پروفیسر ہود بھوئے کے اسلام پر حملے

پرویز ہود بھوئے پاکستان کے ان سیکولر اور لبرل دانش وروں میں سے ایک ہیں جنہوں نے اسلام، اسلامی تہذیب، اسلامی تاریخ اور مسلمانوں کی دشمنی کو مقصد حیات بنایا ہوا ہے۔ اسلام اور مسلمانوں کی دشمنی ان عناصر کا مقصد حیات نہ ہوتی تو یہ لوگ اسلام اور مسلمانوں پر دوچار حملے کرکے رُک جاتے مگر ہم گزشتہ 20 سال سے پرویز ہود بھوئے کو دیکھ رہے ہیں کہ وہ اسلام، اسلامی تہذیب، اسلامی تاریخ اور مسلمانوں پر حملے کرنے سے تھکے نہیں ہیں۔ ان کے اسلام پر حملوں کی تازہ ترین مثال معروف اینکر غریدہ فاروقی کا پروگرام ہے۔ اس پروگرام میں پرویز ہود بھوئے نے اسلام پر ایک دو نہیں کئی حملے کیے ہیں۔
انہوں نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پہلے تو ہمارے تعلیمی اداروں میں اسلامیات کا مضمون صرف ناظرہ قرآن تک محدود تھا مگر اب بچوں کو ناظرہ کے ساتھ ساتھ قرآن کے معنی بھی یاد رکھنے ہوں گے۔ حدیثیں بھی سیکھنی ہوں گی۔ دعائیں بھی سیکھنی ہوں گی۔ کیا کچھ سیکھنا ہوگا؟ دماغ کے اندر اتنی گنجائش ہوتی ہی نہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں نے 1973ء سے پڑھانا شروع کیا۔ اس وقت آپ کو بمشکل ایک آدھ لڑکی برقعے میں دکھائی دیتی تھی۔ اب تو حجاب یا برقع عام ہوگیا ہے۔ آپ کو ’’نارمل‘‘ لڑکی تعلیمی اداروں میں شاذ و نادر ہی نظر آتی ہے۔ جب وہ کلاس میں بیٹھتی ہیں برقعے یا حجاب میں لپٹی تو ان کی کلاس میں شمولیت بہت گھٹ جاتی ہے۔ یہاں تک کہ پتا ہی نہیں چلتا کہ وہ کلاس میں ہیں کہ نہیں۔ پرویز ہود بھوئے نے کہا جو طالبات حجاب لیتی ہیں وہ بہت کم سوال کرتی ہیں کیوں کہ ان میں اعتماد نہیں ہوتا۔ انہوں نے کہا کہ ہماری بعض تدریسی کتب میں لڑکیوں اور مائوں کو مکمل طور پر ڈھانپ کر فرش پر بٹھا ہوا دکھایا گیا ہے۔ جب ایسی لڑکیاں بے پردہ خواتین کو دیکھیں گی تو اسے غلط کام سمجھیں گی۔ جب آپ عورت کو کم تر درجہ دیتے ہیں۔ جب آپ دکھاتے ہیں کہ وہ صرف گھریلو کام کرتی ہے تو عورت کا درجہ پروفیشنل انسان کا نہیں بنتا۔ انہوں نے کہا کہ یہ صورت حال طالبانائزیشن کی طرح ہے اور عمران خان کے دور میں پاکستان کو افغانستان بنایا جارہا ہے۔
قرآن تمام کتابوں کی ماں ہے۔ مولانا مودودی اسے شاہ کلید یا ایسی Master Key کہا کرتے تھے جس سے ہر مشکل اور ہر مسئلے کا دروازہ کھل جاتا ہے۔ مسلمانوں کے معاشرے جب تک قرآن مرکز رہے تب تک مسلمان آدھی سے زیادہ دنیا پر حکومت کرتے رہے مگر جب مسلمانوں نے قرآن اور صاحب قرآن سے اپنا رشتہ توڑ لیا تو مسلمانوں پر نکبت و ادبار مسلط ہوگیا۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو قرآن کی تعلیم مسلمانوں کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے مگر پرویز ہود بھوئے کو اعتراض ہے کہ پہلے تو تعلیمی اداروں میں صرف ناظرہ قرآن کا اہتمام ہوتا تھا اب تو قرآن کو ترجمے کے ساتھ پڑھایا جائے گا تا کہ مسلم طلبہ قرآن کے مفہوم سے بھی آگاہ ہوسکیں۔ کتنی عجیب بات ہے کہ پرویز ہود بھوئے اور ان جیسے دانش ور ایک جانب تعلیم میں رٹے کی موجودگی پر معترض ہوتے ہیں، دوسری جانب بچوں کو قرآن کے معنی سے روشناس کرانے کا اہتمام ہورہا ہے تو انہیں اس پر بھی اعتراض ہے۔ اصل میں انہیں خوف ہے کہ کہیں طلبہ قرآن کے معنی سے آشنا ہونے کے بعد مزید اچھے مسلمان نہ بن جائیں۔ یہاں سوال تو یہ بھی ہے کہ کیا کسی سوشلسٹ ریاست میں اس بات کا تصور بھی کیا جاسکتا تھا کہ کوئی شخص سرِعام کارل مارکس کی کتاب داس کیپتال کی تعلیم و تدریس پر اعتراض کررہا ہے؟ کیا کسی سیکولر اور لبرل ملک میں لاک، ہیوم، ہیگل اور کانٹ کے فلسفے کی تعلیم و تدریس پر اعتراض کیا جاسکتا ہے؟ کیا کوئی شخص ہندوستان میں کھڑا ہو کر وید اور گیتا کی تعلیم و تدریس پر معترض ہوسکتا ہے؟ یہ تمام باتیں ناممکنات میں سے ہیں۔ مگر اسلامی جمہوریہ پاکستان کے حکمرانوں کی دینی حمیت کا یہ حال ہے کہ پرویز ہود بھوئے کو قرآن کی بہتر تعلیم و تدریس پر اعتراض ہے اور پاکستان کے حکمران سوئے پڑے ہیں۔ پرویز ہود بھوئے کو صرف قرآن کی بہتر تعلیم پر اعتراض نہیں انہیں اس بات پر بھی اعتراض نہیں ہے کہ اب اسکولوں میں بچوں کو احادیث بھی پڑھائی جائیں گی اور دعائیں بھی یاد کرائی جائیں گی۔ انہوں نے اس صورتِ حال پر وحشت زدہ ہو کر کہا ہے کہ انسانی دماغ میں اتنی گنجائش کہاں کہ وہ اتنی ساری چیزیں پڑھ اور سیکھ سکے۔ انسانی ذہن کے بارے میں جدید ترین تحقیق یہ ہے کہ ابھی تک انسان نے ذہن کی صلاحیت کا صرف 10 فی صد استعمال کرنا سیکھا ہے۔ انسان نے 90 فی صد ذہن ابھی تک استعمال ہی نہیں کیا۔ مگر ہود بھوئے قرآن کے ترجمے، چند احادیث اور چند دعائوں کے حوالے سے فرما رہے ہیں کہ انسانی ذہن میں اتنی چیزیں پڑھنے اور سیکھنے کی گنجائش کہاں۔ انسان کی تاریخ یہ ہے کہ اس نے سات آٹھ ہزار زبانیں ایجاد کی ہیں۔ شاعری، داستانوں، افسانوں اور ناولوں کا سمندر خلق کیا ہے۔ طبیعات، حیاتیات، نفسیات، معاشیات، عمرانیات اور ان جیسے درجنوں علوم پیدا کیے ہیں اور ان کے دائرے میں لاکھوں کتب خلق کی ہیں۔ مذہبیات کے علم کی ایک پوری کائنات پیدا کی ہے۔ مگر ہود بھوئے انسان کی اس خلاقی کو نہیں دیکھتے۔ وہ ایک مسلم معاشرے میں مسلمانوں کو ڈرا رہے ہیں کہ تمہارے بچے دوسرے علوم کے ساتھ قرآن و حدیث ترجمے کے ساتھ نہیں پڑھ سکتے۔ تمہارے بچے دعائیں یاد نہیں کرسکتے۔ ان پر بار نہ ڈالو۔ قرآن و حدیث کی تعلیم کے خلاف آواز اٹھائو۔ احتجاج کرو۔ ہمیں اس سلسلے میں مسلمانوں کی تاریخ پر بھی ایک نظر ڈال لینی چاہیے۔ مسلمانوں کی تاریخ یہ ہے کہ انہوں نے مختلف علوم کے ماہروں کی ایک فوج تخلیق کی ہے۔ آج سے سات سو آٹھ سو سال پہلے مسلمانوں میں ایسے بے شمار لوگ موجود ہوتے تھے جو قرآن و حدیث کے بھی ماہر ہوتے تھے۔ انہیں فلسفے پر بھی عبور ہوتا تھا۔ وہ ریاضی اور منطق کو بھی جانتے تھے۔ چناں چہ لوگ انہیں چلتی پھرتا قاموس یا انسائیکلوپیڈیا کہا کرتے تھے۔ مگر اب مسلمانوں میں زوال علم سے یہ صورت حال پیدا ہوگئی ہے کہ اب آدمی کسی ایک علم کا بھی ماہر ہوتا ہے تو اسے بڑی چیز سمجھا جاتا ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ مسلمان اپنی کھوئی ہوئی عظمت رفتہ کو دوبارہ حاصل نہیں کرسکتے۔ مسلمان علم سے محبت کریں گے اور محنت کو شعار بنالیں گے تو وہ ایک بار پھر ایسی شخصیات پیدا کریں گے جو بیک وقت کئی علوم اور کئی فنون کی ماہر ہوں گی۔
پرویز ہود بھوئے نے پردے کے تصور پر بھی حملہ کیا ہے اور پردہ کرنے والی خواتین کو کم تر درجے کی مخلوق ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ پردہ اللہ اور اس کے رسولؐ کا حکم ہے۔ چناں چہ جو شخص پردے کے تصور پر اعتراض کرتا ہے وہ دراصل اللہ اور اس کے رسولؐ پر اعتراض کرتا ہے۔
باقی صفحہ7نمبر1
شاہنواز فاروقی
وہ زبان حال سے یہ کہتا ہے کہ معاذ اللہ، اللہ اور اس کے رسولؐ کا تصور عورت پست ہے۔ اللہ اور اس کے رسولؐ نہیں چاہتے کہ معاشرے میں عورت کا درجہ بلند ہو، پردہ اگر مولویوں اور ملائوں کی ’’ایجاد‘‘ ہوتا تو پھر اعتراض مولویوں اور ملائوں پر ہوتا لیکن چوں کہ پردہ اللہ کا حکم ہے اس لیے اس پر اعتراض اللہ کے حکم پر اعتراض ہے اور یہ اللہ اس کے رسولؐ اور اسلام کے خلاف کھلی بغاوت ہے اور اس سے معاشرے میں فساد پھیلنے کا اندیشہ ہے۔ پرویز ہود بھوئے کا کہنا ہے کہ 1973ء اور اس سے پہلے تعلیمی اداروں میں ایک آدھ لڑکی ہی پردے میں ہوتی تھی مگر اب ہمارے تعلیمی ادارے با پردہ لڑکیوں سے بھر گئے ہیں۔ پرویز ہود بھوئے کا یہ مشاہدہ ٹھیک ہے مگر یہاں سوال یہ ہے کہ ایک اسلامی معاشرے میں پردے کا عام ہونا خوشی کی بات ہے یا تشویش کی بات ہے؟ جس طرح ایک لبرل معاشرے میں عریانی خوشی اور معمول کی بات ہے اسی طرح ایک اسلامی معاشرے میں پردے کی موجودگی ایک خوشی اور معمول کی بات ہے۔ یہاں سوال تو یہ بھی ہے کہ پردے کے رجحان میں اضافہ کسی جبر کا نتیجہ ہے یا خواتین اپنی آزادانہ مرضی اور رضا کارانہ طور پر پردے اور حجاب کو اختیار کررہی ہیں۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ ’’ریاست‘‘ نے اس سلسلے میں کوئی کردار ادا نہیں کیا جو کچھ ہورہا ہے ’’معاشرے‘‘ کے تحت ہورہا ہے۔ کمال کی بات یہ ہے کہ اس کے باوجود ہورہا ہے کہ ملک کے تمام ذرائع ابلاغ عریانی اور فحاشی کو عام کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ دیکھا جائے تو ہود بھوئے نے پردے کے رجحان میں اضافے کو ایک عیب بنا کر پیش کیا ہے۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ 1973ء میں تو ایک آدھ ہی اندھا اور لنگڑا ہوتا تھا مگر اب تو ہر طرف اندھوں اور لنگڑوں کی فراوانی ہوگئی ہے۔ کتنی عجیب بات ہے کہ ہود بھوئے نے ایک اسلامی معاشرے میں پردہ دار لڑکی کو Abnormal بنا کر کھڑا کردیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اب تو تعلیمی اداروں میں دیکھو وہ پردے میں ہوتی ہے۔ سلیم احمد نے کہا تھا:
مجھ کو قدروں کے بدلنے سے یہ ہوگا فائدہ
میرے جتنے عیب ہیں سارے ہنر ہوجائیں گے
قدروں کے بدلنے سے واقعتا سب کچھ بدل جاتا ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ اسلامی معاشرے میں بے پردہ عورت کو Abnormal سمجھا جاتا تھا اور ایک وقت یہ ہے کہ ہود بھوئے اسلامی معاشرے میں پردہ دار لڑکیوں کو ’’Abnormal‘‘ کہہ رہے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ ریاست، معاشرے اور معاشرے کے مذہبی طبقات کو اس بات سے کوئی دلچسپی ہی نہیں کہ اسلام کے بنیادی تصورات پر سیکولر لوگ کھلے حملے کررہے ہیں۔
ہود بھوئے نے پردہ کرنے والی لڑکیوں کو اعتماد سے عاری قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ وہ کلاس روم میں کوئی سوال ہی نہیں کرتیں۔ تجزیہ کیا جائے تو اس بات کا پردے سے کوئی تعلق ہی نہیں۔ ہمارے طلبہ کی عظیم اکثریت رّٹو توتوں پر مشتمل ہے۔ ان میں مطالعے کا رجحان نہیں ہوتا۔ نہ وہ تخلیقی ذہن رکھتے ہیں، مطالعے اور تخلیقی ذہن سے ذہن میں سوال پیدا ہوتے ہیں مطالعہ اور تخلیقی صلاحیت نہ ہو تو ذہن میں سوال بھی پیدا نہیں ہوتا۔ ایک مشکل یہ ہے کہ ہمارے اسکولوں، کالجوں اور جامعات میں سوال کرنے والے طلبہ کو اساتذہ پسند نہیں کرتے۔ ہم نے اسکول، کالج اور یونیورسٹی کی زندگی میں بہت سوالات کیے اور ہمیشہ اس سے نقصان ہوا۔ جامعات میں تو یہ صورت حال ہے کہ اساتذہ سوال کرنے والے طلبہ کو فیل کردیتے ہیں۔

Leave a Reply