ندیم ایف پراچہ کے فکری مغالطے

ندیم ایف پراچہ ان کالم نگاروں میں سے ایک ہیں جنہیں مغرب میں خوبی اور اسلام میں خرابی کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔ ان کا بس چلے تو وہ ایک ایک مسلمان کو مغرب کا پجاری بنادیں۔ ندیم ایف پراچہ کا ایک آرٹ یہ ہے کہ وہ فکری مغالطے پیدا کرنے میں ماہر ہیں۔ ان کے حالیہ کالم Modern Misgiving میں فکری مغالطوں کا دریا بہہ رہا ہے۔ مثلاً انہوں نے لکھا ہے کہ مسلم معاشروں میں جدیدیت یا Modernity کی تنقید مابعد جدیدیت یا Post Modernism سے ماخوذ ہے۔ یعنی یہ تنقید ’’original‘‘ نہیں ہے۔ ان کے بقول جدیدیت کی تنقید کا ایک پہلو یہ ہے کہ وہ جدیدیت کا متبادل پیش کرنے کے بجائے ماضی کے رومانس کو ہمارے سامنے لاتی ہے۔ ندیم ایف پراچہ نے کہا ہے کہ مغربیت یا جدیدیت میں آخر کیا خرابی ہے؟ کیا چینی مغربیت کو اختیار کرنے کے باوجود چینی نہیں ہیں؟ کیا کورین باشندے مغربیت کو گلے لگانے کے باوجود ابھی تک کورین نہیں ہیں؟ کیا جاپانی مغربیت یا جدیدیت کے عشق میں مبتلا ہونے کے باوجود اب تک جاپانی نہیں ہیں۔ مطلب یہ کہ اگر پاکستانی بھی مغربیت کو قبول کرلیں گے تو وہ بھی ’’پاکستانی‘‘ ہی رہیں گے۔ ندیم ایف پراچہ نے لکھا ہے کہ معاشروں میں جن مسائل کا ذمے دار مغربیت کو قرار دیا جاتا ہے وہ اس وقت بھی موجود تھے جب مغربیت موجود نہیں تھی۔ ان کے بقول سماجی مسائل کے سلسلے میں مغربیت کو ذمے دار قرار دینے کا عمل دراصل مغربیت کا متبادل پیش نہ کرنے سے سامنے آتا ہے۔ ان کے بقول مغربیت کا متبادل پیش بھی کیا جاتا ہے تو ’’خیالی پلائو‘‘ کی صورت میں۔ (روزنامہ ڈان 24 اکتوبر 2021ء)
غور کیا جائے تو ندیم ایف پراچہ کے یہ خیالات غلط ہی نہیں اشتعال انگیز بھی ہیں۔ ان کا یہ کہنا سو فی صد غلط ہے کہ ہمارے معاشرے میں مغرب کی تنقید مابعد جدیدیت یا Post Modernism سے پیدا ہوئی ہے۔ برصغیر میں مغرب کے پہلے ناقد اکبر الٰہ آبادی تھے۔ اکبر 1846ء میں پیدا ہوئے اور 1921ء میں ان کا انتقال ہوا۔ اس زمانے میں لوگ جدیدیت یا Modernism سے بھی آگاہ نہیں تھے۔ اس زمانے میں لوگوں نے مابعد جدیدیت یا Post Modernism کا نام بھی نہیں سنا تھا۔ چناں چہ اکبر نے مغرب کی جو تنقید لکھی وہ ’’مقامی‘‘ اور ’’اوریجنل‘‘ تھی اور اس کی جڑیں اسلام، اسلامی تہذیب اور اسلامی تاریخ کے شعور میں پیوست تھیں۔ ذرا دیکھیے تو اکبر مغربی فکر کے تناظر میں کیسے کیسے شعر کہہ رہے تھے۔
خدا کی ہستی میں شبہ کرنا اور اپنی ہستی کو مان لینا
پھر اس پر طرّہ اس ادِعّا کا کہ ہم ہیں اہلِ شعور ایسے
٭٭
ذہن میں جو گِھر گیا لا انتہا کیونکر ہوا
جو سمجھ میں آگیا وہ پھر خدا کیونکر ہوا
٭٭
منزلوں دور ان کی دانش سے خدا کی ذات ہے
خرد بیں اور دور بیں تک ان کی بس اوقات ہے
٭٭
کفر نے سائنس کے پردے میں پھیلائے ہیں پائوں
بے زباں ہے بزمِ دل میں شمعِ ایماں ان دنوں
٭٭
علومِ دنیوی کے بحر میں غوطے لگانے سے
زباں گو صاف ہوجاتی ہے دل طاہر نہیں ہوتا
٭٭
ہم تو انساں سے بنے جاتے ہیں بندر اے حضور
آپ خوش قسمت ہیں جو بندر سے انساں ہوگئے
٭٭
نئی تعلیم کو کیا واسطہ ہے آدمیت سے
جنابِ ڈارون کو حضرتِ آدم سے کیا مطلب
٭٭
نہ کتابوں سے نہ کالج کے ہے در سے پیدا
دین ہوتا ہے بزرگوں کی نظر سے پیدا
٭٭
مذہب کبھی سائنس کو سجدہ نہ کرے گا
انسان اُڑیں بھی تو خدا ہو نہیں سکتے
٭٭
رنگ چہرے کا تو کالج نے بھی رکھّا قائم
رنگِ باطن میں مگر باپ سے بیٹا نہ ملا
٭٭
کتابِ دل مجھے کافی ہے اکبر درسِ حکمت کو
میں اسپینسر سے مستغنی ہوں مجھ سے ملِ نہیں ملتا
ندیم ایف پراچہ ان شعروں میں سے ایک مصرع ایسا نکال کر دکھائیں جس پر مابعد جدیدیت یا Post Modernism کی فکر کا سایہ ہو۔
اقبال برصغیر میں مغربی فکر کے دوسرے بڑے ناقد ہیں۔ اقبال کی تنقید بھی ان کے مذہب، ان کی تہذیب اور ان کی تاریخ کے شعور کا حاصل ہے۔ اقبال مغرب پر تنقید کرتے ہوئے کہتے ہیں۔
دانشِ حاضر حجابِ اکبر است
بت پرست و بت فروش و بت گر است
یعنی جدید مغربی تہذیب کا علم حقیقت اولیٰ اور انسان کے درمیان سب سے بڑا حجاب یا پردہ ہے۔ اقبال مزید کہتے ہیں۔
محسوس پر بِنا ہے علومِ جدید کی
اِس دور میں شیشہ عقائد کا پاش پاش
٭٭
تعلیم پیرِ فلسفۂ مغربی ہے یہ
ناداں ہے جس کو ہستیٔ غائب کی ہے تلاش
٭٭
ہم سمجھتے تھے کہ لائے گی فراغت تعلیم
کیا خبر تھی کہ چلا آئے گا الحاد بھی ساتھ
گھر میں پرویز کے شیریں تو ہوئی جلوہ نما
لے کے آئی ہے مگر تیشۂ فرہاد بھی ساتھ
مغربی دنیا نے عقل کا جو تصور پیدا کیا اقبال اس کے بھی سخت خلاف تھے، اس لیے کہ یہ عقل وحی اور اس کی بالادستی کو تسلیم نہیں کرتی۔ چناں چہ اقبال عشق اور دل کے مقابلے پر عقل کی مذمت کرتے ہیں اور کہتے ہیں۔
عقل عیّار ہے سو بھیس بدل لیتی ہے
عشق بیچارہ نہ ملّا ہے نہ زاہد نہ حکیم
٭٭
عقل کو تنقید سے فرصت نہیں
عشق پر اعمال کی بنیاد رکھ
٭٭
عقل کو آستاں سے دور نہیں
اس کی تقدیر میں حضور نہیں
٭٭
عقل بے مایہ امامت کی سزا وار نہیں
راہبر ہو ظن و تخمیں تو زبوں کارِ حیات
٭٭
برپا مرے ضمیر میں پھر معرکۂ کہن ہوا
عشق تمام مصطفی عقل تمام بولہب
اقبال کے ان شعروں میں ایک شعر بھی ایسا نہیں جو مابعد جدیدیت یا Post Modernism سے ماخوذ ہو۔
برصغیر میں مغربی تہذیب کے تیسرے بڑے ناقد مولانا مودودی ہیں۔ مولانا مودودی نے اپنی تحریروں میں جدید مغربی تہذیب کو چار ہولناک ناموں سے پکارا ہے۔ انہوں نے اپنے مضمون تہذیبی کشمکش میں علم و تحقیق کا کردار میں جدید مغربی تہذیب کو ’’باطل‘‘ کہا ہے۔ مولانا نے تجدید و احیائے دین میں جدید مغربی تہذیب کو ’’جاہلیت خالصہ‘‘ قرار دیا ہے۔ مولانا نے تنقیحات میں جدید مغربی تہذیب کو ’’تخم خبیث‘‘ اور ’’شجرِ خبیث‘‘ قرار دیا ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا مابعد جدیدیت یا Post Modernism بھی جدید مغربی تہذیب اور اس کی فکر کو انہی ناموں سے پکارتی ہے؟۔
برصغیر میں جدید مغربی فکر اور جدید مغربی تہذیب کے چوتھے بڑے ناقد اردو کے سب سے بڑے نقاد محمد حسن عسکری ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ عسکری صاحب جدید مغرب کے بڑے قائل تھے مگر پھر عسکری صاحب مغرب سے متنفر ہوگئے اور انہوں نے مغربی فکر کو لونڈے لپاڑوں کا شور و غوغا قرار دے کر مسترد کردیا۔ عسکری صاحب نے اپنی تصنیف جدیدیت یعنی مغربی فکر کی گہرائیوں کا خاکہ میں پوری مغربی تہذیب کو مسترد کیا ہے مگر روایتی یا مذہبی فکر کی بنیاد پر۔ عسکری صاحب مابعد جدیدیت یا Post Modernism سے آگاہ تھے مگر انہوں نے مغرب کو رد کرنے کے سلسلے میں مابعد جدیدیت سے رتی برابر بھی استفادہ نہیں کیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مابعد جدیدیت ایک دو دھاری تلوار ہے۔ وہ ایک دھار سے اگر جدیدیت یا Modernity کا گلا کاٹتی ہے تو دوسری دھار سے مذہب کی شہ رگ پر حملہ کرتی ہے۔ ندیم ایف پراچہ مابعد جدیدیت کی فکر کا ذکر تو کررہے ہیں مگر یہ فکر ہمارے معاشرے میں اب تک اتنی اجنبی ہے کہ اگر 22 کروڑ پاکستانیوں میں سو لوگ بھی مابعد جدیدیت یا Post Modernism سے پوری طرح آگاہ ہوں تو ایک علمی معجزہ ہوگا۔
ندیم ایف پراچہ کا یہ کہنا بھی ٹھیک نہیں کہ مغربیت قوموں اور معاشروں سے ان کا اصل تشخص نہیں چھینتی۔ حقیقت یہ ہے کہ جدیدیت یا مغربیت مذہب کی دشمن ہے۔ جدید مغربی تہذیب کے ظہور سے پہلے دنیا کے تمام معاشرے ’’خدا مرکز‘‘ یا God Centric تھے۔ جدید مغربی تہذیب نے انہیں انسان مرکز یا Man Centric بنادیا۔
جدید مغربی تہذیب کے ظہور سے پہلے انسان وحی کو سب سے بڑا اور سب سے مستند علم سمجھتا تھا۔ جدید مغربی تہذیب نے وحی کے تصور کو مسترد کردیا اور وحی کی جگہ انسانی عقل کی خدائی کا اعلان کردیا۔ جدید مغربی تہذیب کے ظہور سے قبل انسان اپنے شعور بندگی سے پہچانا جاتا تھا اور انسان خود کو خدا کا بندہ سمجھتا تھا، مگر مغرب کے تصور آزادی نے انسان کو ’’خودمختار وجود‘‘ بنادیا۔ جدید مغربی تہذیب کے ظہور سے پہلے تمام معاشروں کا تصور انسان یہ تھا کہ انسان ایک روحانی وجود ہے۔ جدید مغربی تہذیب نے اس تصورِ انسان کو مسترد کردیا اور انسان کو ایک مادی وجود باور کرایا۔ جدید مغربی تہذیب کے ظہور سے پہلے انسان تخلیق کائنات کے بارے میں یہ خیال رکھتا تھا کہ خدا نے کن کہا اور کائنات وجود میں آگئی۔ جدید مغربی تہذیب کہہ رہی ہے کہ کائنات Big Bang کا حاصل ہے۔ اس کا کوئی خالق نہیں ہے۔ ہماری تہذیب کے لیے ’’خلافت‘‘ کا تصور اہم تھا، جدید مغربی تہذیب کے لیے ’’جمہوریت‘‘ کا تصور اہم ہے۔ مغربی تہذیب نے ہمارا لباس اور ہماری غذائیں تک بدل ڈالی ہیں اور ندیم ایف پراچہ کہہ رہے ہیں کہ مغربیت ہم سے ہمارا تشخص نہیں چھینتی۔
ندیم ایف پراچہ کا اصرار ہے کہ مغرب پر تنقید کرنے والے مغرب کا متبادل پیش نہیں کرتے۔ حقیقت یہ ہے کہ مغرب کے لیے ’’متبادل‘‘ ایک خوف ہے۔ مغرب نے کمیونزم کے خلاف طویل جنگ لڑی، اس لیے کہ وہ کمیونزم کو اپنا متبادل سمجھتا تھا۔ مغرب اسلام کے خلاف ہے اس لیے کہ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اور وہ کسی بھی وقت مغرب کا متبادل بن سکتا ہے۔ یہاں تک کہ مغرب چین کے خلاف ہے کیوں کہ وہ چین کو اپنا معاشی اور تکنیکی متبادل سمجھ رہا ہے۔

Leave a Reply