مگر یہ بات ان کے تمام حریف مانتے ہیں کہ مولانا نے جو لکھا ہے خوب لکھا ہے۔ مولانا کی زبان انتہائی آسان ہے‘ اس میں کوئی الجھائو اور پیچیدگی نہیں ہے۔ مولانا اظہار مدعا کے لیے تکنیکی زبان استعمال نہیں کرتے۔ مولانا کا ایک تصور قاری ہے وہ اوسط درجے کی ذہنی صلاحیت کے افراد کو پیش نظر رکھ کر لکھتے ہیں مگر ہم گزشتہ تیس برسوں سے ایسے درجنوں افراد بالخصوص نوجوانوں سے ملے ہیں جن کا کہنا ہے کہ مولانا مشکل زبان لکھتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اصل مسئلہ یہ نہیں ہے کہ مولانا کی زبان مشکل ہے بلکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ معاشرے کی لسانی اور علمی سطح بہت گر گئی ہے اور اس کے لیے مولانا مودودیؒ جیسا ’’آسان‘‘ لکھنے والا بھی ’’مشکل‘‘ لکھنے والا بن گیا ہے۔ خیر مولانا تو عالم تھے اب تو لوگ بعض اخباری کالموں تک کے بارے میں یہ کہتے ہوئے پائے جاتے ہیں کہ فلاں صاحب کے کالم ہمیں سمجھ میں نہیں آتے۔ یہ صورت حال معاشرے کی لسانی اور علمی موت کا اعلان ہے۔ ایسا معاشرہ جس کی لسانی اہلیت بندروںکی سطح پر آگئی ہو اور جس معاشرے کو اخباری کالم بھی مشکل لگتے ہوں اس معاشرے میں نہ کوئی بڑا خیال پیدا ہو سکتا ہے نہ اس معاشرے میں بڑے اور اہم خیالات کا ابلاغ ہو سکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ مسئلے کا حل کیا ہے؟
مسئلے کا حل مطالعے کا فروغ ہے‘ مطالعے کے بغیر کسی کو نہ اچھی زبان آتی ہے نہ آئے گی۔ جن لوگوں کو زبان کی ’’گہرائی‘‘ سے دلچسپی ہے انہیں چاہیے کہ وہ مذہبیات کا مطالعہ کریں۔ جو لوگ زبان کے تنوع سے آگاہ ہونا چاہتے ہیں انہیں چاہیے کہ وہ اپنی مادری زبان کی شاعری پڑھیں‘ اپنی زبان کا ناول اور افسانہ پڑھیں۔ ایک زمانہ تھا کہ مہذب آدمی اس کو کہا جاتا تھا جو مذہب اور شعر و ادب کو اوڑھنا بچھونا بنائے ہوئے ہوتا تھا۔ ایک زمانہ یہ ہے جہاں دولت‘ طاقت اور طرز بودوباش کو تہذیب کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ لاحول ولا قوۃ‘‘۔

Leave a Reply