اسلام اور مسلمانوں پر شرمندہ جاوید چودھری

اسلام اور مسلمانوں کے دشمنوں کی تین اقسام ہیں۔ اسلام اور مسلمانوں کے دشمنوں کی پہلی قسم وہ ہے جو کھلے عام اسلام اور مسلمانوں پر حملے کرتی ہے۔ اسلام اور مسلمانوں کے دشمنوں کی دوسری قسم کا تعارف اقبال نے یہ کہہ کر کرایا ہے۔
خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں
ہوئے کس درجہ فقیہانِ حرم بے توفیق
اسلام اور مسلمانوں کے دشمنوں کی تیسری قسم وہ ہے جو اسلام اور مسلمانوں پر شرمندہ رہتی ہے اور ان پر ہونے والے کسی حملے کا دفاع نہیں کرتی۔ جاوید چودھری ایک ایسے ہی شخص ہیں۔ وہ اپنے بعض کالموں میں اسلام اور مسلمانوں پر شرمندہ نظر آتے ہیں۔ ان کا زیر بحث کالم بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ دراصل جاوید چودھری کی ملاقات سری لنکا میں ایک بدھسٹ سے ہوئی۔ اس بدھسٹ کا نام مہاویر تھا۔ مہاویر نے جاوید چودھری کے ساتھ ہونے والی گفتگو میں کھل کر اسلام اور مسلمانوں پر حملے کیے۔ جاوید چودھری نے ایک آدھ بار چوں چراں کی مگر بالآخر انہوں نے مہاویر کے ’’بیانیے‘‘ کے آگے ہتھیار ڈال دیے۔ مہاویر نے اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں کیا کہا اس کے الفاظ میں ملاحظہ کیجیے۔ مہاویر نے کہا۔
’’ مجھے مسلمان بہت انا پرست اور متکبرلگے‘ یہ خود کو پوری دنیا سے برتر سمجھتے ہیں چناں چہ میں آگے نکل گیا‘‘ میں نے انکار میں سر ہلایا اور معذرت سے عرض کیا ’’نہیں آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے‘ اسلام تو ہے ہی عاجزی اور انکساری کا مذہب‘‘ وہ ہنس کر بولا ’’کیا آپ لوگ یہ نہیں سمجھتے آپ کے نبیؐ تمام انبیاء‘ تمام اوتاروں اور تمام مذہبی رہنمائوں سے عظیم ہیں‘‘۔ میں نے جواب دیا ’’یہ ہمارا عقیدہ ہے‘‘ وہ بولا ’’اور کیا آپ یہ نہیں سمجھتے صرف آپ کی کتاب سچی اور عظیم ہے‘‘۔ میں نے فوراً جواب دیا ’’یہ بھی ہمارا عقیدہ ہے، ہمارا ایمان‘ یہ ہمارا یقین ہے‘‘۔ وہ بولا ’’میں آپ کے یقین‘ آپ کے ایمان کو مان لیتا ہوں‘ آپ بس میرے ایک سوال کا جواب دے دیں‘‘ میں غور سے اس کی بات سننے لگا‘ وہ بولا ’’میں مان لیتا ہوں آپ کے نبیؐ اور آپ کی کتاب دنیا کی ساری کتابوں‘ سارے نبیوں سے عظیم اور اچھی ہے لیکن اس عظیم کتاب‘ اس عظیم نبیؐ اور سچے اور اچھے اللہ کے باوجود آپ لوگ اچھے کیوں نہیں ہیں؟۔ آپ لوگوں کو بولنے چالنے‘ کھانے پینے اور اٹھنے بیٹھنے کی تمیز کیوں نہیں‘ آپ لوگ علم‘ دلیل اور منطق کے دشمن کیوں ہیں؟ آپ ایک خدا‘ ایک رسولؐ اور ایک کتاب کو ماننے کے باوجود ایک دوسرے کو کافر کیوں سمجھتے ہیں، آپ ایک اللہ‘ ایک رسولؐ اور ایک کتاب کا نام لے کر اپنے ہم مذہب کو قتل کیوں کر دیتے ہیں‘ آپ اس اللہ‘ اس رسولؐ اور اس کتاب کی جھوٹی قسم کیوں کھاتے ہیں‘ آپ جھوٹ کیوں بولتے ہیں‘ ملاوٹ کیوں کرتے ہیں‘ غلط بیانی کیوں کرتے ہیں‘ ذخیرہ اندوزی کیوں کرتے ہیں‘ چوری اور ڈاکا زنی کیوں کرتے ہیں‘ خواتین اور بچوں کی آبروریزی کیوں کرتے ہیں‘ خوراک اور ادویات میں فراڈ کیوں کرتے ہیں‘ وعدہ خلافی کیوں کرتے ہیں‘ دوسروں پر شک کیوں کرتے ہیں اور آپ انسانوں کو درجوں میں تقسیم کیوں کرتے ہیں؟‘‘۔ میرے ماتھے پر پسینہ آ گیا‘ وہ بولا ’’میں بڑے بڑے مسلمان علماء‘ تاجروں اور پروفیسروں سے ملا اور میں نے آخر میں اپنے آپ سے کہا‘ مہاویر جس مذہب سے اس کے اپنے جدی پشتی ماننے والے نہیں بدلے، مجھے اس سے کیا ملے گا چناں چہ میں آگے نکل آیا اور میں آج بودھ ہوں‘‘۔ میں نے ماتھا صاف کیا اور اس سے پوچھا ’’کیا تمہیں یقین ہے بودھ مت سچامذہب ہے اور یہ تمہیں وہ سب کچھ دے گا جس کی تمہیں تلاش ہے‘‘۔ وہ ہنس کر بولا ’’میں آپ کو عجیب بات بتاتا ہوں‘ مسلمانوں کے علاوہ دنیا کے کسی مذہب کے پیروکار سو فیصد سچائی کا دعویٰ نہیں کرتے‘ پورا بودھ مت کہتا ہے ’’تم ہوسکتا ہے نروان پا جائو اور یہ بھی ہو سکتا ہے تم محروم رہو‘‘ یہ لوگ سیدھے راستے پر رہتے ہوئے بھی دعویٰ نہیں کرتے جب کہ تم لوگ غلط راستے پر چل کر بھی سچا ہونے کا دعویٰ کرتے ہو‘ تم پوری دنیا کا خون چوس کر بھی دعویٰ کرتے ہو تم جنت میں جائو گے اور کینسر کی دوا ایجاد کرنے والے دوزخی ہیں۔ اس یقین سے غرور کی بو آتی ہے اور تم لوگ سمجھتے ہو اللہ تعالیٰ تمہیں تمام تر گناہوں کے باوجود جنت میں بھجوائے گا۔ آپ اگر اسلام کے سچے پیروکار ہیں تو پھر پورے عالم اسلام میں امن کیوں دکھائی نہیں دیتا‘ ہم بودھ امن اور آشتی کا دعویٰ نہیں کرتے۔ ہم ایک آئیڈیل معاشرہ بھی نہیں بنانا چاہتے اور ہم نے کبھی اپنی کتاب اور اپنے لیڈر کو دنیا کا عظیم لیڈر اور دنیا کی بہترین کتاب بھی ڈکلیئر نہیں کیا مگر ہم ہمیشہ آشتی اور امن کے ساتھ رہتے ہیں‘ لہاسا میں ہماری مقدس ترین عبادت گاہ تھی‘ چین نے 1959میں اس پر قبضہ کر لیا اور دلائی لامہ کو تبت سے نکال دیا‘ ہم آج تک اس کے لیے بھی نہیں لڑے‘ ہم دنیا میں 54کروڑ ہیں مگر ہم نے آج تک چین پر حملہ کیا اور نہ خودکش بم پھاڑے لیکن تم سب سے اچھے اور نیک ہونے کے باوجود ایک دوسرے کو مار رہے ہو‘ یہ کہاں کی نیکی‘ یہ کہاں کی اچھائی ہے لہٰذا میرا صرف ایک سوال ہے تم اگر اپنے مذہب کے سچے پیروکار ہو تو پھر تم سچے کیوں نہیں ہو‘ تم اچھے کیوں نہیں ہو‘‘ میں لاجواب ہو گیا‘ میں نے اس سے ہاتھ ملایا اور ٹمپل سے باہر نکل آیا۔
(روزنامہ ایکسپریس 25 اپریل 2021ء)
مہاویر کی تقریر کچھ طویل ہوگئی ہے۔ مگر اس کے بغیر اس کے موقف کی پوری تصویر آپ کے سامنے نہیں آسکتی تھی۔ مہاویر نے اسلام اور مسلمانوں پر پہلا حملہ یہ کہہ کر کیا کہ مسلمان انا پرست اور متکبر ہیں وہ اپنے نبی کو تمام پیغمبروں اور تمام اوتاروں سے اور اپنی کتاب قرآن کو تمام کتابوں سے برتر سمجھتے ہیں۔ جاوید چودھری نے اس کے جواب میں فرمایا کہ یہ ہمارا عقیدہ ہے۔ بلاشبہ یہ ہمارا عقیدہ ہے مگر مہاویر کے حملے سے عیاں ہے کہ جیسے یہ عقیدہ مسلمانوں نے خود گھڑا ہے۔ حالاں کہ ایسا نہیں ہے۔ رسول اکرمؐ سردار الانبیا ہیں یہ مسلمانوں کا وضع گردہ تصور نہیں ہے۔ یہ تصور خود اسلام نے مسلمانوں کو دیا ہے۔ قرآن مجید کی دوسری کتابوں پر فضیلت بھی مسلمانوں کی ’’ایجاد‘‘ نہیں۔ قرآن اسلام کی تکمیل کا مظہر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے خود قرآن میں فرمایا ہے کہ ہم نے آپؐ پر دین کی تکمیل کردی اور اسلام کو دین کی حیثیت سے پسند فرمالیا۔ بدھ ازم کی تعلیم بھی اگر یہ ہوتی کہ مہاتما بدھ سب سے بڑے اوتار ہیں اور بدھ ازم کی تعلیمات دنیا کی تمام تعلیمات سے افضل ہیں تو مہاویر کا عقیدہ بھی یہی ہوتا۔ ویسے نبی اور کتاب کی افضلیت صرف مسلمانوں کا معاملہ نہیں۔ عیسائی سیدنا عیسیٰؑ کو اللہ کا بیٹا کہتے ہیں۔ ان کی نظر میں سب سے بڑے پیغمبر وہی ہیں۔ عیسائی انجیل کو سب سے بڑی کتاب قرار دیتے ہیں۔ ہندوئوں کا عقیدہ ہے کہ کرشن اور رام جیسی شخصیات کسی مذہب کے پاس نہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ویدوں اور گیتا سے بڑی کتابوں کا تصور محال ہے۔ یہ حقیقت بھی راز نہیں کہ انبیا میں بھی مراتب موجود ہیں۔ دنیا میں ایک لاکھ 24 ہزار نبی آئے مگر اوالعزم انبیا صرف پانچ ہیں۔ یعنی سیدنا نوحؑ، سیدنا ابراہیمؑ، سیدنا موسیٰؑ، سیدنا عیسیٰؑ اور رسول اکرمؐ۔ ان انبیا میں خاتم النبیین صرف رسول اکرمؐ ہیں۔ وہی سردار الانبیا بھی ہیں۔ صرف آپ کو معراج عطا کی گئی۔ چناں چہ اس حوالے سے اسلام اور مسلمانوں پر اعتراض درست نہیں۔ بدقسمتی سے جاوید چودھری نے اس سلسلے میں اسلام اور مسلمانوں کا مقدمہ لڑ کر نہیں دکھایا۔
مہاویر نے مسلمانوں پر سب سے بڑا اعتراض یہ کیا کہ مسلمانوں کا مذہب اچھا ہے تو مسلمان کیوں اچھے نہیں ہیں۔ اس تجزیے میں یہ خیال مضمر ہے کہ چوں کہ مسلمان اچھے نہیں اس لیے ان کا دین بھی اچھا نہیں۔ اسی لیے مہاویر نے اسلام قبول نہیں کیا۔ یہ ایک سامنے کی بات ہے کہ اسلام اور مسلمان دو مختلف حقیقتیں ہیں۔ بلاشبہ اسلام بہترین انسان پیدا کرنا چاہتا ہے مگر بہترین انسانوں کے وجود میں آنے کے لیے ضروری ہے کہ وہ اسلام پر پوری طرح سے عمل کریں۔ قرآن مسلمانوں سے کہتا ہے کہ تم اللہ کا رنگ اختیار کرو اور پورے کے پورے اسلام میں داخل ہوجائو۔ بدقسمتی سے مسلمانوں کی عظیم اکثریت اللہ کا رنگ اختیار کرنے اور اسلام میں پورا کا پورا داخل ہونے کے لیے تیار نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمان جھوٹ بولتے ہیں، دھوکا دیتے ہیں اور دوسری برائیوں میں ملوث ہوتے ہیں۔ البتہ مسلمانوں میں اب بھی بہترین لوگ مل جاتے ہیں۔ مگر چوں کہ یہ لوگ کم ہیں اس لیے وہ اسلام کا تعارف نہیں بن پاتے۔ اس سلسلے میں یہ بات بھی اہم ہے کہ اسلام اپنے ابتدائی زمانے میں بہترین انسان اور بہترین معاشرے پیدا کرچکا ہے۔
رسول اکرمؐ جیسا کردار دنیا میں کس کے پاس ہے؟ سیدنا ابوبکرؓ، سیدنا عمرؓ، سیدنا عثمانؓ، سیدنا علیؓ اور ہزاروں صحابہ جیسے بہترین انسان دنیا نے کب دیکھے؟۔ رسول اکرمؐ کے عہد کا معاشرہ دنیا کا بہترین معاشرہ تھا۔ سیدنا عمرؓ کے بارے میں گاندھی نے کہا کہ اگر اسلام کو ایک اور عمرؓ فراہم ہوجاتے تو آج پوری دنیا مسلمان ہوتی۔ ممتاز مغربی مورخ گبن نے لکھا ہے کہ سیدنا عمرؓ کے زمانے میں 36 ہزار شہر اور قلعے فتح ہوئے اور ان کے دس سالہ دور میں چودہ سو مساجد تعمیر ہوئیں۔ سیدنا عمرؓ کے برپا کیے ہوئے معاشرے اور ریاست میں انسان ہی نہیں کتا بھی صاحب توقیر تھا اور ریاست اس کی نگہبانی کی پابند تھی۔ چوں کہ اسلام اپنے ابتدائی زمانوں میں بہترین انسان اور بہترین معاشرے پیدا کرچکا ہے اس لیے یہ کہنا غلط نہیں کہ اگر مسلمان آج بھی اسلام کو اس کی حقیقی روح کے ساتھ اختیار کرلیں تو وہ ایک بار پھر Ideal انسان، Ideal معاشرہ اور Ideal ریاست قائم کرسکتے ہیں۔ بدقسمتی سے مہاویر نے اسلام اور مسلمانوں کے فرق و امتیاز پر غور ہی نہیں کیا۔ یہاں اس امر کی نشاندہی بھی ضروری ہے کہ مہاویر نے جو برائیاں مسلمانوں میں دیکھی ہیں وہ صرف مسلمانوں کا حصہ نہیں ہندو، سکھ، عیسائی، یہودی اور سیکولر اور لبرل لوگ بھی ان برائیوں میں ملوث ہیں مگر نزلہ عضو ضعیف پر گرتا ہے۔ اس وقت مسلمان دنیا کی سب سے مغلوب امت ہیں۔ چناں چہ عیب صرف انہی کے گنوائے جارہے ہیں۔
مہاویر نے مسلمانوں کو پوری دنیا کا خون چوسنے والا قرار دیا ہے حالاں کہ حقیقت یہ ہے کہ دنیا صدیوں سے مسلمانوں کا خون چوس رہی ہے۔ عیسائی دنیا نے صلیبی جنگیں ایجاد کیں اور دو سو سال تک مسلمانوں کا خون بہاتی رہی۔ جدید مغرب نے پوری مسلم دنیا کو اپنی نوآبادی بنایا اور کروڑوں مسلمانوں کو مار ڈالا۔ ہندوستان میں ہندو ایک صدی سے مسلمانوں کو مار رہے ہیں۔ ہندوستان میں 73 سال کے دوران پانچ ہزار سے زیادہ مسلم کش فسادات ہوچکے ہیں۔ فلسطین میں یہودی 75 سال سے فلسطینی مسلمانوں کا خون بہا رہے ہیں۔ چین کے صوبے سنکیانگ میں چین مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کیے ہوئے ہے۔ چیچنیا میں روس نے ہزاروں مسلمانوں کو قتل کیا ہے۔ بوسنیا میں عیسائی سربوں نے تین سال میں ساڑھے تین لاکھ مسلمانوں کو تہہ تیغ کیا۔ جدید امریکا اور جدید یورپ میں اسلامو فوبیا عروج پر ہے۔ بدھ مذہب میں چیونٹی کو مارنا ’’گناہ‘‘ ہے مگر میانمر میں بدھ درندوں نے ہزاروں روہنگیا مسلمانوں کو مار ڈالا۔ انہوں نے 7 لاکھ مسلمانوں کو ان علاقوں سے نکال باہر کیا جہاں وہ ایک اور ڈیڑھ صدی سے رہ رہے تھے۔ سری لنکا میں بھی بدھ مت کے پیروکار مسلمانوں پر ظلم کررہے ہیں۔ مگر جاوید چودھری کے مہاویر کا بیان ہے کہ دنیا مسلمانوں کا خون نہیں چوس رہی بلکہ مسلمان دنیا کا خون چوس رہے ہیں۔
مہاویر نے یہ سوال بھی اُٹھایا کہ اگر اسلام اچھا ہے اور مسلمان خوب ہیں تو عالم اسلام میں امن کیوں نہیں ہے؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ مسلمان تو ہر جگہ امن چاہتے ہیں مگر ان کے دشمن مسلم دنیا میں کہیں امن دیکھنے کے خواہش مند نہیں۔ وہ مقبوضہ فلسطین میں فساد برپا کیے ہوئے ہیں، وہ مقبوضہ کشمیر میں آگ بھڑکائے ہوئے ہیں۔ انہوں نے شام کی خانہ جنگی کو روکنے کی رتی برابر کوشش نہیں کی۔ انہوں نے عراق کو تباہ کیا۔ انہوں نے افغانستان میں 20 سال تک ظلم ڈھائے۔ بدقسمتی سے مسلم دنیا کا حکمران طبقہ امریکا اور یورپ کا غلام ہے۔ اس طبقے کی وجہ سے مسلم دنیا میں فساد برپا ہے۔ مصر میں امریکا کے کہنے پر فوج نے صدر مرسی کی منتخب حکومت کو گرا دیا۔ الجزائر کے جرنیل یہی کھیل الجزائر میں کھیل چکے ہیں۔ چناں چہ مسلم دنیا میں بے امنی کا ذمے دار نہ اسلام ہے نہ عام مسلمان اس کے ذمے دار ہیں۔ اس بے امنی کے ذمے دار اسلام اور مسلمانوں کے دشمن اور ان کے آلہ ٔ کار ہیں۔
مہاویر نے یہ بھی کہا ہے کہ مسلمان سمجھتے ہیں کہ وہ دنیا کا خون چوس کر بھی جنت میں جائیں گے اور کینسر کی دوا ایجاد کرنے والا مسلمان نہ ہونے کی وجہ سے جہنم میں جائے گا۔ اصل میں مہاویر ایمان کی اہمیت سے آگاہ نہیں۔ ایک مسلمان کی پوری زندگی ایمان پر کھڑی ہوتی ہے۔ یہ مسلمانوں کا خود ساختہ تصور نہیں۔ یہ بھی اسلام کا عقیدہ ہے۔ خدا اس کائنات کی سب سے بڑی سچائی ہے اور اس کی موجودگی کی گواہی سب سے اہم گواہی ہے۔ خدا کی گوہی کے ساتھ ساتھ رسول اکرمؐ پر ایمان لانا بھی خود خدا نے لازم کیا ہے۔ چناں چہ جو شخص خدا اور رسول اکرمؐ پر ایمان لاتا ہے وہ کائنات کی سب سے اہم حقیقت کی گواہی دیتا ہے۔ چناں چہ گناہ گار مسلمان اپنے گناہوں کی سزا بھگتنے کے بعد جنت میں داخل کردیے جائیں گے۔ البتہ کافر اور مشرک چوں کہ خدا کے منکر اور اس کے شریک ایجاد کرنے والے ہیں اس لیے وہ بہت سے اچھے کام کرنے کے باوجود جہنم میں جائیں گے۔ البتہ اللہ تعالیٰ ان کے اچھے کاموں کا صلہ اس دنیا میں دے دے گا۔

Leave a Reply